قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ”حیا اور ایمان کو ایک جگہ رکھا گیا ہے، یعنی وہ ایک دوسرے کے ساتھی یا ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ ان میں سے جب ایک کو اٹھایا جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھالیا جاتا ہے“۔ ابن عباسؓ کی روایت میں یوں ہے کہ ”ان میں سے جب ایک کو دور کیا جاتا ہے تو دوسرا بھی جاتا رہتا ہے“۔ (بیہقی)۔
سورۂ بقرہ رکوع 19 میں ہے:۔
’’ہم تمہیں کچھ خوف و خطر، فقر و فاقہ، جان و مال اور اولاد کے نقصانات میں مبتلا کرکے ضرور آزمائیں گے۔ جو لوگ ان حالات میں صابر رہیں اور ہر مصیبت کے وقت کہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے انہیں خوشخبری دے دو۔ ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اس کی رحمت نازل ہوگی اور ایسے ہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘
تیسری آزمائش نقصٍ من الاموال کی آزمائش ہے یعنی مالی نقصانات۔ اعلانِِ اسلام کے ساتھ ہی مسلمان کے ذرائع آمدنی اور وسائل پر ایک کاری ضرب لگتی ہے جس سے اس کا معاشی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ پھر جب وہ اپنی معیشت کو صحیح اسلامی اصولوں پر قائم کرنا چاہتا ہے تو یہ اُس وقت تک مفید و ثمرآور نہیں ہوتی جب تک اس کا ماحول اس سے سازگاری نہ کرے، لہٰذا وہ پہلے کی بہ نسبت اپنی معاش کے ہر پہلو اور ہر شعبہ میں مختلف حیثیتوں سے نقصانات پر نقصانات اٹھاتا ہے اور بظاہر اس کی کوئی کل ٹھیک بیٹھتی نظر نہیں آتی۔ اس کا نقطہ نظر اور طریق عمل جہاں جہاں نظام باطل سے ٹکراتا ہے وہیں اسے نقصٍ من الاموال سے سابقہ پیش آتا ہے، اور بعض اوقات تو وہ ذرائع و وسائل کو پوری زمین پر پھیلا ہوا دیکھتا ہے مگر اپنے آپ کو اس میں سے کسی ذریعہ و وسیلہ پر بھی قادر نہیں پاتا۔ یہ آئے دن گھاٹے اور ٹوٹے اس کی مالی و کاروباری محبت کا اچھا خاصا امتحان لے لیتے ہیں۔ چونکہ مال انسانی زندگی کے قیام و بقا کا واحد ذریعہ ہے اور اس کی محبت بھی انسانی فطرت میں رچی بسی ہے اس لیے اس کے یہ خسارے آزمائش کا بہت بڑا ذریعہ ہیں جس سے بخیر و عافیت گزرنا تمام انسانوں کے بس کا روگ نہیں ہے۔ پھر اگر ماحول کی سازگاری سے اس کے اموال کا کسی حد تک تحفظ ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اتفاقات و حادثات کے ذریعے برابر اس کے مال کو تلف کرتا رہتا ہے تاکہ مال کی محبت اس کے دل میں ضرورت سے زیادہ اپنی جگہ نہ پیدا کرسکے، اور ان سب سے قطع نظر خدا کے دین کو فروغ دینے کے لیے خود مومن کو بھی ہر وقت مالی قربانیاں کرنی پڑتی ہیں جن کا کوئی فوری صلہ اسے دنیوی زندگی میں ملتا دکھائی نہیں دیتا۔ خدا کی آزمائش کا یہ پہلو بھی خاصا سخت ہے اور اس کو پورا کرنا ایسے اشخاص کے لیے ممکن نہیں ہے جو عاجلہ کے پرستار اور آجلہ سے بیزار ہوں۔
چوتھی چیز نقصٍ من الانفس ہے یعنی جانوں کا نقصان۔ جان جو دنیوی اشیاء میں انسان کو عموماً سب سے زیادہ عزیز ہوتی ہے اور جس کی خاطر بسااوقات وہ ذلت کی زندگی بسر کرنے اور مالی نقصانات برداشت کرنے سے بھی نہیں چوکتا‘ خدا کی مِلک ہے۔ اس لیے مومن سے اس کی آزمائش بھی ضروری ہے۔ کبھی خود مومن کو اپنی جان دینی ضروری ہوتی ہے کہ اگر اس موقع پر وہ اپنی جان بچالے جائے تو یہ اس کی خلافِ ایمان حرکت کا بڑا زبردست ثبوت ہوتا ہے، اور کبھی اس کو اپنے اعزہ و اقربا اور اپنے دوست احباب میں سے بہتوں کی جانوں کو خدا کی نذر ہوتے دیکھنا پڑتا ہے۔ ان مواقع میں جانوں کے گھاٹے سے اللہ تعالیٰ اس محبت و عقیدت کا امتحان لیتا ہے جو ان جانوں سے وابستہ ہوتی ہے۔ چونکہ جانوں کی محبت فطری چیز ہے اس لیے یہ مرحلہ بھی سخت ہے اور بسااوقات دوسروں کی موت سے زیادہ شاق وہ وقت ہوتا ہے جب آدمی کو خود اپنی جان کسی دینی تقاضے کے تحت خدا کی راہ میں پیش کرنی ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ مرحلہ بھی سچے مومن کے سوا کوئی بآسانی طے نہیں کرسکتا۔
آخری چیز جس کا ذکر آیت میں کیا گیا ہے نقصٍ من الثمرات ہے۔ ثمرات (یعنی پھلوں) سے مراد بعضوں نے ذرائع آمدنی اور بعضوں نے پیداوار لی ہے، مگر زیادہ صحیح مراد ہمیں وہ معلوم ہوتی ہے جسے امام شافعیؒ نے بیان کیا ہے، یعنی یہ کہ ثمرات کے نقصان سے مراد اولاد کا نقصان ہے، کیونکہ اولاد بھی معناً انسان کا ثمر ہوتی ہے۔ رہ گئے ذرائع آمدنی اور پیداوار کے نقصانات، سو وہ نقصٍ من الاموال میں شامل ہیں۔ اگرچہ غور کرنے سے اولاد کا نقصان بھی نقصٍ من الانفس میں شامل نظر آتا ہے، تاہم جانوں کے نقصانات کا علیحدہ تذکرہ عین بلاغت کا مقتضی معلوم ہوتا ہے اس لیے یہ مراد زیادہ صحیح ہے۔
اولاد کی محبت میں ماں باپ کا اندھا ہونا ایک مشہور بات ہے اور خود خدا نے اولاد کو ’’فتنہ‘‘ یعنی وجہ آزمائش قرار دیا ہے اور ایسی کڑی آزمائش بتایا ہے کہ گویا اولاد تمہاری دشمن ہے‘ تم کو اسی طرح چوکنا رہنا چاہیے جس طرح دشمن سے رہا کرتے ہو (ملاحظہ ہو سورۂ تغابن رکوع2 )۔ پس خدا کی آزمائشیں اولاد کے نقصان سے بھی وابستہ ہیں۔ بسااوقات آدمی کو اپنی اولاد سے اتنی زیادہ محبت ہوا کرتی ہے کہ خود اپنی جان بھی اس پر قربان کردینا گوارا کرلیتا ہے، مگر خدا یہ چاہتا ہے کہ اس تعلقِ خاطر کا امتحان لے‘ لہٰذا کبھی بچپن میں معصوم مسکراہٹوں اور کھیل کود کے ساتھ اولاد کو اٹھالیا جاتا ہے اورکبھی پُربہار جوانی تک پہنچا کر بوڑھے ماں باپ کو اولاد کا داغ دیا جاتا ہے جو مرتے دم تک کم ہی مٹ سکتا ہے۔ نادان لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ واپس لینی تھی تو اولاد دی ہی نہ ہوتی۔ مگر دے دے کر لے لینے ہی میں خدا کی آزمائش کا مقصود پورا ہوتا ہے۔ اس لیے صاحب ِاولاد لوگوں کو کسی نہ کسی پہلو سے اس میدانِ ابتلا میں قدم رکھنا پڑتا ہے اور کبھی اپنی اولاد کو خود اپنے ہی ہاتھوں خدا کی راہ میں قربان کردینا پڑتا ہے، اور یہ وہ آزمائش ہے جس سے سچے اورکامل مومن کے سوا کسی کا عہدہ برآہونا محالات سے ہے۔
یہ ساری آزمائشیں انفرادی بھی ہوتی ہیں اور اجتماعی بھی۔ اجتماعی حیثیت سے خطرات کا ہجوم اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے جتنا ایک اجتماعی ہیئت کا تقاضا ہے۔ مسلم سوسائٹی کو ذلیل کرنے‘ نیچا دکھانے‘ اس کے عناصر کو مائل بہ انتشار کرنے اور اس کی ساکھ کو گرانے کی ساری ہی تدبیریں اور چالیں رات دن مخالفین کی طرف سے اختیار کی جاتی ہیں، اور مسلم اجتماعیت ہر وقت طرح طرح کے خطروں میں گھری رہتی ہے۔ پھر جب یہ اجتماعیت ریاست کی شکل اختیار کرتی ہے تو دوسری باطل ریاستیں اس پر چڑھ دوڑنے اور اس کو مٹا ڈالنے کی دھمکیاں دیتی رہتی ہیں، اور یہ ریاست نت نئے خطروں اور اندیشوں کے گھیرے میں آجاتی ہے ۔ پھر جب معاشی اور معاشرتی مقاطعہ ہوتا ہے اور جنگ و پیکار کی نوبت آتی ہے تو مسلم سوسائٹی معاشی زبوں حالی سے دوچار ہوتی ہے اور قوم کے اونچے اور نیچے سارے ہی طبقے اس کی زد میں آجاتے ہیں جس سے ملک کا پورا نظام تہہ و بالا ہونے لگتا ہے۔ ان مواقع پر اللہ تعالیٰ ملّت کے سربراہ کاروں اور پیشوائوں کے فہم و تدبر کا امتحان لیتا ہے کہ وہ بحیثیت مجموعی خوفِ وجوع کے اس مرحلے سے اپنی سوسائٹی کو کس طرح گزرواتے ہیں۔ پھر جنگ و کشمکش میں نقصٍ من الاموال والانفس و الثمرات کی سخت آزمائش کی جاتی ہے جس میں ہزاروں لاکھوں کا مال تلف اور سینکڑوں ہزاروں جانیں ہلاک ہوتی ہیں۔ غرض ابتلائے ربانی کی یہ مختلف شکلیں فرداً اور اجتماعاً ہر طرح ظہور پذیر ہوتی رہتی ہیں۔