تعمیراتی امور اور شہری منصوبہ بندی کے ماہر کا فکر انگیز تجزیہ
ترجمہ: ابو الحسن اجمیری
بارشوں کے نتیجے میں کراچی میں پیدا ہونے والی سیلابی کیفیت کو سمجھنے کے لیے پہلے شہر کی پیچیدگیوں کو سمجھنا ہوگا۔
۔27 اگست کی ریکارڈ بارشوں نے کراچی کے بنیادی ڈھانچے کو تقریباً مکمل تباہی سے دوچار کیا اور ساتھ ہی ساتھ ایک طویل مدت سے شہر کے نظم و نسق، بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے نظام، اور فراہمی و نکاسیِ آب کے نظام کی خرابیوں کو بھی بے نقاب کردیا۔ شہر کے معاملات کو درست کرنے کی خاطر پہلے ہمیں اس کی تمام پیچیدگیوں کو اچھی طرح سمجھنا ہوگا۔
کراچی میں اب کے جو بارش ہوئی اُس کی نظیر نہیں ملتی۔ سڑکیں اور گلیاں دریا بن گئیں۔ گاڑیاں ہی نہیں، مکان بھی بہہ گئے۔ متعدد مقامات پر مٹی کے تودے گرنے سے بھی گاڑیوں اور مکانات کو نقصان پہنچا۔ کم و بیش 100 افراد بہہ گئے یا انہیں کرنٹ لگا۔ اہلِِ کراچی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اُن کے مسائل سیاسی اور انتظامی نوعیت کے ہیں اور حل بھی سیاسی و انتظامی ہی ہے۔ کراچی کے حوالے سے وفاق اور سندھ ایک پیج پر نہیں، اور اب بھی وہ کراچی کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے احساسِ ذمہ داری اور ہم آہنگی کا مظاہرہ نہیں کررہے۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کراچی میں سیلابی کیفیت کا بنیادی سبب گندے یا برساتی پانی کی نکاسی کے قدرتی راستوں یعنی نالوں پر کچی آبادیوں میں قائم کی جانے والی تجاوزات ہیں، اور ان تجاوزات کے ختم کردیئے جانے سے ندیوں اور نالوں میں جمع ہونے والا عشروں کا کچرا ہٹاکر یہ مسئلہ حل کرلیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ صورتِ حال اِس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے اور ایک مدت کے عمل میں پیچیدہ تر ہوتی گئی ہے۔ زیرنظر مضمون میں یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے اب تک کیے گئے اقدامات کا جائزہ لیا گیا ہے اور اس امر کی بھی توضیح کی گئی ہے کہ اب بدلی ہوئی صورتِ حال میں، تکنیکی بنیاد پر کن اقدامات کی ضرورت ہے۔
کراچی میں نکاسیِ آب کی تاریخ
ہم سب جانتے ہیں کہ کراچی میں برساتی پانی دو موسمی دریاؤں (دریائے لیاری اور دریائے ملیر) میں گرتا ہے۔ ان دونوں دریاؤں کا مآخذ کیرتھر رینج میں ہے اور یہ تقریباً بارہ سے چودہ میل کے فاصلے سے متوازی بہتے ہیں۔ اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی دستاویزات کے مطابق 43 اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے اعداد و شمار کے مطابق 64 نالے برساتی پانی ان دونوں دریاؤں تک پہنچاتے ہیں۔ اور کم و بیش 600 نالیاں برساتی پانی ان 64 نالوں تک پہنچاتی ہیں۔ مزید برآں، ہزاروں چھوٹے نالوں پر تجاوزات قائم ہیں۔
قیامِ پاکستان سے قبل کراچی کی آبادی کم و بیش ساڑھے چار لاکھ تھی۔ تب برساتی اور گندے پانی کی نکاسی کا نظام بہت حد تک زیر زمین تھا اور گٹر باغیچہ (موجودہ بے نظیر بھٹو یا ٹرانس لیاری پارک) میں واقع سسٹم کے ذریعے اس گندے پانی کی ٹریٹمنٹ کی جاتی تھی۔ ٹریٹمنٹ کے بعد بچ رہنے والے پانی سے سبزیاں اور پھول وغیرہ اگائے جاتے تھے۔ تب گٹر باغیچہ کا رقبہ ایک ہزار ایکڑ تھا۔ غیر قانونی مگر سرکاری طور پر تسلیم شدہ کچی آبادیوں کے قیام کے نتیجے میں اب یہ رقبہ 480 ایکڑ رہ گیا ہے۔
پاکستان کے قیام کے بعد 1947ء سے 1951ء کے دوران بھارت سے ہجرت کرکے کم و بیش آٹھ لاکھ افراد کراچی آئے اور مختلف علاقوں میں آباد ہوئے، جس کے نتیجے میں شہر کا رقبہ بڑھا اور ساتھ ہی بنیادی ڈھانچے کی بھی توسیع ہوئی۔ 1958ء کے دی گریٹر کراچی ری سیٹلمنٹ پلان کے تحت دو نئے قصبے (لانڈھی کورنگی اور نیو کراچی) آباد کیے گئے۔ یہ دونوں قصبے اُس وقت کے کراچی سے کم و بیش بیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھے۔ لانڈھی و کورنگی سے نکاسیِ آب کے لیے کورنگی کریک استعمال ہوتی تھی، اور نیو کراچی کے لیے خواجہ اجمیر نگری نالا بروئے کار لایا جاتا تھا۔ دونوں قصبوں کے لیے واٹر ٹریٹمنٹ کی بھی منصوبہ سازی کی گئی تھی، تاہم یہ پلانٹ کبھی نصب نہیں کیے گئے، اور دونوں بڑے قصبوں کا گندا پانی کسی بھی طرح کی ٹریٹمنٹ کے بغیر ہی نالوں کے ذریعے سمندر میں گرایا جاتا رہا۔
موزوں سوشل ہاؤسنگ پالیسی کے فقدان کے باعث نالوں پر اور اُن کے گرد آبادیاں قائم ہوتی گئیں اور اُن کے مکین گندا پانی، ظاہر ہے اِنہی نالوں میں گراتے رہے۔ 1960ء کے عشرے کے وسط میں کسی متبادل منصوبے کی عدم موجودگی میں رسمی نوعیت کی سیکٹر ڈویلپمنٹ نے بھی ان نالوں ہی کو استعمال کیا۔ یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ 1960ء کے عشرے کے اواخر میں طے کرلیا گیا کہ گندے پانی کی نکاسی برساتی نالوں میں کی جائے گی، اور یوں گندے پانی میں شامل ٹھوس غلاظت یعنی کچرا نالوں اور نالیوں میں بھرتا چلا گیا۔
1978-79ء میں کراچی میں غیر معمولی بارشیں ہوئیں اور نالوں پر قائم تجاوزات کا بڑا حصہ بہہ گیا۔ اس کے بعد ندی نالوں پر غیر قانونی تعمیرات کے حامل افراد نے اپنے مکانات کو مضبوط کرنا شروع کیا تاکہ وہ برساتی پانی میں بہہ نہ جائیں۔ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی نے طوفانی پانی کی نکاسی کے لیے جو نالیاں بنائیں اُن میں کلفٹن کے مکینوں کا گندا پانی اور کچرا بہتا ہے جو سمندر کو آلودہ کرتا ہے۔ شہر کی آبادی بڑھتے رہنے سے 2001ء اور 2020ء کی درمیانی مدت میں ٹھکانے لگائے جانے والے ٹھوس کچرے کی یومیہ مقدار 6500 ٹن سے 15 ہزار ٹن تک جاپہنچی۔ کسی موزوں اور مؤثر نظام کے نہ ہونے سے اتنے سارے ٹھوس کچرے کو ڈھنگ سے ٹھکانے لگانا انتہائی دشوار ہوگیا۔ اس کا دباؤ شہر کے نکاسیِ آب کے پورے نظام پر مرتب ہوا۔
ٹھوس کچرے کا مسئلہ
کراچی کم و بیش 3780 مربع کلومیٹر پر مشتمل وسیع رقبے کا شہر ہے جس میں کم و بیش 500 مربع کلومیٹر کا بلٹ اپ علاقہ بھی شامل ہے۔ اتنے بڑے شہر کے ٹھوس کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے پورے شہر میں صرف دو لینڈ فِل سائٹس ہیں جو ضلع غربی میں ایک دوسرے کے مقابل واقع ہیں۔ شہر کے مشرقی علاقوں سے ٹھوس کچرا کم و بیش چالیس کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے ان لینڈ فِل سائٹس تک پہنچانا پڑتا ہے۔ کچرا اٹھانے اور لینڈ فِل سائٹس تک لے جانے کی لاگت اور مشقت بہت زیادہ ہونے کے باعث اچھا خاصا کچرا کورنگی کریک اور اس میں گرنے والے نالوں میں، یا پھر غیر قانونی طور پر قائم چھوٹی موٹی لینڈ فِل سائٹس میں پھینک دیا جاتا ہے۔ 1975ء سے کہا جارہا ہے کہ شہر میں مزید لینڈ فِل سائٹس ہونی چاہئیں۔ 2001ء کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر ضلع کی اپنی لینڈ فِل سائٹ ہونی چاہیے، مگر اس حوالے سے عملی سطح پر کچھ نہیں کیا گیا۔
کراچی میں اب غیر رسمی نوعیت کی ایک بڑی ری سائیکل انڈسٹری پنپ چکی ہے۔ یہ انڈسٹری دونوں لینڈ فِل سائٹس اور شہر میں جا بہ جا موجود کچرا کنڈیوں سے مال لیتی ہے۔ یہ مال شہر کے بہت سے باشندے یا پھر افغان باشندے چُن کر کباڑیوں کے ہاتھ بیچتے ہیں اور کباڑی یہ مال ری سائیکل انڈسٹری چلانے والوں کو بیچتے ہیں۔ ہڈیاں، روئی، غالیچے، گدڑیاں، اخبار، پلاسٹک کی بوتلیں اور دوسرا بہت سا مال اس ری سائیکل انڈسٹری کا خام مال ہے۔ کچرا کنڈیوں سے ملنے والا پلاسٹک کھلونے اور برتن تیار کرنے والی صنعت میں استعمال کرنے کے لیے پنجاب بھیجا جاتا ہے۔ ری سائیکل انڈسٹری کے ٹھیکے دار کے ایم سی کے اسٹاف کو اس بات کے لیے رشوت دیتے ہیں کہ کچرا نہ اٹھایا جائے۔ اس صورت میں انہیں خام مال آسانی سے مل جاتا ہے۔ ٹھوس کچرا، جو ری سائیکل انڈسٹری کے لیے کسی کام کا نہیں ہوتا، نالوں میں پھینک دیا جاتا ہے یا پھر جلادیا جاتا ہے۔ جلانے کا عمل عوام کے احتجاج کے باعث اب بہت حد تک ترک کردیا گیا ہے۔ یوں ٹھوس کچرے کو اب نالوں ہی میں پھینکا جاتا ہے۔ نالوں پر اور اُن کے آس پاس رہنے والے بھی اپنا ٹھوس کچرا نالوں ہی میں پھینکتے آئے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق شہر بھر سے صرف 30 سے 40 فیصد کچرا ہی تسلیم شدہ لینڈ فِل سائٹس تک پہنچ پاتا ہے۔ بعض نالوں میں ٹھوس کچرا اس قدر ڈالا گیا ہے کہ وہ اب ٹھوس زمین کی شکل اختیار کرگئے ہیں اور بچے اُن پر کھیلتے ہیں۔ 2001ء میں ’دی کراچی اربن ریسورس سینٹر‘ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کراچی میں کچرے سے چلنے والی ری سائیکل انڈسٹری سے کم و بیش 40 ہزار گھرانوں کا روزگار وابستہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اب اس انڈسٹری سے ایک لاکھ گھرانوں کی روزی روٹی جُڑی ہوئی ہے۔
تجاوزات اور زمین کا حصول
کسی باضابطہ ترقیاتی منصوبے کی تعمیل کا فقدان تھا اور شہر کو تجارتی سرگرمیوں کی وسعت کے لیے زمین درکار تھی۔ کے ایم سی نے نالوں پر بازار بنا ڈالے۔ اردو بازار اور ٹائر مارکیٹ اس کی بہت واضح مثال ہے۔ دوسری طرف سندھ حکومت کو بھی کراچی میں تجارتی مقاصد کے لیے زمین درکار تھی۔ اس نے پارکنگ اور ایم پی اے ہاسٹل بھی نالوں ہی پر تعمیر کیے۔ حد یہ ہے کہ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کا ایک حصہ، اور برنس روڈ پر گرلز کالج کا ایک بڑا حصہ بھی نالے ہی پر قائم ہے۔ علاوہ ازیں ایک بینک کی عمارت بھی نالے ہی پر ایستادہ ہے۔
متمول علاقوں میں لوگوں نے اپنے مکانات کو نکاسیِ آب کے قدرتی نظام تک توسیع دی، تاہم سید مصطفیٰ کمال کے دورِ نظامت میں چند تعمیرات کو ختم کیا گیا۔
رہائشی سہولتوں کی تعمیر کے لیے باضابطہ منصوبہ سازی کے فقدان کے باعث کم آمدنی والے افراد کے لیے رہائش کا مسئلہ سنگین تر ہوتا گیا۔ اس کے ایک غیر فطری اور غیر قانونی حل کے طور پر سمندر کو ٹھوس کچرے سے بھر کر زمین حاصل کرنے کا عمل شروع کیا گیا۔ کراچی کے ساحل پر مینگروز کے جنگلات کو ختم کرکے وہاں کی گہرائی کو ٹھوس کچرے اور ملبے وغیرہ سے پُر کرکے بلڈرز اور ڈیویلپرز نے زمین حاصل کی۔ پیشہ ور اور رسمی نوعیت کے ڈویلپرز کے بجائے غیر رسمی یا شوقیہ ڈیویلپرز بہت بڑے پیمانے پر ملبہ وغیرہ سمندر کے کنارے ڈالتے ہیں اور پھر ٹریکٹرز کے ذریعے ملبے کو ہموار کرکے زمین کی شکل دیتے ہیں۔ باضابطہ شکل اختیار کرنے سے قبل ہی یہ زمین فروخت کردی جاتی ہے۔
ان مسائل پر قابو پانے کے لیے سندھ حکومت نے 1980ء کے عشرے کے اواخر میں کراچی اربن ڈویلپمنٹ پروگرام شروع کیا۔ اس پروگرام میں پرانے ٹریٹمنٹ پلانٹ کی بحالی کے ساتھ ساتھ نئے پلانٹ کی تنصیب کا منصوبہ بھی شامل تھا۔ ساتھ ہی ساتھ سڑکوں کے کنارے بڑے ٹرنک سیوئر بھی قائم کیے جانے تھے تاکہ وہاں سے غلاظت ٹریٹمنٹ کے لیے پلانٹ تک لے جائی جاسکے۔ اس سلسلے میں ایشیائی ترقیاتی بینک سے ایک بڑا قرضہ بھی لیا گیا۔
اس منصوبے کے تحت اورنگی ٹاؤن میں ترقیاتی کاموں کے لیے ’دی اورنگی پائلٹ پراجیکٹ ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ‘ سے مشاورت کی گئی۔ یہ بات نوٹ کی گئی کہ اربوں روپے خرچ کیے جانے کے باوجود ٹرنک سیوئرز کی مدد سے پرانے نظام کو نئی زندگی نہ دی جاسکی۔ گندے پانی کو نالوں تک پہنچانے کے لیے کئی کلومیٹر تک سڑک کھودنا پڑتی۔ یہ حکومت اور عوام کے وسائل کا ضیاع ہوتا اور دوسری طرف عوامی حلقوں نے یہ اعتراض بھی کیا کہ بنیادی ڈھانچے کی اکھاڑ پچھاڑ سے بڑے پیمانے پر مشکلات پیدا ہوتیں اور وسائل کا ضیاع دیکھ کر عوام پر شدید نوعیت کے نفسیاتی اثرات بھی مرتب ہوتے۔ معاملات کا جائزہ لینے کے بعد اورنگی پائلٹ پراجیکٹ نے رائے دی کہ جو کچھ صرف اورنگی ٹاؤن کے لیے تجویز کیا گیا تھا وہ پورے شہر کے لیے بھی تجویز کیا گیا تھا، مگر اس کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک سے کئی قرضے لینے پڑتے اور یوں ملک پر بیرونی قرضوں کا بوجھ بہت بڑھ جاتا۔
کراچی میں گندے پانی کی ٹریٹمنٹ کی مجموعی صلاحیت 151 ملین گیلن ہے، مگر سسٹم کی ناکامی کے باعث گندا پانی پورا کا پورا نہیں پہنچ پاتا اور یومیہ 25 ملین گیلن سے زائد پانی کی ٹریٹمنٹ نہیں ہو پاتی۔ پلانٹس کو اُن کی استعداد کے مطابق استعمال کرنے میں ناکامی کے باعث انتظامی سطح پر غیر معمولی مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ اس دوران گندا پانی کسی رکاوٹ کے بغیر سیدھا نالوں تک، اور نالوں کے ذریعے متعلقہ دریاؤں تک پہنچتا رہتا ہے۔
اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کے ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ نے ان مشکلات کا ادراک 1988ء میں کرلیا تھا۔ انسٹی ٹیوٹ نے یہ تجویز پیش کی کہ اگر گندا پانی براہِ راست نالوں تک بھی پہنچے تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ٹرنکس تعمیر کرکے گندا پانی نالوں کے اطراف سے نکال کر ٹریٹمنٹ پلانٹ تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ تب تک تمام نالوں کے بارے میں تفصیلات دستیاب نہ تھیں، اور یہ بھی معلوم نہ تھا کہ ٹریٹمنٹ سسٹم سے ان کا تعلق کس نوعیت کا ہے۔ اس لیے گندے پانی کی ٹریٹمنٹ کے حوالے سے کچھ خاص پیش رفت نہ ہوسکی۔
ماہرِ تعمیرات پروین رحمٰن شہید کی سربراہی میں اورنگی پائلٹ پراجیکٹ
ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ نے 43 نالوں کی نشاندہی کی، اور ساتھ ہی یہ منصوبہ بھی پیش کیا کہ ان نالوں کے دونوں طرف ٹرنکس (ذخیرہ گاہ) تعمیر کرکے گندے پانی کو ٹریٹمنٹ کے لیے پلانٹ تک منتقل کیا جاسکتا ہے۔ یہ تجویز منظور کرلی گئی، اور پھر چند ترامیم کے ساتھ دی گریٹر کراچی سیوریج پلان (ایس تھری) تیار ہوا۔ اس منصوبے کا ایک حصہ اس وقت زیر تکمیل ہے۔ اس حوالے سے ایک اجلاس میں برطانیہ کی فنڈنگ سے تعمیر کی جانے والی ٹرنک کے ایشیائی ترقیاتی بینک سے تعلق رکھنے والے مشیر نے بتایا کہ برطانوی حکومت 10 لاکھ پاؤنڈ لگاچکی ہے۔
بیرونی فنڈز سے شروع کیے جانے والے منصوبوں کا ایک بڑا نقص یہ ہے کہ اُن کے منصوبہ ساز زمینی حقیقتوں اور شہر کے اصل بنیادی ڈھانچے سے متعلق حقائق کو نظرانداز کردیتے ہیں جس کے نتیجے میں لاگت بڑھ جاتی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کے تعاون سے شروع کیے جانے والے کورنگی ویسٹ واٹر مینجمنٹ پراجیکٹ کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ اس منصوبے کی لاگت 10 کروڑ ڈالر تھی جس میں سے 8 کروڑ قرضے کی شکل میں تھے۔ اورنگی پائلٹ پراجیکٹ نے جب اس منصوبے پر نظرثانی کی تو لاگت 2 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کی حد تک گھٹ گئی۔ اس کے نتیجے میں اُس وقت کے سندھ کے گورنر معین الدین حیدر کو بیرونی قرضہ منسوخ کرنا پڑا۔
بیرونی امداد سے چلنے والے بیشتر منصوبوں کی مجموعی لاگت کا ایک بڑا حصہ استعداد پیدا کرنے کی لاگت پر خرچ ہوجاتا تھا۔ اس کے باوجود چالیس سال کے دوران پھیلتے ہوئے شہر کے معاملات سے نمٹنے کے لیے خاطر خواہ استعداد پیدا کرنے میں قابلِ ذکر کامیابی نصیب نہیں ہوئی تھی۔ لاگت اس لیے بڑھتی تھی کہ استعداد بڑھانے کے لیے بیرونی دورے بھی کیے جاتے تھے اور سیمینارز، ورکشاپس وغیرہ کا انعقاد بھی کیا جاتا تھا۔ اس پر اچھی خاصی فنڈنگ خرچ ہوجاتی تھی۔ استعداد میں اضافہ یقینی بنانے اور اس حوالے سے سیکھتے رہنے کے لیے لازم تھا کہ باضابطہ ادارہ قائم کیا جاتا، مگر ایسا نہیں کیا گیا۔
اورنگی پائلٹ پراجیکٹ نے اس نکتے کی نشاندہی کی کہ طوفانی کیفیت میں پانی کی نکاسی کے راستوں کا متعلقہ مکینوں کو زیادہ علم ہوتا ہے، مگر ان سے مل کر معاملات کو سمجھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ اس حوالے سے حکومتی سطح پر بالکل کام نہیں ہوا۔ مقامی آبادیوں ہی کو معلوم ہے کہ پانی کی نکاسی کے بڑے راستے کون سے ہیں اور چھوٹی چھوٹی نالیاں کہاں غائب ہوگئی ہیں۔ اورنگی پائلٹ پراجیکٹ نے دوسری جنگِ عظیم میں شدید نوعیت کی تباہی کے بعد جاپان کی دوبارہ آباد کاری اور بحالی کے عمل کا جائزہ بھی لیا تھا۔ جاپانیوں نے ڈرینج سسٹم کے کناروں کو محفوظ کیا تھا تاکہ زمین کا کٹاؤ واقع نہ ہو۔ جاپانیوں نے بہت سے مقامات پر نالوں پر چھت ڈال کر اس جگہ کو عوامی مقامات کے طور پر استعمال کیا۔ بہت سے مقامات کو بچوں کے لیے کھیلنے کے میدان اور بزرگ شہریوں کی رہائشی سہولت کے طور پر بروئے کار لایا گیا۔ بدقسمتی سے اورنگی پائلٹ پراجیکٹ ایسی کسی بھی تجویز کو عملی شکل نہ دے سکا۔
بنیادی ڈھانچہ: معیار اور ڈیزائننگ کے معیارات
حالیہ بارشوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سیلابی کیفیت نے بنیادی ڈھانچے کی تمام خامیوں اور خرابیوں کو نمایاں طور پر بے نقاب کردیا۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئیں یا بہہ گئیں۔ نالے بھرگئے۔ جانی نقصان سے بچنے کے لیے نصف سے زائد شہر کی بجلی طویل دورانیوں کے لیے بند کرنا پڑی۔ اب تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ اصل خرابی کہاں واقع ہوئی؟ بنیادی ڈھانچے کی ڈیزائننگ میں خرابیاں تھیں یا اور معاملات تھے؟ اب انجینئرز دیکھیں گے کہ خرابیاں کہاں کہاں تھیں اور انہیں کیسے دور کیا جاسکتا ہے۔ دی کراچی اسٹریٹجک پلان 2020 کے تحت کیرتھر رینج کے سِرے پر کئی ڈیم بنانے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ کراچی میں زیادہ پانی داخل نہ ہو۔ اب تک صرف تھڈو ڈیم بنایا گیا ہے۔
سیاست دانوں، بیوروکریٹس، ڈیویلپرز اور انجینئرز نے کہا ہے کہ کراچی میں نکاسیِ آب کے نظام کو درست کرنے کی سمت پہلا قدم یہ ہے کہ تجاوزات ختم کرکے تمام نالوں کی بھرپور صفائی کی جائے۔ اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ نالوں کے سِروں پر واقع تجاوزات ختم کی جائیں تاکہ پانی آسانی اور روانی سے دریائے لیاری اور دریائے ملیر میں داخل ہو اور سمندر تک پہنچے۔ نالوں کے کناروں پر موجود آبادیوں کو ہٹانے کی صورت میں گندے پانی سے بڑے پیمانے پر زمین کا کٹاؤ واقع ہوگا اور اس کے نتیجے میں متعلقہ آبادیوں کے لیے پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔ 1978ء اور 1979ء میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ زمین کا کٹاؤ روکنے کے لیے نالوں کے سرے مضبوط کرنا بھی ناگزیر ہے۔
نالوں کے کنارے مضبوط کرنے سے قبل متعلقہ آبادی کا سروے کرکے نادرا کی مدد سے ممکنہ متاثرین کا تعین لازم ہے، اور اس حوالے سے امیر و غریب کے فرق کو نظرانداز کیا جائے۔ تمام متاثرین کے لیے نقصان کے ازالے کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔ شہر میں اب بھی وفاقی اور صوبائی ملکیت کی اتنی زمین ہے کہ نالوں کے کناروں کو مضبوط بنانے کے عمل میں متاثر ہونے والے کم و بیش 80 ہزار گھرانوں کو آسانی سے بسایا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے تجاویز میڈیا کے ذریعے سامنے آتی رہی ہیں۔
مقامی حکمرانی کی ضرورت
کراچی میں بہت سے مسائل کی مکمل نشاندہی ہوچکی ہے، مگر ان مسائل کو ایک ساتھ حل نہیں کیا جاسکتا۔ غیر معمولی توجہ سے ترجیحات کا تعین کرنا پڑے گا۔ وزیراعظم کے حکم پر کراچی ٹرانسفارمیشن پلان تیار کیا جارہا ہے۔ شہرِ قائد کے مسائل حکومت اور مقامی آبادیوں کے اشتراکِ عمل ہی سے حل کیے جاسکیں گے۔ مقامی حکمرانی کا مضبوط نظام بھی ناگزیر ہے تاکہ عام آدمی کو یہ احساس ہو کہ اُس کی بات بھی سنی جارہی ہے اور اُس کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کی جارہی ہیں۔ اس مقصد کے تحت پلاننگ کا ایسا ادارہ چاہیے جو صلاحیت و سکت رکھنے کے ساتھ ساتھ اختیارات کا بھی حامل ہو۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ علاقوں یا آبادیوں کی بنیاد پر مانیٹرنگ، آپریشن اور مینٹی ننس کا نظام بھی قائم کرنا ہوگا تاکہ مسائل کا حل ممکن بنایا جاسکے۔ یونین کونسلوں کو با اختیار بناکر زیادہ کام نچلی سطح پر کرنا ہوگا تاکہ فرق دکھائی دے۔ کراچی کے لیے وفاقی و صوبائی حکومت یا عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے دیئے جانے پیکیج مجموعی منصوبہ بندی کا باضابطہ حصہ نہ ہونے کے باعث زیادہ کارگر اور سود مند ثابت نہ ہوں گے۔ تاریخ نے ہمیں یہ سبق بہت پہلے سکھانے کی کوشش کی ہے مگر ہم کچھ سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔
کراچی کے مسائل کے حل کے لیے جتنی بھی تجاویز پیش کی گئی ہیں ان پر بیورو کریٹس عمل کراسکتے ہیں نہ مختصر مدت کے لیے خدمات فراہم کرنے والے مشیر اور نہ ہی وہ کمپنیاں جنہیں ٹھیکے دیئے گئے ہیں۔ متعلقہ محکموں اور مقامی انتظامی اداروں سے اشتراکِ عمل کے بغیر نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی جیسا ادارہ بھی زیادہ مؤثر انداز سے کام نہیں کرسکتا۔ کراچی کے معاملات کی درستی کے لیے مضبوط مقامی حکومت لازم ہے جس میں تمام متعلقہ ادارے ایک چھتری تلے جمع ہوں اور پوری ہم آہنگی کے ساتھ کام کریں۔ صوبائی حکومت نے اب تک ایسا کرنے سے گریز کیا ہے کیونکہ وہ کراچی کے معاملات کو ایک ایسی اتھارٹی کے ذریعے چلانا چاہتی ہے جس میں تمام اختیارات مرتکز ہوں۔ اس کا بنیادی سبب شاید یہ ہے کہ اسے اختیارات کی تقسیم و منتقلی کی تحریک کے لیے مطلوب تعداد میں نشستیں نہیں ملتیں۔
کراچی کے مسائل گوناگوں ہیں۔ تجاوزات بھی ختم کرنی ہیں۔ تجاوزات صرف نالوں پر نہیں ہیں۔ سڑکیں بھی گھیری گئی ہیں۔ خالی حکومتی پلاٹ بھی ہتھیالیے گئے ہیں۔ بہبودِ عامہ کے لیے مختص پلاٹوں پر بھی قبضہ جمالیا گیا ہے۔ بنیادی ڈھانچہ بہت بری حالت میں ہے۔ بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے نظام پر شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کا غیر معمولی دباؤ ہے۔ تعلیم و صحتِ عامہ کے حوالے سے بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کو پوری جزئیات کے ساتھ تیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس سلسلے میں کمیونٹی لیڈرز اور سماجی و سیاسی کارکنوں کو بھی کلیدی کردار ادا کرنا ہے، صرف سرکاری مشینری کچھ نہیں کرسکتی۔ سیاست دانوں کی جامع تربیت بھی لازم ہے۔ کراچی سے متعلق تمام مسائل کی تفہیم اور ادراک کے لیے ایک ایسا تحقیقی و تربیتی ادارہ قائم کرنا بھی ناگزیر ٹھیرا جہاں صرف سرکاری حکام و ملازمین ہی کو نہیں بلکہ سیاست دانوں اور سیاسی کارکنوں کو بھی تربیت دی جائے تاکہ وہ جان سکیں کہ اِتنا بڑا شہر کیسے چلایا جاتا ہے، کس نوعیت کے مسائل سر اٹھاتے رہتے ہیں اور انہیں کیونکر حل کیا جاتا ہے۔
(بشکریہ روزنامہ ڈان6 ستمبر 2020ء)