شخصیات کے حوالے سے لکھی جانے والی کتب کو درج ذیل عنوانات میں تقسیم کیا جاسکتاہے: ۔
1۔ سوانح نگاری، 2۔سوانحی مضامین، 3۔تعارفی مضامین، 4۔تاثراتی مضامین، 5۔شخصی خاکے
سوانح نگاری میں اصل اہمیت حالات وواقعات اور زیر تذکرہ شخصیت کے کارناموں کی ہوتی ہے۔ پیدائش سے لے کر موت تک کے حالات کو بیان کرنے کا نام سوانح نگاری ہے۔ سوانحی مضامین میں بھی اصل اہمیت تو حالات وواقعات کی ہوتی ہے، فرق اتنا ہے کہ سوانحی مضامین میں سوانح عمری کے مقابلے میں قدرے اختصار سے کام لیا جاتا ہے۔ تعارفی مضمون موضوع شخصیت کے تفصیلی یا سرسری تعارف اور کارناموں پر مشتمل ہوتا ہے۔ تاثراتی مضمون شخصیت سے مضمون نگارکی جذباتی وابستگی کے اظہار پر مبنی ہوتا ہے۔ خاکے کا موضوع سوانح کے بجائے سیرت و کردارہوتا ہے۔ خاکے میں سوانحی حالات کے بجائے شخصی افکار و کردار کے مطالعے کی مدد سے شخصیت کی انفرادیت کو اس طرح نمایاں کیا جاتاہے کہ مذکورہ شخصیت کے مذہبی، سماجی اور معاشی رویوں کی عکاسی ہوسکے۔ خاکہ شخصیت کے روشن اور تاریک دونوں پہلوؤں کی عکاسی کرتا ہے، کسی شخص کے معائب اور محاسن کی سچی صورت گری بڑا مشکل اور نازک کام ہے، جو ایک جانب باریک بینی اور حد درجہ احتیاط کا متقاضی ہوتا ہے تو دوسری جانب اس کے لیے گہرا مشاہدہ ،کمال درجے کی ادبی صلاحیت اور انشائی محاسن درکار ہوتے ہیں۔ ایک عمدہ خاکے کی نشانی یہ بھی ہے کہ اس میں مذکورہ شخصیت کے محاسن کا بیان اس انداز میں ہو کہ اس میں مدح کا شائبہ نہ آسکے۔ کمزوریوں کا بیان مزید اعتدال اور توازن کا متقاضی ہوتا ہے۔ مذکورہ شخصیت کی کمزوریوں کے بیان کو اس طرح تحریر کیا جائے کہ اس میں تحقیر کا شائبہ تک نہ ہو، کیونکہ خاکے کا مقصد صرف اور صرف شخصیت کے خصائص اور فطرت کو نمایاں کرنا ہوتا ہے۔
اس تمہید کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ اس وقت ہمارے پیش نظر کتاب ’’میری والدہ بی بی جی‘‘ موضوع کے اعتبار سے خاکہ نگاری پر مشتمل ہے۔ اس کتاب پر پہلی نظر میں قاری یہ سمجھتا ہے کہ مصنف نے اپنی والدہ کا سوانحی خاکہ لکھا ہے۔ لیکن اس میں چار خاکے ہیں۔ پہلا خاکہ مصنف کی والدہ کی دادی صاحبہ کا ہے، دوسرا مصنف کی نانی صاحبہ کا ہے۔ کتاب کا اصل محور و مرکز تیسرا اور چوتھا کردار ہے۔ کہنے کو یہ خاکے ہیں، لیکن اصلاً دو نمائندہ کردار ہیں، ایک قہر و ظلم کی علامت ہے، دوسرا عزم و ثبات کا پیکر۔ ایک جانب غیر انسانی اور سفاکانہ رویہ ہے، دوسری جانب کمال کے صبرو برداشت کا نمونہ۔ ایک اندھی مادیت کے بل بوتے پر ہوائے نفس کا پیکر، دوسرا اخلاق و نفس کی پاکیزگی کا مظہر۔ ایک جانب معاشی اور معاشرتی طاقت کے زعم میں فرعونی لب و لہجے میں بولنے والا، اور دوسری جانب سنتِ موسوی کی اتباع میں ’’قولاً لینا‘‘ پر عمل کرنے والا۔ ایک جانب عورت کی تذلیل پر مبنی مردانگی، دوسری جانب کامل صبر و ثبات جسے قرآن حکیم ’’عزم الامور‘‘ کہتا ہے۔ ظلم کی انتہا یہ کہ مظلوم کا سسکنا یا کراہنا بھی توہین شمار ہوتا ہو، اور اگر مظلوم کی آہ بے اختیار نکل جائے تو پھر تعذیب میں ایک اور قیامت کا اضافہ ہوجاتا ہو۔ یہ دونوں کردار ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والے پیمانِ وفا سے بندھے ہوئے زن وشوہر ہیں۔ بیوی بھی وہ جس نے شوہر کے 9 بچوں کی پیدائش اور پرورش کی۔ اس داستانِ ظلم و جبر اور صبرو ثبات کو الفاظ کے قالب میں ڈھالنے والا عام شاہد یا مبصر نہیں، دونوں کا حقیقی بیٹا ہے جو اس قیامت خیز کش مکش کا ایک متاثرہ فریق بھی ہے۔ بیٹے کے سامنے ایک جانب باپ کی قہر سامانی کا منظر ہے، دوسری جانب پاکیزہ خصلت ماں کے نہ تھمنے والے آنسو ہیں۔ عقل و فراست اسے سمجھاتی ہے کہ خاندان کی ناموس کا لحاظ کرو، خاموش رہو اور اپنے لبوں کو سی لو، بولوگے تو خود اپنی اور خاندان کی رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا، اور اس پر مستزاد یہ کہ سارا خاندان حقیقت کو جاننے اور ماننے کے باوجود تمھارا دشمن ہوجائے گا۔ ادھر دل ہے کہ کسی خطرے کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں، اس کی ہر دھڑکن یہ کہہ رہی ہے:۔
اس کے سوا اوروں کی سن کر خود کو رسوا مت کرنا
دل کی ہر دھڑکن کہہ دے گی کیا کرنا کیا مت کرنا
بالآخر بیٹا دل کے ہاتھوں مجبور ہوگیا۔ اس نے بے دھڑک وہ سب کچھ کہہ ڈالا جو اُس نے دیکھا تھا اورجو اُس پر بیتا تھا۔
صنف کا غم و غصہ ان کی تحریر میںبہت واضح ہے، ان کے لہجے میں صداقت کے ساتھ کرب کی تلخی نمایاں نظر آتی ہے۔ ماہرینِ فن کہتے ہیں کہ خاکہ شخصیت کے معائب اور محاسن کے بے لاگ محاکمے کا نام ہے، لیکن یہ بھی لازمی امر ہے کہ لکھنے والا اپنی شخصیت کے حصار میں رہے اور اپنی پسندوناپسند کے حوالے سے موضوع شخصیت کو پیش کرنے کی کوشش نہ کرے۔ لہٰذا مصنف کا جارحانہ انداز فنی اعتبار سے قابلِ اعتراض ہے، اور ہوسکتا ہے کہ بعض قارئین بھی اسے پسند نہ کریں۔ لیکن کیا معترضین اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں کہ آیا فطری طور پر یہ ممکن ہے کہ ایک ستم رسیدہ شخص ایک غیر متعلق شخص کا سا لہجہ اختیار کرسکے؟ وہ تو جو دل پر گزرتی ہے وہی رقم کرے گا کہ
یہ بیان حال، یہ گفتگو، میرا نچوڑا ہوا لہو
ابھی سن لو مجھ سے پھر کبھی نہ سنو گے
مصنف کے ہمت و حوصلے کی داد دینی چاہیے کہ اس نے بلا کم و کاست اپنے والد کے قابلِ نفرین خصائص پر سے پردہ اٹھاکر وہ کام کیا جوشاید اس سے پہلے کسی نے نہیں کیا۔ وہ کام جو بڑے بڑے سورما نہیں کرسکتے تھے مصنف نے کردکھایا۔ اس بات کو مصنف نے ’مقدمہ‘ میں دہرایا ہے، وہ لکھتے ہیں: ’’یہ کتاب جو آپ کے ہاتھ میں ہے، شاید اس موضوع پر پہلی کتاب ہے۔ اور خدا کرے کہ آخری نہ ہو… کہ اس میں اس موضوع پر بے باکانہ گفتگوکی گئی ہے۔‘‘
پہلا خاکہ مصنف کی والدہ کی دادی کا ہے۔ بڑی عابد و زاہد اور پیدائشی ولیہ خاتون… حسنِ سیرت اور حسنِ صورت کا بہترین مرقع، لیکن قوتِ گویائی سے محروم ۔ ان کے گونگے پن کا واقعہ بھی بڑا محیرالعقول ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو سلامتی طبع کی فطرت پر پیدا کیا ہے اور اس کی جبلت میں خیر وشر کی واضح پہچان الہام کی ہے۔ اگر وہ اپنی فطرت کو معصیت سے آلودہ نہ کرے تو اسے خیر کو پہچاننے اور اسے اپنانے میں کبھی غلطی نہیں ہوتی۔ یہ بزرگ خاتون مکتبی تعلیم سے بے بہرہ، لیکن ان کی چونکہ فطرت میں پاکیزگی تھی لہٰذا وہ زبان کی ہلاکتوں سے خوب واقف تھیں۔ جانتی تھیں زبان کی کھیتیاں کیسی ہلاکت خیز ہوتی ہیں۔گاؤں میں اُن کے پاس جو خواتین آتی تھیں ان کی زبانیں غیبت سے لبریز ہوتی تھیں۔ ایک دن غیبت کے انجام کے خوف سے انھوں نے باری تعالیٰ کی جناب میں قوتِ گویائی سلب کرنے کی دعا کردی۔ دعا قبول ہوئی اور اس کے بعد وہ گونگی ہوکر رہ گئیں۔ البتہ حیرت کی بات ہے کہ گونگے پن کے باوجود دو نام‘ اپنی پوتی اور بیٹی کا جنھیں وہ بہت عزیز رکھتی تھیں، صحیح تلفظ سے ادا کرتی رہیں۔ دوسرا خاکہ مصنف کی نانی صاحبہ کا ہے۔ ایک سعیدالفطرت اور بے نفس خاتون کا تذکرہ، جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ان کی ایک خاص بات یہ تھی کہ نمازکے بعد ان کی دعا بہت طویل ہوتی تھی۔ ایک دفعہ پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ اپنے تمام اعزہ و اقارب کے لیے نام بنام دعا کرنا ان کا معمول تھا، جس میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو جائداد کے تنازعے میں ان کے خاندان کے ساتھ چپقلش میں ملوث رہے۔ جب ان سے پوچھا کہ ان کے لیے کیوں دعا کرتی ہیں؟ کہنے لگیں: آخر کو وہ میرے بھائی تھے، ان کا مجھ پر حق ہے۔ صلہ رحمی کا یہ انداز بڑے سے بڑے فقیہ کے گمان میں بھی نہ آیا ہوگا۔
والد کے خاکے کی تحریر میں مصنف کا لہجہ تلخی کی انتہائی حدوں تک جا پہنچتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ محبت اور عزت کسی خارجی ذریعے سے نہیں کرائی جاسکتی۔ باپ اور بیٹاکسی biological رشتے کا نام نہیں۔ یہ ایثار، محبت اور اولاد پر سب کچھ نثار کرنے کا نام ہے۔ اگر ایک باپ بیٹے سے محبت تو دور کی بات ہے مسلسل تذلیل کا رویہ روا رکھے، مال کی محبت اس پر اس درجہ غالب ہوکہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اولاد کو یکسر محروم رکھے، توکیا صرف biologicalباپ ہونے کی بنا پر عزت و اکرام کا استحقاق رکھ سکتا ہے؟ وفادار شریکِ حیات سے انتہائی غیر انسانی سلوک روا رکھنے والا انسان صرف شوہر ہونے کی بنا پر کس طرح مکرم اور معزز ہوسکتا ہے! یہ وہ بات ہے جسے زبان پر لانا بڑے دل گردے کا کام ہے، جگ ہنسائی کے خوف سے بڑوں بڑوں کا پتہ پانی اور زبان گنگ ہوجاتی ہے۔ لیکن مصنف نے بڑی جرأت سے یہ سب کچھ لکھ ڈالا۔
والد کے خاکے کا خلاصہ ملاحظہ ہو:۔
موصوف سرکاری ڈسپنسری کے انچارج تھے۔ درشت مزاج اور بے رحم طبیعت کے مالک تھے۔ شقاوت قلبی نے انھیں پرلے درجے کے بخل، بے رحمی اور کج خلقی کا مرقع بنادیا تھا۔ ان کی قساوتِ قلبی کا یہ حال تھا کہ ان کا ایک بیٹا پیدائش کے اول روز سے بیمار تھا۔ انھوں نے اپنے محدود علم کے مطابق دوا دی لیکن بچے کی صحت بحال ہوکر نہیں دی۔ بچہ سال بھر بیمار رہ کر راہیِ ملکِ عدم ہوا لیکن ضلع میں بچوں کے ڈاکٹرکی سہولت ہونے کے باوجود موصوف وقت نکال کر اسے ماہر امراضِ اطفال کو دکھانے کی زحمت نہیں کرسکے۔
دوسرا واقعہ: مصنف یونی ورسٹی سے چھٹیوں پر گھر آتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ ماں چارپائی پر اوندھے منہ لیٹی ہوئی کراہ رہی ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ پچھلے تین چار روز سے وہ دن رات دانت کے درد سے تڑپ رہی ہیں لیکن والد صاحب کے پاس اہلیہ کوڈینٹسٹ تک لے جانے کی فرصت نہیں۔
تیسرا واقعہ: گھر میں ایک باریش ملازم تھے جن کی عمر کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے بیٹے جوان تھے۔ انھیں سال بھر کام کرنے کے بعد پورے سال کا معاوضہ یکمشت ملنا تھا۔ بیچارا آئے دن کی تذلیل سے دل برداشتہ تھا۔ سال پورا کرنے کے بعد جب اس کی گلوخلاصی ہوئی تو ایک جوڑا چپل اور کپڑوںکا ایک جوڑا اس کے جسم پر تھا، اس کے علاوہ کوئی کپڑا، کوئی چپل نہ تھی۔ مصنف کے والد کا حکم تھا کہ یہ جوڑا اور چپل چونکہ ان کی جانب سے دیئے گئے تھے لہٰذا یہ واپس کرنے کے بعد ہی جانے کی اجازت ہوگی۔ اس غریب نے چپل تو فوراً اتاردی لیکن کپڑے اتارنا ممکن نہ تھا۔ اس نے بہت منت سماجت کی کہ میں گھر جاکر واپس بھجوادوں گا، لیکن ان کا حکم قطعی تھا۔ مختصر یہ کہ کئی گھنٹے کی حراست کے بعد وہ آنکھ بچاکر ننگے پیر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔‘‘
مصنف کی والدہ کا خاکہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اپنے موضوع پر یہ ایک بہترین تحریر ہے۔ اس کا خلاصہ بیان کرنے سے بات نہیں بنتی۔ مختصر یہ کہ وہ پاکیزہ خصلت، عابدہ و صالحہ خاتون تھیں۔ دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتیں تو خالی واپس نہ پاتیں۔ ان کی خدا خوفی کا یہ عالم تھا کہ جب ان کے شوہر کسی ملازم پر سختی کرتے تو یہ چھپ کر اس کی تالیفِ قلب اور مالی اعانت کرتیں، ساتھ ہی یہ درخواست کرتیں کہ میرے بچوں کے لیے بددعا نہ کرنا۔ انھیں یہ خصوصیت بھی حاصل تھی کہ ان کا وجدان مستقبل میں پیش آنے والے واقعات سے انھیں قبل از وقت مطلع کردیتا تھا۔ اس خاتون نے اس جہنم میں ساری زندگی خاموشی کے ساتھ آنسو بہا کر گزار دی۔ ایک مرتبہ بیٹے نے پوچھ ہی لیا کہ اماں آخر آپ نے اس جہنم سے فرار کیوں نہیں حاصل کیا؟ ماں نے جواب دیا ’’بیٹا میری دادی نے رخصتی کے وقت یہ نصیحت کی تھی کہ خاندانی لوگ وہ ہوتے ہیں کہ سختیوں میں ان کے جسم کا گوشت تو اتر جاتا ہے مگر وہ ہڈیاں گھسا کر بھی وفا کا راستہ نہیں چھوڑتے۔ میں اپنے والد کے دامن پر داغ نہیں لگانا چاہتی تھی‘‘۔
مصنف بنیادی طور پر علم ارضیات کے آدمی ہیں۔ مکتبی تعلیم ساری کی ساری سائنسی علوم کی ہے، لیکن زبان و بیان کا بہت اعلیٰ سلیقہ رکھتے ہیں۔ تصدیق اقبال بابو صاحب نے کتاب کے شروع میں مصنف کی نثر نگاری پر بڑا جامع تبصرہ کیا ہے کہ ’’جیالوجی میںM.Philکرنے والا یہ شخص کس کمال کی انشا پردازی کرتا ہے‘‘۔ اچھی تحریر کی تعریف یہ بتائی جاتی ہے کہ لکھنے والا اپنا مافی الضمیر یعنی جوکچھ وہ سوچتا اور محسوس کرتا ہے، اسے اسی شدت کے ساتھ الفاظ کی صورت میں صفحہ قرطاس پر اس طرح منتقل کرے کہ پڑھنے والے کے اندر بھی ویسا ہی احساس اور اثر پیدا ہو۔ فاروق صاحب کی تحریر ایسی ہی تاثیر کی حامل ہے۔ زیرنظر کتاب کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ اس موضوع پر ایسی تحریر جو صداقت کے زہر کو صفحات پر بکھیرتی چلی جارہی ہو، اس سے پہلے نظر سے نہیں گزری۔ زیرنظر کتاب کا اسلوب نہایت عمدہ ہے۔ کسی تحریر کو ایک دفعہ پڑھ لینے کے بعد اگر دوبارہ پڑھ لینے کو دل چاہے، تو یہ خصوصیت بہت کم مصنفین کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف کا تحریر کردہ مقدمہ ایسی ہی ایک تحریر ہے جسے دوبارہ اور سہ بارہ پڑھنے کی خواہش قاری کے دل میں رہتی ہے۔ دورانِ مطالعہ زیر تبصرہ کتاب میں چند تسامحات بھی نظر آئیں جن کی تصحیح ضروری ہے:
1۔’’قبر کی تقویٰ ‘‘کے بجائے ’’قبر کے تقویٰ‘‘ ہونا چاہیے۔ صفحہ 30 سطر 16
2 ۔ ’’دیر پیوندی‘‘ نیا لفظ ہے جو لغت میں کہیں موجود نہیں۔ صفحہ40
3۔ صفحہ 64 سطر17۔ ’’ظل سبحانی‘‘ کی جگہ صرف ’’ظل‘‘ لکھا گیا ہے۔
4۔ ’’سراخ‘‘ کی جگہ ’’سوراخ‘‘ ہونا چاہیے۔ صفحہ65 سطر 8
5۔’’قسم اٹھائی‘‘ غلط ہے، ’’قسم کھانا‘‘ درست ہے۔ صفحہ163
6۔Compromaiseکی جگہ Compromise ہونا چاہیے۔ صفحہ99
زیادہ درست لفظ’’ مصالحت‘‘ ہے۔