کراچی ڈوب گیا ۔ حکمران جماعتیں چلّو بھر پانی میں کب ڈوبیں گی؟۔

کراچی کی بربادی پر چیف جسٹس آف پاکستان کی چیخ

ایک وقت تھا کہ کراچی الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی دہشت گردی، بھتہ خوری اور پُرتشدد ہڑتالوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ اِس بار کراچی شدید بارش میں ڈوب گیا۔ کراچی میں بارش اتنی شدید تھی کہ بارش کا 90 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ کراچی کے کئی علاقوں میں کشتیاں چل گئیں۔ کراچی میں غریبوں کی بستیاں تو کئی بار ڈوب چکی ہیں لیکن اِس بار شہر کے بعض پوش علاقوں میں بھی پانی گھروں میں داخل ہوگیا۔ نیا ناظم آباد مکمل طور پر ڈوب گیا اور وہاں ایمرجنسی لگانی پڑ گئی۔ بارش سے ہونے والے حادثات میں درجنوں افراد جاں بحق ہوگئے۔ بارش کا پانی کئی اسپتالوں میں داخل ہوگیا۔ بعض لوگ دوسرے لوگوں کی مدد کرتے ہوئے سیلابی ریلوں میں بہہ گئے۔ شدید بارش کی وجہ سے طبی عملہ بعض اسپتالوں تک نہ پہنچ سکا جس سے مریضوں کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پی ای سی ایچ ایس کے علاقے میں ایک پولیو زدہ خاتون وہیل چیئر پر بیٹھے بیٹھے پانی میں ڈوب کر جاں بحق ہوگئیں۔ بارشوں نے شہر کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ اکثر شاہراہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئیں۔ کئی مرکزی شاہراہوں میں بڑے بڑے گڑھے پڑ گئے۔ اس صورتِ حال میں کے الیکٹرک کی لوڈشیڈنگ نے منظرنامے کو اور خوفناک بنادیا۔ شہر کے بعض علاقے 24 اور بعض علاقے 48 گھنٹوں تک بجلی سے محروم رہے۔ تیز بارش سے کراچی کے ساتوں انڈرپاس زیرآب آگئے۔ ہزاروں لوگ گاڑیوں کو شاہراہوں پر چھوڑ کر جیسے تیسے گھر پہنچے۔ صورت حال اتنی سنگین ہے کہ وفاقی حکومت نے پورے کراچی کو آفت زدہ قرار دے دیا ہے۔ اس منظرنامے کا ہولناک ترین پہلو یہ ہے کہ بارش سے پیدا ہونے والی صورتِ حال میں نہ کہیں ایم کیو ایم اور اس کی بلدیہ نظر آئی، نہ کہیں پیپلزپارٹی اور اس کی صوبائی حکومت کا دیدار ہوا، اور نہ کہیں عمران خان اور ان کی وفاقی حکومت شہر میں کچھ کرتے ہوئے دکھائی دی۔ چنانچہ کراچی کے ڈھائی کروڑ شہری یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ بارش سے کراچی ڈوب گیا تو اب ملک کی حکمران جماعتیں چلّو بھر پانی میں کب ڈوبیں گی؟ کراچی کے ساتھ ایم کیو ایم، پیپلزپارٹی، نواز لیگ، تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ نے جو کچھ کیا ہے وہ ان کے چلّو بھر پانی میں ڈوب مرنے کے لیے کافی ہے۔
دنیا میں کراچی جتنے بڑے دس بارہ شہر موجود ہیں۔ ان میں شدید بارشیں بھی ہوتی ہیں اور برف باری بھی، مگر ہم نے کبھی نہیں سنا کہ ان شہروں میں بارش اور برف باری نے زندگی کو یکسرمعطل کرکے رکھ دیا ہے۔ مگر کراچی میں شدید بارش کیا، اوسط درجے کی بارش بھی ایک وبال بن جاتی ہے۔ دنیا کے دوسرے شہروں اور کراچی میں فرق یہ ہے کہ باقی شہروں کا کوئی نہ کوئی والی وارث ہے، مگر کراچی کا والی وارث کوئی نہیں۔ اسے نہ فوجی اسٹیبلشمنٹ own کرتی ہے، نہ نواز لیگ اور پیپلزپارٹی نے کبھی کراچی کو اپنایا ہے۔ ایم کیو ایم تو خیر سب سے بڑی کراچی دشمن جماعت ہے۔ تحریک انصاف کو کراچی نے ’’ہیوی مینڈیٹ‘‘ سے نوازا، مگر عمران خان بھی کراچی کی سیلابی صورتِ حال میں صرف بیانات کی کشتیاں چلاتے دکھائی دیے ہیں۔ کراچی کی صورتِ حال کا اندازہ کرنا ہو تو چیف جسٹس آف پاکستان کے مشہورِ زمانہ ریمارکس پر ایک نظر ڈال لینا کافی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے ابھی حال ہی میں فرمایا تھا:
مافیاز حکومتوں کو پالتی ہیں، حکومتیں ان کا کیا بگاڑ لیں گی! انہوں نے کچھ کیا تو حکومتوں کا دانا پانی بند ہوجائے گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے فرمایا کہ سندھ میں کوئی حکومت ہی نہیں۔ انہوں نے میئر کراچی وسیم اختر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ کراچی کی جان چھوڑیں اور گھر جائیں۔ چیف جسٹس نے فرمایا کہ سندھ حکومت اور میئر وسیم اختر کراچی سے دشمنی کر رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ ہیلی کاپٹر پر دورہ کرکے آجاتے ہیں اور ہوتا کچھ نہیں۔ شہر میں بجلی کا بحران بدترین ہوچکا، روز لوگ مر رہے ہیں، نیپرا کچھ نہیں کررہی، کے الیکٹرک کی پوری انتظامیہ کا نام ECL میں ڈالا جائے اور کے الیکٹرک کے ڈائریکٹروں کو گرفتار کرکے جیل بھیجا جائے۔
(روزنامہ جنگ کراچی، 11 اگست 2020ء)
چیف جسٹس آف پاکستان کے ان ریمارکس کو دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ ریمارکس چیف جسٹس کے نہیں بلکہ کوئی انقلابی رہنما مظلوموں کا مقدمہ لڑ رہا ہے اور جلال کے عالم میں کلام کررہا ہے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کراچی کے ساتھ ہونے والے ظلم پر اگر چیف جسٹس آف پاکستان اتنے مشتعل ہوسکتے ہیں تو کراچی کے عام شہری کے اشتعال کا عالم کیا ہوگا؟ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد منصفِ اعلیٰ ہیں۔ عدالت کے جج نرم گفتگو کے لیے مشہور ہیں۔ وہ الفاظ کا انتخاب سوچ سمجھ کر کرتے ہیں۔ ان کی گفتگو میں جذبات نہیں بلکہ حقائق کا اظہار ہوتا ہے، مگر ملک کی حکمران جماعتوں نواز لیگ، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم، تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ نے کراچی کا ایسا دھڑن تختہ کیا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان بھی چیخ اٹھے۔ چیف جسٹس کی یہ چیخ کراچی کے تمام دشمنوں کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ سے کم نہیں۔ اگرچہ چیف جسٹس کے ’’انقلابی خطاب‘‘ سے ابھی تک کراچی کا بھلا نہیں ہوا، مگر چلیے کراچی کے المیے کو کسی اعلیٰ عہدیدار نے زبان تو دی۔
یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ میاں نوازشریف تین بار ملک کے وزیراعظم بنے مگر انہوں نے کراچی کے لیے کچھ بھی نہ کیا۔ پیپلزپارٹی چار بار مرکز میں اور آٹھ دس دفعہ سندھ میں برسراقتدار آئی مگر اس نے بھی کراچی کو کچھ نہ دیا۔ ایم کیو ایم 35 سال تک ہر سطح پر اقتدار کے مزے لوٹتی رہی مگر اس نے کراچی کا ایک مسئلہ بھی حل نہ کیا۔ کراچی کے وسائل سے دفاعی بجٹ کا بڑا حصہ مہیا ہوتا ہے مگر فوجی اسٹیبلشمنٹ نے بھی کراچی کو کچھ نہ دیا۔ کراچی پورے ملک کو چلاتا ہے مگر کبھی پاکستان کے کسی حصے سے کراچی کے لیے آواز بلند نہ ہوئی۔ پانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے اور شہر کو یومیہ 1200 ملین گیلن پانی کی ضرورت ہے، مگر کراچی شہر کو صرف 650 ملین گیلن پانی فراہم ہورہا ہے۔ یعنی کراچی پانی کی ضرورت کے نصف پر گزارا کررہا ہے۔ کراچی کو ٹرانسپورٹ کی ’’معقول‘‘ سہولتوں کی ضرورت ہے مگر کراچی میں نہ زیر زمین ریلوے کا نظام موجود ہے، نہ یہاں بڑی بسوں کی فراوانی ہے، یہاں تک کہ اب تو شہر میں منی بسوں اور کوچز کا بھی کال پڑا ہوا ہے۔ ہر بڑے شہر کی ضرورت ہے کہ اس کا کچرا روز ٹھکانے لگا دیا جائے، مگر کراچی کے کچرے کا نصف شہر کی گلیوں اور شاہراہوں پر پڑا رہ جاتا ہے۔ کراچی کی ضرورت ہموار شاہراہیں ہیں، مگر کراچی کی اکثر سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ کراچی کی ضرورت نکاسیِ آب کا مناسب نظام ہے، مگر کراچی میں جگہ جگہ گٹر ابلتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ کراچی میں ’’اربن فلڈنگ‘‘ کی صورتِ حال بھی اسی لیے پیدا ہوتی ہے کہ شہر میں نکاسیِ آب کا کوئی نظام ہی موجود نہیں۔ کراچی کا یہ حال 18 ویں صدی میں نہیں 21 ویں صدی میں ہورہا ہے۔ کراچی غریب شہر بھی نہیں۔ وہ وفاق کو اس کے وسائل کا 70 فیصد فراہم کرتا ہے۔ صوبے کو اس کے وسائل کا 85 فیصد کراچی سے مہیا ہوتا ہے، مگر وفاق بھی کراچی سے 70 فیصد وسائل لے کر کراچی کو کچھ نہیں دیتا، اور صوبہ بھی کراچی سے 85 فیصد وسائل لے کر کراچی کو کچھ نہیں لوٹاتا۔ یہ صرف ظلم نہیں، بدترین ظلم ہے۔ یہ صرف بدمعاشی نہیں، بدترین بدمعاشی ہے۔ یہ صرف ضلالت نہیں، بدترین ضلالت ہے۔ یہ صرف خباثت نہیں، بدترین خباثت ہے۔ یہ وہ رویہ ہے جس نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنایا۔ حکمرانوں کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ کراچی میں علیحدگی کی کوئی تحریک موجود نہیں ورنہ حکمرانوں سے کراچی کو سنبھالنا ناممکن ہوجاتا۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر میاں طفیل محمد کسی زمانے میں جماعت اسلامی کے لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ اسٹیٹ کرافٹ بڑی چیز ہے۔ اقتدار میں آنا ہے تو اسٹیٹ کرافٹ سیکھو۔ مگر کراچی کے تجربے سے معلوم ہوا کہ ہمارے حکمران طبقے کو اسٹیٹ کرافٹ کیا ’’کچرا کرافٹ‘‘ اور ’’نکاسیِ آب کرافٹ‘‘ بھی نہیں آتا۔ انہیں لوڈشیڈنگ سے نجات کا کرافٹ بھی نہیں آتا۔
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ اکتوبر2005ء میں ملک میں زلزلہ آیا، مگر زلزلے سے متاثرہ لوگوں کی مدد کے لیے نہ نواز لیگ آگے آئی، نہ پیپلزپارٹی نے اس سلسلے میں کچھ کیا۔ حالانکہ یہ ملک کی دو بڑی پارٹیاں ہیں اور ان کے پاس ارب پتیوں اور کھرب پتیوں کی کوئی کمی نہیں۔ البتہ جماعت اسلامی زلزلے سے متاثرہ ایک ایک علاقے میں متحرک نظر آئی، اور اس نے اشیاء اور نقد کی صورت میں زلزلے سے متاثرہ لوگوں پر پانچ ارب روپے خرچ کیے۔ جماعت اسلامی کی خدمات کو بھی روپے پیسے میں تولا جاتا تو جماعت اسلامی نے زلزلے سے متاثرہ لوگوں کی مدد پر پندرہ سے بیس ارب روپے خرچ کیے۔ سندھ میں سیلاب آیا تو ایک بار پھر سندھی بھائیوں کی مدد کے لیے پیپلزپارٹی اور نواز لیگ نے کچھ نہ کیا، البتہ جماعت اسلامی نے لوگوں کو غذا بھی فراہم کی، طبی امداد بھی مہیا کی، یہاں تک کہ اس نے دیہی سندھ میں ایک ایک کمرے کے درجنوں مکانات متاثرہ لوگوں کو بنا کر دیے۔ اب کراچی میں شدید بارشیں ہوئی ہیں تو کراچی کے کسی علاقے میں نہ ایم کیو ایم نظر آئی، نہ کہیں پیپلزپارٹی کا دیدار ہوا، نہ کہیں تحریک انصاف نے اپنا جلوہ دکھایا۔ البتہ جماعت اسلامی نے 100 سے زیادہ مقامات پر لوگوں کی مدد کے لیے کیمپ لگائے۔ ان حقائق سے ثابت ہے کہ نواز لیگ ہو یا پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم ہو یا تحریک انصاف… یہ سب اقتدار کی بھوکی ہیں۔ ان کا عوام اور قوم کی خدمت سے کوئی تعلق نہیں۔ جماعت اسلامی کبھی اقتدار میں نہیں آئی مگر وہ اقتدار میں آئے بغیر ہر مشکل وقت میں قوم کے کام آتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ملک میں پارٹی تو صرف ایک ہے، باقی جماعتیں تو صرف لیلیٰ اقتدار کی ہوس میں مبتلا گروہ ہیں۔