فیس ماسک کو پہننا جسم میں آکسیجن کی کمی کا باعث نہیں

منہ اور ناک کو ڈھانپنے کے حوالے سے اکثر افراد کو لگتا ہے کہ فیس ماسک سے جسم کو آکسیجن کی کمی یا منہ سے خارج سانس کو ہی دوبارہ اندر کھینچنے کا امکان ہوتا ہے۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا، اور اس کے پیچھے سائنسی وجوہات ہیں۔ لوز فٹنگ سرجیکل ماسک اور کپڑے کے ماسکس مسام دار ہوتے ہیں، ہوا ان میں آسانی سے آرپار ہوجاتی ہے، مگر نظام تنفس سے خارج ہونے والے ننھے ذرات کے لیے آرپار ہونا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اسی لیے فیس ماسک بیماری پھیلانے والے جراثیم کی روک تھام کے لیے مؤثر سمجھے جاتے ہیں جو دوسری صورت میں ہوا میں موجود ہوسکتے ہیں۔ ماسک پہننے سے ہوسکتا ہے کہ ایسا محسوس ہو کہ ہوا کا بہاؤ کم ہوگیا ہے، جس سے شریانوں میں آکسیجن یا جسمانی ٹشوز میں آکسیجن کی کمی ہورہی ہے۔ مگر فیس ماسک سے ہوا کی آمدورفت پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوتے بلکہ یہ پہننے والے کا نفسیاتی احساس ہوتا ہے کہ سانس لینے میں مشکل ہورہی ہے یا کم ہوا جسم کے اندر جارہی ہے، جبکہ آکسیجن کی سطح بھی متاثر نہیں ہوتی۔ ایسا سوچا جاتا ہے کہ فیس ماسک پہننے والے خارج کی جانے والی سانس کو ہی دوبارہ کھینچتے ہیں، مگر اب تک ایسے شواہد سامنے نہیں آئے جو اس خیال کو درست ثابت کرتے ہوں۔ صحت مند افراد کچھ مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو واپس کھینچ سکتے ہیں، مگر یہ ان کے لیے خطرہ نہیں ہوتا، کیونکہ تنفس اور میٹابولک نظام آسانی سے اس مقدار کو خارج کردیتے ہیں۔ بہت زیادہ دیر تک فیس ماسک پہننے سے ہوسکتا ہے کہ سردرد کا سامنا ہو، مگر اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ نیویارک کے لینوکس ہسپتال کے ایمرجنسی روم کے ڈاکٹر رابرٹ گلیٹر کے مطابق صحت مند افراد کے لیے فیس ماسک کے استعمال سے کسی قسم کا خطرہ نہیں بڑھتا، کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مرکبات آسانی سسے ماسک سے خارج ہوجاتے ہیں اور سانس لینا معمول کے مطابق ہوتا ہے۔تاہم اگر کسی فرد کو پھیپھڑوں کے امراض یا سانس لینے میں مشکلات کا سامنا ہے، تو اسے چہرے کو ڈھانپنے سے قبل ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیے۔ صحت مند افراد کے لیے فیس ماسک کا استعمال محدود وقت کے لیے کرنا کسی بھی قسم کے خطرے کا باعث نہیں ہوتا بلکہ یہ کورونا وائرس اور فلو سمیت دیگر بیماریوں سے بچانے میں مدد دیتا ہے۔

ڈاکٹروں کی طرح ’سوچنے‘ اور تشخیص کرنے والی مصنوعی ذہانت

مصنوعی ذہانت (آرٹی فیشل انٹیلی جنس یا اے آئی) کا استعمال اب طب کی دنیا میں بھی عام ہوتا جارہا ہے، لیکن بالخصوص مرض کی تشخیص میں اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہورہے تھے۔ اب ماہرین نے ایک بالکل نیا اے آئی سسٹم بنایا ہے جو عین ڈاکٹر کی طرح سوچے گا اور اسی کی طرح فیصلہ کرے گا۔ یونیورسٹی کالج لندن اور بیبیلون ہیلتھ کمپنی نے مصنوعی ذہانت کا جو نیا سسٹم بنایا ہے وہ مرض کے باہمی تعلق کے بجائے مرض کی اصل وجوہ پر غور کرے گا۔ یوں یہ نظام مروجہ تمام نظاموں سے قدرے بہتر ہے اور بعض مقامات پر اس نے حقیقی ڈاکٹروں کو بھی مات دے دی ہے۔ اس بات کا انکشاف ایک چھوٹے سے عملی سروے میں ہوا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے عام نظام مریض کی علامات پر فیصلہ کرتے ہیں، لیکن نیا سافٹ ویئر ڈاکٹروں کی طرح سوچتا ہے اور انہی کی طرح سوالات پر سوالات کرکے مرض کی جڑ تک پہنچنے میں مدد دیتا ہے۔ اس دوران حاصل شدہ ڈیٹا کا تجزیہ ہوتا رہتا ہے۔ اس سافٹ وئیر کی تشکیل کرنے والے ماہر کیارن گلگن نے بتایا کہ مرض کی وجہ معلوم کرنے والا نظام مریض کی تمام تر کیفیات پر غور کرتا ہے اور بہتر فیصلے تک پہنچتا ہے۔

کووڈ 19 کے اثرات کا تعلق بلڈ گروپ سے ممکن

حال ہی میں جرمنی اور ناروے کے سائنس دانوں نے مطالعے کے ذریعے یہ معلوم کیا ہے کہ خون کے بعض گروپ کے حامل افراد کے لیے کووڈ 19 زیادہ نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ سائنس دان یہ خیال بہت عرصے سے ظاہر کررہے ہیں کہ جینیاتی عوامل کورونا وائرس سے بچنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
اوسلو کے یونیورسٹی ہسپتال سے تعلق رکھنے والے محقق ٹام کارلسن اور جرمنی کی یونیورسٹی آف کیل کے محقق آندرے فرانکے کی سربراہی میں ہونے والی تحقیق کے دوران 1610 ایسے مریضوں کے بارے میں طبی معلومات جمع کی گئیں جو کووڈ 19 کے مرض میں مبتلا ہوچکے تھے۔ ان مریضوں کا علاج اسپین اور اٹلی کے ہسپتالوں میں کیا گیا۔ محققین کو طبی ڈیٹا کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ A+ بلڈ گروپ رکھنے والوں میں کووڈ19میں مبتلا ہونے کی صورت میں سانس کی تکلیف زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ جب کہ دیگر بلڈ گروپ کے حامل افراد اس وائرس کے خلاف بہتر قوتِ مدافعت رکھتے ہیں۔ چینی ماہرین کی طرف سے کیے جانے والے مطالعے کے مطابق کووڈ 19 میں مبتلا ہونے والے اوسط سے زیادہ افراد کی تعداد ایسی تھی جن کے خون کا گروپ A تھا۔ اسی طر ح انہوں نے دیگر گروپ کے خون کے حامل افراد میں اس بیماری کے خلاف بہتر قوتِ مدافعت نوٹ کی تھی، اور ان میں ملیریا ہونے کے امکانات بھی انتہائی کم ہوتے ہیں، جب کہ گروپA کے حامل افراد میں طاعون کے خلاف نسبتاً زیادہ قوتِ مدافعت موجود ہوتی ہے۔