سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان(حلقہ خواتین)۔
اسلام کی نظر میں عورت تعمیرِ ملت کے لیے درکار اہم اینٹ ہے، خاندان کے حقوق کے لیے ایک بنیاد ہے اور امت کی ترقی میں نمایاں کردار کی حامل ہے۔ ماں کے روپ میں مشفق و مہربان پیکر، بیوی کے روپ میں محبت کرنے والی غم گسار، اور بیٹی کے روپ میں مہربان و نیک بخت ہے۔ ان ذمہ دار کرداروں کو نبھانے کے ساتھ ساتھ اسلام نے اس قیمتی نگینے کی حفاظت کا بھی بخوبی انتظام کیا ہے۔ حسنِ انتظام یہ ہے کہ مرد و خواتین کو حیا کے مخصوص اصول و آداب سکھانے کے ساتھ ساتھ ایسے معاشرے کو پروان چڑھانے کے اصول بھی بیان کردیے گئے جہاں معاشرتی آداب اور قانونی سزائیں انسان کو حیوان بننے سے روک دیتی ہوں۔ حیا کو ایمان کا جزو قرار دے کر فرمایا گیا کہ الحیا ء شعبۃ من الایمان ’’حیا ایمان کا حصہ ہے‘‘۔ (بخاری)۔
ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جہاں مسلمان مردوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی نگاہوں کو پست رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں (النور)، وہیں مسلمان عورتوں کو بھی یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہ کی حفاظت کریں (النور)۔ حیا اسی حکم کی بجاآوری کا نام ہے۔ مسلمان خواتین کی تعظیم و توقیر کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کا حکم دیا گیا کہ خواتین اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے جو خودبخود ظاہر ہوجائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنی کے آنچل ڈالے رکھیں۔ (النور)۔
ایک اور جگہ پر ارشاد فرمایا گیا کہ ’’اے نبیؐ! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں۔ زیادہ مناسب طریقہ یہ ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔ (الاحزاب)۔
حیا اور حجاب کے یہ قوانین خالقِ کائنات کی خاص رحمت کا مظہر ہیں۔ ان اصولوں نے نہ صرف صدیوں پہلے عرب کے جہالت بھرے معاشرے میں پسی ہوئی عورت کو عزت و احترام کے اعلیٰ درجے پر فائز کیا بلکہ آج بھی یہی عوامل عورت کے تحفظ کا ذریعہ قرار پائے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں بھی حیا کے تقاضوں کو پورا کیا گیا ہے وہاں پاک دامن اور صالح معاشرہ وجود میں آیا ہے، اور انسانیت نے فحاشی، ہراسانی، زنا اور ہوس سے نجات پائی ہے۔ اس کے برعکس مغربی تہذیب جو حجاب کی ناقد ہے اور حیا کے قوانین کو دقیانوسی اور پسماندگی قرار دیتی ہے، آج اخلاقی زوال کا شکار ہوکر اپنا پھیلایا ہوا گند سمیٹنے کی کوشش کررہی ہے۔ حیا کے اصولوں سے عاری معاشرہ ناجائز تعلقات اور فحاشی و عریانی سے بڑھ کر ہم جنسی اور ہوس کی تسکین کے لیے نئے طریقوں کو ڈھونڈنے کی راہ پر چل پڑا ہے۔ مردو عورت کی آزادی نے عورت کی عزت و عصمت کا تحفظ ختم کرکے اسے آلۂ تجارت بناکر پیش کردیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ آزادیِ نسواں کے پُرکشش نعروں نے عورت کو چار دیواری سے باہر نکال کر سرِ بازار لاکھڑا کیا ہے، جہاں وہ اپنی عزت کی حفاظت کے لیے پریشان ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کا خودساختہ فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔
ایوان ریڈلے برطانوی نومسلم صحافی قبولِ اسلام کے بعد لکھتی ہیں: ۔
’’مغربی سیاست دان اور صحافی حضرات اسلام میں عورتوں پر ظلم و ستم کے بارے میں لکھنے کو بہت پسند کرتے ہیں۔ پردے کے اندر موجود خواتین سے حقیقتِ حال دریافت کیے بغیر انہیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہے کہ مسلمان خواتین کو اسلامی سانچے کے اندر کتنی حفاظت اور عزت ملی ہے۔ پہلے میں برقعے میں ملبوس خواتین کو خاموش اور مجبور خاتون سمجھتی تھی، لیکن اب ہنرمند، قابل اور مضبوط خواتین سمجھتی ہوں جن کا آپس میں رشتہ دیکھ کر مغربی تحریکِ نسواں خواتین بھی شرما جائیں۔‘‘
میری مسلمان بہنو! آیئے آج کے اس پُرفتن دور میں فریب سے بھرے نعروں کے پیچھے چھپے مکروہ عزائم اور بھیانک نتائج کو جان لیں، اور اپنی اصل حیثیت و مقام کوپہچان لیں۔ اقبال کہتے ہیں:۔
وجود ِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشتِ خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں
حیا اور حجاب پاکیزگی اور آزادی کی توانا علامت ہیں۔ یہ معاشرے کے لیے رحمت اور فتنوں کے دور میں تحفظ کرنے والی ڈھال ہیں۔ یہ وفا کی علامت اور اسلامی تہذیب کی بنیاد ہیں۔
آئیے!! ان کو فخریہ بنانے کا عہد کریں اور اپنے معاشرے اور اخلاقی، تمدنی اور سماجی قدروں کی بنیاد فراہم کریں۔