قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’فحاشی کسی چیز میں نہیں آتی مگر اُسے ذلیل کردیتی ہے، اور حیا کسی چیز میں نہیں آتی مگر اُسے زینت بخشتی ہے‘‘۔ (ترمذی)۔
’’جو لوگ صابر ہیں اور جن کی حالت یہ ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، انہیں خوشخبری سنا دو۔‘‘
مال و دولت کے نقصانات نفسِ انسانی پر بہت شاق ہیں، اس لیے جب مومن اس کے ذریعے آزمایا جاتا ہے تو فطرتاً اس کے جذبات متحرک ہوتے ہیں اور اسے بڑی فکر لاحق ہوجاتی ہے، لیکن چونکہ وہ دولت کو خدا کی ملکیت سمجھتا ہے اس لیے ہزاروں لاکھوں کے ہیر پھیر میں پڑنے کے باوجود وہ اس کی محبت میں مبتلا نہیں ہوتا۔ وہ جانتا ہے کہ مال قیامِ زندگی کا ذریعہ ضرور ہے لیکن خدا سے غافل کرنے میں بھی اس کا حصہ سب سے زیادہ ہے، اس لیے وہ اس سے ’’باہمہ و بے ہمہ‘‘ کا سا تعلق رکھنا پسند کرتا ہے۔ سلف میں بہ کثرت بزرگوں کا طرزعمل یہ رہا ہے کہ وہ مال و دولت سے اپنی نفرت و بے تعلقی کا برملا اظہار کرتے تھے، لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ فی نفسہٖ مال و دولت ان کے نزدیک ایک مردود و مبغوض چیز تھی، بلکہ وہ اس پہلو سے اس سے کنارہ کرتے تھے کہ یہ چیز جسے آج ہم گوارا کررہے ہیں ایسا نہ ہو کہ نفسانی کمزوری کی وجہ سے کل وہ ہمارے قلوب میں جگہ پیدا کرلے اور پرسوں وہ خدا اور خدا کی یاد سے آہستہ آہستہ دور ہٹا دینے کا باعث بن جائے۔ پس مومن کی نظر میں مالی نقصانات کی زیادہ اہمیت نہیں ہے۔ مگر دولت کی دو قسمیں ہیں: دولتِ علم اور دولتِ زر۔ اور خدا ان دونوں کے ذریعے مومن کو آزماتا ہے۔ جہاں تک پہلی دولت کا تعلق ہے وہ ایک بے نظیر دولت ہے جس کے سامنے دولتِ زر کوئی قیمت نہیں رکھتی۔ ایک عربی شاعر نے تو یہاں تک کہا ہے کہ لنا علم ولجھال مال (ہمارے لیے علم ہے اور جاہلوں کے لیے مال) یہ خدا کی سب سے بڑی نعمت ہے، جس سے سرفراز ہونے پر بندے کو سب سے زیادہ خدا کے سامنے جھکنا اور اس سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ اس نعمت کا شکریہ صرف دو ہی صورتوں میں ادا کیا جاسکتا ہے۔ ایک یہ کہ اپنے علم کے مطابق خود عمل کرے اور دوسروں کو عمل کی دعوت دے۔ دوسرے یہ کہ اپنے علم کا کتمان نہ کرے اور اس کے فیض کو عام کردے۔ جو شخص ان دونوں باتوں کو پورا کرلیتا ہے وہ خدا کی آزمائش میں پورا اتر جاتا ہے، اور جو شخص انہیں پورا نہیں کرتا وہ خدا کی آزمائش میں سخت ناکام ہوتا ہے اور اتنی ہی بڑی سزا کا مستحق ٹھیرتا ہے جتنی بڑی خدا کی یہ نعمت ہے۔ رہے اہلِ سرمایہ، تو وہ ہر آن… آزمائش میں ہیں۔ ان کا مال کبھی گھٹایا جاتا ہے اور کبھی بڑھایا جاتا ہے، اور اس طرح دونوں صورتوں میں انہیں جانچا جاتا ہے۔ اس جانچ میں کھرا ثابت ہونے کی صورت یہ ہے کہ اناللہ واناالیہ راجعون کے ایمان و یقین کو مستحکم سے مستحکم تر کیا جائے، کیونکہ اسی ایمان و یقین میں وہ طاقت بھری ہوئی ہے جس سے کششِ مال کے اثرات کم اور ترجیح دنیا برآخرت کے تصورات زائل ہوتے ہیں۔
نقص من الانفس و الثمرات کی آزمائشیں بھی فطرتاً سخت مراحل سامنے لاتی ہیں، لیکن مومن کے توکل و اعتماد کی شان ان کو بھی آسان بنادیتی ہے، حتیٰ کہ ایک وقت میں اس کا خدا کی راہ میں جان دینا سہل اور نہ دینا مشکل ہوجاتا ہے، اور اولاد کی قربانی کے لیے خواب کا اشارہ تک اسے کافی ہوجاتا ہے۔
اس طرح جب مومن خدا کی تمام آزمائشوں میں پورا اترتا ہے تو وہ خدا کی طرف سے عنایات و توجہات کا مستحق ہوجاتا ہے جیسا کہ آیاتِ زیر تشریح میں صابرین کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے:۔
(ترجمہ)’’یہ وہ لوگ ہیں جن پر خدا کی طرف سے عنایات کا نزول ہوگا اور رحمت ِخداوندی اُن پر سایہ فگن ہوگی۔‘‘ پھر یہ عنایات و انعامات محض آخرت ہی میں حاصل نہ ہوں گے بلکہ دنیا میں بھی فضیلت و برتری کا وہ مقام انہیں نصیب ہوگا جو دوسروں کو کبھی نصیب نہیں ہوتا۔ حضرت ابراہیم ؑ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(ترجمہ) ’’جب ابراہیم کو ان کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورے اتر گئے تو خدا نے فرمایا کہ میں تمہیں سب لوگوں کا پیشوا بناتا ہوں۔‘‘
(سورۂ بقرہ رکوع15)
معلوم ہوا کہ مومنینِ مخلصین کے لیے آخرت تو بہرحال سنواری ہی جائے گی مگر ان کی دنیا بھی بگاڑی نہیں جاتی۔ جب یہ بندے خدا کی ہر جانچ میں اپنے آپ کو کھرا ثابت کردیتے ہیں تو زمین کی وراثت انہی کو سونپی جاتی ہے اور ان کو اونچے سے اونچا مقام دیا جاتا ہے۔