عمران خان کو بڑا خطرہ حزب اختلاف کی جماعتوں یا میڈیا سے نہیں بلکہ خود اپنی جماعت اور حکمرانی کے نظام سے ہے
وزیراعظم عمران خان کے سیاسی مخالفین کی کوشش ہے کہ کسی طریقے سے عمران خان کی حکومت اپنی مدت پوری نہ کرسکے اور ملک نئے انتخابات کی طرف جلد سے جلد گامزن ہوجائے۔ اسی نکتے کو بنیاد بناکر حزبِ اختلاف کی تمام جماعتیں دو نکاتی بیانیے پر توجہ دے رہی ہیں:
(1) عمران خان کی حکومت ناکام ہوگئی ہے اور ملک شدید ترین سیاسی، انتظامی اور مالی بحران کا شکار ہوگیا ہے۔
(2) موجودہ بحران کا واحد حل نئے منصفانہ اور شفاف انتخابات ہیں۔
لیکن ان دونوں نکتوں پر حزبِ اختلاف کی جماعتیں عملی طور پر کوئی بڑی تحریک چلانے میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ ان کا خیال ہے کہ ہم محض سیاسی دبائو یا میڈیا کے ذریعے دبائو ڈال کر حکومت کو مجبور کردیں گے کہ وہ یا تو خود مستعفی ہوجائے، یا ان کے بقول سلیکٹر حکومت کو گھر بھیجنے کا فیصلہ کرلے تاکہ ملک نئے انتخابات کی طرف گامزن ہوسکے۔
اسی طرح پاکستان کی سیاست کے بڑے سیاسی اور صحافتی پنڈتوں نے بھی تواتر کے ساتھ یہ پیش گوئی پہلے بھی کی تھی اور اب بھی کررہے ہیں کہ عمران خان کی حکومت جانے والی ہے۔ بالخصوص ایک نکتے پر زیادہ زور دیا جاتا ہے کہ عمران خان، ان کی حکومت اور اہم فریق یعنی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بہت سے امور پر ٹکرائو ہے، یا اسٹیبلشمنٹ عمران خان سے مایوس ہوچکی ہے۔ حکومت کو گھر بھیجنے کے معاملے میں اُن کے بقول جو تاخیر ہے اس کی وجہ عمران خان کے سیاسی متبادل پر عدم اتفاق ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ پسِ پردہ قوتوں نے شہبازشریف اور چودھری پرویز الٰہی کی صورت میں مرکز اور پنجاب کی قیادت کا فیصلہ کرلیا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں نے تو یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو چھے ماہ کی وارننگ دی تھی کہ اگر انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے کہنے کے مطابق کام نہ کیا تو ان کی حکومت کو چلتا کردیا جائے گا۔
لیکن ان خواہشات اور تجزیوں کی موجودگی میں عمران خان اپنی حکومت کے تیسرے برس میں داخل ہوگئے ہیں۔ حکومت کی اتحادی جماعتوں کے بارے میں یہ خبریں پھیلائی گئیں کہ وہ اب عمران خان سے نالاں ہوگئی ہیں اور متبادل راستے کی تلاش میں ہیں۔ کیونکہ عمران خان کی جماعت مرکز اور پنجاب میں محدود اکثریت کے ساتھ حکومت میں ہے، اور عمران خان کے اقتدار کا بڑا انحصار انھی اتحادی جماعتوں پر ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ کچھ پسِ پردہ قوتیں یا ہم خیال دوست مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق کے درمیان تلخیوں کو ختم کرکے ایک جماعت بنانا چاہتے ہیں، تاکہ مستقبل کی حکمرانی کا نقشہ تیار کیا جاسکے۔
اسی طرح عمران خان کو ایک بڑا سیاسی ایڈوانٹیج یہ بھی حاصل ہے کہ ان کے سیاسی مخالفین ان کے خلاف کوئی بڑی تحریک چلانے کی یا تو صلاحیت نہیں رکھتے یا ان کی سیاسی طاقت کم ہوئی ہے۔ اسی طرح حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے درمیان حکومت کو گھر بھیجنے پر بھی کوئی بڑا اتفاق پیدا نہیں ہوسکا۔ اِن ہائوس تبدیلی، وزیراعظم پر دبائو ڈال کر انہیں مستعفی ہونے پر مجبور کرنا، کسی بڑی عوامی تحریک کا چلنا، اسمبلیوں سے اجتماعی استعفے سمیت نئے انتخابات کے لیے تحریک چلانا… کچھ بھی کارگر نہیں ہوسکا، اور نہ ہی اس پر کوئی مؤثر اتفاق حزبِ اختلاف کی جماعتوں میں دیکھنے کو مل سکا۔ یہ کہنا کافی حد تک بجا ہوگا کہ عمران خان کی حکومت نے عملی طور پر ایک مضبوط حزبِ اختلاف اور تجربہ کار سیاست دانوں کو واقعی مشکل صورتِ حال میں ڈال کر بے بس کیا ہوا ہے۔ حالانکہ عمران خان کی حکومت نے بہت سی ایسی غلطیاں کی ہیں جنہیں بنیاد پر حزبِ اختلاف حکومت کے لیے ایک بڑا بحران پیدا کرسکتی تھی، لیکن وہ کچھ نہ کرسکی۔ اب حالت یہ ہے کہ حزبِ اختلاف میں ہم ایک واضح تقسیم دیکھ رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن اب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سے مایوس ہوکر چھوٹی جماعتوں پر مشتمل نئی حزبِ اختلاف کو حتمی شکل دے رہے ہیں، اور ان کے بقول دونوں بڑی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن درحقیقت اس حکومت کے لیے ’’سہولت کار‘‘ کا کردار ادا کررہی ہیں۔ دوسری طرف مولانا فضل الرحمٰن اتنے زیادہ معصوم بننے کی کوشش کررہے ہیں کہ انہوں نے اسلام آباد کا دھرنا اس بنیاد پر ختم کیا تھا کہ انہیں کچھ قوتوں نے یقین دلایا تھا کہ حکومت مارچ میں نہیں رہے گی۔ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے مولانا کو یقین دلایا، اور کیوں پھر اس پر عمل نہ ہوسکا؟ یہ خود ایک بڑا سوال ہے۔
پاکستان میں سیاسی تبدیلی کا عمل طاقت کے مراکز کے درمیان ٹکرائو کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔ حزب اختلاف اور سیاسی و صحافتی پنڈتوں نے سمجھا تھا کہ عمران خان حکوتم اور فوج کے درمیان ’’تنائو‘‘ پیدا ہوگیا ہے جو ٹکڑائو کی شکل اختیار کرسکتا ہے لیکن اس نکتے پر حزب اختلاف کی ناکامی نے انہیں سیاسی طور پر تنہا بھی کیا ہے۔ اسی طرح حزب اختلاف کا یہ بیانیہ بھی بہت حد تک کمزور ہوا ہے کہ وہ واقعی جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی جنگ لڑرہی ہے۔ اکثر سیاسی جماعتوں میں ایسے افراد یا گروہوں کی کمی نہیں جو دن میں جمہوریت کے نعرے لگاتے ہیں اور رات کی سیاہی میں اسٹیبلشمنٹ کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے ہیں کہ اگر اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی جگہ ہم پر اعتماد کرے تو ہم اس کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکمرانی کے نظام میں عمران خان کی حکومت بھی کوئی ایسی حکومت نہیں جہاں سب اچھا ہو۔ طرز حکمرانی کا بحران ہمیشہ سے ہی ہماری سیاست کا حصہ رہا ہے۔ فوجی ہوں یا سیاسی حکمران… دونوں کی حکمرانی کے نظام میں عام آدمی کو کوئی ریلیف نہیں ملا، اور یہی وجہ ہے کہ حکمرانی کا نظام اپنی ساکھ قائم نہیں کرسکا۔
وزیراعظم عمران خان کو چار محاذوں پر سخت چیلنجز کا سامنا ہے: احتساب کا منصفانہ اور شفاف نظام اور بے لاگ احتساب، معاشی صورت حال میں بہتری پیدا کرنا، ادارہ جاتی اصلاحات اور گورننس کا بحران جس کا ایک بڑا تعلق عام آدمی کی سیاست سے ہے۔ کورونا بحران، چینی، آٹا، پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے لوگوں میں حکومت کے بارے میں شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔
لیکن اب ملکی صورتِ حال کچھ بدلی ہے۔ کچھ معاشی اشاریے مثبت بنیادوں پر دیکھنے کو مل رہے ہیں جو یقینی طور پر حکومت کے لیے اچھی خبر ہے۔ لیکن اصلاحات کا بنیادی مسئلہ حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ پولیس، ایف بی آر، بیورو کریسی، معاشی اور سیاسی اصلاحات سمیت احتساب کے معاملے میں بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ عمران خان کی کامیابی ان ہی بڑی اصلاحات سے جڑی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان کو بڑا خطرہ حزب اختلاف کی جماعتوں یا میڈیا سے نہیں بلکہ خود اپنی جماعت اور حکمرانی کے نظام سے ہے۔ عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے لوگوں میں بہت زیادہ توقعات بڑھا دی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ان کی حکمرانی کو ان ہی بڑے بڑے سیاسی نعروں، دعووں سے پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں، یا ان کی حکمرانی کو چیلنج کرتے ہیں۔ اسی طرح ہماری سیاست میں بڑی تبدیلی کی وجہ بین الاقوامی حالات، یا وہاں کی اسٹیبلشمنٹ کی سیاست اور مفاد ہوتا ہے۔ لیکن اس وقت جو ہماری علاقائی اور عالمی سیاست ہے اس کو بنیاد بناکر بھی یہاں فوری طور پر حکومتی سطح پر تبدیلی کے امکانات محدود نظر آتے ہیں۔
اس لیے عمران خان کی حکومت فی الحال کہیں نہیں جارہی، اور عمران خان مسلسل کوشش کررہے ہیں کہ داخلی محاذ پر، بالخصوص عام لوگوں کے مسائل پر وہ کچھ کرسکیں۔ اگر واقعی آنے والے برس میں وہ لوگوں کو ریلیف دینے میں کامیاب ہوتے ہیں تو ان کی داخلی سیاست مضبوط ہوگی، وگرنہ دوسری صورت میں حکومت کو داخلی محاذ پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ البتہ فی الحال عمران خان کے سیاسی مخالفین کے لیے مایوسی زیادہ ہے،کیونکہ ان کا جو خیال تھا کہ وہ عمران خان کو سیاسی محاذ پر تنہائی میں مبتلا کرکے ان کے اقتدار کو کمزور کرتے ہوئے انہیں پسپائی پر مجبور کردیں گے، یہ فوری طور پر ممکن نظر نہیں آتا۔