سیکورٹی اسٹاک ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے جوائنٹ ڈائریکٹر ساجد گوندل وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے دن دہاڑے اغوا کرلیے گئے، وہ ابھی تک بازیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ ایک اعلیٰ عہدیدار کی گم شدگی نے لاپتا افراد کے مسئلے کو قوم کے سامنے ایک بار پھر نمایاں کردیا ہے۔ جبری گمشدگی یا لاپتا افراد کا مسئلہ ختم ہونے یا کم ہونے کے بجائے بڑھتا جارہا ہے۔ عام افراد کی تو خبر بھی نہیں بنتی، ساجد گوندل جیسے اعلیٰ افسر کی جبری گمشدگی یا اغوا کے مسئلے پر اُن کی والدہ اور اہلِ خانہ اسی طرح اپنے آپ کو بے بس محسوس کررہے ہیں جیسے کوئی لاچار اور عام بے اثر فرد محسوس کرتا ہے۔ گم شدہ افسر ساجد گوندل کی گم شدگی کے بعد اُن کی غم زدہ والدہ کی درخواست کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے سربراہ جسٹس اطہر من اللہ نے کی اور وزارتِ داخلہ کے ماتحت تحقیقاتی و تفتیشی اداروں، پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کی کارکردگی پر سخت تبصرے کیے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے لاپتا افراد اور جبری گم شدگی کے مسئلے کو ریاست اور ریاستی اداروں کی ناکامی قرار دیا اس لیے کہ حکومت و ریاست کی بنیادی ذمے داری شہریوں کے جان و مال کا تحفظ ہے۔ جب وفاقی دارالحکومت بھی محفوظ نہ ہو تو دور دراز اور سنسان علاقوں کے شہری اپنے آپ کو کیسے محفوظ سمجھیں گے! ابھی چند ہفتے قبل ایک تجربہ کار اور ممتاز صحافی مطیع اللہ جان کو اسی طرح اغوا کرلیا گیا تھا جب وہ اپنی اہلیہ کو اسکول چھوڑنے گئے تھے جہاں وہ ملازمت کرتی تھیں۔ جناب مطیع اللہ جان کے اغوا کاروں پر نہ جانے کیا دبائو پڑا کہ وہ انہیں ایک ویرانے میں پھینک دینے پر مجبور ہوگئے۔ ایسے سیکڑوں افراد ہیں جن کی کہیں شنوائی بھی نہیں ہے۔ ایسے کئی افراد کے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، لیکن ان کو ابھی تک انصاف نہیں مل سکا ہے۔ جناب ساجد گوندل کی جبری گم شدگی پر عدالتِ عالیہ اسلام آباد کے سربراہ نے حکومتی و ریاستی اداروں کے خلاف اپنے تبصروں میں ایک طرح سے ’’فردِ جرم‘‘ عاید کی ہے۔ انہوں نے سیکرٹری داخلہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیراعظم کو بتائیں کہ ان کے ماتحت کام کرنے والے ادارے پراپرٹی کے کام میں مصروف ہیں۔ عدالت کے استفسار پر بتایا گیا کہ ایک ڈی ایس پی رینک کا افسر مغوی کے گھر گیا جہاں پر ان کے اہلِ خانہ کا بیان قلمبند کیا، جس پر بینچ کے سربراہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی وزیر کا بیٹا اغوا ہوا ہوتا تب بھی پولیس سمیت ذمے داران کا رویہ کیا یہی ہوتا جس طرح ساجد گوندل کے اغوا کے بارے میں اپنایا گیا ہے؟ 3دنوں سے صرف میٹنگز ہورہی ہیں، آپ کی کوششیں نظر نہیں آرہیں، لاپتا افسر کو تلاش نہیں کیا جا سکا، آپ کتابی باتیں نہ بتائیں، اپنی ناکامی تسلیم کریں اور وزیراعظم کے نوٹس میں یہ بات لائیں، کسی کو تو اس کی ذمے داری قبول کرنی چاہیے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ قانون کی حکمرانی نہیں ہے، شہری عدم تحفظ کا شکار ہیں، قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی تو کرپشن ہوگی، صرف نیب ہی کرپشن نہیں روک سکتا۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس وقت عدالت کے سامنے ریاست کی حیثیت سے کھڑے ہیں اور ریاست اس بات کو تسلیم کرے کہ وہ ساجد گوندل کو بازیاب کروانے میں ناکام ہوئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہم شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ نہیں کرسکتے تو ہم یہاں کیا کررہے ہیں؟ پھر یہ آئینی عدالت بند کردیں۔ عدالت نے سیکرٹری داخلہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ کوئی ایک ایسی مثال بتائیں جس میں انہوں نے کسی عدالتی حکم کے بغیر کسی لاپتا شخص کو بازیاب کروایا ہو۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایسی خبریں بھی آئی ہیں کہ لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے بنائے گئے کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے ساجد گوندل کے اغوا کے معاملے کا نوٹس لے لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیا کسی اہلکار نے اس کمیشن کے سربراہ سے رابطہ کرکے پوچھنے کی کوشش کی کہ ان کے پاس ایسی کون سی معلومات ہیں جن کے تحت انہوں نے اس واقعے کو جبری گمشدگی قرار دیا ہے۔ سیکرٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ اس وقت اس معاملے کو جبری گمشدگی کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وکلا کی آزادی کی تحریک میں وزیراعظم عمران خان کا بھی ایک کردار رہا ہے اور وہ انہیں بتائیں کہ اسلام آباد میں کیا ہورہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کو تو اس کی ذمے داری قبول کرنا ہوگی۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان کی وزارت کے زیرانتظام چلنے والے اداروں نے اپنا کام احسن طریقے سے کیا ہوتا تو آج کسی مغوی کے بچے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے عدالتوں میں نہ آتے۔ عدالتِ عالیہ اسلام آباد کے سربراہ نے سیکرٹری داخلہ سے یہ بھی پوچھا کہ آپ نے کوئی فہرست بنائی ہے کہ اسلام آباد سے کتنے لوگ لاپتا ہوگئے ہیں؟ انہوں نے ریاستی اداروں کی طرزِ حکمرانی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے سیکرٹری داخلہ سے کہا کہ آپ 14 سو مربع کلومیٹر کے علاقے میں قانون کی حکمرانی قائم نہیں کرسکتے تو تسلیم کریں کہ آپ ناکام ہیں، کس کی مجال ہے کہ وہ دن دہاڑے کسی شہری کو اٹھائے! لیکن اب یہ معمول ہوچکا ہے۔
لاپتا افراد کے مسئلے کا آغاز سابق فوجی آمر جنرل پرویزمشرف کے دور میں ہوا تھا جب خفیہ ایجنسیوں نے ایک صحافی کو پریس کانفرنس کے بعد اٹھالیا تھا۔
چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ کو یاد دلایا کہ ایک اہم شخصیت کا بیٹا لاپتا ہوگیا تھا تو ریاست کیسے حرکت میں آگئی تھی؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لاپتا افراد اور جبری گم شدگی کے مسئلے پر عدلیہ بھی اپنے آپ کو بے بس محسوس کررہی ہے۔