امر یکہ میں عورت کی تار یخ

(تلخیص و ترجمہ: ناصر فاروق)

یہ ممکن ہے کہ جب (امریکہ کی) معیاری تواریخ کا مطالعہ کیا جائے توملک کی آدھی آبادی کو بھلادیا جائے! محققین مرد تھے، زمیندار اور تاجر مرد تھے، سیاسی رہنما بھی مرد تھے، فوجی بھی مرد ہی تھے۔ یہاں عورت مکمل طور پر ’غائب‘ نظر آتی ہے۔ یہ اُس کی ماتحتی نمایاں کرتی ہے۔ یوں یہ عورت سیاہ فام غلام جیسی کوئی شے معلوم ہوتی ہے (اس طرح غلام عورت دگنے عتاب میں گھری نظر آتی ہے)۔ عورت کی حیاتیاتی انفرادیت، نیگروز کے رنگ و نقوش کی طرح کمتر اور ادنیٰ جنس قرار پائی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ عورت کی جنسی صفات مردوں کی تسکین کا ذریعہ تھیں، ایک ایسی جنس کہ جسے وہ استعمال کرسکیں، لوٹ کھسوٹ سکیں، اور لذت بھی حاصل کرسکیں۔ بیک وقت جنسی تسکین بھی حاصل کرسکیں، اور غلام بناکر بھی رکھ سکیں، اور بچے پالنے والی بناکر رکھ چھوڑ سکیں۔ ایسے معاشرے جہاں ذاتی زمین جائداد پر مسابقت تھی، ایک بیوی اور بہت سارے بچوں والا خاندانی نظام تھا، عورت کی کمتر حیثیت گھریلو غلام جیسی تھی، اور مسلسل استحصال تھا۔
امریکہ کے ابتدائی معاشروں میں جہاں خاندان بڑے بڑے ہوتے تھے، خالائیں اور خالو ہوتے تھے، نانیاں اور دادیاں ہوتی تھیں، عورت کی قدر کی جاتی تھی۔ مگر بعد میں گوروں کی آمد سے ذاتی جائداد اور عورت سے زیادتی کا سلسلہ شروع ہوا۔
مثال کے طورپر جنوب مغربی علاقے کے ’زونی‘ قبائل میں بڑے بڑے خاندانوں کی بنیاد عورت تھی، جس کا شوہر اُس (عورت) کے خاندان میں رہ کر زندگی بسر کرتا تھا۔ یہ باور کیا جاتا تھا کہ عورتیں ہی گھروں کی مالکن ہیں، اور کھیت کھلیان مردوں کا علاقہ ہے، اور عورتوں کے لیے ہر طرح کی پیداوار میں یکساں حصہ ہوتا تھا۔ ایک عورت بہت محفوظ تھی، کیونکہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ رہتی تھی، اور جب چاہے طلاق حاصل کرسکتی تھی، اورجائداد بھی قبضے میں رکھتی تھی۔ ایسا بھی ہوتا تھا کہ عورتیں قبائلی سردار بن جاتی تھیں۔ عورتیں تیراندازی سیکھتی تھیں، خنجرساتھ رکھتی تھیں، اور ہر طرح کے حملے کا دفاع خود کرسکتی تھیں۔
یہ کہنا مبالغہ آرائی ہوگی کہ عورتوں کو بالکل مردوں کی طرح ہی برتا جاتا تھا، تاہم عورتوں کا بہت احترام موجود تھا۔ معاشرے کی گروہی فطرت نے عورت کو اہم مقام عطا کیا تھا۔ سفید فام آبادکاروں کی امریکہ آمد کے بعد، عورت کے لیے نئے حالات پیدا ہوئے۔ پہلی نوآبادکاری مردوں پر مشتمل تھی، عورتیں صرف درآمد شدہ جنسی غلام تھیں، بچے پیدا کرنے والی، اور داشتائیں تھیں۔ سن 1619ء وہ سال کہ جب پہلے سیاہ فام غلام ورجینیا لائے گئے تھے، 90 عورتیں جیمس ٹاؤن پہنچائی گئی تھیں، یہ سب ایک ہی کشتی کی سوار تھیں: آمادہ اور جوان… جنھیں اُن کی منظوری سے نوآبادکاروں کے ہاتھوں بطور ’’بیویاں‘‘ بیچا گیا تھا، وہ قیمت جو اُن کی امریکہ منتقلی کی مد میں تھی، یوں ہی ادا ہوئی۔ ابتدائی برسوں میں امریکہ پہنچنے والی نوجوان لڑکیاں غلاموں سے کچھ مختلف نہ تھیں، خدمت گاری کی طے شدہ مدت انھیں پوری کرنی ہوتی تھی۔ انھیں بہرصورت آقاؤں اور بیگمات کا تابعدار رہنا ہوتا تھا۔کتاب Americas Working Women کے مصنفینBaxandall، Gordon، اور Reverbyکچھ یوں منظرنگاری کرتے ہیں: ’’انھیں (عورتوں کو) انتہائی کم اجرت دی جاتی، اکثر ظالمانہ سلوک سے دوچار رہتی تھیں، اچھی خوراک اورنجی زندگی کی سہولت سے محروم رکھی جاتی تھیں۔ یقیناً اس خوفناک صورت حال نے مزاحمت پیدا کی۔ علیحدہ علیحدہ خاندانوں میں یوں زندگی بسر کرتی تھیں کہ باہم رابطے بھی مشکل تھے۔ آقاؤں کی جانب سے غلام عورتوں کا جنسی استحصال عام ہوچکا تھا۔ ورجینیا اور دیگر نوآبادیوں کا عدالتی ریکارڈ بتاتا ہے کہ بہت سے گورے آقا غلام عورتوں کے جنسی استحصال پر طلب کیے گئے تھے، مگر یہ وہ مقدمات تھے جو بہت سنگین اورنمایاں ہوچکے تھے۔ عام طور پر اکثرمعاملات پردے میں ہی رکھے جاتے تھے۔ ‘‘
سن1756ء میں غلام عورت ایلزبتھ اسپرگس والد کوخط میں لکھتی ہے: ’’یہاں انگریز (غلام عورتیں) اُس تکلیف دہ صورت حال سے دوچار ہیں کہ جس کا اندازہ آپ کی طرح انگلینڈ میں موجود کوئی فرد بھی نہیں لگاسکتا، میں بھی اُن ہی ناخوش لوگوں میں سے ایک ہوں۔ دن رات مشقت میں گزرتے ہیں، جانوروں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں، ہر وقت گالیاں پڑتی ہیں، باندھ کر مارا پیٹا جاتا ہے، اور آخر میں کھانے کے لیے مکئی کے چند دانے اور نمک دے دیا جاتا ہے۔ نیگروز کے ساتھ دہری بدسلوکی ہوتی ہے، وہ تقریباً برہنہ ہوتی ہیں، پیروں میں جوتیاں تک نہیں ہوتیں۔ ہمارا آرام بس اتنا ہے کہ تھک ہار کر ایک چادر خود پر ڈال کر ننگے فرش پر پڑجاتے ہیں۔ ‘‘
سیاہ فام غلاموں کی امریکہ تجارت کے بارے میں جو ہولناکیاں بھی تصور کی جاسکتی ہیں، انھیں’’سیاہ فام عورتوں‘‘ کے معاملے میں لازماً ضرب دینا چاہیے، جو عموماً ہر کارگو کا ایک تہائی حصہ ہوا کرتی تھیں۔ غلاموں کے تاجروں کو ایک رپورٹ دی گئی جس میں کہا گیا: ’’میں نے زنجیروں میں جکڑی سیاہ فام حاملہ عورتوں کو بچے جنتے دیکھا، جب کہ ان ہی زنجیروں سے بندھی کئی ایسی لاشیں بھی موجود تھیں کہ جنہیں نشے میں چُور آقاؤں نے اب تک وہاں سے نہیں ہٹایا تھا… اکثر انسانوں کی تجارت کے دوران زچگی اسی طور ہوتی تھی… ایک نیگرو عورت کو دیکھا گیا کہ جسے زنجیروں سے جکڑ کر عرشے پر ہی ڈال دیا گیا تھا، اور وہ صدمے سے بدحواس ہوچکی تھی۔‘‘
ایک عورت، جس کا نام لِنڈا برینٹ تھا جو غلامی کی زندگی سے خلاصی پاچکی تھی، بتاتی ہے: ’’میں جب اپنے غلام بچپن سے غلام جوانی کی سرحدوں میں داخل ہوئی، میرا مالک میرے کان میں بیہودہ سرگوشیاں کرنے لگا، وہ ہر موقع پر مجھے یاد دلاتا کہ میں اُس کی ملکیت ہوں، اور قسمیں کھا کھا کر کہتا کہ مجھے جھکنے پر مجبور کرکے رہے گا۔ اگر میں کبھی تازہ ہوا کے لیے باہر نکلتی، اُس کی مجھ پر کڑی نظر رہتی۔ یہاں تک کہ جب میں اپنی ماں کی قبر پر جاتی، وہ خوفناک سایہ بن کر پیچھا کرتا تھا۔ میرا نازک دل بہت بوجھل ہوچکا تھا۔ ‘‘
یہاں تک کہ سفید فام آزاد عورت بھی، جو ابتدائی نوآبادکاروں کے لیے ’خریدی گئی بیوی‘ تھی، بڑی مشقت سے دوچار کی گئی۔ اٹھارہ شادی شدہ عورتیں، جنھیں جہاز مے فلار میں امریکہ پہنچایا گیا، اُن میں سے تین حاملہ تھیں، اور ایک دورانِ سفر مُردہ بچے کو جنم بھی دے چکی تھی۔ زچگی اور بیماریوں نے ان عورتوں میں وبا پھیلادی تھی، موسم بہار تک ان میں سے صرف چار عورتیں ہی زندہ بچی تھیں۔
(جاری ہے)