امریکہ کے لوگوں کی تاریخ: برطانیہ سے امریکہ کی “آزادی”۔

۔”انقلابی امریکہ“ کے بانیان کسی مساوات کے قائل نہیں تھے

برطانوی فوج پر امریکیوں کی فتح، پہلے سے موجود مسلح افراد کے باعث ممکن ہوئی۔ تقریباً ہر سفید فام کے پاس ایک بندوق تھی، اور وہ اسے چلانا جانتا تھا۔ گوکہ انقلابی رہنما غریبوں کے ہجوم پر بھروسا نہ کرتے تھے، مگر وہ یہ بھی جانتے تھے کہ سیاہ فام غلاموں اور انڈینزکے لیے انقلاب میں کوئی کشش نہ تھی۔ یوں اُن کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہ تھا کہ سفید فام مسلح جتھوں کی سرپرستی کریں۔ یہ آسان نہ تھا۔ اگرچہ مکینک، جہازراں، اور دیگر محنت کش انگریزوں کے خلاف تھے، مگرجنگ کے لیے عام جذبہ شدید نہیں تھا۔ جبکہ جنگ کے دوران سفید فام آبادی کا بہت بڑا حصہ خدمات کی ادائیگی میں غیر مستقل مزاجی بھی دکھا رہا تھا، بہت ہی کم لوگ تھے جو ڈٹے ہوئے تھے۔ جان شائی انقلابی فوج کے مطالعے (A People Numerous and Armed) میں کہتا ہے: ’’وہ مقامی سیفٹی کمیٹیوں کی دھوکے بازی سے تنگ آچکے تھے، بدعنوان حکام رسد کی ترسیل میں بددیانتی کا مظاہرہ کررہے تھے، اور عجیب بے ہنگم سے اجنبی جو بندوقیں اٹھائے ہر طرف دندناتے پھررہے تھے، وہ خود کو انقلاب کے سپاہی کہتے تھے‘‘۔ شائی نے تخمینہ لگایا ہے کہ شاید ایک تہائی آبادی باغی ہوچکی تھی۔ جان ایڈم کے اعدادوشمار کہتے ہیں کہ ایک تہائی مخالف تھے، ایک تہائی حمایت میں تھے، اور ایک تہائی غیرجانب دار تھے۔ الیگزینڈرہیملٹن، جو جارج واشنگٹن کا معاون تھا، لکھتا ہے کہ ’’…ہمارے لوگ گدھے کی طرح بے وقوف اوربھیڑ کی مانند بے سدھ ہیں… انھیں آزادی میں کوئی دلچسپی نہیں…‘‘ شائی کہتا ہے کہ سفید فام خدمت گار، نیگروز، اور ریڈ انڈینز نوآبادیاتی ملیشیا میں شامل نہیں تھے۔
تاہم میساچیوسٹس اور ورجینیا میں سفید فام فوج میں بھرتی کیے جارہے تھے، اُن سے بڑے بڑے وعدے کیے جارہے تھے۔ یہ غریب توقع کررہے تھے کہ شاید فوج میں رہ کر اُن کے معاشی حالات بہتر ہوجائیں گے، معاشرے میں اُنھیں کوئی مقام مل جائے گا۔ ایک زخمی امریکی فوجی انٹرویو میں پیٹر اولیور کو بتاتا ہے کہ ’’میں ایک جُفت ساز تھا۔ جب یہ بغاوت برپا ہوئی، میں نے دیکھا کہ ساتھ کے مزدور محنت کش ملیشیا میں بھرتی ہورہے تھے۔ میں بھی خاصا پُرجوش تھا، اور اپنے کسی بھی ساتھی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتا تھا۔ مجھ سے کہا گیا کہ پرائیویٹ سولجر کے طور پر اپنا اندراج کروالوں… میں نے لیفٹیننٹس کمیشن میں شمولیت کی درخواست دی، جسے قبول کرلیا گیا۔ میں اپنی ترقی متصور کررہا تھا: اگر میں دورانِ جنگ مارا جاتا تو ختم ہوجاتا، لیکن اگر میرا کپتان ہلاک ہوجاتا تو میرا رینک بڑھ جاتا۔‘‘
شائی Peterboroghکی تحقیق میں کہتا ہے، کہ قصبے کے نمایاں شہری جنگ میں کم ہی شامل رہے تھے۔ دیگر امریکی قصبات کی صورتِ حال بھی زیادہ مختلف نظر نہیں آتی۔ شائی کہتا ہے کہ ’’انقلابی امریکہ غالباً متوسط طبقے پر مشتمل رہا ہوگا، جو دیگر تمام طبقات کی نسبت خوشحال تھا، تاہم اس نے غریبوں کی ایک مناسب تعداد کو بھی ساتھ کرلیا تھا، پھربھی کم ہی لوگ لڑنے مرنے پر مائل ہوئے تھے۔ اس دوران حکمران اشرافیہ کی نسلیں یہ جان چکی تھیں کہ اگر داخلی مسائل سے نمٹنا ہے، تو جنگ جاری رکھنی ہوگی۔
انقلابی فوج کی تیاری غیر جانب دار قسم کے لوگوں کو ہنکانے جیسی تھی۔ کنیکٹی کٹ میں، مثال کے طور پر ایک قانون منظور کیا گیا کہ سولہ سے ساٹھ سال کی عمر کے درمیان تمام مردوں کی فوجی خدمات درکار ہیں۔ البتہ سرکاری حکام، وزراء، نیگروز، انڈینز، اور مخلوط یورپی غلام اس فوج میں شامل نہیں کیے گئے تھے۔ جب کہ کوئی بھی ’’امیرامریکی‘‘ پانچ پاؤنڈ ادا کرکے اس عسکری خدمت سے خلاصی پاسکتا تھا۔ تاہم جب اٹھارہ افراد فوجی خدمات کے لیے حاضر نہ ہوئے توانھیں جیل بھیج دیا گیا، یہاں تک کہ وہ جنگ لڑنے پر آمادہ ہوگئے۔ یہ بہت بڑی بیزار اکثریت کو قومی مفاد کے نام پر استعمال کرنا تھا، جو آج تک جمہوریت کی صورت میں پنہاں ہے۔
انقلابی امریکی جنگ کے ابتدائی محاذوں میں شکست سے دوچار ہوئے: بنکر ہل، بروکلن ہائٹس، ہارلم ہائٹس، اور ڈیپ ساؤتھ میں ہزیمت کا سامنا ہوا، تاہم ٹرینٹن اور پرنسٹن میں چھوٹے محاذوں پر انھیںکامیابی ملی، اور پھر ایک اہم موڑ آیا اور حالات نے پلٹا کھایا،1777ء میں نیویارک ساراٹوگا کے بڑے محاذ پر جارج واشنگٹن کی آرمی وادیِ فارج میں صف بستہ تھی، اور بینجمن فرینکلن نے فرانسیسی حکومت سے اتحاد کے لیے مذاکرات کیے، جو انگلینڈ سے انتقام کے لیے بے چین تھی۔
جنگ کا رخ جنوب کی طرف ہوچکا تھا، جہاں برطانوی ایک کے بعد ایک فتح حاصل کررہے تھے، یہاں تک کہ امریکیوں کو فرانسیسیوں کی بھاری کمک پہنچی۔ فرانسیسی بحریہ نے برطانوی ترسیلات کا راستہ روک دیا، اور تازہ کمک کی راہ میں بھی حائل ہوگئی، یوں ورجینیا یارک ٹاؤن کی فتح امریکیوں کے نام رہی۔ یہ 1781ء کا سن تھا۔
اس دوران کچھ عرصے کے لیے امریکیوں میں امیر غریب کی خلش غیر محسوس طور پر غائب ہوگئی تھی۔ تاہم عین جنگ کے دوران، فلاڈلفیا میں کہ جب بقول ایرک فونر ’’چند نوآبادکار بے حد منافع سمیٹ رہے تھے اورغریب محنت مشقت میں دبلے ہورہے تھے‘‘، افراطِ زر ایک ماہ میں پینتالیس فیصد تک بڑھ گیا تھا، فلاڈلفیا کے ماحول میں شدید بے چینی پیدا ہوگئی تھی، فلاڈلفیا آرٹلری کمپنی نے اسمبلی میں پٹیشن دائر کی کہ ’’غریب شدید مشکل میں ہیں، اور لالچی سرمایہ داروں کے خلاف شدید ہنگامہ آرائی کا قوی خدشہ ہے، اس لیے کچھ کیا جائے‘‘۔ اسی دوران ایک ماورائے قانون بیٹھک ہوئی، جس میں اشیاء کی قیمتوں کی کمی کا مطالبہ کیا گیا، اور رابرٹ موریس کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا گیا، کہ جس پرمنڈی سے اشیائے خورونوش اٹھاکر ذخیرہ کرنے کا الزام تھا۔ اکتوبر میں ’’ولسن کے قلعہ کی ہنگامہ آرائی‘‘ سامنے آئی۔ ایک ملیشیا گروہ شہر میں گھسا، اور دولت مند وکیل اور انقلابی آفیشل جیمس ولسن کے گھر کا رخ کیا، کہ جو قیمتوں میں کمی کا مخالف تھا، تاہم فلاڈلفیا کے خوشحال شہریوں نے یہ حملہ ناکام بنادیا تھا۔
دی کانٹی نینٹل کانگریس پر، جو جنگ کے دوران نوآبادیوں پر حکومت کررہی تھی، امراء کا قبضہ تھا۔ یہ سب باہم کاروباری شراکت دار اور رشتے دار تھے۔ یہ شمال جنوب اور مشرق مغرب میں باہم ربط میں تھے۔ ورجینیا کے رچرڈ ہینری لی کے میساچیوسٹس کے ایڈم خاندان سے تعلقات قائم تھے، پینسلوانیا کے شپنز سے بھی ان کے رابطے تھے۔ پینسلوانیا کا رابرٹ موریس ان سب کا سہولت کار تھا۔ وہ کانٹی نینٹل کانگریس کے لیے زیادہ سے زیادہ قرض کی کفایت پیدا کررہا تھا۔
اس صورتِ حال نے عام انقلابی فوجی کو نظرانداز کیا، جو بغیر اجرت خدمات انجام دے رہا تھا، شدید سردی میں بھوکا مررہا تھا، اور دیکھ رہا تھا کہ کس طرح سرمایہ دار منافع پر منافع کما رہے تھے۔ جنگ کے لیے قربانیاں ناقابلِ برداشت ہورہی تھیں، امراء کا تحفظ اور ثروت مندی ناقابلِ قبول ہوتی جارہی تھی۔ سن 1781ء میں، نئے سال کے پہلے دن پر، موریس ٹاؤن کے قریب پینسلوانیا کے فوجیوں نے اپنے ہی افسران پر دھاوا بول دیا تھا، ایک کیپٹن کو قتل اور دیگر کو بُری طرح زخمی کیا تھا۔ وہ پوری طرح مسلح تھے۔ افسران پر حملے کے بعد وہ رُکے نہیں، بلکہ فلاڈلفیا کی کانٹی نینٹل کانگریس کی جانب بڑھ گئے تھے۔ جارج واشنگٹن نے اس صورت حال کو بڑی ہوش مندی سے سنبھالا۔ جنرل انتھونی وین اُسے ہر لمحے کی خبر پہنچا رہا تھا۔ اُس نے جنرل کو ہدایت کی کہ طاقت کا استعمال ہرگز نہ کرے۔ اُسے خدشہ تھا کہ کہیں بغاوت اُس کی اپنی فوج میں سرایت نہ کرجائے۔ جارج واشنگٹن نے جنرل انتھونی وین سے کہا کہ فوری طور پر فوجیوں کے تحفظات اور شکایتوں کی فہرست تیار کی جائے، اور کانگریس سے کہا کہ بھاگ نکلنے سے گریز کیا جائے کہ مبادا کہیں فوجی مشتعل لوگوں کے ساتھ مل جائیں، اورصورت حال مزید بگڑ جائے۔ اُس نے جنرل ناکس کو فوری نیوانگلینڈ کی جانب روانہ کیا، کہ فوجیوں کو تین ماہ کی پیشگی تنخواہ پہنچائے، اور باغیوں کے خلاف پیش قدمی کے لیے آمادہ کرے۔
اب جارج واشنگٹن تیار تھا۔ چھ سو افراد جنھیں اچھا کھانا اور کپڑے پہنچائے گئے تھے، باغیوں کے خلاف پیش قدمی کرچکے تھے، اور محاصرہ کرکے انھیں غیر مسلح کرچکے تھے۔ باغی گروہوں کے رہنماؤں پرفوراً مقدمات قائم کیے گئے، ایک کومعافی ملی، دیگر دو فائرنگ اسکواڈ کے حوالے کردیے گئے تھے، جنھیں اُن کے اپنے پرانے ساتھیوں نے روتے ہوئے گولیوں کا نشانہ بنایا تھا۔ اس واقعے کو جارج واشنگٹن نے ’’پیغام عبرت‘‘ قرار دیا تھا۔
Ronald Hoffman کہتا ہے ’’انقلاب نے ڈیلاوئیر، میری لینڈ، شمالی کیرولائنا، جنوبی کیرولائنا، جارجیا، اور کسی حد تک ورجینیا کو خانہ جنگی میں جھونک دیا تھا۔‘‘ جنوب کے نچلے طبقے امریکی انقلاب کے لیے اپنے اندر کوئی کشش یا تحریک محسوس نہ کرتے تھے، وہ اس تحریک کی مزاحمت کررہے تھے، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ انگلینڈ کے خلاف جیت ہو یا ہار، بہرصورت ایک سیاسی اشرافیہ اُن پر حاکم بنی بیٹھی ہے۔ امریکی آئین میں ’’غریب‘‘ آدمی کے لیے کچھ نہیں تھا۔ گورنر بننے کے لیے کم از کم پانچ ہزار پاؤنڈ کی جائداد لازمی تھی، جبکہ سینیٹر کی نشست کے لیے ایک ہزار پاؤنڈ جیب میں ہونا ضروری تھے۔ یوں نوّے فیصد عوام ازخود سیاسی عمل اور سرکاری دائرے سے نکال باہر کیے گئے تھے۔
الیگزینڈرہیملٹن، جو جارج واشنگٹن کا معاون تھا، نئی اشرافیہ کا کٹر حامی تھا، اپنا سیاسی فلسفہ یوں بیان کرتا ہے: ’’تمام طبقات تھوڑے یا بہت سے ٹکڑوں میں منقسم ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے امراء اور پیدائشی طورپر خوشحال لوگوں کی باری آتی ہے، اور پھر باقی لوگوں کا انبوہ آتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ خلقِ خدا کی آواز نقارۂ خدا ہوتی ہے، اور اس عام کہاوت پر یقین کیا جاتا ہے، لیکن دراصل یہ حقیقت نہیں ہے۔ عام لوگ ہنگامہ خیز اور شورش پسند ہوتے ہیں۔ اس لیے امراء کے طبقے کو ہمیشہ حکومت میں مستقل حیثیت ملنی چاہیے۔ ایک ایسی جمہوری اسمبلی کس طرح لوگوں کا بھلا کرسکتی ہے کہ جس کا چناؤ عام لوگوں میں ہی گردش کرتا رہے؟‘‘
آج تک امریکی آئین کے بارے میں یہ دیومالائیت قائم رہی ہے کہ بہت جمہوری اور منصفانہ رہا ہے! مؤرخ برنارڈ بیلن لکھتا ہے کہ ’’ہرکوئی منصف اور دانش مند حکومت کے اس نسخے سے واقف ہے: کہ معاشرے کی’’مسابقتی‘‘ قوتوں میں توازن قائم رہنا چاہیے، کہ کوئی بھی قوت دوسری پر غالب نہ آپائے، اوردیگر کی آزادی سلب نہ کرسکے۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ ایسا توازن ’’انقلابی امریکہ‘‘ میںکس طرح قائم کیا جائے؟ کیا امریکہ کے بانیان یہ توازن قائم کرنا چاہتے تھے؟ درحقیقت وہ ایسے کسی توازن کے حق میں نہ تھے، وہ صرف ’اسٹیٹس کو‘ قائم رکھنا چاہتے تھے، وہ صرف مقتدر قوتوں میں توازن قائم رکھنا چاہتے تھے۔ وہ یقینی طور پر غلاموں اور آقاؤں میں کسی قسم کی برابری نہ چاہتے تھے، بے جائداد افراد اورصاحبِ جائداد میں واضح فرق کرتے تھے، ریڈ انڈینز اور سفید فام امریکیوں میں ہرگز کسی مساوات کے قائل نہ تھے۔ بانیانِ امریکہ کی نظر میں امریکہ کی آدھی آبادی ’’مسابقتی قوتوں‘‘ میں شامل ہی نہ تھی۔ یہاں تک کہ ان کا ’’اعلانِ آزادی‘‘ میں کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ یہ لوگ آئین سے بھی ’’غائب‘‘ ہیں، یہ طبقات نئی سیاسی جمہوریت میں بھی نامعلوم رہے۔ یہ لوگ نئے نئے امریکہ کی ’’خواتین‘‘ تھیں۔