قرآن کی نظر میں مثالی انسان

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خرچ کیا کرو، گنا نہ کرو تاکہ تمہیں بھی گن کر نہ ملے، اور چھپا کر نہ رکھو تاکہ تم سے بھی اللہ تعالیٰ (اپنی نعمتوں کو) نہ چھپالے‘‘۔
(بخاری۔ عن اسما بنت ِابی بکر رضی اللہ عنہ)
قرآن کریم پر علمی اعتبار سے بہت کام ہوا ہے۔ احکام، نظام، قانون، سابقہ قوموں کے عروج و زوال کی تفصیلات اور انسانی زندگی کے مختلف پہلوئوں پر قرآن کریم کی روشنی میں اہلِ قلم نے مختلف زاویوں سے قلم اٹھایا ہے۔ موجودہ دور میں قرآن کریم کے علمی اعجاز پر کام ہوا، جس طرح ماضی میں قرآن کریم کے اعجازِ بیانی پر بڑا کام ہوا، لیکن انسان کی تربیت اور اس کے کردار و سلوک کی تشکیل، زندگی کو خوش گوار و پُرامن طریقے سے گزارنے اور پُرامن انسانی معاشرے کی تشکیل کے سلسلے میں قرآن کریم میں جو تعلیمات اور ہدایات آئی ہیں، ان پر بہت کم کام ہوا۔ اس کی وجہ سے اسلام کے مخالفین یہ ثابت کرتے ہیں کہ قرآن کریم قتال و جہاد کی تعلیم دیتا ہے، جس کا قرآن کریم میں بہت محدود اور خاص حالات میں حکم ہے۔ قرآن کریم میں جیسا کہ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ کتابِ ہدایت اور بیان للناس ہے، انسانی زندگی کو پُرامن طریقے سے گزارنے کی بھرپور تعلیمات موجود ہیں، اور بعض سورتیں تو انسانی حقوق اور امنِ عالم کے منشور کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لہٰذا اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ اس پہلو کی طرف توجہ کی جائے، تاکہ قرآن کریم کے سلسلے میں جو پروپیگنڈا کیا جارہا ہے اس کا مثبت جواب دیا جاسکے۔
قرآنی تصور کی رو سے مثالی انسان وہ نہیں جو صرف کسبِ معاش اور خواہشاتِ نفس کی تکمیل کی تگ و دو میں لگا رہے، بلکہ قرآن کریم کی نظر میں نیک انسان وہ مومن صالح ہے، جو اپنے خالق کا حق شناس ہو، اپنی زندگی کو اپنے خالق و مالک کی مرضی و منشا کے مطابق گزارے، اللہ کے بندوں کے درمیان ایک فردِ صالح اور انسانی برادری میں ایک شریف رکن کی حیثیت سے رہے، پوری انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہے، نہ کہ صرف اپنے مفاد کے لیے۔
درحقیقت قرآن کریم کی نظر میں بہترین مثالی انسان وہ ہے جو دوسروں کی خاطر اپنے نفس کو قربان کردے۔ اس طرح مادی تربیت اور اسلامی تربیت میں بڑا نمایاں فرق ہے۔ مادی تربیت خودغرضی اور مفاد پرستی کو بڑھاوا دیتی ہے، جبکہ اسلامی تربیت انسان کو اپنائیت، قربت، خلوص و محبت، ایثار و قربانی اور ہمدردی و غم گساری کے زیور سے آراستہ کرتی ہے۔
اسلامی تربیت جس کا مصدرو ماخذ قرآن کریم ہے، ہر چیز کو اُس کے مناسب مقام پر رکھتی ہے کہ انسانی سرگرمی کا کوئی پہلو مغلوب نہ ہونے پائے، اور جسم، عقل اور روح کے درمیان توازن برقرار رہے، انسان کو دوسرے کے لیے آئیڈیل بناتی ہے اور کائنات میں اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہونے کی ترغیب دلاتی ہے۔ اس اعتبار سے اسلامی تربیت انسان کے جسمانی، عقلی، شعوری، سماجی، ذوقی اور روحانی تمام پہلوئوں پر محیط ہے، اور اسلامی تربیت انسان کو متوجہ کرتی ہے کہ اس کی تمام سرگرمیاں ایک اعلیٰ مقصد پر مرکوز ہوں، اور وہ دنیا و آخرت میں اللہ کی خوشنودی اور رضا کے حصول کا ذریعہ ہو۔
اسلام جس کا منبع و سرچشمہ قرآن ہے، ایسے فرد اور سماج کی تشکیل کرتا ہے جس میں صرف خدائے وحدہ لاشریک کی پرستش ہو، اور پھر اس کے ذریعے سے اس میں اجتماعی زندگی کی خوبیاں، باہمی تعاون، یکجہتی، رواداری، ہمدردی، اخوت و بھائی چارہ اور الفت و محبت کی جلوہ گری ہو، لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسان کی ذاتی صلاحیتیں اور شخصی خصوصیات مجروح نہ ہوں۔
(ماہنامہ” بیداری“، حیدرآباد…مارچ2020ء)