جب ملک میں لائوڈ اسپیکر نیا نیا آیا تو اپنے ہمراہ نئی نئی مصیبتیں لایا۔ اس کے بل پر ہر وہ شخص تقریر کرنے کھڑا ہوگیا جو پہلے کسی جلسے میں دم بھی نہ مار سکتا تھا۔ اب یہ چڑیا جتنی آواز رکھنے والا بھی ابوالکلام آزاد، عطا اللہ شاہ بخاری، ظفر علی خان، بہادر یار جنگ، محمد علی جوہر جیسے دم خم رکھنے والے حضرات کی صف میں آکھڑا ہوا اور مُصر ہوا کہ ان شیروں کی گرج سنتے تھے، اب یہ بھی دیکھو کہ میں مائیکروفون کی کلیا میں کیا گڑ پھوڑتا ہوں۔
ایک تو ایسا مقرر، اور پھر لائوڈ اسپیکر ایسا کہ آج تیس برس سے لائوڈ اسپیکر پر تقریریں سن رہا ہوں اور حسرت ہی رہی کہ کبھی تو تقریر کے دوران میں یہ کمبخت لائوڈ اسپیکر بگڑنے سے باز رہے۔ خیر بگڑتا ہے تو بگڑے، مگر ایسا بے مروت ہے کہ بگڑ جائے تو مقرر سے یہ نہیں کہتا کہ بھیا ٹھیر جائو، میری سانس اکھڑ گئی ہے، ذرا دم لینے دو۔ بے چارہ مقرر ہے کہ برابر بولے چلا جارہا ہے اور لوگ ہیں کہ کھڑے ہوگئے ہیں، ہاتھ ہلا ہلا کر کہتے ہیں کہ آواز نہیں آرہی۔ پہلے تو مقرر سمجھتا ہے کہ تقریر کی داد مل رہی ہے، لیکن جب لوگوں کے ہاتھ بہت ہی ہلنے لگتے ہیں تو مقرر کی آنکھیں کھلتی ہیں۔ حالات کا جائزہ لینے کے بعد پہلے خاموش ہوتا ہے، پھر سراسیمہ ہوتا ہے۔ مستری کو بلاتا ہے۔ یہ مستری صاحب منہ میں بیڑی لیے اس انداز سے اسٹیج پر تشریف لاتے ہیں گویا مائیکرو فون کے نہیں، مقرر کے کان مروڑیں گے۔ مقرر پیچھے ہٹ جاتا ہے، مستری آگے بڑھتا ہے، بیڑی کا کش لگا کر مائیکرو فون کو کچھ کرتا ہے، پھر چٹکی بجاتا ہے، مقرر کو اشارہ کرتا ہے کہ بسم اللہ آئیے، بولیے۔ مقرر آگے بڑھتا ہے اور لوگوں سے پوچھتا ہے آواز آرہی ہے؟ وہاں سے ہاتھ ہلتے ہیں کہ نہیں۔ مستری پھر کچھ مستری پن کرتا ہے۔ لوگ خوش ہوجاتے ہیں اور چلاّتے ہیں کہ آرہی ہے، اب آرہی ہے۔
اب یہ مصیبت آن پڑتی ہے کہ مقرر بھول جاتا ہے کہ میں کیا کہہ رہا تھا۔ اسے یہ بھی یاد نہیں آتا کہ وہ کون سا فقرہ تھا جس پر میں نے زور سے آواز نکالی تھی، وہ کیا مقام تھا جہاں میں نے میز پر مُکّا مارا تھا۔ بہت سوچتا ہے مگر یاد نہیں آتا۔ آخر وہ مُکّا اپنے سر پر مار لیتا ہے اور جس طرح بھی بن پڑے تقریر شروع کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
خدا جانے کس رو میں ہم نے لائوڈ اسپیکر کا ترجمہ ’’آلہ مکبر الصوت‘‘ کیا تھا۔ اس کا ترجمہ تو ’’آلہ کریہہ الصوت‘‘ زیادہ مناسب تھا۔
اس لائوڈ اسپیکر نے ہمارے بڑے بڑے خان صاحب قسم کے گوّیوں کو پنگی خان بنادیا ہے۔ اس نے ہمارے سازوں کی نزاکت کو ختم کردیا۔ اب طبلہ سنیے تو یہ معلوم ہوتا ہے جیسے پھٹا ہوا ڈھول بج رہا ہو، ستارسنیے تو معلوم ہوتا ہے جیسے پتلی پتلی پتلیاں آپس میں ٹکرا رہی ہوں۔ اسٹیج کے ایکٹروں کی عادت اس نے ایسی بگاڑ دی ہے کہ وہ دو ڈھائی سو کے مجمع میں بھی مائیکرو فون لگاکر بولیں تو بولیں، ورنہ خود ہی بولتے ہیں اور خود ہی سنتے ہیں۔
کراچی میں، جہاں میں رہتا ہوں اس کے سامنے ایک وسیع میدان ہے۔ اس میدان کو پارک کہتے ہیں۔ اس میں گھاس کا فرش نہیں، کنکر بچھے ہوئے ہیں اور جہاں گھاس ہے وہاں لکھا ہے کہ گھاس پر چلنا منع ہے۔ اس میدان میں تقریباً ہر روز کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے۔ کبھی کوئی سیاسی جلسہ، کبھی مذہبی جلسہ، کبھی کوئی شادی بیاہ۔ یہ جلسے شام کو شروع ہوتے ہیں اور رات گئے تک قائم رہتے ہیں۔ اگر آپ اس میدان کے اڑوس پڑوس میں رہتے ہوں تو آپ صرف اس صورت میں سو سکتے ہیں کہ اچھی خاصی مقدار میں افیون کھا لیں۔ آپ فرمائیں گے ایسا بھی کیا ہے، اگر رات کو لائوڈ اسپیکر کے شور کے باعث سو نہیں سکتے تو دن کو سو کر کسر نکال لیا کرو۔ لیکن میرے صاحبو! یہ بھی ممکن نہیں۔ دن کے وقت شام کی روٹی مہیا کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی دھندا کرنا ہی پڑتا ہے۔ اگر دن کا وقت سو کر گزار دوں تو ’’چہ خورد بامداد فرزندم‘‘
اگر بالفرض پیٹ پر پتھر باندھ کر دن کو سونے کی کوشش بھی کروں تو لائوڈ اسپیکر کو ٹیسٹ کرنے والے کہاں سونے دیتے ہیں! صبح کے دس بجے سے لے کر شام تک یہ آواز سنائی دیتی ہے کہ ہیلو، ہیلو، ہیلو ٹیسٹنگ۔ ٹیسٹنگ۔ ون۔ ٹو۔ تھری۔ فور…
جب لائوڈ اسپیکر کے مستری صاحب اس جناتی زبان کی گردان کرچکتے ہیں اور تھک جاتے ہیں تو گرامو فون ریکارڈ بجاتے ہیں۔ ہونے والا جلسہ چاہے مذہبی کیوں نہ ہو مگر ریکارڈ کہتا ہے مذہب وذہب کو چھوڑو اور دیکھو ’’لال ڈوپٹہ ململ کا ہو جی ہو جی!‘‘
چاہے جلسہ شادی خانہ آبادی کا ہو مگر ریکارڈ پکار پکار کر کہتا ہے:
’’بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے!‘‘
یہ دیکھنا ہو کہ لائوڈ اسپیکر ٹھیک کام کررہا ہے یا نہیں، یہ مستری صاحب ہمیشہ انگریزی بولتے ہیں:
ٹیسٹنگ۔ ٹیسٹنگ۔ ون۔ ٹو۔ تھری۔ فور… اگر لائوڈاسپیکر کو پرکھنے کے لیے ون۔ ٹو۔ تھری۔ فور کے بجائے ایک، دو، تین، چار کہا جائے تو لائوڈ اسپیکر ساری عمر کے لیے بگڑ جاتا ہے۔ یہ بات مستری صاحبان کی آزمائی ہوئی ہے، اور ان کے پاس اردو نہ بولنے کی دلیل بھی معقول ہے۔ فرماتے ہیں کہ جب ہم خوابِ غفلت سے بیدار ہوئے اور اپنے ملک کی چیزوں کی طرف دھیان کیا، اپنی تہذیب اور اپنے تمدن کا چرچا کیا، اپنی زبان اور اپنے ادب کی متوجہ ہوئے تو انگریز بگڑ گیا ور ایسا بگڑا کہ روٹھ کر چلا ہی گیا۔
ایک لائوڈاسپیکر پر کیا منحصر ہے، اگر ہم چوکیداری کے لیے کتا پالیں تو اُس کا نام بھی انگریزی رکھتے ہیں، اور اسے بلانا ہو یا دفان کرنا ہو توانگریزی میں حکم صادر فرماتے ہیں:
ٹائیگر، ٹائیگر، کم آن۔ کم آن
ٹائیگر، ٹائیگر، گو آن، گو آن
یقین نہ آئے تو کسی آج کل کے کتے کو ’’دردر‘‘ کہہ کر دیکھ لیجیے، دم ہلاتا ہوا آپ کے پاس آجائے گا اور متواتر دم ہلاتا رہے گا تاوقتیکہ آپ کی ’’گو گو‘‘ کا حکم سن کروہ دم ہلائے گا نہیں بلکہ دبا لے گا اور ایک کونے میں دبک کر جا بیٹھے گا۔
(سرگزشت، صفحہ 60 تا 62)
بیادِ مجلس اقبال
میسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو
نہیں ہے بندۂ حُر کے لیے جہاں میں فراغ
ضربِ کلیم کی ایک غزل کا یہ شعر اپنے اندر بہت بڑا سبق اور مکمل فلسفہ رکھتا ہے۔ علامہ نے آزاد اور غلام انسان کی زندگی کا ایک خاص پہلو اس شعر میں بیان کیا ہے کہ وقت بہت قیمتی چیز ہے مگر صرف آزاد انسان کے لیے۔ وہ اس لیے کہ کوئی نہ کوئی بڑا مقصد اور اس کے حصول کے لیے جدوجہد کا لائحہ عمل اس کے پاس موجود ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ زندگی ایک امانت ہے۔ اس کا ایک ایک لحظہ قیمتی ہے۔ اور اسی مناسبت سے مصروفِ عمل رہنا ہی انسان کو زیب دیتا ہے۔ اس کے برعکس ایک غلام کی زندگی اس سے یکسر مختلف ہوتی ہے۔ حقیقت میں وہ انسانیت کے شعور سے ہی بے خبر ہوتا ہے، اور اُس کے پاس اپنے آقا کے فرمان کی تعمیل کے سوا کوئی چوائس ہی نہیں ہوتی۔ نہ تو اس کے پاس اپنا کوئی منصوبہ کار ہوتا ہے اور نہ اس کے کوئی تقاضے۔ وقت ہی تو زندگی ہے، اور وقت کے ضیاع کا تصور ایک آزاد اور خودمختار انسان ہی کے پاس ہوتا ہے۔