بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں

آئندہ چار ماہ حکومت کے لئے سخت امتحان

وفاقی دارالحکومت ان دنوں گرما گرم خبروں کی زد میں ہے۔ کچھ کا تعلق نیب سے ہے، کچھ کا حکومت اور اس خطے سے ہے، اور چند موضوعات ملکی سیاست سے متعلق ہیں۔ تاہم ان میں کوئی بھی ایسا نہیں جسے نظرانداز کردیا جائے۔ حکومت اپنے دوسال مکمل کرچکی ہے اور اب ملک میں بلدیاتی اداروں کے انتخابات کی جانب بڑھنا شروع ہوئی ہے۔ کراچی ترقیاتی پیکیج کا اعلان بھی اسی کا حصہ ہے۔ اس پیکیج کی خاص بات یہ ہے کہ عوام کو صرف منصوبوں کے بارے میں آگاہ کیا جائے گا، یہ نہیں بتایا جائے گا کہ وفاق اور صوبے نے اس میں کتنا حصہ ڈالا۔ یوں یہ پیکیج مل بیٹھ کر بانٹا جائے گا اور کراچی کو اس حال تک پہنچانے والے ہی پیکیج کی رکھوالی کریں گے۔ یوں حلیف اور حریف ایک تھالی میں کھائیں گے۔
سندھ کی طرح پنجاب میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بھی حکومت اور اس کے حلیف ایک دوسرے کے حریف بنتے نظر آرہے ہیں، اور کہیں حکومت اپنے حریفوں سے ہاتھ ملاتی نظر آئے گی۔ سیاسی جماعتوں کی جمہوریت اُسی وقت مستحکم ہوتی ہے جب انہیں مناسب حصہ مل جائے، ورنہ ان کی کتابوں میں جمہوریت خطرے میں رہتی ہے۔ جو خود کو جمہوریت پسند کہتے ہیں اصل میں ہردور میں جمہوریت کو خطرات بھی انہی سے لاحق رہے ہیں اور اب بھی ہیں۔ طاقت ور طبقات کو جمہوریت سے دل چسپی صرف اس حد تک ہے کہ وہ ہر حربہ استعمال کرکے عوام کو اپنے حق میں کرلیں۔ کہانی ہر جگہ یہی ہے کہ عوام کو خواص سے دور رکھا جائے، ان کے درمیان فاصلہ رہنا چاہیے۔ یہ امتیاز ہر معاشرے میں ہے، اور اصول یہی ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں، آئی ایم ایف اور عالمی ساہوکاروں کی نظروں میں پس ماندہ ملک ’’عوام‘‘ ہیں، برابری اور مساوات کی باتیں کتابی ہیں، عمل سے جن کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ مقتدر طبقے ہر وقت اپنے مفاد کی تکمیل کے لیے عام آدمی کے حقوق کی بات کرتے ہیں اورجمہوریت چاہتے ہیں۔ ترقی یافتہ ملک، آئی ایم ایف اور عالمی ساہوکار سب الگ الگ ہوکر بھی ایک ہیں، اور اسی طرح پس ماندہ ملکوں کی جمہوریت میں مختلف سیاسی جماعتوں میں رہ کر بھی کچھ طبقے ایک ہیں۔ جمہوریت کے لیے یہی طبقات خطرہ ہیں۔
الیکشن کمیشن ملک میں بلدیاتی انتخابات کا شیڈول دینے جارہا ہے، جس کے بعد چاروں صوبوں میں بلدیاتی انتخابات ہوں گے۔ مقامی بلدیاتی اداروں کے ذریعے صحت عامہ، تعلیم، صفائی ستھرائی اور دیگر تمام شعبے کام کرتے ہیں، مگر پاکستان میں بلدیاتی ادارے کبھی بھی طاقت ور سیاسی گھرانوں کے اثرات اور دبائو سے پاک نہیں رہے۔ نیب زدہ یہ گھرانے ’’الیکٹ ایبل امیدواروں‘‘ کی نرسری ہیں اور ہر انتخابات میں یہی گھرانے مختلف سیاسی جماعتوں کے جھنڈے اٹھائے نکل پڑتے ہیں، اور عوام کے ووٹ لے کر اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں پر قابض ہوجاتے ہیں۔ اِس بار بھی ایسا ہی ہوگا۔ پاکستان کی وہ سیاسی جماعتیں جو ان طبقات کی نمائندہ نہیں ان کا کوئی ہوم ورک نہیں، لہٰذا ان کے لیے مزاحمت کرنا ممکن ہی نہیں رہتا، بلکہ کسی حد تک یہ بھی انہی طبقات کے سامنے تنکے کی مانند بہہ جاتی ہیں۔ نیب اپنے قیام سے لے کر آج تک عوام کا اعتماد حاصل نہیں کرسکا، ایبڈو سے لے کر آج کے احتساب ادارے تک سب کچھ ایک جیسا ہی ہے، سیاسی مخالفین کے گرد شکنجہ کسنے کے لیے اسے استعمال کیا جاتا ہے۔ نیب کے حالیہ چیئرمین کی مدت بھی اگلے ماہ مکمل ہونے جارہی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں بات چیت جاری ہے، وزیراعظم اور قائد حزبِ اختلاف مل کر نیب کا چیئرمین مقرر کرتے ہیں۔ نیب قانون میں ترامیم لائی جارہی ہیں، یہ ترامیم سیاسی گھرانوں کے لیے ہی مفید ہوں گی، کوئی غریب اور مستحق نیب سے فائدہ نہیں اٹھا سکے گا۔
گزشتہ دنوں وزیراعظم کے معاونِ خصوصی اور سی پیک اتھارٹی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے حوالے سے بہت کچھ سامنے آتا رہا، اگرچہ وہ خود پر لگنے والے الزام کی تردید کرچکے ہیں، تاہم یہ معاملہ ابھی تک منجدھار میں ہے جو اگر حل نہ ہوا تو سی پیک کا خالق ملک بھی براہِ راست مداخلت کرسکتا ہے۔ پیزا کرپشن اسکینڈل کے آنے پر چین کی دخل اندازی کا خدشہ موجود ہے، حکومت اس کوشش میں ہے کہ معاملہ دب جائے۔ اگر یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو اس بات کا خدشہ ہے کہ سی پیک پر بھی سوالات اٹھ سکتے ہیں۔ چین تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ کام کرتے ہوئے کچھ مشکل میں ہے کہ حکومت چینی منصوبوں میں کرپشن کی بات کرکے مسلم لیگ(ن) حکومت کے وزراء کو احتساب کے دائرے میں لانا چاہتی ہے جس پر چین کی حکومت نے تحفظات ظاہر کیے تھے کہ ہمارے منصوبوں میں کرپشن نہیں ہوئی پھر کیوں یہ معاملہ اچھالا جارہا ہے؟ اب عاصم سلیم باجوہ کا معاملہ ایک نیا تنازع بن کر سامنے آیا ہے۔ اگرچہ اس کی تردید کی جاچکی ہے، تردید کرتے ہوئے یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ بھائیوں اور بیٹوں کی کمپنیاں موجود ہیں مگر ان کا حجم بہت چھوٹا ہے اور الزام بڑا ہے، میرے بیٹے کی کمپنی نے قیام سے اب تک کوئی کاروبار نہیں کیا، بیٹے کی کمپنی غیر فعال ہے، کرپٹن کمپنی نے کوئی بزنس نہیں کیا، ایڈوانس مارکیٹنگ کمپنی غیر فعال ہے اور اس نے کوئی کاروبار نہیں کیا، ہمالیہ لمیٹڈ کمپنی رجسٹرڈ ہے اور بیٹے کے پاس ہمالیہ لمیٹڈ کمپنی کے صرف 50 فیصد شیئر ہیں، یہ کمپنی بہت چھوٹی ہے، تین سال میں 5 لاکھ روپے کمائے ہیں، ایک بیٹے کے نام پر موچی کاڈوینر کمپنی موجود ہے، مگر یہ بھی ایک چھوٹی کمپنی ہے جس نے 5 سال میں نقصان اٹھایا ہے، کرپٹن مائننگ کمپنی اُس وقت رجسٹرڈ کی گئی جب وہ بلوچستان میں تعینات تھے، یہ کمپنی فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں 2019ء میں رجسٹرڈ ہوئی، دو بھائیوں کی کمپنی سلک لائن انٹرپرائزز کو سی پیک کا کوئی ٹھیکہ نہیں ملا، یہ کمپنی رحیم یار خان میں صنعتوں کو افرادی قوت فراہم کرتی ہے، بیٹوں نے امریکہ میں گھر بینک قرض کے ذریعے لیا ہے، اورگھر کی 80 فیصد رقم ابھی ادا کرنا ہے، بیٹوں کی عمریں 33، 32 اور 27 سال ہیں اور امریکہ کی بڑی یونیورسٹیوں سے انہوں نے بزنس کی ڈگریاں لی ہوئی ہیں، امریکہ میں بہت اچھی تنخواہ پر نوکریاں ملی ہیں، اہلیہ پر اپنے ڈیکلیریشن میں اثاثے چھپانے کا الزام بھی غلط ہے، ڈیکلیریشن جمع کروانے کی تاریخ 22 جون 2020ء تھی مگر یکم جون 2020ء کو باہر کی تمام کمپنیوں سے سرمایہ کاری ختم کردی تھی، اہلیہ نے 19 ہزار ڈالر کی سرمایہ کاری تھی، اہلیہ نے میرے بھائی کی کمپنی میں سرمایہ کاری کی جو میری اپنی 18 سال کی جمع پونجی ہے، سرمایہ کاری کے لیے اسٹیٹ بینک کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی نہیں کی گئی، باجکو گلوبل مینجمنٹ کی پاپا جونز پیزا کا چین میں کوئی ملکیتی مفاد نہیں، 18 سال کے عرصے میں میرے بھائیوں نے تقریباً 70 ملین ڈالر کے اثاثے اور فرنچائز خریدیں، 70 ملین ڈالر میں سے تقریباً 60 ملین ڈالر بینک کے قرضے شامل ہیں، بھائیوں اور اہلیہ کی کیش سرمایہ کاری 73ہزار امریکی ڈالر ہے، میرے بھائیوں کی 54 ہزار ڈالر کی سرمایہ کاری کا ریکارڈ موجود ہے، پانچ بھائیوں میں سے کوئی بھی میرے زیرکفالت نہیں رہا، دو ڈاکٹر، ایک امریکی بینک کا نائب صدر رہا، بھائی اسٹورنٹ آپریٹنگ کمپنی کا کنٹرولر، ایک ریستوران چین کا شراکت دار رہا، پانچ بھائیوں اور اہلیہ کے کاروبار میں 50 دیگر سرمایہ کار بھی تھے، باجکو کے تحت 27 کمپنیاں امریکہ، 2 متحدہ عرب امارات میں ہیں۔ عاصم سلیم باجوہ کی جانب سے یہ تردیدی بیان جاری کیا گیا، مگر اس تردید میں ہر جگہ اقرار بھی موجود ہے۔ حکومت کے سامنے سوال ہے کہ وہ تردید تسلیم کرے یا اقرار پر مٹی ڈال کر آگے بڑھے؟ اسے اتفاق کہیں یا کوئی منصوبہ، اگرچہ وزیراعظم نے عاصم سلیم باجوہ کا معاونِ خصوصی کے عہدے سے استعفیٰ قبول نہیں کیا اور انہیں کام جاری رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے، تاہم ابھی حتمی فیصلہ ہونا باقی ہے، کیونکہ اگر یہ بحث ختم نہ ہوئی تو حکومت کو تردید یا اقرار میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا، اور یہ کام جس قدر جلدی ہوجائے اتنا ہی بہتر رہے گا۔ کیونکہ حکومت کے دو سال مکمل ہوچکے ہیں، اس کی گردن پر نااہلی کے سوالوں کا طوق موجود ہے، اسے تین سال کے بعد انتخابی میدان میں جانا ہے، اور الزامات کا جواب نہ دیا جائے تو یہ حکومتوں کو ان کے تخت سمیت گہری اور اندھی کھائی میں لے جاتے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں رہتی۔
تحریک انصاف کی حکومت اب تک نااہلی کے الزامات کے باوجود اس لیے کام کررہی ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے سیاسی کھاتوں کے ہر صفحے پر کرپشن کے بدترین داغ ہیں، اور انہیں اپنی صفائی پیش کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ کرپشن کی وجہ سے ان دونوں جماعتوں کو حکومت کے خلاف کسی بھی احتجاجی تحریک کے لیے اسٹریٹ پاور نہیں مل رہی، لیکن تحریک انصاف بھی اسی جانب سفر کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ فی الحال خارجہ امور سے متعلق کچھ ایسے مسائل ہیں جن کے باعث حکومت کی بچت ہورہی ہے، لیکن اگلے چار ماہ حکومت کے لیے سخت امتحان کے ہیں۔ اگر تحریک انصاف نے اپنی صف بندی نہ کی تو اس کے خلاف اچانک اس کے قلعہ کے سامنے اسٹریٹ پاور نمودار ہوسکتی ہے۔ یہ اسٹریٹ پاور نئے انتخابات کے لیے ہوگی یا کسی نئے نظام کے لیے سہارا بنے گی، فی الحال یہ نکتہ واضح نہیں ہے، لیکن ایک بات بڑی واضح ہونے جارہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی سیاست میں جان پڑنے والی ہے اور پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے بجائے اس سے بات کی جائے، اسی لیے دونوں ابھی کسی ایک پیج پر نہیں آرہی ہیں، دونوں اپنا اپنا ہوم ورک کررہی ہیں، وہ پوری طرح سمجھتے ہیں آئندہ دنوں پاکستانی سیاست میں کیا ہونے جارہا ہے؟ عدالت میں صدارتی نظام کے حوالے سے دائر رٹ پٹیشن بے مقصد نہیں ہے، اگرچہ سپریم کورٹ میں یہ رٹ مسترد ہوچکی ہے مگر یہ سوال عدلیہ کے روبرو اٹھایا جاتا رہے گا، لیکن سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ آئین میں ترمیم خود کیسے کرسکتی ہے؟ اس کا جواب آئین کے آرٹیکل186میں موجود ہے کہ ’’اگر کسی وقت صدر مناسب خیال کرے کہ کسی قانونی مسئلے کے بارے میں جس کو وہ عوامی اہمیت کا حامل خیال کرتا ہو، عدالت عظمیٰ کی رائے لی جائے، تو وہ اس مسئلے کو عدالت عظمیٰ کے غور کے لیے بھیج سکے گا‘‘۔ صدارتی نظام کے بارے میں دائر رٹ پٹیشن کو نظرانداز کردینا مناسب خیال نہیں ہے۔ ملکی سیاست کے مدوجزر کو سمجھنے کے لیے اس پر توجہ رہنی چاہیے۔ اسی طرح آئین کے آرٹیکلز 191,190,189,188میں عدالت عظمیٰ کے اختیارات کی وضاحت موجود ہے اور آئین عدالت عظمیٰ کی تشریح تسلیم کرنے کا پابند بنایا گیا ہے۔ لہٰذا اس بات مدنظر رکھ کر ہی تجزیہ کیا جاسکتا ہے کہ سیاسی حالات میں تبدیلی کا جہاز کس بندرگاہ پر جاکر لنگرانداز ہوگا۔
ایک اہم ترین پیش رفت یہ بھی ہے کہ اگلے ماہ ملک میں معمول کے مطابق کچھ تبدیلیاں متوقع ہیں، جن کا تعلق ’’راولپنڈی‘‘ سے ہے، وہاں سے کچھ اہم فیصلے آنے والے ہیں۔ ملکی سیاست ان تبدیلیوں کے بعد ایک نئے رنگ میں نظر آئے گی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کراچی میں بارش سے ہونے والے حالیہ نقصان کا جائزہ لیا ہے۔ تاجر طبقے کی رائے ہے کہ کراچی فوج کو پھر پکار رہا ہے۔ آرمی چیف کا کراچی کے معاملات سے متعلق طویل اجلاس ہوا۔ کراچی کے لیے تین سال کا ایک بڑا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ نئے انڈسٹریل زون بنیں گے، سیوریج اور سڑکوں کا مسئلہ حل کیا جائے گا۔ اس حوالے سے سب کچھ طے ہوچکا ہے۔