یہ بات بلا خوف ِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ حضور سید الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِ طیبہ اور پیغامِ سیرت پر لکھی جانے والی کتابوں اور مضامین و مقالات کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔ بلاشبہ یہ ایک ایسا وسیع سلسلہ ہے جس کا ختم ہونا غیر ممکن ہے، لیکن اس میں جگہ پانا قابلِ فخر ہے۔ اس لیے کہ یہ قرآن ِناطق کی سیرت ہے، وقت کے ساتھ ساتھ قرآنِ کریم کی طرح سیرت کے بھی نئے نئے پہلو سامنے آتے جائیں گے اور سیرتِ طیبہ کی عظمت اور معنویت کے نئے نئے پہلو ہمارے سامنے روشن ہوتے چلے جائیں گے۔ انسانی تاریخ میں ایک ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہے جس کا ایک ایک ورق روشن اور شخصیت کا ایک ایک پہلو تاباں ہے، جس کا اعتراف کرتے ہوئے مشہور مستشرق فلپ کے۔ حتی لکھتے ہیں:
Mohammad was born within the full light of history.
’’محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تاریخ کی بھرپور روشنی میں پیدا ہوئے۔‘‘
جب کہ جان ڈیون پورٹ نے اپنی کتاب ’’اپالوجی فار محمد اینڈ قرآن‘‘کا آغاز ہی ان الفاظ سے کیا:
’’اس میں کچھ شک نہیں کہ تمام مقننین اور فاتحین میں ایک بھی ایسا نہیں ہے کہ جس کے وقائع عمری، محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے وقائع عمری سے زیادہ مفصل اور سچے ہوں‘‘۔
برصغیر پاک و ہند میں، بالخصوص اردو زبان میں، سیرتِ طیبہؐ کے موضوع پر جو وقیع کام ہوا ہے وہ قابلِ قدر اور باعث ِ رشک ہے۔ یہ اعزاز اردو زبان کو حاصل ہے کہ سیرت کے موضوع پر جتنی کتابیں اردو میں لکھی گئی ہیں اتنی کتابیں کسی اور زبان میں نہیں لکھی گئیں۔
پیش ِ نظر کتاب ’’سید البشر صلی اللہ علیہ وسلم۔ بے مِثل و بے مِثال‘‘ اپنے عنوان کی طرح سیرتِ طیبہؐ پر ایک خوبصورت اور منفرد کتاب ہے، جس میں سرورِ دوعالم، خاتم النبیین، شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم کی بے مِثل و بے مِثال شخصیت کا عصرِ حاضرکی روشنی میں ایک جامع اور مُدلّل تذکرہ پیش کیا گیا ہے۔
کتاب کے نام کی طرح اس کے عنوانات اور ترتیب بھی منفرد ہے: نامِ نامی اسم گرامی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم)، قرآن آپؐ کا عظیم ترین معجزہ، آپؐ پر سب سے زیادہ لکھا گیا، آپؐ کی ثنا سب سے زیادہ کی گئی، توئی تسکین دل آرام جاں صبر و قرارِ من، آپؐ کو کثرت عطا کی گئی ہے، جو چیز آپؐ سے جڑی اَمر ہوگئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوّلین قانون دینے والے، معجزہ ہے میرے سرکار کا اُمّی ہونا، ان کی رحمت نہیں فقط ہم پر، جامعیت و کاملیت۔ درج بالا موضوعات پر فاضل مؤلف نے تفصیل سے اظہار ِ خیال کیا ہے۔ اس سلسلے میں متقدمین و متاخرین سیرت نگاروں اور مستشرقین کی نگارشات اور جدید کتب و رسائل سے بھرپور استفادہ کیا گیا ہے۔
فاضل مؤلف ڈاکٹر خالد علی انصاری پیشے کے لحاظ سے طبیب ہیں اور گزشتہ دو عشروں سے کینیڈا میں مقیم ہیں، لیکن علم و ادب سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ دس سال سے زائد عرصے تک کراچی سے معروف ماہنامہ ’’ساحل‘‘ شائع کرتے رہے ہیں۔ حصولِ معاش میں سرگرداں رہنے کے باوجود سکونِ قلب اور نجات اُخروی کی فکر نے انھیں سیرت نگاری کی جانب مائل کیا۔
فاضل مؤلف نے سیرتِ طیبہ کے مختلف گوشوں پر تفصیلی معلومات فراہم کی ہیں۔ مزید برآں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت رکھنے والی تمام شخصیات، مقامات اور اشیاء سے متعلق بعض ایسی باتیں، معلومات اور اعداد و شمار سامنے لائے ہیں جو اردو دان طبقے کے لیے نئے ہیں۔
ڈاکٹر خالد علی انصاری اپنی اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’سیرت نگاری صدیوں کا فاصلہ طے کرکے آج جس مقام تک پہنچی ہے وہ حیران کن ہے۔ آپ جس بھی موضوع کا تصور کرسکتے ہوں وہ کام احباب نے پہلے ہی کیا ہوا ہے۔ سیرتِ طیبہ پر اَن گنت کتابیں لکھی گئی ہیں، مگر سیرتِ طیبہ کی یہ نرالی شان ہے کہ آج بھی جستجو کرنے والوں کو نئی جہتیں میسر آتی ہیں۔ جب تک ذہنوں میں نئے نئے سوالات جنم لیتے رہیں گے، نت نئے مسائل سامنے آتے رہیں گے، اہلِ علم و نظر اپنی استعداد اور اپنے اپنے ظرف کے مطابق ان سوالوں کے جوابات بہم پہنچاتے رہیں گے۔
پیغمبر اسلام، ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلے ہی اتنا لکھا جاچکا ہے جو تمام شعبہ ہائے حیات کا احاطہ کرتا ہے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات ہی کی بات کی جائے تو ان معجزات کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے۔ یہاں کے مغربی معاشرے میں ایک استعارہ “Does it make sense” عام استعمال ہوتا ہے کہ کیا کہی گئی کوئی بات منطقی ہے یا نہیں، اور یہ بات ایک عام، غیر جانب دار اور انصاف پسند شخص کو عقلی طور پر سمجھائی جاسکتی ہے یا نہیں۔ لہٰذا اس کتاب کے لیے مواد جمع کرنے، نکات اکٹھے کرنے اور انھیں ضبطِ تحریر میں لانے تک میں نے اس بات کی حتی الامکان کوشش کی کہ اپنی تحریر کو صرف اُن نکات تک محدود رکھوں جنھیں محض عقیدت کی وجہ سے نہیں بلکہ منطقی (Logically) طور پر سمجھا اور سمجھایا جاسکتا ہو۔ ان نکات کا پڑھنے والا اور انھیں سننے والا کہہ اٹھے کہ بات تو ٹھیک کہی گئی ہے۔‘‘
فاضل مؤلف نے سیرت نگاروں اور محققین کے لیے مستقبل کے ممکنہ عنوانات کی نشان دہی بھی کی ہے۔کتاب کے مطالعے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ موصوف اپنی اس کوشش میں کامیاب رہے ہیں، جس کے لیے وہ قابلِ مبارک باد اور لائق ِ تحسین ہیں۔