بچے ، بیماری اور غذا

”سر! اسے ٹائیفائیڈ ہے۔ روٹی تو نہ کھلاؤں ناں؟“
”سینہ جکڑا ہوا ہے، چاول تو نہیں کھلا سکتے؟“
”سر گلا خراب ہے، دہی کیسے کھلاؤں!“
بچوں کی بیماری اور ان کی ماؤں کی ”کیا کھلائیں“ کی پریشانیاں روز کا معمول ہیں، اوپر سے ملنے والوں کے طرح طرح کے مشورے۔
کوئی بھی انسان جب بیمار پڑتا ہے تو سب سے پہلے اس کی بھوک متاثر ہوتی ہے، اور بیماری انسان کے انرجی پیدا کرنے اور اس کے خرچ کرنے کے نظام کو تبدیل کردیتی ہے، میٹابولزم اس نظام کا نام ہے۔ یعنی ایک طرف بچہ کچھ کھا نہیں رہا اور اس پر آپ اُس کے کھانے کی چیزوں پر بلا جواز پابندی عائد کردیں… اب اس کی روزمرہ کی توانائی کی ضروریات کہاں سے پوری ہوں گی!
بیماری کے دوران انرجی کی ضرورت بڑھ جاتی ہے، مثلاً بخار کسی بھی وجہ سے ہو، آپ کا جسم لڑنے کی صلاحیت بہترین اسی وقت استعمال کرسکتا ہے جب اس کو بہترین انرجی ملے، اور اس کے لیے غذا کی شدید ضرورت ہے۔
آپ سوچیں، بچے کو ٹائیفائیڈ ہے اور اس کی روٹی بند، تو وہ کیا کھائے؟ اول تو وہ کچھ کھاتا ہی نہیں، اگر روٹی مانگ لے تو ہم بند کردیتے ہیں اور بازار کے بسکٹ اور ڈبل روٹی کھانے کو دیتی ہیں۔ گھر کی سادہ صاف ستھری روٹی بہتر ہے یا بازار کی چیزیں؟
کھانسی ہوگئی تو چاول کا استعمال روک دو۔ اب اگر اس بچے کی پسند چاول ہیں تو وہ کیسے کچھ اور کھائے گا!
چھوٹا بچہ ہے، اس کا پیٹ خراب ہوا، وجہ چاہے کچھ بھی ہو، اس کا دودھ کیسے بند کیا جاسکتا ہے!
تو بات یہ سمجھ میں آئی کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ بچہ بیماری کے دوران بہترین طریقے سے بیماری کا مقابلہ کرے تو ہمیں اس کو بیماری میں بھی ممکنہ حد تک بہترین غذا فراہم کرنی ہوگی۔ بہترین غذا سے مراد مرغن یا مہنگی غذا نہیں بلکہ بھرپور اور متوازن غذا ہے۔
بخار میں، چاہے وہ ٹائیفائیڈ کی وجہ سے ہی کیوں نہ ہو، بچہ اگر گھر کی بنی ہوئی چپاتی کھانا چاہتا ہے تو اس کو کھلائیں، اس میں بالکل کوئی حرج نہیں، ہاں البتہ اس بات کا خیال رہے کہ زبردستی نہیں بلکہ اس کی خواہش پر، اور تھوڑا تھوڑا بار بار۔ اور اگر وہ سوجی کی ہلکی کھیر یا سوجی کا حریرہ پینا چاہے تو ضرور پلائیں۔
پھلوں کا استعمال بھی بخار میں منع نہیں۔ سیب کا چھلکا اتارکر نرم حصہ ٹائیفائیڈ میں کھلایا جاسکتا ہے۔
اسی طرح کھانسی، نزلہ یا نمونیہ میں بھی اگر سادے چاول کھانے کی بچے کی خواہش ہے اور وہ تھوڑے سے کھا لے تو بالکل بھی کوئی حرج نہیں۔ کیلے کے استعمال میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ شہد کو گرم پانی میں ملا کر سال بھر سے بڑے بچوں کو ضرور استعمال کرائیں۔
نزلہ، کھانسی میں یخنی کا استعمال انتہائی مفید ہے، اسی طرح دمہ کی طرح کھانسی میں بڑے بچوں کے لیے تھوڑی سی کافی یا چائے فائدہ مند ہے۔
جن بچوں کو ڈائریا ہوجائے انہیں لازمی طور پر نمکول، او آر ایس کا پانی بار بار پلائیں، ساتھ ہی ساتھ 6 ماہ سے بڑے بچوں کو کیلا، کھچڑی، ساگودانہ وغیرہ دودھ کے ساتھ جاری رکھیں۔ ڈائریا میں جسم سے نمکیات اور پانی بڑی مقدار میں ضائع ہوجاتے ہیں، اس لیے کسی بھی عمر کے بچے کے لیے نمکول یا او آر ایس بہت ضروری ہے۔
ابلے ہوئے چاولوں کا پانی جس کو ”پیچ“ کہا جاتا ہے، 4 ماہ سے اوپر کے بچوں کے لیے ڈائریا میں بہترین ہے۔
ڈائریا میں عام طور پر بچے الٹیاں بھی بہت کرتے ہیں، ایسے میں ”تھوڑا تھوڑا بار بار“ کی ترکیب اکثر کارآمد ثابت ہوتی ہے، یعنی بجائے بہت سارے او آر ایس کے پانی کے، بار بار چند گھونٹ پلاتے رہیں۔
جن بڑے بچوں کو یرقان ہوجائے زیادہ بہتر ہے کہ انہیں کم چکنائی اور کم مسالے کی غذا دیں اور پھلوں کا استعمال زیادہ کرائیں۔
بنیادی طور پر جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ بیماری کے دوران اور اس کے فوراً بعد توانائی میں کمی آجاتی ہے ۔ ایسے میں ہمیں اپنے بچوں کو پیار سے وہ غذائیں کھلانے کی کوشش کرنی ہے جو آسانی سے ہضم ہوجائیں ، جو بہت زیادہ مرغن اور مسالے والی نہ ہوں ، جو بچہ کھانے کی خواہش ظاہر کرے ۔
بیماری میں غذا بند کرنے کا مطلب بچے کی توانائی کے ذرائع کو محدود کرنا ہے، جس کی وجہ سے اس کی بیماری سے بچاؤ یا لڑنے کی صلاحیت میں کمی آجاتی ہے، اور جس کا سیدھا مطلب بیماری کے بعد بحالی صحت میں تاخیر ہے۔

…………
ڈاکٹر اظہر چغتائی (MD, Fellowship in Neonatology USA) چائلڈ اسپیشلسٹ اینڈ نیوبورن کنسلٹنٹ ہیں، ان سے بچوں اور ان سے متعلقہ بیماریوں سے متعلق سوالات مندرج ای میل پر کرسکتے ہیں:۔
drazharchaghtai@gmail.com