وعدوں کی تکمیل، ترقی، خوشحالی، شفافیت کے دعوےماضی کے نظام کو فرسودہ اور استحصالی قرار دینے والے ، خود کہاں تھے؟
پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کے دو سال کی تکمیل اور تیسرے سال کے آغاز پر اپنی ’’شاندار کارکردگی‘‘ سے صوبے کے عوام کو آگاہ کرنے کے لیے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار نے 2 ستمبر کو باقاعدہ ایک تقریب کا اہتمام کیا، جس میں اخبارات کے مدیران، کالم نویسوں اور سینئر صحافیوں کو بڑی تعداد میں مدعو کیا گیا تھا۔ وزیراعلیٰ کے دائیں بائیں اُن کی کابینہ کے اہم ارکان بھی موجود تھے، جب کہ میزبانی کے فرائض بجا طور پر صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کو سونپے گئے تھے۔ وزیراعلیٰ نے 83 صفحات پر مشتمل جامع اور مفصل کارکردگی رپورٹ ہاتھ میں تھام کر اپنی دو برس کی کامیابیوں کا تفصیل سے احاطہ کیا، تاہم بطور وزیراعلیٰ دو سال مکمل کرنا بھی سردار عثمان بزدار کا کوئی معمولی کارنامہ نہیں، کیونکہ گزشتہ دو برس کے دوران شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو جب اُن کی وزارتِ اعلیٰ سے فراغت کی افواہ نے گردش نہ کی ہو۔ ان دو برس میں کتنے ہی مواقع ایسے آئے کہ ذرائع ابلاغ نے باوثوق ذرائع کے حوالے سے مصدقہ اطلاع دی کہ عثمان بزدار کی جگہ نئے وزیراعلیٰ کے تقرر کا فیصلہ کرلیا گیا ہے، بلکہ کئی مرتبہ تو متبادل یا متوقع وزرائے اعلیٰ کے نام تک شائع کردیئے گئے۔ اس کے باوجود اگر انہوں نے اپنی سادگی، شرافت اور نااہلی کی شہرت کے ساتھ دو سال مکمل کرکے تیسرے سال میں استقامت سے قدم رکھ لیا ہے تو یہ یقیناً کسی کارنامے سے کم نہیں، اگرچہ اس کارنامے کی انجام دہی میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے کہیں زیادہ کردار وزیراعظم عمران خان کا ہے، جنہوں نے نہ صرف اُن کی نامزدگی کے وقت انہیں ’’وسیم اکرم پلس‘‘ قرار دے کر زبردست حوصلہ افزائی کی، بلکہ اپنے ہر دورۂ لاہور کے موقع پر پنجاب کابینہ کے اجلاس میں شریک ہوکر ان کی رہنمائی بھی کی، ’’بزدار کی کارکردگی شاندار ہے، یہ کہیں نہیں جارہے‘‘ کہہ کر ان کی پیٹھ بھی ٹھونکی اور صوبائی کابینہ اور پارٹی کے اندر اور باہر سے بزدار کے خلاف سازشیں کرنے اور افواہیں اڑانے والوں کی حوصلہ شکنی بھی کی۔ تاہم خود وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے حوصلے اور مستقل مزاجی کی داد نہ دینا بھی زیادتی ہوگی۔
دو سالہ کارکردگی رپورٹ سے آگاہی کی اس تقریب کے اکثر شرکاء اس امر پر بھی متفق پائے گئے ہیں کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی ذات میں پہلے سے کہیں زیادہ اعتماد آچکا ہے، ان کی شخصیت سے متعلق اب تک یہ تاثر عام تھا کہ وہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اور کیمروںکا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں، مگر اِس تقریب کے دوران انہوں نے اپنی دو برس کی کارکردگی رپورٹ باوقار انداز اور پُراعتماد لب و لہجے میں پیش کی، بلکہ بعد ازاں اخبار نویسوں کے سوالوں کے جواب بھی کسی گھبراہٹ اور ہچکچاہٹ کے بغیر مکمل خوداعتمادی سے دیئے۔
پنجاب میں اپنی حکومت کے دو برس مکمل ہونے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے عثمان بزدار نے دعویٰ کیا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے عوام سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کے لیے ٹھوس اقدامات کا آغاز کردیا ہے، دراصل پنجاب میں عوام کی توقعات کی سطح بہت بلند ہے اور یہ بلند ہونا بھی چاہیے کہ برسوں بعد عوام کے ذریعے عوام کی حقیقی حکومت کے خواب نے تعبیر پائی ہے، ہم نے مشکل مالی حالات میں چیلنج قبول کرکے کاروبار دوست اور ترقی پسندانہ بجٹ پیش کیا ہے، کئی ٹیکس ختم کیے ہیں یا ان کی شرح کم کردی ہے، مالی طور پر مشکل حالات سے گزرنے کے باوجود ترقیاتی منصوبوں کے لیے 4 ارب روپے کا اضافہ کیا، مقامی حکومتوں کا شیئر 10 فیصد بڑھایا، بھرپور توجہ ہیومن ڈویلپمنٹ پر مرکوز ہے، کنسٹرکشن انڈسٹری کو فروغ دے کر روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، ہر نوجوان کو روزگار کے معاملے میں خودکفیل کرنا چاہتے ہیں۔ مالی امور میں شفافیت اور انتظامی امور میں میرٹ ہمارا نصب العین ہے۔ یہ آغازِ سفر ہے، ان شاء اللہ سچائی، شفافیت، میرٹ، دیانت اور لگن سے انہی راستوں پر سفر کریں گے تو منزل حاصل کرلیں گے۔ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ قائم کرکے وعدے کو نبھایا ہے۔ راوی ریور فرنٹ اربن ڈویلپمنٹ پراجیکٹ پاکستان کا سب سے بڑا میگا منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کی افادیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ یہ منصوبہ نہ صرف پنجاب بلکہ پاکستان کو معاشی طور پر اوپر لے کر جائے گا۔ پنجاب میں 13 اسپیشل اکنامک زونز کے قیام پر کام شروع کردیا ہے۔ وفاقی حکومت نے 6 اسپیشل اکنامک زونز کے قیام کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے، 7 کا نوٹیفکیشن جلد گا۔ آب پاک اتھارٹی کے تحت صاف پانی کی فراہمی کا منصوبہ 2 ارب روپے کی لاگت سے شروع کررہے ہیں۔ تاجروں اور سرمایہ کاروں کے لیے کاروبار میں آسانیاں پیدا کی گئی ہیں۔ پنجاب اسمال انڈسٹریز کارپوریشن کے تحت آسان شرائط پر قرضہ اسکیم کے لیے 20 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کردی ہے۔ اسکیم کے تحت آسان شرائط پر قرضے دیں گے۔ نئے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی منظوری اور نفاذ ہوچکا ہے۔ اب لوکل گورنمنٹ سربراہان کا براہِ راست انتخاب ہوگا۔ زیادہ پیداوار اور کم لاگت فصل کے لیے نئے بیج کی دریافت پر کام جاری ہے۔ ٹڈی دل پر قابو پایا ہے اور اس مقصد کے لیے سو ارب روپے مختص کیے۔ کاشت کاروں کو ادائیگی نہ کرنے والی ملوں کو 50 لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جا سکے گا۔ تمام اضلاع میں صحت انصاف کارڈ اسکیم شروع کی۔ کورونا آیا تو ہمارے پاس صرف 50 ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت تھی۔ الحمدللہ قلیل عرصے میں ٹیسٹنگ کی صلاحیت 17000 روزانہ ہوچکی ہے۔ پرائمری سطح پر اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے اور انگریزی کو بطور مضمون پڑھانے کا تاریخی فیصلہ کیا۔ پنجاب اسمبلی نے 2 برس کے دوران مفادِ عامہ کے لیے بنیادی قانون پاس کیے۔ پنجاب اسمبلی نے دیگر اسمبلیوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ قانون سازی کی ہے۔ ریسکیو 1122 کے تحت موٹر سائیکل ایمبولینس کا دائرۂ کار ہر ضلع تک بڑھائیں گے۔ ریسکیو 1122 کو تحصیل کی سطح تک لے کر جا رہے ہیں۔ پنجاب پناہ گاہ اتھارٹی کا قیام عمل میں لائیں گے۔ خواتین ملازمین کے لیے 137 ڈے کیئر سینٹرز کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے۔ جیلوں میں اصلاحات کے لیے تاریخی اقدامات کررہے ہیں۔ ڈبل ڈیکر بسوں کا دائرۂ کار بڑھائیں گے۔ پنجاب پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی کا قیام عمل میں آچکا ہے اور 144 ارب کے 28 ترقیاتی منصوبوں کی منظوری دی جاچکی ہے۔ راولپنڈی رنگ روڈ اور نالہ لئی ایکسپریس وے ایس ایل تھری رنگ روڈ، شیخوپورہ گوجرانوالہ سڑک کی تعمیر کا جلد سنگِ بنیاد رکھا جائے گا۔ لینڈ ریکارڈ کے کام کو مزید آسان بنارہے ہیں۔ 20 موبائل وین آچکی ہیں۔ لاہور میں بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے ملک کے سب سے بڑے اور پہلے انڈر گرائونڈ واٹر اسٹوریج کے نظام کو پہلے ڈویژن اور پھر ضلع کی سطح پر بڑھائیں گے۔ لاہور اورنج لائن میٹرو ٹرین کے منصوبے کو اکتوبر تک شروع کردیں گے۔
ذرائع ابلاغ کے روبرو پیش ہونے سے قبل وزیراعلیٰ کی زیرصدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس بھی منعقد ہوا جس میں پنجاب حکومت کی دو سالہ کارکردگی کی ستائش میں ایک متفقہ قرارداد کی منظوری دی گئی۔ صوبائی وزیر قانون راجا بشارت کی پیش کردہ اس قراردادِ تشکر میں اپنی کارکردگی کو وزیراعظم عمران خان کے ویژن کی عکاس قرار دیا گیا اور دعویٰ کیا گیا کہ 2018ء میں شروع ہونے والے اس سفر نے پنجاب میں نئے نظام کی بنیاد رکھ دی ہے، اس نئے شفاف اور کرپشن فری نظام نے 70 سالہ پرانے اور فرسودہ نظام سمیت استحصالی ایجنڈے کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔
یہ تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ پنجاب حکومت کے نظامِ کار میں گزشتہ دو برس کے دوران کوئی بہتری آئی ہوگی۔ وزیراعلیٰ نے اپنی جو کارکردگی بتائی ہے، وہ بھی درست ہوگی۔ وزیراعلیٰ کی شراب کی فروخت کا غیر قانونی لائسنس جاری کرنے کے الزام میں نیب میں طلبی کے باوجود یہ بھی مانا جا سکتا ہے کہ صوبے میں موجودہ حکومت کے عرصے میں کوئی بڑا کرپشن اسکینڈل سامنے نہیں آیا، اس کے باوجود صوبائی کابینہ کی اس متفقہ قرارداد کو اپنے منہ میاں مٹھو بننے سے زیادہ کچھ اور قرار نہیں دیا جا سکتا۔ صوبائی وزراء کی جانب سے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے کی حقیقت بھی ’’من ترا حاجی بگویم، تو مرا حاجی بگو‘‘ سے زیادہ کچھ نہیں۔ جہاں تک گزشتہ 70 سال پرانے اور فرسودہ نظام اور استحصالی ایجنڈے کا تعلق ہے تو سوال یہ ہے کہ موجودہ پنجاب کابینہ میں کتنے ارکان ایسے ہیں جو ماضی میں اس فرسودہ اور استحصالی نظام کے کل پرزے نہیں رہے؟ ایک آدھ کے سوا موجودہ کابینہ کے سبھی ارکان ماضی کے فرسودہ اور استحصالی نظام کو چلانے والی اسمبلیوں میں بھی موجود اور متحرک رہے ہیں، پھر یہ لوگ فرسودگی اور استحصال کا طعنہ کس کو دے رہے ہیں؟
وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ کے انقلاب، تبدیلی، ترقی اور خوشحالی کے تمام دعوے تسلیم، مگر کیا وزیراعلیٰ آج بھی اپنی شناخت چھپاکر ایک عام آدمی کی حیثیت سے صوبائی سیکرٹریٹ میں داخلے کی صعوبت برداشت کرسکتے ہیں؟ عام آدمی کے طور پر کسی پٹواری سے رشوت دیئے بغیر فرد ملکیت حاصل کرسکتے ہیں؟ یا اپنی جائداد کا انتقال کروانے کا دعویٰ کرسکتے ہیں؟ کسی تھانے میں اپنا نام اور عہدہ بتائے بغیر بڑے سے بڑے جرم کی ایف آئی آر نذرانہ پیش کیے بغیر درج کروانے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ کیا صوبے کا کوئی ہسپتال ایسا ہے جو پروٹوکول اور شناخت کے بغیر انہیں معیاری علاج فراہم کرنے پر تیار ہو؟ یقیناً نہیں… پھر تبدیلی کے دعوے کیسے؟