اردو میں ارمغانِ علمی کی روایت

ڈاکٹر خالد ندیم نے اس مرتبہ بڑی محنت اور کدوکاوش سے ایک نادر موضوع پر اپنی تحقیق پیش کی ہے یعنی ’’اردو میں ارمغانِ علمی کی روایت‘‘ کا جائزہ لے کر اس سے متعلق ممکنہ تفصیلات فراہم کردی ہیں، اس طرح زبانِ اردو کے ایک گوشے کو روشنی میں لے آئے ہیں۔ بقول ڈاکٹر خالد ندیم یہ تالیف، شعبہ اردو جامعہ سندھ جام شورو کے جریدے تحقیق (شمارہ 20) میں شائع ہونے والے ایک مقالے کی توسیعی صورت ہے۔
ڈاکٹر رخسانہ صبا تحریر فرماتی ہیں:۔
’’تہذیبِ انسانی کے ارتقا اور انسانی معاشروں کی تشکیل و تطہیر میں ہمیشہ ایسی شخصیات کی کارفرمائی شاملِ حال رہی ہے جنہوں نے علم، ادب، تنقید اور تحقیق کے شعبوں کو اپنی ہمہ جہت شخصیت سے منور کیا، علم و ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا اور نیکی، حسن اور خیر کی تلاش میں مصروفِ عمل رہتے ہوئے اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کو اس طرح معنویت عطا کی کہ ان کا وجود اپنی اپنی سطح پر تہذیبی دائروں کی علامت بن گیا۔ ہماری تہذیب کا دامن بھی ایسے گہرہائے آب دار سے مال رہا جنہوں نے اپنی علمی، ادبی، تنقیدی اور تحقیقی جہات سے کام لیا اور اپنے فکری اثاثے سے ہمارے ذہن و دل کو روشن کرتے ہوئے معاشرے کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر مضبوط اساس فراہم کرنے کی کوشش کی۔ اگرچہ ہم سب عام طور پر ناقدریِ زمانہ کی شکایت کرتے رہے ہیں، تاہم ہمارے قلب و روح کو جِلا بخشنے والی اسی روشنی نے ایسی عظیم ہستیوں کی قدر افزائی اور اعترافِ کمال کے جذبات بھی ہم میں بیدار کیے اور اعترافات کا یہ سلسلہ تذکروں اور مضامین سے ہوتے ہوئے ارمغانِ علمی کی روایت تک پہنچا جسے پاکستان میں زیادہ تر ’’ارمغان‘‘ اور ’’نذر‘‘ کے نام سے اور ہندوستان میں ’’یادگارنامہ‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ مقامِ مسرت ہے کہ اس روایت کی تمام کڑیوں کو جوڑ کر ہم تک پہنچانے کے لیے ڈاکٹر خالد ندیم نے بہت عمدہ تحقیقی کام پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے۔
ڈاکٹر خالد ندیم کا نام اردو ادب اور علم و تحقیق کی دنیا میں ہرگز محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ نے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی جیسے استاذ الاساتذہ کی نگرانی میں ’’اختر حسین رائے پوری… احوال و آثار‘‘ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی، اور آج کل سرگودھا یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ ہیں۔ ڈاکٹر خالد ندیم کی اہم تصانیف میں ’’میر سے فیض تک‘‘، ’’انتخاب ولی دکنی‘‘، ’’جہانِ تلمیحات‘‘، ’’شبلی شکنی کی روایت‘‘، ’’عہدِ حاضر کا فکری بحران اور اقبال‘‘، ’’شبلی کی آپ بیتی‘‘، ’’آپ بیتی علامہ اقبال‘‘ اور ’’آپ بیتی مرزا غالب‘‘ کے علاوہ کئی دیگر کتابیں اور مقالات شامل ہیں۔ الغرض علم و ادب اور تحقیق کی دنیا میں ڈاکٹر صاحب کا نام سند ِاعتبار حاصل کرچکا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے 2013ء میں اپنے استاد محترم نامور اقبال شناس، نقاد اور محقق رفیع الدین ہاشمی کے لیے خود بھی ارمغانِ علمی مرتب کی تھی۔ اس طرح وہ خود بھی اس عظیم روایت کا حصہ رہے ہیں۔ یہ کتاب دراصل ان کے ایک مقالے کی توسیع ہے جو شعبہ اردو، جامعہ سندھ، جام شورو کے جریدے ’’تحقیق‘‘ میں شائع ہوا تھا۔
ہم میں سے بہت سے لوگ اس روایت سے اس طرح آگاہ نہیں ہیں جیسا کہ اس کا حق ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ’’پیش گفتار‘‘ کے عنوان سے جو ’’مقدمہ‘‘ لکھا ہے وہ خاصے کی چیز ہے، اور یہ تحریر ارمغانِ علمی کی روایت کے حوالے سے کئی حقائق کو بھی آشکار کرتی ہے، مثلاً اردو میں علم و ادب سے وابستہ گراں قدر ہستیوں کی خدمت میں مجموعہ مقالات کی صورت میں ’’ارمغان‘‘ یا ’’نذر‘‘ پیش کرنے کی روشن روایت کا آغاز 1955ء میں ہوا جب اردو ادب کی ایک بے حد معتبر شخصیت ڈاکٹر سید عبداللہ نے اپنے نابغہ روزگار استادِ محترم پروفیسر ڈاکٹر محمد شفیع کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں چھے زبانوں (اردو، فارسی، عربی، انگریزی، فرانسیسی اورجرمن) پر مشتمل مقالات کا مجموعہ ترتیب دیا۔ ڈاکٹر سید عبداللہ کو یہ اختصاص بھی حاصل ہے کہ انہوں نے پہلی مرتبہ اس روایت کے لیے ’’ارمغانِ علمی‘‘ کی ترکیب کا استعمال کیا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل پروفیسر ڈاکٹر محمد شفیع نے 1940ء میں اورینٹل کالج، لاہور کے پرنسپل ڈاکٹر اے سی وولنر کی علمی خدمات کے اعتراف میں Woolner Commemoration Volume انگریزی زبان میں مرتب کیا تھا جس میں متعدد یورپی زبانوں پر مشتمل سینتالیس وقیع مقالات شامل تھے، اور جس کے اثرات اردو زبان و ادب میں ارمغان ِعلمی کی روایت کی صورت میں آج تک موجود ہیں۔
مقدمے کے بعد اس تصنیف میں ارمغان ہاے علمی کی حیثیت سے انتیس مجموعۂ مقالات کا تعارف زمانی ترتیب کے ساتھ کروایا گیا ہے۔ 1940ء میں شائع ہونے والے پیش رو انگریزی مجموعہ مقالات سے لے کر 2016ء تک شائع ہونے والے ارمغان ہائے علمی کا ذکر مصنف کے مختصر اظہارِ خیال کے ساتھ اس طرح موجود ہے کہ جن کی خدمت میں یہ ارمغان پیش کیے گئے ہیں، ان شخصیات کا مختصر تعارف، اُن کی تصانیف و تالیفات کے نام، ممدوح کی شخصیت اور فکر و فن پر تصانیف و تالیفات اور متعلقہ ’’ارمغان‘‘ میں موجود مقالات کے عنوانات اور مصنفین کے نام فہرست کے طور پر درج کیے گئے ہیں۔ انتیس مرتبین کے لیے مختصر تعارفی تحریریں بھی شامل ہیں۔ آخر میں ’’اشاریہ تعارفی تحریریں (بلحاظِ مضمون نگار)‘‘ اور ’’اشاریہ علمی و ادبی مقالات (بلحاظِ مقالہ نگار)‘‘ شامل ہونے سے اس تصنیف کی قدر و قیمت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔
ڈاکٹر خالد ندیم کی یہ تصنیف ایک طرف تو اردو میں ارمغانِ علی کی روایت کے آغاز و ارتقا اور تاریخ سے آگاہ کرتی ہے، دوسری طرف امکانی صورت حال کی نشان دہی بھی کرتی ہے۔ مصنف کے گہرے تنقیدی شعور کی بدولت اس کی افادیت مزید بڑھ گئی ہے۔ کون سے مجموعے ارمغانِ علمی کے تقاضوں کو پورا کرتے اور اعلیٰ معیار تک پہنچتے ہیں، اور کن کا معیار کم تر ہے؟ کون سے مجموعے ضخیم ہیں اور کون سے مختصر؟ ڈاکٹر سید عبداللہ کے مرتب کردہ ’’ارمغان‘‘ کو کن علمی و ادبی معیارات کے پیش نظر اہمیت حاصل ہے؟ اس روایت میں ہونے والی مزید پیش رفت کس حد تک اطمینان بخش ہے؟ الغرض کئی تنقیدی پہلوئوں سے اس روایت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس موضوع کے حوالے سے تقابلی پہلو بھی مصنف کے پیش نظر ہے، مثلاً یہ کہ 2004ء کے بعد سے ہندوستان میں اس قسم کا کوئی مجموعۂ مقالات منظرعام پر نہیں آیا جب کہ پاکستان میں 2004ء کے بعد ایسے آٹھ مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔
ایک بالکل مختلف موضوع پر ڈاکٹر خالد ندیم کی یہ تصنیف نہ صرف یہ کہ ادب کے قاری کے لیے غور و فکر کا سامان فراہم کرتی ہے بلکہ افراد اور اداروں کو یہ دعوت بھی دیتی ہے کہ وہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر اس روایت کو آگے بڑھانے اور اسے مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کریں، تاکہ قدرافزائی اور اعترافِ کمال کی یہ روشنی ہمارے لیے نشانِ راہ کا کام دے سکے۔ انجمن ترقی اردو پاکستان فخر اور مسرت کے ساتھ اس منفرد موضوع پر یہ کتاب شائع کررہی ہے‘‘۔
مرتبین کے حالاتِ زندگی بھی دیئے گئے ہیں۔
کتاب سفید کاغذ پر خوب صورت طبع کی گئی ہے، مجلّد ہے۔ سادہ سرورق سے آراستہ ہے۔