استشراق و مستشرقین سے تعلق رکھنے والی کوئی تحریر ہمارے ہاتھ لگتی ہے تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اس کا تعارف فرائیڈے اسپیشل کے قارئین سے کرائیں۔ زیر نظر کتاب ’’مطالعہ استشراق کے مناہج‘‘ اس سلسلے کی ایک اہم کتاب ہے۔ مرتبین و محققین ِکتاب تحریر فرماتے ہیں:۔
’’مستشرقین کے اعتراضات کا جواب دینے کے لیے اہلِ علم میں چار رویّے موجود ہیں:۔
(1) علمی و فکری اسلوب، (2) مناظرانہ اسلوب، (3) معذرت خواہانہ اسلوب، (4) استشراقی اعتراضات سے صرفِ نظر کرنے کا رویہ۔
اوّل الذکر دونوں طریقے مثبت طریقِ کار اور مثبت نتائج کے حامل ہیں۔ مناظرانہ انداز اگرچہ اپنے زمانے میں بڑا مؤثر تھا لیکن ہر دور کے اپنے تقاضے ہیں۔
کتاب میں چاروں اسالیب، اور ان اسالیب کو اختیار کرنے والی نمایاں شخصیات کے علمی کام کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔
کتاب کے موضوع کی اہمیت یہ ہے کہ مستشرقین اسلام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، قرآن مجید اور اسلام کے بہت سے پہلوئوں پر اپنے مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لیے اعتراضات کرتے ہیں، اشکالات پیدا کرتے ہیں، اور مسلمانوں کے ہاں طے شدہ مسلمہ امور میں شکوک و شبہات پیدا کرکے اور حقائق کو مسخ کرکے اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کرتے ہیں تاکہ اسلام کی ایسی تصویر دنیا کے سامنے پیش کی جائے کہ مسلمان بھی اپنے مذہب سے بدگمان ہوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ذہنوں میں اس مسخ شدہ تصویر کو دیکھ کر اسلام کے بارے میں کوئی نرم گوشہ پیدا نہ ہونے پائے۔ مستشرقین کا ایک مخصوص اور پُرپیچ اندازِ تحقیق ہے۔ وہ اپنی بات بڑے مؤثر انداز سے پڑھنے والوں کے ذہنوں میں منتقل کرتے ہیں۔ ان کے منفی پروپیگنڈے کا جواب دینے کے لیے ان کے اسلوب اور ذہنیت کو سمجھے بغیر اگر لکھا جائے تو یہ بالکل بے اثر ہوگا۔ ہم مستشرقین کے اعتراضات کا جواب لکھتے ہوئے کیا حکمت عملی اختیار کریں، اس سلسلے میں قرآن مجید ہی ہمارا راہنما ہے۔ قرآنی نصوص کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہمیں مخالفین سے نمٹنے کا بہترین لائحہ عمل دیتا ہے۔ کتاب کے دوسرے باب میں قرآنی آیات سے وہ لائحہ عمل اخذ کرکے پیش کیا گیا ہے جس کی ہمیں مخالفین سے نبرد آزمائی میں پابندی کرنی چاہیے۔ ان اصولوں سے انحراف ہمیں منزل سے دور لے جانے کا باعث بن سکتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بار بار یہی بات فرمائی تھی کہ قرآن کی بنیاد پر انہیں نصیحت فرمایا کریں۔ مخالفین سے کشاکش کے دوران قرآن سے رہنمائی کا موضوع دوسرے باب میں ہے۔
اس باب میں یہ بات بطورِ خاص واضح کی گئی ہے کہ قرآن یہ قطعاً گوارا نہیں کرتا کہ ہم مخالفین سے ہر وقت الجھائو کی کیفیت میں رہیں۔ دعوۃ اس کی متقاضی ہے کہ پُرسکون ماحول میں دعوۃِ دین کا کام کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی قرآن یہ بھی گوارا نہیں کرتا کہ ہم ماحول کو سازگار بناتے ہوئے مخالفین کی طرف جھکائو پیدا کرلیں۔
اس باب میں یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ مخالفین کے دلوں میں اسلام دشمنی چھپی ہوئی ہے، مخالفتِ اسلام میں ان کے مخفی عزائم اور خواہشات ہیں کہ وہ اسلام کو کسی صورت برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ بات قرآن نے اس لیے بیان کی ہے کہ ہم فضا کو سازگار بناتے ہوئے کہیں مخالفین کے عزائم سے آنکھیں بند نہ کرلیں۔
کتاب کے تیسرے باب میں مستشرقین کے اعتراضات کے جواب دیتے ہوئے اُن مسلمان علماء کی کوششوں کا ذکر کیا گیا ہے جنہوں نے علمی، منطقی اور واقعاتی شواہد کی بنیاد پر مستشرقین کے اعتراضات کا رد کیا ہے۔ مستشرقین عیسائی، یہودی یا دہریے ہیں۔ ان کے نزدیک نہ کتاب و سنت کی کوئی اسنادی حیثیت ہے، نہ ہماری تاریخ کی۔ ان لوگوں کے نقطہ نگاہ کا رد خالص عقلی اور واقعاتی شواہد کے ساتھ ہی کیا جاسکتا ہے۔ اس باب میں مولانا شبلی نعمانی، مولانا عبدالماجد دریا بادی، مولانا مودودی، ڈاکٹر محمد حمیداللہ اور مولانا ابوالحسن علی ندوی کی کاوشوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ وہ اسکالر ہیں جنہوں نے خالص علمی، عقلی اور واقعاتی شواہد کی روشنی میں استشراقی فکر کا تجزیہ کرکے ثابت کیا ہے کہ مستشرقین تحقیق کے مسلمہ اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ ان کے ہاں دلیل کے ماخذ کا کوئی معیار نہیں۔ وہ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ہم ماضی میں مسلمانوں کے بارے میں تعصب اور اسلام دشمنی کا شکار رہے ہیں۔ وہ مانتے ہیں کہ ہمارے ماخذ کمزور ہیں۔ ہمارے مذکورہ بالا مفکرین نے ثابت کیا ہے کہ مستشرقین باہمی تضادات اور تضاد فکری کا شکار رہے ہیں۔ ان زمینی حقائق کی روشنی میں مستشرقین کے اعتراضات علمی، تحقیقی اور تنقیدی معیارات پر درست ثابت نہیں ہوتے۔
کتاب کے چوتھے باب میں استشراقی فکر کے حوالے سے مسلمان علماء کے مناظرانہ اسلوب پر بحث کی گئی ہے۔
1857ء کے بعد جب ہندوستان پر سیاسی تسلط کے بعد فکری یلغار کرتے ہوئے برصغیر کے مسلمانوں کو ان کے مذہب سے برگشتہ کرنے کا منظم کام کیا گیا تو اُس وقت کے حالات کے تقاضے کے مطابق مسلمان علماء نے مسیحیت اور ہندوئوں کی یلغار کو روکنے کے لیے مناظرانہ انداز اختیار کیا۔ مناظرانہ انداز اگرچہ آج کے دور میں زیادہ پسند نہ کیا جاتا ہو، لیکن 1857ء کے بعد کے حالات میں یہی انداز اختیار کرنا وقت کی ضرورت تھی۔ مسلمان اپنے دین کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں رکھتے تھے اور وہ اُس وقت صرف جذبات اور عقیدت کے اعتبار سے مسلمان تھے۔ ان دونوں مذاہب کی سر توڑ کوشش تھی کہ مسلمانوں کو عیسائی بنالیں۔ مخالفین کو اس میں کامیابی حاصل بھی ہوئی۔ اُس وقت یہی مناسب تھا کہ مخالفین کو یہ بات سمجھائی جائے کہ وہ جن بنیادوں پر اسلام پر الزام تراشی کرتے ہیں، وہ سب باتیں تو خود اُن کے اپنے مذاہب میں بھی موجود ہیں۔ انہوں نے اسلامی عقائد پر اعتراضات کیے تو مسلمان علماء نے ثابت کیا کہ معترضین کے اپنے مذاہب فکری تضادات اور ابہامات کا شکار ہیں۔ اس کے مقابلے میں اسلامی عقائد کی شفافیت بھی واضح کی۔ جہاد، تعدادِ ازدواج اور ان جیسے متعدد موضوعات پر لکھا کہ یہ تمام باتیں مخالفین کے مذاہب میں موجود ہیں، اس لیے اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں۔
اس کتاب کے پانچویں باب میں مستشرقین کے اعتراضات کے سامنے کمزوری دکھانے والے معتدرین کے نقطہ نگاہ کی کمزوریوں اور ان کی اعتذار پر مبنی حکمت عملی کے اسلام اور اسلامی فکر پر منفی اثرات کا ذکر کیا گیا ہے۔ کتاب کے پانچویں باب میں سرسید احمد خان اور اُن کے متبعین کے اندازِ فکر کا تجزیہ کیا گیا ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ مغرب کی فکری یلغار کے مقابلے میں اس انداز نے اسلامی فکر اور مسلمات بلکہ اسلامی روح کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔
کتاب کے چھٹے باب میں مسلمانوں میں سے اُن علماء کے نقطہ نگاہ کا تجزیہ کیاگیا ہے جن کا خیال ہے کہ مستشرقین کے خیالات کو اسلام دشمنی پر محمول نہیںکرنا چاہیے اور ان کے اسلام کے بارے میں نقطہ نگاہ کو ایک چیلنج نہیں بنادینا چاہیے بلکہ مستشرقین بھی علماء کا ایک طبقہ ہے۔ ان کا اپنا مذہبی، فکری اور معاشی و معاشرتی پس منظر ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے پس منظر میں سوچتا ہے۔ کسی کی سوچ پر پابندی نہیں۔ اس لیے مسلمانوں کو ایک تحریک کے طور پر اپنے ذہنوں پر مستشرقین کو سوار نہیں کرلینا چاہیے اور ان کے اعتراضات کی وضاحت کرنے کا اس قدر اہتمام کرنے کی ضرورت نہیں۔
بالعموم علومِ اسلامیہ کے اساتذہ و محققین اور علماء کے بارے میں لوگ یہ شکوہ کرتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ مسلمان مغرب والوں کو اُن کے اعتراضات کا جواب کیوں نہیں دیتے؟ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس موضوع پر اس قدر لکھا جاچکا ہے کہ اس لکھے ہوئے مواد کا مجموعی جائزہ لینے اور اس مواد کی فہرستیں اور انڈکس بنانے کی ضرورت ہے۔ یونیورسٹیوں میں استشراق کا موضوع تحقیق کے اہداف میں شامل ہے۔ اعتراضات کے جوابات تو لاتعداد کتابوں میں دیے جارہے ہیں البتہ ایک بات کی اشد ضرورت ہے اور یہ کام جس قدر جلدی ہو، کیا جائے کہ اس موضوع پر تحقیق کو منظم اور مربوط کیا جائے۔ اس وقت ایسے اہلِ علم موجود ہیں جو ہمارے محققین اور طلبہ کی تحقیق کو راہنمائی مہیا کرسکتے ہیں کہ مغرب کے پیدا کردہ اشکالات کا جواب کس انداز سے دیا جائے۔ غیر منظم اور غیر مربوط تحقیق پیش کرنے سے مسلمانوں کا امیج بھی متاثر ہوگا اور استشراقی فکر کا محاکمہ بھی مؤثر طور پر نہیں ہوپائے گا۔
کتاب میں تمام بیان اردو زبان کی تحریروں سے متعلق ہے۔ انگریزی اور دوسری علاقائی زبانوں کو اس تحقیق میں شامل نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ دوسری اسلامی زبانوں جیسے عربی، فارسی، ترکی کے علاوہ یورپی زبانوں میں بھی بے شمار مقالات اور کتب دستیاب ہیں جن کے تراجم اردو میں ہوتے رہتے ہیں۔
لاریب کتاب کے مرتبین کی یہ رائے بہت قیمتی ہے کہ یہ کام منظم انداز اور حکمتِ عملی کے ساتھ ہونا چاہیے۔
کتاب سفید کاغذ پر طبع کی گئی ہے، مجلّد ہے۔
ششماہی ’’الایام‘‘ کراچی
ہمارے کراچی کے لیے باعثِ عزت و افتخار جو مجلات ہیں ان میں سرفہرست علمی و تحقیقی مجلہ ششماہی الایام ہے۔ یہ جلد 11کا شمارہ اوّل ہے۔ مسلسل عدد 21 اور جنوری۔ جون 2020ء کا شمارہ ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کی ہمت ہے کہ وہ اس پُرآشوب دور میں باقاعدگی سے اس کو شائع کررہی ہیں اور اردو کے خزائنِ علمی میں گراں قدر اضافہ کررہی ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ اداریے میں تحریر فرماتی ہیں:
’’مئی 2020ء میں HEC نے اپنے ادارے کے منظور شدہ جرائد کی فہرست جاری کی تھی جس میں الایام (نمبرشمارہ: 57 پر) موجود ہے، لیکن اس کے بعد گمان غالب یہ ہے کہ HEC نے ’’z‘‘ کیٹگری کے تمام جرائد کو ختم کرنے کا عندیہ دے دیا ہے، لہٰذا ملک کے 33 جرائد بشمول الایام، ہائر ایجوکیشن کمیشن کی فہرست سے خارج ہوگئے ہیں یا ہوجائیں گے۔ دیگر مدیرانِ جرائد کے بارے میں تو نہیں کہہ سکتی البتہ بہ حیثیت مدیرۂ الایام میں نے اس پر سجدۂ شکر ادا کیا ہے، کیونکہ ہمارا پورا عملہ HEC کے جائز و ناجائز مطالبات کو ماننے اور اس کے مطابق کارروائی کرنے میں اپنی ساری صلاحیت اکارت کررہا تھا، جریدے میں شامل ہونے والے مقالات کے معیار کی بات نہیں ہورہی تھی۔
آج سے گیارہ برس قبل جب ہم نے ’’الایام‘‘ کا اجرا کیا تو اس واضح مقصد کے تحت کیا تھا کہ ملک میں اسلامی تاریخ و تہذیب کے حوالے سے کوئی جریدہ شائع نہیں ہورہا ہے، اس کمی کو ہم ’’الایام‘‘ سے پورا کرنا چاہتے تھے۔ اسلامی تاریخ بتدریج بھلائی جاری ہے، مستند اور محقق تاریخ کی جگہ قصے کہانیوں اور اوہام کو ’’تاریخ‘‘ کے نام پر پھیلایا جارہا ہے۔ مؤرخین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اسلامی تاریخ کے چہرے کو گرد آلود نہ ہونے دیں۔
اس واضح مقصد کے تحت ’’الایام‘‘ کا اجرا عمل میں آیا تھا۔ اجرا کے تین سال بعد ہم نے HEC میں منظوری کے لیے درخواست دی جو کہ منظور ہوگئی اور ’’الایام‘‘ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے منظور شدہ جرائد کی لسٹ میں ’’z‘‘ کیٹگری میں شامل ہوگیا [بحوالہ نمبر: (DD/JOUR/AL-Ayyam/SS&H/2014/594) مورخہ 21 مارچ 2014ء]۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً HEC منظور شدہ جرائد پر مختلف شرائط عائد کرتا رہا، کچھ شرائط ہم نے پوری کیں اور کچھ نہیں کرسکے، لہٰذا الایام ’’z‘‘ کیٹگری سے آگے نہیں بڑھ سکا۔
یہ تجربہ ہمیں زیادہ خوش نہیں آیا۔ غیر معیاری بلکہ ردی مقالات کا ڈھیر لگ گیا، جو مقالہ جتنا ردی ہوتا اس کی سفارش اتنی ہی تگڑی ہوتی۔ پی، ایچ، ڈی کے اسکالر اور لیکچرر، اسسٹنٹ، پروفیسر وغیرہ اپنے مقالات کی اشاعت سے اس لیے دلچسپی رکھتے تھے کہ اس سے ان کی ’’ترقی‘‘ وابستہ تھی، لیکن اس صورت حال کی وجہ سے ہمارا مقصد اجرائے الایام پیچھے جا پڑا تھا۔ اسلامی تاریخ و تہذیب کے حوالے سے شاید ہی کوئی مقالہ موصول ہوتا، زیادہ تر علوم اسلامیہ کے مقالات موصول ہوتے، ان کا بھی معیار انتہائی مایوس کن ہوتا۔ ہم مقالہ مسترد کردیتے اور ساتھ ہی اپنے تعلقات بھی خراب کر بیٹھتے۔
بہرحال اب ہم یکسوئی سے ’’الایام‘‘ کے سفر کا دوسرا دور شروع کرسکیں گے جس میں اسلامی تاریخ و تہذیب کے حوالے سے محقق تحاریر کو جگہ دی جاسکے گی، بعض نادر و نایاب تحریروں کو بازیافت کے طور پر دوبارہ پیش کیا جاسکے گا۔ تاریخ کے پہلو بہ پہلو ادب کا برابر کا حصہ ہوگا، کیوں کہ یہ دونوں جڑواں علوم کی حیثیت رکھتے ہیں‘‘۔