المیۂ فلسطین ماضی، حال اور مستقل کے آئینے میں
(چوتھا حصہ)
چوری اور سینہ زوری
اسرائیل کا قیام اور انتہائی بے بنیاد دعووں کی بنا پر اس کے ’’جواز‘‘ کا ذکر ہم کرچکے ہیں، لیکن جن عرب دشمن جارحانہ کارروائیوں کے لیے اسرائیل کو عرب دنیا کے دل میں ایک ناسور کی طرح پیدا کیا گیا تھا وہ کارروائیاں اس کے قائم ہونے کے ساتھ ختم نہیٖں ہوئیں، بلکہ ایک طرح سے ان کا آغاز 1949ء کے بعد ہی ہوا۔
1948ء سے لے کر اب تک اسرائیل کی ہر حرکت اس کوشش کی تکمیل میں رہی ہے کہ اس کی حدود زیادہ سے زیادہ پھیل جائیں، 1956ء میں اسرائیل نے برطانیہ اور فرانس کے ساتھ مل کر مصر پر جو حملہ کیا تھا اسے بھی اسی سلسلے کی ایک بڑی کوشش کا نام دیا جاسکتا ہے۔ اُس حملے کے بعد ہی اسے خلیج عقبہ میں جہازرانی کا حق حاصل ہوگیا تھا۔ 1956ء ہی میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ مصر اور اسرائیل کے درمیان امن قائم رکھنے کے لیے اقوام متحدہ کی ایک فوج اس سرحد پر تعینات ہوجائے۔ اپنی روایتی ہیکڑی دکھاتے ہوئے اسرائیل نے اس فوج کو اپنی سرزمین پر آنے کی اجازت نہیں دی تھی، اقوام متحدہ اور ہندوستان جیسے ملکوں کے ساتھ اسرائیلی تکبر اور دھونس کا یہ ثبوت ہے کہ حالیہ حملے کے دوران میں اسرائیلی حملہ آوروں نے اقوام متحدہ کے دستے کے ہندوستانی سپاہیوں کو چن چن کر نشانہ بنایا۔ ہمارے 18 جوان اور ایک نوجوان افسر ان اس کی جارحیت کا شکار ہوچکے ہیں۔
ہاں تو ذکر 1956ء کا ہورہا تھا، اُس وقت جہاں ایک طرف ہنگامی فوج بنائی گئی، وہیں دوسری طرف یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ اسرائیل اور اس کے دوسرے عرب پڑوسیوں یعنی اردن، شام اور لبنان کے درمیان امن قائم کرنے کے لیے ملے جلے فوجی کمیشن بنائے جائیں، جن میں اسرائیل، عرب ملکوں، اور اقوام متحدہ کے غیر جانب دار فوجی مبصر شامل ہوں۔ یہ کمیشن یوں تو 1948ء ہی سے قائم تھے لیکن اسرائیل نے ان کا بائیکاٹ کررکھا تھا۔ 1956ء میں اس نے وعدہ کیا کہ وہ ان سے تعاون کرے گا، لیکن کچھ وقت گزرنے پر اس نے پھر ان کا بائیکاٹ شروع کردیا۔
اسی دوران میں اسرائیل نے اپنی جارحانہ کارروائیاں کئی محاذوں پر جاری رکھیں، مثال کے طور پر اس نے دریائے اردن کا رخ موڑنا شروع کردیا۔ اس کے پانی پر اسرائیل قطعی کوئی حق نہیں رکھتا، اس طرح اس کا رخ موڑنے سے شام، اردن اور لبنان کے بڑے حصے ویران ہوجائیں گے۔ اس کے علاوہ اسرائیل نے اُن علاقوں پر بھی قبضہ کرلیا جو معاہدے کے مطابق غیر فوجی علاقے قرار دیئے گئے تھے اور جن پر کسی فریق کو قبضے کا اختیار نہیں تھا۔
اسرائیل کی جارحانہ کارروائیوں کا ایک بدترین اظہار اُس کا وہ حملہ تھا جو اُس کے بیسیوں ٹینکوں اور بکتربند فوجی دستوں نے نومبر 1966ء میں اردن کے گائوں سموہ پر کیا، اس حملے میں سو سے زیادہ عرب شہری مارے گئے اور کئی سو زخمی ہوئے، حملے کے دوران عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو بھی بے دریغ موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ اس حملے کا جواز صرف یہ دیا گیا کہ اس علاقے کی طرف سے اسرائیل کے خلاف توڑپھوڑ کی کارروائیاں ہوتی تھیں۔ یہ کس قدر بے بنیاد دلیل تھی، اس کا ثبوت یہی ہے کہ سلامتی کونسل میں خود امریکہ کو یہ قرارداد پیش کرنا پڑی کہ ’’جوابی کارروائی کے بہانے اسرائیل کا اردن پر حملہ بالکل ناجائز تھا اور اگر ایسے بہانوں کو تسلیم کرنے کی رسم اپنائی گئی تو عالمی امن خطرے میں پڑ جائے گا‘‘۔
تقریباً متفقہ طور پر منظور شدہ اس قرارداد میں اسرائیل کی جن بنیادوں پر مذمت کی گئی عین وہی بنیادیں حالیہ جنگ میں بھی موجود تھیں، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اِس بار امریکہ یا اُس کے ساتھیوں کو اسرائیل کے خلاف معمولی حد تک بھی زبان ہلانے کی جرأت نہیں ہوئی۔ کیا اس کی وجہ محض یہ ہے کہ وہ حملہ نسبتاً معمولی سطح پر تھا اور عرب مزاحمت کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوا، اور حالیہ حملہ بہت بڑی سطح پر کیا گیا اور اس کے جارحانہ عزائم کی تکمیل میں کوئی شک و شبہ نہیں رہا۔ ہندوستان نے بہرحال سموہ پر حملے کی بھی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی تھی اور وہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز اٹھا رہا ہے۔
پچھلے برسوں میں اسرائیل نے یوں تو بے شمار جارحانہ کارروائیاں کیں، مگر کئی بار اس نے ایسی شدید قسم کی دھاندلی دکھائی کہ سلامتی کونسل کو بھی 6 بار اس کی مذمت کی قرارداد پاس کرنے پر مجبور ہونا پڑا (یاد رہے کہ سلامتی کونسل کے ارکان میں امریکہ اور برطانیہ بھی شامل ہیں)۔ اقوام متحدہ میں 27 بار اسرائیل کی جارحانہ کارروائیوں کے خلاف قراردادیں منظور ہوچکی ہیں۔ دنیا کے کسی ملک کے خلاف اقوام متحدہ کو اتنی مرتبہ آواز اٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی، مگر عربوں نے دنیا کو ایک بار بھی شکایت کا موقع نہیں دیا۔ مغرب والوں نے اسرائیل ہی کی پیٹھ ٹھونکی ہے اور عربوں ہی کو قصوروار ٹھیرایا ہے۔ سچ ہے جسے چاہے پیا، وہی سہاگن۔
اسرائیل نے اب تک اقوام متحدہ کے ان دو درجن سے زیادہ قراردادوں کی بھی پروا نہیں کی جن میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل سے نکالے ہوئے عربوں کو اپنے وطن واپس جانے، یا اگر وہ چاہیں تو مناسب معاوضہ لینے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ اسرائیلی بڑی ڈھٹائی سے کہتے رہتے ہیں کہ ہم ایک بھی عرب کو واپس نہیں آنے دیں گے۔
اسرائیلی جارحیت کا یہی روپ سب سے خطرناک ہے کہ اس نے اپنے جارحانہ عزائم کے سامنے عالمی رائے عامہ کی کوئی پروا نہیں کی۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کی عام اسمبلی میں اُس کے خلاف سو سے زیادہ ملکوں کی اکثریت کے ساتھ یروشلم پر اُس کے قبضے کے خلاف دو ریزولیوشن پاس ہوچکے ہیں مگر اسرائیلی لیڈر انہیں انتہائی حقارت سے ٹھکرا رہے ہیں۔ خیر اس ضمن میں تفصیلی بات آگے چل کر ہوگی۔ ان تمام حرکتوں کے باوجود اسرائیل کی طرف سے شور ہوتا رہتا ہے کہ پڑوسی عرب ملکوں کی طرف سے اُس کے خلاف توڑ پھوڑ کی کارروائیاں ہوتی رہتی ہیں، اس لیے وہ ان ملکوں کے خلاف سخت قدم اٹھانے پر ’’مجبور‘‘ ہوجاتا ہے۔ یہ بات کتنی لغو ہے، اس کا ثبوت یہی ہے کہ اسرائیل ایک بار اس پر تیار نہیں ہوتا کہ اقوام متحدہ جیسے غیر جانب دار ادارے کے مبصر اس کے الزامات کی تصدیق کرلیں۔
جارحانہ ’’مجبوریاں‘‘
حالیہ حملے کی شروعات بھی ایسے ہی اوٹ پٹانگ الزامات سے ہوئی تھی، کچھ عرصے سے اسرائیل شور مچا رہا تھا کہ شام کی طرف سے اُس کے علاقے میں تخریب کار آتے ہیں، اگر انہیں روکا نہ گیا تو اسرائیل دمشق تک قبضہ کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک ایسا ہی جھوٹ تھا جیسا اسرائیل نے 1956ء میں مصر پر حملہ کرتے وقت گھڑا تھا۔ عرب جانتے تھے کہ اسرائیل کا اصل مقصد شام کی آزادی کو ہڑپ کرنا ہے، اس کے ساتھ ہی وہ اردن کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ اس موقع پر متحدہ عرب جمہوریہ کے پاس اس کے سوا کوئی اور چارہ ہی نہیں تھا کہ وہ شام کے ساتھ اپنے معاہدے کا پاس کرتے ہوئے براہِ راست اس کی مدد کو آئے۔ یہ اسی صورت میں ممکن تھا جب ہنگامی فوج اس علاقہ سے ہٹ جائے۔ چنانچہ مصر نے اقوام متحدہ کے ساتھ اپنے سمجھوتے کا حق استعمال کرتے ہوئے اسے ہٹانے کا مطالبہ کیا، جسے منظور کرلیا گیا۔
متحدہ عرب جمہوریہ نے اس کے فوراً بعد خلیج عقبہ سے اسرائیلی جہازوں کے گزرنے کی ممانعت کردی۔ صدر ناصر کا یہ قدم عالمی قانون کے عین مطابق تھا۔ خلیج عقبہ بحیرۂ قلزم پر کوئی 98 میل لمبی ایک خلیج ہے جس کے ایک کنارے پر متحدہ عرب جمہوریہ ہے اور دوسرے پر سعودی عرب۔ کسی زمانے میں اسی راستے سے مصری حاجی حجاز جایا کرتے تھے۔ شروع دور کے مسلمان عربوں نے جب مصر فتح کیا تھا تو یہی راستہ اپنایا تھا۔ خلیج عقبہ یوں تو 14 میل چوڑی ہے لیکن اس میں جہازرانی کے قابل چار میل چوڑی آبنائے طیران ہی ہے جو جزیرہ طیران (جو سعودی عرب کی عمل داری میں ہے) اور مصری ساحل پر شرم الشیخ کی چوکی کے درمیان بہتی ہے، سخت چٹانوں کی وجہ سے کوئی بھی جہاز مصری ساحل سے ایک میل سے زیادہ دور نہیں رہ سکتا۔
عالمی قانون کے تمام قاعدوں کے مطابق ایسی آبنائوں اور خلیجوں پر اُن ہی ملکوں کا اختیار ہوتا ہے جو اس کے آس پاس اختیار رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود اسرائیل اس خلیج کے ذریعے جس بندرگاہ ایلات تک اپنے جہاز لے جاتا ہے اس پر بھی اُس نے زبردستی 1949ء میں قبضہ کیا تھا، اقوام متحدہ نے تقسیمِ فلسطین کا جو منصوبہ بنایا تھا اس میں ایلات شامل نہیں تھا۔ گویا اس علاقے پر اسرائیل کا اپنا قبضہ بھی قطعاً ناجائز تھا۔ ان ہی حقائق کی بنا پر عربوں نے اس خلیج سے اسرائیلی جہازوں کو گزرنے کی ممانعت کردی۔ اس پر اسرائیل نے خوب شور مچایا۔ مغربی ملکوں نے بھی اس معاملے میں دل کھول کر اُس کی پیٹھ ٹھونکی۔ ہندوستان اور کئی افریشیائی ملکوں نے عربوں کی پُرزور حمایت کی، لیکن ان کی ایک نہ چلی۔
بدی کا بہانہ
عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ حالیہ حملے کی شروعات مصر کی طرف سے خلیج عقبہ کو اسرائیلی جہازوں پر بند کرنے سے ہوئی۔ ہوسکتا ہے کہ یہ بات کسی حد تک درست ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ خلیج عقبہ کا سوال کوئی اہم سوال نہیں تھا۔ اوتھانٹ نے 23 مئی 1967ء کو سلامتی کونسل کو جو رپورٹ پیش کی اُس میں بھی انہوں نے کہا تھا کہ بحران کی اصلی وجہ نہ تو اقوام متحدہ کی فوجوں کا صحرائے سینا سے ہٹایا جانا ہے اور نہ ہی خلیج عقبہ کی ناکہ بندی… بلکہ اس کی وجہ وہ تمام مسائل ہیں جنہوں نے پچھلے بیس سال میں وسط مشرق کے امن کے لیے خطرے پیدا کردیئے ہیں۔ اپنی اس رپورٹ میں اوتھانٹ نے واضح ترین الفاظ میں لکھا تھا کہ عرب اسرائیل سرحدوں پر تعینات اقوام متحدہ کے فوجی مبصروں کی طرف سے انہیں جو رپورٹیں موصول ہوئی ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ شامی اسرائیلی سرحد پر اسرائیل کی فوجی تیاریوں نے انتہائی خطرناک صورت حال پیدا کردی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اپنی رپورٹ میں مزید کہاکہ اسرائیل نے کئی بار ان تیاریوں سے باز رہنے کا وعدہ کیا لیکن اس کے باوجود اُس کی تیاریاں جاری رہی ہیں۔ اس سے قبل 15 مئی کو اپنے ’’قومی دن‘‘ کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے اسرائیل کے وزیراعظم ایشکول نے کہا تھا کہ ’’اسرائیل کے صبر کی حد ہوچکی ہے اور شامیوں کو سبق سکھانے کے لیے اگر ضرورت پڑی تو اسرائیل دمشق تک پہنچنے سے گریز نہیں کرے گا‘‘۔
اسی دوران اسرائیل نے سلامتی کونسل کی ہر ایسی کوشش کو ناکام بنادیا جس کا مقصد مغربی ایشیا میں امن قائم رکھنا تھا۔ مثال کے طور پر اسرائیل اور اُس کے مغربی حامیوں نے ہندوستان کی یہ سیدھی سی تجویز منظور نہیں کی کہ اسرائیل اور اُس کے ساتھ لگنے والے تمام عرب ملکوں کی سرحد پر اقوام متحدہ کے فوجی مبصر زیادہ بڑی تعداد میں تعینات کیے جائیں۔ یہ تجویز بھی تھی کہ عرب اسرائیل جنگ بندی کے مشترکہ کمیشن دوبارہ کام شروع کردیں۔ 1949ء کے جنگ بندی معاہدوں کے تحت قائم کیے گئے ان کمیشنوں میں اقوام متحدہ، اسرائیل اور متعلقہ عرب ملکوں کے فوجی نمائندے شامل تھے، مگر اسرائیل نے اوٹ پٹانگ بہانوں کی بنا پر ان کمیشنوں کا بائیکاٹ کررکھا ہے۔ حالیہ جنگ سے پہلے اسرائیل نے ان کمیشنوں کو دوبارہ مؤثر بنانے کی ہندوستانی تجویز کو رد کرکے یہ ظاہر کردیا کہ اُس کے اس شور شرابے میں کوئی وزن نہیں تھا کہ عرب ملک ہی اُس کے خلاف فوجی تیاریاں کررہے تھے۔ اس نے یہ تجویز اسی لیے رد کی کہ اس کی جارحانہ کارروائیوں میں کوئی رکاوٹ نہ آنے پائے۔ ایک سیدھا سا سوال یہ بھی ہے کہ اگر خلیج عقبہ پر اسرائیلی دعوے میں کوئی بھی وزن ہوتا تو اسرائیلیوں کو عربوں کی طرف سے متعدد بار دہرائی گئی اس پیش کش کو ماننے سے کبھی انکار نہ ہوتا کہ اس مسئلے پر عالمی عدالت کی رائے لے لی جائے۔
آستیں کا لہو
پیشتر اس کے کہ ہم حالیہ جنگ کا ذکر کریں، چند واقعات خاص طور پر قابلِ غور ہیں۔ پہلا غور طلب امر تو یہ ہے کہ اسرائیلی حملے سے پہلے امریکہ نے بار بار یقین دہانی کروائی کہ وہ مغربی ایشیا میں کسی بھی فریق کو جنگ میں پہل کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ مثال کے طور پر 23 مئی کو امریکی صدر نے نہایت صاف لفظوں میں اعلان کیا کہ ’’مشرقِ قریب کے سب ہی ملکوں سے میں وہی بات دہرانا چاہتا ہوں جو امریکہ کے تین صدر پہلے کہہ چکے ہیں، وہ یہ ہے کہ امریکہ سب ہی ملکوں کی آزادی اور علاقائی یک جہتی میں یقین رکھتا ہے، امریکہ کسی بھی قسم کے براہِ راست یا بالواسطہ حملے کی پورے زور سے مخالفت کرے گا خواہ وہ کسی بھی فریق کی طرف سے کسی بھی بہانے شروع کیا گیا ہو‘‘۔
اسی دن امریکی سفیر نے متحدہ عرب جمہوریہ کے وزیر خارجہ سے ملاقات کرکے انہیں باقاعدہ یقین دلایا کہ اگر وہ پہل نہ کریں تو امریکہ اس بات کی ذمہ داری لیتا ہے کہ وہ اسرائیل کی طرف سے کیے گئے کسی بھی جارحانہ حملے کی بھرپور مخالفت کرے گا۔ 23 مئی ہی کو امریکی صدر نے صدر ناصر کو ایک ذاتی پیغام بھیجا جس میں کہا گیا کہ میں آپ سے پُرخلوص اپیل کرتا ہوں کہ آپ اپنے عوام، اپنے علاقے کے امن اور عالمی برادری کے مفاد کا خیال رکھتے ہوئے ہر ممکن کوشش کریں کہ جنگ کا آغاز نہ ہونے پائے۔ انہوں نے یہ پیشکش بھی کی تھی کہ وہ امریکی نائب صدر کو قاہرہ بھیج سکتے ہیں تاکہ حل طلب معاملے آمنے سامنے طے ہوجائیں۔ صدر ناصر نے اس تجویز کا خیرمقدم کرتے ہوئے جواب دیا کہ وہ اپنے ملک اور دوسرے عرب ملکوں کے دفاع کے سوا کسی فوجی اقدام میں دلچسپی نہیں رکھتے، انہوں نے یہ بھی کہاکہ متحدہ عرب جمہوریہ کے نائب صدر امریکی نائب صدر سے بھی پہلے واشنگٹن جاکر امن کی کوششوں کو تقویت پہنچانے کے لیے تیار ہیں۔ 3 جون کو امریکی وزارتِ خارجہ نے صدر ناصر کے اس بیان کا خیرمقدم کرتے ہوئے جناب زکریا محی الدین کو 7 جون کو واشنگٹن آنے کی دعوت دے دی۔
26 مئی کو امریکی نائب وزیر خارجہ مسٹر روسٹوف نے واشنگٹن میں مقیم مصری سفیر کو بلایا اور ان سے بات چیت کی۔ یہ بات چیت اس حقیقت کی بدترین مثال ہے کہ بڑی طاقتوں نے کس طرح عربوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔ روسٹوف نے مصری سفیر کو بتایا کہ اسرائیلی وزیر خارجہ نے شکایت کی ہے کہ متحدہ عرب جمہوریہ اگلے دن اسرائیل پر ایک زبردست حملہ کرنے والا ہے۔ روسٹوف نے مصری سفیر سے کہاکہ اگر ایسا ہوا تو اس کے نتائج انتہائی سخت ہوں گے، اپنے طور پر امریکہ پوری کوشش کرتا رہے گا کہ اسرائیل کسی بھی فوجی قدم سے باز رہے۔
یکم جون کو امریکی وزیر خارجہ ڈین رسک نے یہی بات متحدہ عرب جمہوریہ کے سفیر سے پھر دہرائی۔ اسی دوران روس اور امریکہ کے درمیان بھی خفیہ نامہ و پیام جاری رہا۔ امریکہ کی طرف سے روس کو دی گئی یقین دہانیوں کی بنا پر روس کی طرف سے دو بار (26مئی اور 30جون کو) متحدہ عرب جمہوریہ پر باقاعدہ سرکاری مراسلوں میں زور دیا گیا کہ وہ اپنی طرف سے کوئی پہل نہ کرے۔
زبانِ خنجر
ان ہی یقین دہانیوں کی بنا پر متحدہ عرب جمہوریہ نے سیاسی اور فوجی اندازے کی دو خطرناک ترین غلطیاں کر ڈالیں۔ پہلی تو یہ کہ اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے خلاف فوری جوابی کارروائی کا خیال ترک کردیا گیا۔ شاید اس سے بھی بڑی دوسری غلطی یہ کی کہ اسرائیلی ہوائی حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے جو مصری ہوائی جہاز دن رات لگاتار اڑانیں کیا کرتے تھے اُن کی نگران اڑانوں کا سلسلہ تیل کی کفایت کے خیال سے بند کردیا گیا۔ یاد رہے کہ ایک جیٹ ہوائی جہاز کی ایک گھنٹے کی اڑان پر کم از کم ڈھائی سو گیلن پیٹرول خرچ آتا ہے اور ایسی اڑانوں کے لیے تقریباً 80 ہوائی جہازوں کے ہر وقت ہوا میں رہنے کی ضرورت تھی۔
بہرحال جہاں مصر نے یقین دہانیوں کی بنا پر اپنی فوجی تیاریوں میں ڈھیل دینے کی بھیانک غلطی کی، وہیں امریکنوں اور انگریزوں نے پوری شدت کے ساتھ اسرائیلی حملہ آوروں کو مدد بہم پہنچانی شروع کردی۔ 1956ء میں نہر سویز پر حملے کی ناکامی سے سبق حاصل کرتے ہوئے سامراجیوں نے اپنے حالیہ حملے کے دوران براہِ راست حصہ نہیں کیا لیکن بالواسطہ حملے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ عرب ملکوں کی آزادی پر یہ بالواسطہ حملہ کئی طریقوں سے کیا گیا۔
عرب ملکوں کے خلاف حالیہ سامراجی سازش کی پوری کڑیوں کا ابھی تک پتا نہیں چل سکا، ظاہر ہے کہ ایسے انکشافات کو سامنے آتے ہوئے کچھ وقت لگتا ہے۔ 1956ء میں مصر پر جو حملہ کیا گیا تھا اس کی صحیح نوعیت کے انکشاف کو بھی آٹھ برس لگ گئے تھے۔ اب آئزن ہاور کی اُس زمانے کی ذاتی ڈائری، موشے دایان کی خودنوشت یادداشت، اور برطانیہ کے نائب وزیر جنگ اینٹونی نٹنگ کی کتاب کی اشاعت کے بعد ہی یہ پتا چلا ہے کہ 1956ء کی سازش کتنی گہری تھی۔ بہرحال موجودہ حالات میں بھی چند ناقابلِ تردید حکایات اور شہادتیں ایسی ہیں جو اس عظیم سازش کے کئی پہلو بے نقاب کرتی ہیں، ان میں سے چند ایک حسب ذیل ہیں:۔
(1) 15 مئی ہی سے امریکی جاسوس ہوائی جہازوں نے متحدہ عرب جمہوریہ کے اوپر اڑانیں شروع کردی تھیں۔ ان اڑانوں میں یو۔ ٹو قسم کے جہاز اور جاسوسی کرنے والے طیارے استعمال کیے گئے۔ اس کی شہادت اُن گرفتار شدہ اسرائیلی پائلٹوں نے دی ہے جو حالیہ حملے سے کچھ ہی پہلے امریکہ سے اسرائیل گئے تھے۔
(2) حالیہ حملے سے کچھ ہی پہلے متحدہ عرب جمہوریہ، شام اور اسرائیلی ساحل کے آس پاس امریکی اور برطانوی جہازوں کی زبردست نقل و حرکت دیکھی گئی۔ ان جنگی جہازوں میں امریکہ کا چھٹا بحری بیڑہ بھی شامل تھا، اس بحری بیڑے میں ایک بڑی تعداد ایسے جہازوں کی ہے جنہیں تیرنے والے ہوائی اڈوں کا نام دیا جاسکتا ہے، یہ خیال اغلب ہے کہ 5 جون کو متحدہ عرب جمہوریہ پر جو ہوائی حملے کیے گئے ان میں سے کئی ہوائی جہاز ان طیارہ بردار امریکی جہازوں ہی سے اڑے ہوں گے۔ اس خیال کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اکثر اسرائیلی ہوائی جہاز 15 یا 20 منٹوں میں اڑانیں کرکے مصری اڈوں پر پہنچ گئے، حالانکہ جس راستے سے وہ آئے تھے اس سے وہاں پہنچتے ہوئے انہیں کم از کم 35 یا 40 منٹ ضرور لگتے۔ جس راستے سے اسرائیلی ہوائی جہاز مصری اڈوں پر پہنچے اس کا فاصلہ 35 سو میل سے زیادہ تھا۔ ان میں سے بعض جہاز اتنے ہلکے تھے کہ وہ اسرائیلی اڈوں سے اُڑ کر وہیں پر واپس جانے کے لیے کم از کم 70، 80 منٹوں کی مسافت کا پیٹرول اپنے ساتھ نہیں لاسکتے تھے۔ یہ بھی یاد رہے کہ ہوائی حملے پر جانے والے جہازوں کو اس طرح سے راستہ کاٹنا پڑتا ہے اور دشمن کے جہازوں سے لڑنے یا ان سے بچ نکلنے کے لیے اتنی زیادہ اڑان کی ضرورت ہوتی ہے کہ انہیں ایک عام سفر کے مقابلے میں کم از کم تین گنا زیادہ پیٹرول چاہیے، یہ تمام پیٹرول اور سازو سامان انہیں چھٹے بحری بیڑے کے طیارہ بردار جہازوں ہی سے ملا۔ سینائی میں گرائے جانے والے ایک اسرائیلی جہاز سے کئی خطرناک قسم کے میزائل اور ایسا جنگی سامان برآمد ہوا ہے جو صرف امریکہ ہی کے پاس ہے، اور جو اس نے آج تک اپنے کسی ساتھی یا دوست ملک کو نہیں دیا۔
(3) 31مئی 1967ء کو ریڈیو پیرس کے ایک نشریے میں بتایا گیا کہ 300 کینیڈین یہودی فوجی اسرائیل جاتے ہوئے پیرس سے گزرے۔ ریڈیو کے بیان کے مطابق وہ پہلی جون کو اسرائیل پہنچنے والے تھے۔ اسی ریڈیو نے اسی نشریے کے دوران یہ انکشاف بھی کیاکہ مالٹا، قبرص اور اسی علاقے میں دوسرے برطانوی فوجی اڈوں پر بڑی ہی پراسرار قسم کی فوجی سرگرمیاں دیکھی گئی ہیں۔ اس بات کا بھی کھلے عام چرچا تھا کہ امریکہ اور برطانیہ کے تربیت یافتہ یہودی فوجی افسر اور ہوا باز والنٹیرز کی صورت میں دھڑا دھڑ اسرائیل پہنچ رہے ہیں۔
(4) ترکی کے مشہور اخبار ’’اقسام‘‘ کی 7 جون کی اشاعت میں امپالی کے امریکی فوجی اڈے میں کام کرنے والے ایک ترک ملازم کا خط شائع ہوا کہ اس اڈے پر موجود سب ہی امریکی جنگی ہوائی جہازوں پر 3 اور 4 جون کو امریکی جھنڈے کے نشانات کو مٹاکر اسرائیل کا نشان دائود کا ستارہ لگادیا گیا، اس کے فوراً بعد ایف 104 قسم کے ان جنگی ہوائی جہازوں کو اسرائیل کی طرف اڑتے ہوئے دیکھا گیا۔
برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف کی 25 مئی کی اشاعت میں یہ انکشاف موجود ہے کہ اسرائیل کو برطانیہ اور امریکہ سے کئی قسم کا فوجی سامان دھڑا دھڑ پہنچنا شروع ہوگیا ہے۔
19مئی ہی کو امریکی فوجی کمان نے لیبیا میں وہلس میں اپنے فوجی اڈے میں ہنگامی صورت حال کا اعلان کرکے سب ہی مقامی ملازموں کو اس کے آس پاس آنے سے منع کردیا، اس دوران اس سارے علاقے میں امریکی ہوائی جہازوں کی بڑی ہی پراسرار نقل و حرکت دیکھی گئی۔
لڑائی سے کچھ پہلے اور اس کے بعد امریکی جاسوس جہاز لبرٹی خلیج عقبہ کے دہانے پر موجود تھا۔ فوجی نقل و حرکت کا پتا لگانے کے لیے اس جہاز پر جو سازو سامان موجود ہے اسے دنیا بھر میں بہترین تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسی جہاز میں ایسا سامان بھی موجود ہے جس کی مدد سے آس پاس کے ساحل پر لگائے ہوئے راڈار جام کرکے ناکارہ بنائے جاسکتے تھے۔ صاف ظاہر ہے کہ 5 جون کی صبح کو اسرائیلیوں نے جو حملہ کیا وہ اس لیے بھی کامیاب رہا کہ لبرٹی اور اسی قسم کے دوسرے امریکی جہازوں پر لگے بہترین قسم کے نیوکلیئر آلات کی بدولت مصری راڈار سسٹم جام ہوکر ہوائی جہازوں کا پہلے سے پتا لگانے میں ناکام رہا تھا۔ یہ جہاز لبرٹی مصری ساحل سے اس قدر قریب تھا کہ شرم الشیخ کی چوکی کے پاس اسرائیلی اندھا دھند بمباری کا نشانہ بھی بن گیا۔ امریکی رسالہ ’’نیوز ویک‘‘ (16 جون) کے مطابق امریکہ ہی کے کچھ اعلیٰ فوجی مبصروں کا خیال ہے کہ اس جہاز پر اسرائیلیوں نے جان بوجھ کر بمباری کی تاکہ اگر کچھ سال بعد خود امریکہ میں اس بات کی تحقیقات ہوکہ اسرائیل کو فوجی مدد کیوں اور کیسے پہنچائی گئی تھی تو اس کا کوئی واضح ثبوت نہ ملے۔ بہرحال یہ صاف ظاہر ہے کہ عین جنگ کے دوران لبرٹی جیسا اہم ترین امریکی جہاز مصری ساحل کے اتنا نزدیک تھا کہ آسانی کے ساتھ زمینی توپوں کی گولہ باری کی زد میں آگیا۔
(جاری ہے)