مشرقی اقدار کی پاسدار نسیم انجم گزشتہ دو دہائیوں سے ادبی منظرنامے میں اپنے حصے کا چراغ جلا رہی ہیں۔ وہ اسلامی روایات پر عمل پیرا بھی ہیں اور پاکستان کی محبت میں سرشار بھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ قائداعظم رائٹرز گلڈ پاکستان کی چار سال تک سیکریٹری رہیں اور اب بھی اس سے وابستہ ہیں۔ وہ ترقی پسند حلقوں میں بھی اسی طرح مقبول ہیں جس طرح اپنے حلقے میں ہیں، جو خوش آئند ہے۔
معروف نقاد، دانشور خواجہ رضی حیدر رقم طراز ہیں: ’’کسی بھی قلم کار کا چاہے وہ ادب و شعر سے تعلق رکھتا ہو یا صحافت سے، سب سے بڑا کمال یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے قاری کو اس مقام فکر تک لے آئے جہاں وہ خود کھڑا ہوا سوچ رہا ہے۔ نسیم انجم کے کالم اپنے آغاز و ارتقا سے لے کر اپنے انجام و انتہا تک اسی وصف کے حامل ہیں۔ یہ سوئے ہوئے ضمیر کو جگاتے اور جاگے ہوئے ضمیر کو قوتِ عمل فراہم کرتے ہیں۔ ان تحریروں میں نسیم انجم کا ذہن کہیں سرگوشی کرتا ہوا بلند آہنگ ہوجاتا ہے، کہیں یہ دردمندی کا سہانا روپ اختیار کرتا ہے، اور کہیں غصے، احتجاج میں تبدیل ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اظہار کی یہ بدلتی ہوئی روش موضوعی بھی ہے اور معروضی بھی، لہٰذا تمام کالم نما مضامین اپنی مقصدیت میں ترقی، توسیع، ترقع اور تفہیم کے نئے نئے در وا کرتے ہیں اور پیہم حرکت و اضطراب کی جانب ترغیب دلاتے ہیں‘‘۔
استاذی پروفیسر خیال آفاقی نے نہ صرف فن اور شخصیت پر بھرپور اظہارِ خیال کیا ہے، بلکہ کالموں کے اس مجموعہ کا نام ’’آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے‘‘ آپ ہی کا تجویز کردہ ہے۔ آپ رقم طراز ہیں: ’’کہا جاتا ہے کہ ادیب معاشرے کا ترجمان ہوتا ہے، لیکن دشتِ ادب کی خاک چھان ماریئے وہ لیلیٰ دور دور نظر نہیں آتی جس کو ترجمانی کا نام دیں، لیکن الا ماشا اللہ… نسیم انجم بھی اسی استثنیٰ میں شامل کی جاسکتی ہیں۔ ان کے ناول ہوں یا کالم، دونوں ہی اپنے گرد و پیش اور سماجی منظرنامے کے عکاس نظر آتے ہیں۔ ان کے زیادہ تر کالم عوامی مسائل یعنی معاشرتی معاملات پر مبنی ہوتے ہیں۔ وہ جس اخلاص اور دردمندی کے ساتھ عوام کے بنیادی مسائل اور اہم ضروری معاملات کو اپنے مخصوص پیرائے میں پیش کرتی ہیں اس کو دیکھ کر انصاف کے ترازو میں بجاطور پر وہ اپنی ہم عصر خواتین کالم نگاروں میں جھکتے ہوئے پلڑے میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ سچی تحریر کی ایک بڑی خوبی اس کی سادگی اور بے ساختگی ہوتی ہے کہ جو بیان کیا جارہا ہے وہ کسی قدر تصنع و بناوٹ سے پاک اور مبرا ہو۔ چنانچہ اس تحریر صادقہ و خالصہ کی صفات نسیم انجم کے ناول ہوں کہ کالم، دونوں میں بہت نمایاں اور محسوس کن طریقے پر بدرجہ اولیٰ پائی جاتی ہیں‘‘۔
استاذی نے یہاں نسیم انجم کے ایک کالم کی کچھ سطور نقل کی ہیں جو افسوس کہ کتاب میں موجود ہی نہیں، بلکہ کتاب کے بائیں جانب فلیپ پر جن بارہ کالموں کا خصوصی تذکرہ کیا گیا ہے ان میں سے پانچ کالم اس مجموعے کی زینت بننے سے نجانے کیوں رہ گئے؟
کتاب میں 25 کالم سیاسیات اور 46کالم ادبیات سے متعلق ہیں، جبکہ 41 کالموں کا تعلق سماجیات سے ہے، اور 6 انٹرویوز ہم عصر اہلِ قلم کے ہیں۔ قارئین کے لیے ہم یہاں نسیم انجم کے مختلف کالموں کے چند جملے نمونتاً درج کررہے ہیں تاکہ قارئین ان کے اسلوب کو سمجھ سکیں۔ ’’منظوم درود اور نعیہ ادب‘‘ میں لکھتی ہیں: ’’اکثر اوقات ایسی تحریریں پڑھنے کو مل جاتی ہیں جو دل و دماغ کو گل و گلزار اور قلب و نظر کو فرحت بخشتی ہیں۔ الفاظ کی منظرکشی واقعات کو زندگی اور تابندگی عطا کرتی ہے اور مقدس اور معتبر سرزمین نگاہوں کے سامنے آجاتی ہے۔ روضۂ اطہر کی جالیاں، سبز گنبد اور طوافِ کعبہ کا نظارہ نگاہوں کو نور کا جلوہ دکھاتا ہے‘‘۔
’’ایک خاص نشست‘‘ میں بیان کرتی ہیں: ’’یادوں کے دریچے میں ایک شعر اور آکر ٹھہر گیا ہے جو آج کے حالات و واقعات کا عکاس ہے:۔
خدا کسی کو بھی یہ خوابِ بد نہ دکھائے
نظر کے سامنے جلتا ہے آشیاں اپنا
پورے ملک اور خصوصاً شہر کراچی کے منظرنامے نے اہلِ نظر کو فکرمند کردیا ہے، اور یہ پریشان کن افکار آج سے نہیں بلکہ عرصۂ دراز سے اذیت کا باعث ہیں۔ کراچی کے والی وارث ہوتے ہوئے کراچی یتیم یتیم سا نظر آتا ہے۔ اس کے حُسن، چین اور سُکھ پر شب خون مارا گیا اور دن دہاڑے بھی قتل و غارت گری اور ناانصافی کا بازار گرم کیا گیا۔ ساتھ میں شہر کے باسیوں کو بجلی اور پانی سے بھی ترسایا گیا۔ کراچی کا کچرا اٹھانا کسی جنگِ عظیم کو فتح کرنے کے برابر ہوگیا ہے۔ وزیراعلیٰ اور میئر اس بڑے مسئلے کو حل کرسکتے ہیں اور نہ ہی دوسرے اہم ادارے۔ آخر وہ خاکروب اور کچرا کنڈیاں کہاں غائب ہوگئی ہیں؟ کیا یہ سب کچھ کسی سازش کے تحت ہورہا ہے؟‘‘۔ ’’صبا اکرام کی شخصی و فنی زندگی… ایک جائزہ‘‘ میں لکھتی ہیں: ’’ہر انسان کو اپنے بارے میں اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ وہ علم و آگہی کے دیے روشن کرنے کی صلاحیت اپنے آپ میں پاتا ہے اور تاریکیوں کے جنگل کو اپنے وجدان کی روشنی میں بجھانے کی سکت رکھتا ہے یا پھر اسے اندھیروں سے بیر ہے، صبا بھائی کو بھی اپنی صلاحیتوں، صداقتوں اور سچائی کا بخوبی علم ہے۔ شاید اسی لیے وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے:۔
تھک کر جب بھی بیٹھ گیا ہوں میں، پیپل کی چھائوں میں
گوتم آیا، گوتم آیا، شور مچا ہے گائوں میں‘‘
خوب صورت گردپوش کے ساتھ 608 صفحات پر مشتمل کالموں کا یہ مجموعہ اپنے عہد کی سیاسی، سماجی اور ادبی تاریخی حیثیت بھی رکھتا ہے جو قارئین کے لیے ایک اچھا تحفہ ہے۔
آغا مسعود حسین نے درست کہا ہے کہ: ’’وہ پاکستانی معاشرے کا گہرا ادراک رکھتی ہیں۔ ان کی تحریروں میں سماج میں موجود عدم مساوات، ناانصافی اور استحصال کے خلاف تسلسل کے ساتھ ایک جھلک پائی جاتی ہے جس سے قارئین متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
مئی 2020ء میں شائع ہونے والی اس کتاب کی قیمت 700 روپے ہے مگر ملنے کا پتا موجود نہیں۔ قارئین مصنفہ سے اس ای میل پر رابطہ کرسکتے ہیں:۔
naisim.anjum27@gmail.com