عورت نام ہے اُس ہستی کا، جو بیٹی بنے تو گھر خوشیوں کا گہوارہ بنتا ہے۔ بہن کے روپ میں سامنے آئے تو بھائیوں کی مونس و غم خوار بنتی ہے۔ بیوی کے رنگ میں مجسم ہو تو گھر کو جنت بناتی ہے۔ اور ماں بن کر نمودار ہو توجنت اس کے قدموں تلے آجاتی ہے۔ عورت کا ہر روپ نرالا اور اس کا ہر کردار دنیا کی رنگ آمیزی کی وجہ ہے۔
شاعر مشرق نے کہا ہے:۔
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
گویا کائنات کی رنگینی صنفِ نازک ہی کی بدولت ہے۔ زندگی میں دلکشی عورت ہی کے دم قدم سے ہے، مگر شرط یہ ہے کہ عورت اپنے اس نام کی لاج رکھ لے۔ اس کی خوبصورتی، دلکشی، نزاکت اس وقت قیمتی ہے جب وہ لفظ ’عورت‘ کے معنی کو سمجھے، جب اسے اپنی حیثیت، مقام اور مرتبے کا علم ہو۔ اسے معلوم ہو کہ عورت کے لیے سب سے ضروری چیز جس کا حکم اللہ نے دیا وہ یہ ہے کہ اپنی زیب و زینت کو سب پر عیاں نہ کرے۔ اپنے پردے کا خاص اہتمام کرے۔ اپنی شرم و حیا کا خیال رکھے تاکہ معاشرے میں بگاڑ کی کوئی صورت پیدا نہ ہو۔ اس حکمِ الٰہی کے پیچھے جو فلسفہ ہے اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کا خود کو چھپانا اور پردہ کرنا بہت سی خرابیوں کو پیدا ہونے سے روک دیتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں مسلمان خواتین کو مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت تھی لیکن اُس وقت بھی انہیں یہ حکم تھا کہ وہ حجاب کا خیال رکھیں تاکہ ستائی نہ جائیں۔ گزشتہ زمانے کے برعکس آج کے ترقی یافتہ زمانے میں پردہ اور حجاب نہ ہونے کے برابر ہے، کیونکہ اس کے بارے میں لوگوں کے عجیب خیالات ہیں کہ پردہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے، پردہ دار عورت زمانے کے ساتھ کبھی نہیں چل سکتی، یا پردہ کرنے والی پرانے خیالات کی مالک اور تنگ نظر ہوتی ہے۔ اس کے لیے ’اولڈ فیشن‘ یا ’دقیانوسی‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ بے پردگی اختیار کرکے مسلمان خواتین کون سا ستاروں پہ کمندیں ڈالنے میں کامیاب ہوگئی ہیں؟ کون سا اپنے ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں جگہ دلا پائی ہیں؟ ملک کا نام کس کس جگہ روشن کیا ہے؟ حجاب کبھی انسان کی کامیابی کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنا۔ نہ عورت کے لیے کسی اور طرح کی پابندی کی وجہ بنا ہے۔ پردے میں رہ کر بھی عورت اپنے مقاصد کی تکمیل کرسکتی ہے۔ اپنی ذمہ داریاں عمدہ طریقے سے ادا کرسکتی ہے۔ دیکھا جائے تو عورت کی خوبصورتی ہی پردہ کرنے میں ہے، جس کے نہ صرف معاشرتی بلکہ سائنسی فوائد بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اکثر گھرانوں میں بچیوں کے پردے کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا، جس کی وجہ سے وہ کھلے عام باہر نکلتی ہیں۔ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی یہ ایک روایت کا روپ اختیار کرتی جارہی ہے جس کی ذمہ داری نہ صرف اس بچی پر، بلکہ اس کے گھر کے مرد حضرات پر بھی آتی ہے، جن کی عدم توجہی کی وجہ سے عورت کا پردہ ان مردوں کی عقل پہ پڑ جاتا ہے۔
اکبر الٰہ آبادی نے کہا ہے:۔
بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں
اکبرؔ زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
عورت اپنی نادانی کی وجہ سے اپنی حیثیت اور قدروقیمت میں خود ہی کمی لا رہی ہے۔ اسلام نے عورت کو پردے میں رہنے کا حکم اس پر ظلم و زیادتی کے لیے نہیں دیا، بلکہ اس نے عورت کو انمول بنایا ہے، اور انمول چیزوں کو کھلے عام نہیں چھوڑا جاتا۔ جس طرح انمول پتھروں اور جواہرات کو پوشیدہ رکھا گیا ہے، ان کے حصول کے لیے انسان کتنی کوشش کرتا ہے، اسی طرح عورت کو بھی اپنی قدروقیمت کو پہچاننا چاہیے تاکہ وہ خود کو عیاں کرکے اپنی ساکھ نہ کھو دے۔ وہ اتنی بے حیثیت نہیں کہ ہر ایرے غیرے کی غلیظ نگاہ اس پر پڑے۔ ہر کسی کی ہوس زدہ نظروں کا مرکز بنے۔ اگر اسے اپنی پاکیزگی اور پاک دامنی مطلوب ہے تو کسی کو یہ موقع ہی نہ دے، جس کے لیے پردہ اس کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ تاہم یہ بات ذہن نشین کرلے کہ پردہ صرف چہرے کا نہ ہو، بلکہ زبان، وجود اور دل و نگاہ کا پردہ سب سے ضروری ہے۔ آج کل حجاب کے نام پر دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونکی جارہی ہے، پردے کے نام پر کھلے عام دعوتِ نظارہ دی جارہی ہے، ایسے عبایا اور برقع پہننے کا فیشن چل نکلا ہے جو سب کو اپنی طرف متوجہ کرے۔ پتلے پتلے دوپٹے اور حجاب کے ساتھ بالوں کا پہاڑ جیسا جوڑا بناکر، پلکوں میں مسکارا اور آئی میک اپ تھوپ کر گھروں سے ایسے نکلتی ہیں گویا اس اسلحہ کے ذریعے پوری دنیا کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیں گی۔
شاعر نے کہا ہے:۔
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
پردے اور حجاب کے نام پر ڈھول بجاتے ہوئے سب کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، جسے دیکھ کر یقین ہوجاتا ہے کہ عورت کا پردہ واقعی عقل پہ پڑ گیا ہے۔