کراچی سے 14 سیٹیں جیت کر وفاق میں حکومت بنانے والی پی ٹی آئی نے کراچی کے لیے 162ارب کے پیکیج کابھی اعلان کیا تھا۔ جب شہر کو 162ارب کا پیکیج نہ مل سکا تو اب 1100ارب بھلا کیسے خرچ ہوں گے؟
کیا کراچی کی تعمیر و ترقی کے لیے واقعی پی ٹی آئی، پی پی پی اور ایم کیو ایم ایک ہوگئے ہیں؟ کیا 1100 ارب روپے کا پیکیج کراچی کی قسمت بدلنے جارہا ہے؟ کیا اسٹیبلشمنٹ نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ قیام امن کے بعد اگلی منزل شہر کی تعمیر و ترقی ہے؟ اور کیا واقعی اگلے تین سال میں شہرِ قائد میں پانی کا بحران ختم ہوجائے گا، ٹرانسپورٹ کے مسائل حل ہوجائیں گے، نالوں پر سے تجاوزات ختم ہوجائیں گی، اور اگلے مون سون میں بارش زحمت کے بجائے واقعی رحمت ثابت ہوگی؟ یہ بات طے شدہ ہے کہ کراچی پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے اور یہاں پائی جانے والی زبردست بے چینی کا اندازہ اب اسلام آباد کے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے پالیسی میکرز کو بھی ہوچکا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ زیادہ عرصہ شہر کے مسائل کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، اگر کراچی متاثر ہوگا تو پورا پاکستان متاثر ہوگا۔ اسٹیبلشمنٹ نے اسی حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے گزشتہ ماہ تینوں بڑی جماعتوں کو ایک چھت تلے بٹھایا۔ خاص بات یہ ہے کہ اس اجلاس میں پی ٹی آئی، پی پی پی اور ایم کیو ایم کے علاوہ پی ایس پی سربراہ مصطفیٰ کمال کو بھی مدعو کیا گیا۔ کس حیثیت میں اور کیوں؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہوگا۔ بہرحال میڈیا میں آنے والی تفصیلات کے مطابق تینوں بڑی جماعتوں نے مل جل کر کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 1100ارب کے پیکیج کا اعلان تو وزیراعظم نے اپنے ”چند گھنٹوں“ کے دورئہ کراچی میں کیا، مگر ان کی آمد سے پہلے آرمی چیف نے شہر میں ”دو دن“ قیام کیا اور اسی دوران یہ خبر بھی سامنے آئی کہ اگلے تین سال میں کراچی کو بدل دیا جائے گا۔ ترقیاتی پیکیج کی مدد سے کراچی کے مسائل جیسے پانی کا بحران، نالوں پر قبضے، سیوریج کا نظام، ٹرانسپورٹ اور سالڈ ویسٹ کا حل ڈھونڈا جائے گا، اور اس پر عمل درآمد کرانے کے لیے ”پروونشل کوآرڈی نیشن امپلی منٹیشن کمیٹی“ (پی سی آئی سی) کے قیام کا بھی اعلان ہوا۔ وزیراعظم نے اپنی پریس کانفرنس میں بتایا کہ اس پیکیج کی تکمیل کے لیے تین مراحل میں کام ہوگا جس میں قلیل المدت منصوبے ایک سال میں، جبکہ طویل مدتی منصوبے تین سال میں مکمل کیے جائیں گے۔ کیا کراچی کے لوگوں کو اس پیکیج پر خوش ہونا چاہیے؟ دراصل عوام یہ بات جانتے ہیں کہ کراچی سے 14 سیٹیں جیت کر وفاق میں حکومت بنانے والی پی ٹی آئی نے کراچی کے لیے 162ارب کے پیکیج کابھی اعلان کیا تھا۔ جب شہر کو 162ارب کا پیکیج نہ مل سکا تو اب 1100ارب بھلا کیسے خرچ ہوں گے؟ صورت حال یوں بھی خاصی دلچسپ ہے کہ وزیراعظم کے کراچی سے رخصت ہوتے ہی بلاول بھٹو نے یہ بیان داغ دیا کہ 1100 ارب میں سے 800ارب کا حصہ سندھ حکومت کا ہے۔ پی ٹی آئی رہنماؤں نے اس کے برعکس بیان دیا۔ یوں پیکیج پر عمل درآمد سے پہلے ہی اسٹیک ہولڈرز آپس میں الجھنا شروع ہوگئے ہیں کہ پیکیج میں کس کا کتنا حصہ ہے۔ گویا ترقیاتی پیکیج کی تفصیلات طے ہونا ابھی باقی ہیں۔ زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ معاشی بدحالی کے اس مشکل دور میں 1100ارب روپے کہاں سے آئیں گے؟ وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں چند ماہ پہلے ہی بجٹ پیش کرتے وقت سالانہ ترقیاتی پروگراموں کا اعلان کرچکی ہیں اور دونوں نے ہی کراچی کے لیے برائے نام رقم مختص کی۔ اب عمران خان اور مراد علی شاہ ان تازہ منصوبوں کے لیے رقم کہاں سے لائیں گے؟ ماہرین کا خیال ہے کہ پرانے منصوبوں کو ہی دراصل کراچی ٹرانسفارمیشن پلان میں شامل کیا گیا ہے۔ 1100ارب کے پیکیج میں 300ارب سرکلر ریلویز کے لیے رکھے گئے ہیں۔ کیا چین یہ رقم پاکستان کو فراہم کرے گا؟ گرین لائن بس پراجیکٹ بھی نوازشریف کے دورِ حکومت سے زیر تعمیر ہے۔ اورنج لائن پر بھی کم از کم تین سال پہلے کام شروع ہوا تھا۔ ریڈلائن اور یلو لائن کا ذکر بھی بہت عرصے سے سن رہے ہیں۔ پانی کی فراہمی کے لیے ”کے فور منصوبہ“ بھی پیکیج کا حصہ ہے، حالانکہ اس بات کا بھی حساب کتاب ہونا چاہیے کہ اب تک جو رقم اس منصوبے پر خرچ کی جاچکی ہے اس کے کیا نتائج سامنے آئے؟ ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ کراچی کی تعمیر و ترقی کے لیے 10 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ اطلاعات ہیں کہ کچھ پراجیکٹس کی تکمیل کے لیے ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک بھی قرض فراہم کریں گے۔ کراچی پیکیج پر سابق ایڈمنسٹریٹر کراچی فہیم زمان نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے 1100 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان ہوا ہے، اتنا بڑا تو ہمارا دفاعی بجٹ ہوتا ہے تین سال میں، کراچی کے لیے اتنے پیسے کہاں سے آئیں گے؟“ انھوں نے مزید کہا کہ پورے سندھ کا ترقیاتی بجٹ 285 ارب ہے، تو پھر اتنی بڑی مالیت کے منصوبوں کے لیے رقم کہاں سے آئے گی؟ فہیم زمان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت بھی سندھ یا عمومی طور پر ملک میں 10 سے 30 فیصد کمیشن رائج ہے۔ ”آپ یہ سمجھیں کہ ایک چوتھائی تو صرف حکام بالا کی جیبوں میں جاتا ہے۔ اب اگر آپ نے اس پیکیج کا اعلان کیا ہے تو میں بتاؤں کہ کراچی کے جتنے ٹھیکےدار ہیں….. ان سب میں خوشی کی لہر دوڑی ہوئی ہے کہ کراچی میں کام آرہا ہے، جب بٹے گا تو لُٹ مچے گی“۔ فہیم زمان نے سوال اٹھایا کہ اتنی بڑی رقم کے منصوبوں کی نگرانی کا نظام کیا ہوگا اور کون خیال کرے گا کہ ان پیسوں کو ضائع نہ ہونے دیا جائے۔ اگر ماضی پر نظر ڈالی جائے تو گزشتہ حکومتوں کی طرف سے بھی شہر کے لیے چھوٹے بڑے پیکیج آتے رہے ہیں۔ پرویزمشرف دور میں ناظم کراچی نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ نے شہر کی ترقی کے لیے بے مثال خدمات انجام دی تھیں، انہی کی کوششوں اور انتھک محنت کے نتیجے میں کراچی کے لیے 29ارب روپے کا تعمیر کراچی پروگرام منظور ہوا تھا، یوں شہرِ قائد میں ترقیاتی کاموں کا سیلاب آگیا تھا، مگر جب شہری حکومت کے نظام کی بساط لپیٹ دی گئی تو تیزی سے ترقی کرتا کراچی اچانک تباہی کے راستے پر چل پڑا۔ اس تناظر میں امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن بالکل درست سمت میں شہریوں کی رہنمائی کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ مطالبہ کررہے ہیں کہ سب سے پہلے مردم شماری کے درست نتائج کا اعلان کیا جائے یا دوبارہ مردم شماری کی جائے تاکہ کراچی کو آبادی کے مطابق جائز وسائل میسر آسکیں۔ حافظ نعیم الرحمٰن کے ان مطالبات میں بھی وزن ہے کہ جلد از جلد بااختیار شہری حکومت کا نظام قائم کرکے بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں اور کوٹہ سسٹم ختم کرکے اوپن میرٹ کا نظام لایا جائے۔ درحقیقت صرف پیکیجز کے اعلانات اور کچھ منصوبے مکمل کرنے سے کراچی کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ پی ٹی آئی، پی پی پی اور ایم کیو ایم کو ایک چھت کے نیچے بٹھانے والی اسٹیبلشمنٹ اگر واقعی کراچی کے مسائل کا دیرپا اور مستقل حل چاہتی ہے تو حافظ نعیم الرحمٰن کے مطالبات پر توجہ دے۔ ماضی میں بھی کراچی کے مسائل جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان جیسے میئرز نے ہی حل کیے تھے۔