پانچ اگست کے فیصلے کی واپسی کشمیر کے روایتی سیاست دانوں اور پاکستان کے درمیان ایک نقطہ اتصال بن گیا ہے
دنیا میں کچھ حالات انسان کی کوششِ پیہم اور جہدِ مسلسل سے پیدا ہوتے ہیں۔ اپنی محنت اور کوشش سے پیدا کردہ ان حالات پر انسان کی گرفت قائم رہنا بھی ضروری نہیں ہوتا۔ کچھ حالات واقعات سے پیدا ہوکر انسانوں کو ایک مخصوص کیفیت سے دوچار کرتے ہیں، اور اسی کیفیت کو عالمِ بے بسی میں حالات کا جبر کہا جاتا ہے۔ حالات کی دوسری شکل اُس وقت اپنی ایک جھلک دکھا بیٹھی جب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بات چیت کرتے ہوئے کشمیر میں پانچ اگست کے بعد بھارتی اقدامات کی عدم مقبولیت و عدم قبولیت کا ذکر چھیڑ بیٹھے اور اس دوران انہوں نے کشمیر کی بھارت نواز قیادت بالخصوص فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے رویّے کی دبے لفظوں میں تعریف کی۔ ان کے چند جملوں کا خلاصہ تویہ تھا کہ پانچ اگست کے اقدامات کو خود بھارت کے ساتھ راہ ورسم رکھنے والی قیادت نے بھی تسلیم نہیں کیا۔ ماضی کے برعکس ان کا لب ولہجہ ’’کٹھ پتلی‘‘ جیسے القابات کے برعکس فاروق عبداللہ کے لیے دوستانہ اور احترام کا انداز لیے ہوئے تھا، اور شاید اس اندازِ بیاں میں ہی کشمیری قیادت کے لیے شاخِ زیتون بھی پنہاں تھی، جس پر فراز کے یہ اشعار بے ساختہ یاد آئے: ۔
جو غیر تھے وہ اسی بات پر ہمارے ہوئے
کہ ہم سے دوست بہت بے خبر ہمارے ہوئے
وہ اعتماد کہاں سے فرازؔ لائیں گے
کسی کو چھوڑ کے وہ اب اگر ہمارے ہوئے
یہ ایک حقیقت ہے کہ 5اگست 2019ء کے اقدام نے خطے کی سیاسی حرکیات کو تبدیل کردیا ہے۔ اس بدلی ہوئی صورتِ حال میں بہت سی سیاسی روایات اور رسوم ورواج تک بدل کر رہ گئے ہیں۔ پانچ اگست کو بھارتی آئین میں کشمیر کو خصوصی شناخت دینے والی دفعات ختم کی گئیں تو اس میں حریت پسند کیمپ کا قطعی کوئی لینا دینا نہ ہوتا اگر یہ فیصلہ اسٹیٹ سبجیکٹ قانون کو روندنے کا باعث نہ بنتا۔ اسٹیٹ سبجیکٹ کے خاتمے نے پانچ اگست کے فیصلے کو کشمیر کے آزادی پسندوں کا مسئلہ بنادیا۔ وگرنہ حریت پسندوں نے ہمیشہ کشمیر کی آزادی اور حقِ خود ارادیت کا نعرہ لگایا، انہوں نے کسی دور میں بھارتی آئین کی دفعہ 370 اور 1953ء کی پوزیشن کی بحالی کا مطالبہ نہیں کیا۔ انہوں نے برملا کہا کہ بھارتی آئین کی دفعات سے انہیں کوئی سروکار نہیں، کیونکہ انہیں نہ آئین قبول ہے، نہ آئینی تعلق کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ تعلق ہی جبری اور غیر قانونی ہے۔
دہلی سری نگر آئینی تعلقات کی نوعیت اور اس کی قانونی موشگافیاں اُس کشمیری قیادت کا دردِ سر رہا ہے جو بھارت اور کشمیر کے تعلق کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرتی رہی ہے، اور اس تعلق کے اتار چڑھائو کا حصہ رہی ہے۔ بھارتی آئین کی ختم کی جانے والی دفعات میں کشمیری راہنما شیخ محمد عبداللہ اور ان کی جماعت ایک اہم فریق رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھارت نے شیخ عبداللہ کے ساتھ معاہدات سے انحراف کیا تو شیخ عبداللہ نے پاکستان کے ساتھ نامہ وپیام شروع کیا، جس کی اطلاع بھارت کو ملی، اور یوں شیخ عبداللہ کو کشمیر کے وزیراعظم کے عہدے سے برطرف کرکے انہی کے ایک دستِ راست بخشی غلام محمد کو اقتدار میں لایا گیا۔ اس برطرفی کے بعد شیخ عبداللہ نے رائے شماری کا نعرہ لگایا اور وہ بھارت سے ایک فاصلے بلکہ کشمکش کی کیفیت میں آگئے۔ بائیس برس تک وہ رائے شماری کی مزاحمتی تحریک چلاتے رہے۔ اب بھی بھارت نے پانچ اگست کا فیصلہ کرتے وقت کشمیر کو چند اجارہ دار خاندانوں کی گرفت سے آزاد کرانے کی بات کی تو اُس کا اشارہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی جیسی جماعتوں کی طرف تھا۔
پاکستان اور حریت پسندوں کے لیے پانچ اگست کی صورتِ حال میں تشویش کا مشترکہ نکتہ اسٹیٹ سبجیکٹ کا قانون ہے، جس کے خاتمے کے بعد نہ صرف یہ کہ بھارت کشمیر کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی پوزیشن میں آگیا ہے بلکہ کشمیر کی زمینوں پر قبضہ کرنے کا اختیار بھی بھارت کو حاصل ہوگیا ہے ۔ اس میں فلسطینیوں جیسے انجام کا خطرہ محسوس ہورہا ہے۔ یہی نکتہ پھیلتے پھیلتے بھارت کے دھارے میں سیاست کرنے والی کشمیری قیادت اور پاکستان کے درمیان مشترکہ جدوجہد کی بنیاد اور نکتہ بن گیا ہے۔ حریت پسند قیادت کو فی الوقت بھارت نے گرفتار اور نظربند کرکے غیر مؤثر کردیا ہے، ان حالات میں بھارت نواز کشمیری قیادت کا کردار زیادہ اہم ہوگیا ہے۔
فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کشمیر کی زمینی حقیقتیں ہیں اور بدلے ہوئے حالات میں ان کی اپنی اہمیت ہے۔ یہ چاہیں تو بھارت کے پانچ اگست کے فیصلے کو سندِ جواز عطا کرکے بھارت کو کشمیر میں نئے انداز سے سیاسی عمل بحال کرنے میں مدد فراہم کریں، اور چاہیں تو اس سیاسی عمل کو غیر معینہ مدت تک معطل رکھیں۔ اس مرحلے پر بھارت کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی کو کشمیر میں مقبول بنانا نہ تو ممکن ہے اور نہ کوئی نئی سیاسی جماعت کھڑی کرنا اس قدر آسان ہے۔ پی ڈی پی کو توڑ کر ’’اپنی پارٹی‘‘ کے نام سے جو ڈول ڈالا گیا ہے اُس کا وجود اور سرگرمیاں ایک ہڑتال اور ایک نوٹس کی مار ہیں۔ یہ پانیوں پر بنا ایک نقش ہے جو قائم ہونے سے پہلے مٹ سکتا ہے۔ ایسے میںکشمیر کی 6 جماعتیں نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی، پیپلزکانفرنس کانگریس وغیرہ اس وقت پانچ اگست سے پہلے اپنے جاری کردہ مشترکہ اعلامیے ’’گپگار ڈیکلریشن‘‘ پر قائم ہیں ۔ گپگار سری نگر کی اُس سڑک کا نام ہے جہاں فاروق عبداللہ کی رہائش گاہ واقع ہے، جس میں مقبوضہ جموں وکشمیر کی بطور ریاست بحالی اور اس کی خصوصی حیثیت کے تحفظ پر زور دیا گیا تھا۔ حال ہی میں ان جماعتوں نے اس ڈیکلریشن پر قائم اور کاربند رہنے کے عزم کی تجدید کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت طاقت کے زور پر فیصلہ تو کر بیٹھا ہے مگر اس فیصلے پر عمل درآمد کرنے میں اسے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اس بدلی ہوئی صورتِ حال میں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کا کردار خاصی اہمیت کا حامل ہے اور پاکستان کے لیے اسے نظرانداز کرنا قطعی ناممکن ہے۔ فاروق عبداللہ جب یہ کہتے ہیں کہ بھارت نے پانچ اگست کا قدم اُٹھاکر اپنی سیاسی قبر کھودی ہے تو دوسرے صفحے پر موجود شاہ محمود قریشی خود ہی کھسک کر اس صفحے پر پہنچ جاتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ پاکستان اور ان جماعتوں کے درمیان پہلی بار خیرسگالی کے جذبات پیدا ہورہے ہیں۔ بائیس سالہ مزاحمتی تحریک چلاتے ہوئے قید و بند کے دوران ان کے گھرانے کا پاکستان نے خیال رکھنے کی کوشش کی۔ اس پورے عرصے میں پاکستان کا سرکاری میڈیا شیخ صاحب کو کشمیر کا ہیرو بناکر پیش کرتا رہا، اور حقیقت بھی اس سے مختلف نہیں تھی۔ بعد کے ہر دور میں یہ تعلقات کسی نہ کسی شکل میں جاری رہے ہیں۔ مفتی سعید کے دور میں محبوبہ مفتی کی سرپرستی میں سری نگر کی شاہراہوں پر جنرل پرویزمشرف کے پورٹریٹ اور پی ڈی پی کا عسکری کمانڈروں کو کور دینا ایک خاموش ربط وتعلق کا ثبوت رہا ہے۔ اس وقت پاکستان نے اعلان کررکھا ہے کہ پانچ اگست کی پوزیشن بحال ہوئے بغیر بھارت سے تعلقات نارمل نہیں ہوسکتے۔ نیشنل کانفرنس اور دوسری جماعتوں نے بھی یہ اعلان کررکھا ہے کہ پانچ اگست کا فیصلہ ریورس ہوئے بغیر وہ کسی سیاسی عمل کا حصہ نہیں بنیں گی۔ یوں پانچ اگست کے فیصلے کی واپسی مختلف وجوہات کی بنا پر کشمیر کے روایتی سیاست دانوں اور پاکستان کے درمیان عارضی ہی سہی، ایک نقطہ ٔ اتصال بن گیا ہے۔ یہ اِس وقت کی زمینی حقیقت ہے۔ یہ تاریخ کا اصول ہے کہ لڑنے والوں اور مزاحمت پسندوں کا جذبہ اور قربانیاں آبِ زر سے لکھوا کر اپنے سینے میں محفوظ کرلیتی ہے، مگر اس تلخ حقیقت کا کیا کیجیے کہ لڑنے والوں کے خون کے دبائو سے جو میز سجتی ہے اُس کے ایک کونے میں وہ چہرے بھی معتبر بن کر بیٹھے نظر آتے ہیں جن پر عمومی طور پرشریکِ سفر نہ ہونے کی بات صادق آتی ہے۔ دور کیوں جائیں، افغانستان کو ہی لیجیے، طالبان نے سترہ برس آتش وآہن کی برسات سہہ کر جو میز بچھائی اور سجائی ہے اُس کے دوسرے کونے پر اشرف غنی اور حامد کرزئی کا بیٹھنا لازمی قرارپایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس وقت شاہ محمودقریشی، فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی ایک صفحے پر ہیں، اور پانچ اگست سے پہلے کی پوزیشن کی بحالی کے پہلے مرحلے میں صفحے کی یہ ترتیب ہی حد درجہ اہم ہوکر رہ گئی ہے۔ اس وقت چین، پاکستان، کشمیریوں، مودی مخالف بھارتیوں اور کچھ عالمی کھلاڑیوں کے لیے پہلی ترجیح یہی ہے کہ بھارت کو 4 اگست2019ء کی پوزیشن میں واپس دھکیلا جائے تاکہ پاکستان اور بھارت کے سفارت کار کسی کھلی فضا میں ایک دوسرے سے نظریں ملانے کے قابل ہوجائیں۔ اس عالم میں ٹریک ٹو ڈپلومیسی اگر کہیں چھپ چھپاکر ہوبھی رہی ہے تو ٹریک ون میں زیربحث لائے بغیر وہ بے فائدہ اور لاحاصل ہے۔ ٹریک ٹو ریٹائرڈ اور فارغ لوگوں کا مشغلہ ہوتا ہے، فیصلہ سازی کا اختیار ٹریک ون کے پاس ہی ہوتا ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب بھارت دو قدم پیچھے ہٹ کر پاکستان اور کشمیریوں کا غصہ کم کرے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مودی کی موجودگی میں اس بات کا امکان بہت کم نظر آرہا ہے۔