پرویزمشرف فارمولے کی صدائے بازگشت

امریکی تھنک ٹینک ”یو ایس انسٹی آف پیس“ کی جاری کردہ ایک نئی رپورٹ

بھارت نے اپنے تئیں پانچ اگست کو کشمیر کا مسئلہ ایک بار اور ہمیشہ کے لیے حل کردیا ہے، مگر نہ تو کشمیر کی زمینی صورتِ حال،گردوپیش کے حالات، اور نہ عالمی اُفق اس دعوے کا ساتھ دے رہا ہے۔ ایک سال میں پیش آنے والے حالات وواقعات نے بھارت کے دعووں اور اقدامات کو غلط ثابت کیا ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا ایک سال مکمل ہونے پر امریکی تھنک ٹینک یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس نے ایک رپورٹ جاری کرکے مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت و افادیت کا قصہ دوبارہ چھیڑا ہے۔ یہ تھنک ٹینک امریکی کانگریس کی فنڈنگ سے چلتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس کی سرگرمیوں میں حکومت اور مقننہ یعنی کانگریس کی سوچ اور دلچسپی کو ایک خاص مقام حاصل ہوتا ہے۔ ماضی میں یہ امریکی تھنک ٹینک کشمیر پر پسِ پردہ ڈپلومیسی کی ایک عشرے سے زیادہ عرصے پر محیط مشق کی سہولت کاری کرتا رہا ہے، جس میں مسئلہ کشمیر کے ممکنہ حل تلاش کرنے پر سوچ بچار کیا جاتا رہا۔ یہ سارا کام مختلف تجاویز اور فارمولوں کی صورت میں اب فائلوں کا حصہ ہے۔ پانچ اگست کو ایک سال پورا ہونے پر اس تھنک ٹینک نے یہ ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے، جس میں موجودہ بدترین اور کشیدہ حالات میں بھی جنرل پرویزمشرف کے چار نکاتی فارمولے کو مستقبل کے پاک بھارت مذاکرات کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیپی مون جیکب نے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے کئی سیمیناروں میں شرکت اور دونوں ملکوں کے ریٹائرڈ اور حاضر سروس حکام کے ساتھ انٹرویوز کے بعد مرتب کی ہے۔
’’کشمیر آخری معرکے کی جانب: بھارت اور پاکستان کس طرح دیرپا حل کے لیے گفت وشنید کرسکتے ہیں؟‘‘کے عنوان سے مرتب کی گئی اس رپورٹ میں پانچ اگست کے بعد کشمیر کے حالات کو ’’اضطراب کی ہنڈیا‘‘ اور پاک بھارت فلش پوائنٹ بتایا گیا ہے۔ یہ اصطلاحات حالات کی سنگینی کو ظاہر کرتی ہیں۔ رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ بھارت نے پانچ اگست کو مسلم اکثریتی ریاست کی حیثیت ختم کرکے کشمیر کو فلش پوائنٹ بنادیا ہے۔ عملی طور پر اس فیصلے کے بعد بھارت نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے ساتھ مفاہمانہ حل کے تمام آپشن ختم کردیے ہیں۔ اب دہلی کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ کشمیر پر اپنی گرفت زیادہ سے زیاہ مضبوط کی جائے اور یوں بھارت نواز جماعتوں کے لیے زیادہ گنجائش پیدا کی جائے۔ بھارت کا یہ طرزِعمل کشمیر میں بیگانگی میں اضافہ کرنے اور پاکستان کی مداخلت بڑھانے کا باعث بن رہا ہے۔ پاکستان نے سفارتی سطح پر سرگرمیاں بڑھانے کے ساتھ ساتھ کنٹرول لائن پر کشیدگی بڑھا دی ہے۔ یہ ملٹرائزڈ اسٹرکچر دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کا باعث بن سکتا ہے۔ گوکہ مستقبل قریب میں دو طرفہ سمجھوتے کے آثار نہیں، مگر پاکستان اور بھارت کو اس کشمیر فارمولے کی طرف دوبارہ رجوع کرنا چاہیے جو 2004ء سے 2007ء کے درمیان بیک چینل ڈپلومیسی سے ترتیب پایا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی کانگریس نے پانچ اگست کے اقدامات پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ دہلی کو اس فیصلے پر عمل درآمد میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ کشمیر میں تشدد میں اضافے کے آثار نمایاں ہیں۔کشمیر کو داخلی مسئلہ کہنا بھارت کا ایسا تصوراتی دعویٰ اور خلافِ حقیقت بات ہے جس کی بنیاد صرف فوجی جمائو ہے۔ حالات کے اس تجزیے کے بعد رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ حالات میں گوکہ چار نکاتی فارمولا پہنچ سے بہت دور ہے مگر یہ مستقبل میں دونوں حریف ملکوں کے درمیان بات چیت کی بنیاد بن سکتا ہے۔ رپورٹ میں چار نکات کو موجودہ حالات میں اپنانے کے فوائد بیان کیے گئے ہیں اور ان نکات کی رکاوٹوں پر بھی بات کی گئی ہے۔ اس فارمولے میں سیلف گورننس یعنی سری نگر اور مظفرآباد کی دونیم خودمختار حکومتیں، ڈی ملٹرائزیشن یعنی دونوں خطوں کی آبادیوں سے فوج کا جزوی انخلا، سافٹ بارڈرز یعنی کنٹرول لائن پر آمد و رفت اور تجارت کے لیے نرمی، اور مشترکہ اداروں کا قیام یعنی پاکستان اور بھارت کی مشترکہ نگرانی میں سر ی نگر اور مظفرآباد کے مشترکہ منصوبوں کا آغاز شامل تھے۔ یہ وہی چار نکاتی فارمولا ہے جس کی تشہیر جنرل پرویزمشرف نے زور سے شروع کی تھی اور پھر اسے مشرف فارمولا ہی کہا جانے لگا تھا۔ اس فارمولے کے تحت پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے نام پر ایک پیس پروسس کا آغاز بھی ہوا، سری نگر مظفرآباد بس سروس اور تجارت بھی شروع ہوئی، مگر دونوں ملکوں کے درمیان فوجی تنائو کم کرنے کی کوشش ہوئی، اور نہ زمین پر نظر آنے والے اقدامات اُٹھائے جا سکے۔ بالخصوص وادی کشمیر میں بھارت کا فوجی جمائو اور جبر کم نہ ہوا جس سے وادی میں بے چینی بڑھتی رہی، اور اس کا اثر پاکستان میں ایک حلقے پر بھی پڑا، اور یوں دونوں طرف سے اعتماد میں کمی نے اس سارے عمل کو ریوس گیئر لگادیا۔
اب بدلے ہوئے حالات میں واشنگٹن کی راہداریوں میں ایک بار پھر چارنکاتی فارمولے کی صدائے بازگشت خاصی معنی خیز ہے۔ اس کا پہلا اور سیدھا مطلب تو یہ ہے کہ دنیا بھارت کی تصوراتی کہانیوں کو آج بھی افسانہ قرار دے رہی ہے۔ اس رپورٹ میں بھارت کی کشمیر کو اندرونی مسئلہ قرار دینے کی بات کو Fictionکہا گیا ہے۔ یہ بھارت کے پورے بیانیے کا مذاق اُڑانے کے مترادف ہے۔ دنیا اس بات کو اچھی طرح جان چکی ہے کہ بھارت کشمیر کے نام پر جو ’’رام کہانی‘‘ سنا رہا ہے وہ افسانہ ہے، جبکہ حقیقت اس سے قطعی مختلف ہے۔ موجودہ حالات میں واشنگٹن کی راہداریوں میں گم گشتہ اور فراموش کردہ آوازوں کی بازگشت سنائی دینا جنوبی ایشیا کے سلگتے ہوئے مسئلے میں امریکہ کے پرت در پرت نظام کی ایک تہ کی دلچسپی کے احیاء، یا بدستور قائم ہونے کا پتا دے رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت خطے کی دو ایٹمی طاقتیں ہیں، اور دونوں ایک طویل مدت تک پہلو بہ پہلو یوں ایک دوسرے سے کٹ کر نہیں رہ سکتے۔ پاکستان نے مذاکرات کی بحالی کو پانچ اگست کے اقدامات کی واپسی سے مشروط کررکھا ہے، اور ایسے میں امریکہ کا نئے امکانات کے لیے سرگرم ہونا اپنے اندر ایک اہمیت رکھتا ہے۔ چارنکاتی فارمولا روبہ عمل آنا اس قدر آسان تو نہیں، مگر اس سے پاکستان اور بھارت میں مذاکرات کے ٹوٹے ہوئے تار جوڑنے کی امریکی خواہش جھلک رہی ہے۔ فی الحال تو اس میں یہ پہلو باعثِ اطمینان ہے کہ ’’اٹوٹ انگ‘‘ اور، ’’اندرونی مسئلہ‘‘ کے بھارتی دعوے ہوائوں میں تحلیل ہورہے ہیں۔