امریکی انتخابات میں نسل پرستی اور رنگ دار اقلیتوں کے ساتھ بدسلوکی ہمیشہ سے ایک اہم نکتہ بلکہ نعرہ رہا ہے، لیکن اِس بار یہ معاملہ خاصا سنجیدہ ہوگیا ہے
ری پبلکن پارٹی کی جانب سے صدارت کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی نامزدگی کے ساتھ ہی امریکہ میں انتخابی مہم کا اصل مرحلہ شروع ہوگیا۔ 19اگست کو اپنے قومی اجتماع میں ڈیموکریٹک پارٹی سابق نائب صدر جوبائیڈن کو اپنا امیدوار نامزد کرچکی ہے۔ امریکہ میں پارٹی ٹکٹ کا فیصلہ جماعتی قیادت یا پارلیمانی بورڈ نہیں کرتے، بلکہ امیدواروں کو ٹکٹ کے لیے انتخاب لڑنا پڑتا ہے۔ اس مرحلے کو پرائمری انتخابات کہتے ہیں۔ پرائمری انتخابات کی تفصیل و تعریف اس سے پہلے ایک نشست میں بیان کی جاچکی ہے۔3 نومبر کو امریکی صدارتی انتخابات کے ساتھ پارلیمانی انتخابات بھی ہوں گے۔ جبکہ 13 ریاستوں اور پانچوں نوآبادیوں (Territories) یعنی امریکی سمووا، گوام، جنوبی جزائر میریانا، پورٹو ریکو اور امریکی ورجن آئی لینڈ میں گورنروں کا چنائو بھی اسی روز ہونا ہے۔
امریکی مقننہ یا کانگریس دو ایوانوں پر مشتمل ہے۔ ایوانِ زیریں کو ایوانِ نمائندگان کہا جاتا ہے، جس کے ارکان آبادی کے اعتبار سے حلقہ جاتی بنیاد پر دو سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔ اسے آپ امریکہ کی قومی اسمبلی کہہ سکتے ہں۔ ایوانِ نمائندگان کے ارکان کی کُل تعداد 435 ہے۔ اس کے علاوہ امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی اور پانچوں نوآبادیوں سے ایوانِ نمائندگان کے لیے ایک ایک مندوب کا انتخاب بھی کیا جاتا ہے۔ مندوبین کو ووٹ ڈالنے کا حق نہیں، اس لیے ان کی حیثیت خاموش تماشائی کی سی ہے۔ ایوانِ نمائندگان میں سب سے زیادہ ارکان کیلی فورنیا سے منتخب ہوتے ہیں جن کی تعداد 53 ہے، جبکہ جوبائیڈن کی آبائی ریاست ڈیلویئر سمیت سات چھوٹے صوبوں کی ایوانِ نمائندگان میں صرف ایک ایک نشست ہے۔ اکثریتی جماعت کے پارلیمانی سربراہ یا قائدِ ایوان کو اسپیکرکا منصب عطا ہوتا ہے، یعنی دنیا کے دوسرے ایوانوں کی طرح امریکہ میں اسپیکر غیر جانب دار نہیں۔
امریکی ایوانِ بالا یا سینیٹ میں تمام ریاستوں کی نمائندگی مساوی ہے اور ہر ریاست سے دو ارکان منتخب ہوتے ہیں۔ اس وقت امریکی وفاق پچاس خودمختار ریاستوں پر مشتمل ہے، چنانچہ امریکی سینیٹ کے ارکان کی کُل تعداد 100 ہے۔ سینیٹ کی صدارت بر بنائے عہدہ امریکی نائب صدر کے پاس ہے، جسے عام حالت میں ووٹ ڈالنے کا حق نہیں، لیکن کسی قرارداد پر معاملہ برابر ہوجانے کی صورت میں فیصلہ کن ووٹ اس کا استحقاق ہے۔ سینیٹ کے ارکان کا انتخاب 6 سال کے لیے ہوتا ہے، اور نظامِ انتخاب کچھ اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ ہر دوسال بعد ایک تہائی ارکانِِ سینیٹ کی مدت مکمل ہوجاتی ہے۔
اس وقت 435 رکنی ایوانِ نمائندگان میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان کی تعداد 232 ہے، جبکہ 198 نشستوں پر ری پبلکن ارکان براجمان ہیں۔ ایک نشست لبریٹیرین پارٹی کے پاس ہے، اور چار نشستیں خالی ہیں۔ لبریٹیرین پارٹی کے فلسطینی نژاد جسٹن اماش 2018ء میں ری پبلکن پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے، لیکن گزشتہ برس وہ ری پبلکن چھوڑ کر آزار ارکان کی نشست پر آگئے، اور اِس سال اپریل میں انھوں نے لیبریٹیرین پارٹی کی رکنیت اختیار کرلی۔ جناب اماش نے آئندہ انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا ہے۔
امریکی سینیٹ میں صدر ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی کے ارکان کی تعداد 53، اور 45 سینیٹرز کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے، جبکہ دو آزاد ارکان برنی سینڈرز اور انگس کنگ نے خود کو ڈیموکریٹس کے پارلیمانی وفد سے وابستہ کیا ہوا ہے۔
جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا، نومبر میں ایوانِ نمائندگان کی تمام کی تمام 435 نشستوں پر انتخاب ہورہا ہے اور دونوں پارٹیاں واضح اکثریت کے لیے کم ازکم 218 نشستیں حاصل کرنے کی فکر میں ہیں۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ایوانِ زیریں میں ڈیموکریٹک پارٹی کی بالادستی برقرار رہنے کا امکان ہے۔ سینیٹ کے لیے گھمسان کی جنگ متوقع ہے۔ اِس بار جن 35 نشستوں پر انتخابات ہورہے ہیں ان میں سے 23 نشستیں ری پبلکن پارٹی کے ارکان کی مدت مکمل ہونے سے خالی ہوئی ہیں، اور 12 نشستوں پر ڈیموکریٹک ارکان کی مدت تکمیل کو پہنچی ہے، یعنی صدر ٹرمپ کی جماعت کو ڈیموکریٹک پارٹی کے مقابلے میں دگنی نشستوں کا دفاع کرنا ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی جو 12نشستیں خالی کررہی ہے ان میں سے الابامہ کی نشست پر ری پبلکن پارٹی کی کامیابی یقینی نظر آرہی ہے۔ دو نشستوں پر سخت مقابلہ ہے، جبکہ باقی 9 نشستیں محفوظ لگ رہی ہیں۔ دوسری طرف ری پبلکن پارٹی کی کم ازکم 6 نشستیں خطرے میں ہیں۔ انتخابات کے بعد پارلیمانی حجم کے اعتبار سے امریکی سینیٹ کی متوقع ہیئت کے بارے میں کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ وقت کم اور مقابلہ بہت سخت ہے۔ صدارت کے لیے ووٹروں کے رجحان سے کانگریس کے نتائج پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ ووٹروں کی بڑی تعداد پولنگ کے دوران مختلف نشستوں کے کھکھیڑ میں پڑنے کے بجائے ایک بٹن دبا کر Straight Party Ticket کو ووٹ ڈال دیتی ہے۔
پارلیمانی انتخابات کے بعد اب آتے ہیں اصل موضوع یعنی ایوانِ مرمریں (وہائٹ ہائوس) کے معرکے کی طرف۔
اس ضمن میں ایک اہم بات کہ امریکی صدارت کے لیے صدر ٹرمپ اور جوبائیڈن کے علاوہ بھی درجنوں امیدوار میدان میں ہیں۔ ساری دنیا کی طرح امریکہ میں بھی ہر جماعت اور شخص کو انتخاب لڑنے کی آزادی ہے، لیکن بیلٹ پر نام کے لیے مختلف ریاستوں میں رجسٹریشن ضروری ہے اور اس کا معیار بھی مختلف ہے۔ کسی ریاست میں کم از کم 1000 افرادکی حمایت ضروری ہے، تو کہیں نامزدکنندہ اور دو حمایت کنندہ ہی بہت ہیں۔ اس کے علاوہ ووٹر کسی بھی اہل شخص کا نام خود ہی بیلٹ پیپر پرلکھ سکتا ہے جسے Write-in کہتے ہیں۔ اس سلسلے میں بڑا دلچسپ مقابلہ 2010ء میں ہوا جب ریاست الاسکا سے ری پبلکن پارٹی کی سینیٹر لیسا مرکاوسکی پرائمری انتخابات میں شکست کھاکر میدان سے باہر ہوگئیں۔ بلند حوصلہ لیسا نے اپنے ووٹروں سے درخواست کی کہ انھیں Write-in ووٹ دیا جائے۔ محترمہ لیسا مرکاوسکی عام انتخابات میں اپنے حریف کو11 ہزار ووٹوں سے شکست دے کر منتخب ہوگئیں۔
اس بار جو چھوٹی پارٹیاں میدان میں ہیں ان میں لیبریٹیرین پارٹی، گرین پارٹی، الائنس پارٹی، دستور پارٹی، سوشلزم اینڈ لبریشن پارٹی، امریکن سالیڈیرٹی پارٹی، سوشلسٹ ورکرز پارٹی، یونٹی پارٹی، Prohibition پارٹی، ترقی پسند پارٹی، Approval Voting پارٹی، اور سوشلسٹ مساوات پارٹی کے علاوہ شغل میلہ کے لیے مشہورگلوکار اور فیشن ڈیزائنر کنیاویسٹ برتھ ڈے پارٹی کے نام سے سامنے آئے ہیں۔ کنیا ویسٹ صاحب کی شہرت یہ ہے کہ موصوف خوبرو اداکارہ کم کرداشین کے شوہر ہیں۔ ان جماعتوں کے علاوہ 4 آزاد امیدوار بھی قسمت آزمائی کررہے ہیں جن میں شکاگو کی سابق ملکہ حسن محترمہ جیڈ سمنز بھی شامل ہیں۔
اگر چھوٹی جماعتوں اور امیدواروں کا شمار کیا جائے تو
٭ تین خواتین صدارت کا انتخا ب لڑرہی ہیں۔
٭ چار سیاہ فام صدارت کے امیدوار ہیں۔
٭ ڈیموکریٹک پارٹی کی کملا دیوی ہیرس سمیت 3 ہندنژاد امیدوار نائب صدارت کے لیے قسمت آرائی کررہے ہیں۔
امریکی انتخابات میں نسل پرستی اور رنگ دار اقلیتوں کے ساتھ بدسلوکی ہمیشہ سے ایک اہم نکتہ بلکہ نعرہ رہا ہے، لیکن اِس بار یہ معاملہ خاصا سنجیدہ ہوگیا ہے۔ پہلے ایسا لگ رہا تھا کہ کورونا وائرس کے حوالے سے صدر ٹرمپ کا غیر سنجیدہ رویہ فیصلہ کن کردار ادا کرے گا، اور جوبائیڈن نے اسی نکتے کو اپنی مہم کی بنیاد بنایا تھا، جبکہ صدر ٹرمپ کامیاب معیشت کو اپنی قابلیت کا ثمر قرار دے رہے تھے۔ کورونا کے باوجود امریکی معیشت اتنی بری نہیں اور بازارِ حصص ایک بار پھر تاریخی بلندیوں پر ہے، جسے حامیانِ صدر ٹرمپ ملکی معیشت پر سرمایہ کاروں کے اعتماد سے تعبیر کررہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے مشیرانِ اقتصادیات عوام کو باور کرا رہے ہیں کہ وقتی گراوٹ کے باوجود یہ ٹیکسوں میں چھوٹ اور پابندیوں کے خاتمے کا نتیجہ ہے کہ امریکی معیشت کورونا وائرس کا دھچکا برداشت کرگئی اور جیسے ہی اس موذی سے نجات ملی ملک میں دودھ و شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔
مئی میں نہتے سیاہ فام جارج فلائید کے سفید فام پولیس افسران کے ہاتھوں المناک قتل نے سارے امریکہ میں ہیجان برپا کردیا۔ اس واقعے کے بعد اسی نوعیت کے چند اور حادثات بھی ہوئے جس کی وجہ سے امریکہ کے سفید فام حلقوں میں بھی سماجی عدم انصاف اور نسلی امتیاز پر سنجیدہ بحث کا آغاز ہوا۔گفتگو کے دوران صدر ٹرمپ کا غیر ذمہ دارانہ رویہ تنقید کا نشانہ بنا اور ری پبلکن پارٹی مدافعت پر مجبور ہوگئی۔ اتفاق سے نسلی امتیاز کے خلاف مظاہروں کے دوران تشدد کے واقعات بھی ہوئے جسے صدر ٹرمپ نے لاقانونیت اور دہشت گردی قرار دیا۔ سفید فام نسل پرست صحافتی حلقوں نے معاملے کو اچھال کر یہ تاثر دیا کہ ایک طرف ڈیموکریٹک پارٹی سیاہ فاموں سے بدسلوکی کا ڈھنڈورا پیٹ کر پولیس کو بدنام اور غیر فعال کررہی ہے تو دوسری طرف احتجاج کے نام پر دہشت گردی، بلوہ، لوٹ مار اور آتش زنی کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ ڈیموکریٹ رئوسائے شہر نے پولیس کے ہاتھ باندھ دیے ہیں جس کی وجہ سے غنڈوں کو غارت گری کی کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔ پولیس یونین جس نے عام انتخابات میں صدر ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کیا ہے، دائیں بازو کے بیانیے کو آگے بڑھا رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں Black Lives Matter کے مقابلے Blue Lives Matter (پولیس کی زندگی اہم ہے) کی تحریک شروع ہوچکی ہے۔ معاملہ نعرے تک رہتا تب بھی ٹھیک تھا۔ اب ان مظاہرین کے مقابلے کے لیے مسلح سفید فام میدان میں آگئے ہیں۔23 اگست کو امریکی ریاست وسکونسن کے شہر کنوشا میں ایک 29 سالہ سیاہ فام شخص جیکب بلیک کو پولیس نے محض اس شک کی بنیاد پر دو فٹ کے فاصلے سے سات گولیاں مار دیں کہ اس کی کار میں چھرا رکھا تھا۔ اس کے نتیجے میں جیکب کا نچلا دھڑ مفلوج ہوگیا۔ اس واقعے پر اشتعال انگیز مظاہرے ہوئے۔ یہ خبر سن کر ایک 17 سالہ سفید فام نوجوان کائل رٹن ہاوس اپنی رائفل لے کر وہاں آیا اور فائرنگ کرکے دو مظاہرین کو ہلاک اور ایک کو شدید زخمی کردیا۔ اس موقع پر پولیس نہ صرف خاموش تماشائی بنی رہی بلکہ اس نے کائل کو گرفتار تک نہ کیا، جس نے بعد میں خود ہی تھانے جاکر گرفتاری دے دی۔ حملہ آور کا مؤقف ہے کہ اس نے نجی و عوامی املاک کو آتش زنی و لوٹ مار سے بچانے کے لیے دہشت گردوں پر فائرنگ کی تھی۔ کائل کے دفاع کے لیے سینکڑوں وکلا میدان میں آگئے ہیں اور 6 دن گزر جانے کے باوجود اس کے خلاف فردِ جرم بھی مرتب نہیں کی گئی۔ اس واقعے کے بعد سے وسکونسن کے سفید فام ووٹروں میں صدر ٹرمپ کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ریاستی گورنر کی مخالفت کے باوجود صدر ٹرمپ نے کنوشا کے دورے کا اعلان کیا ہے جہاں وہ قانون نافذکرنے والے اداروں سے یکجہتی کے علاوہ شرپسندوں کے ہاتھوں نجی و عوامی املاک کے نقصانات کا جائزہ لیں گے۔ اسی طرح ریاست اوریگن کے شہر پورٹ لینڈ میں ری پبلکن پارٹی کے جلوس اور مظاہرین میں تصادم نے ایک شخص کی جان لے لی۔ گوری بستیوں میں ووٹر رجسٹریشن کی مہم چلائی جارہی ہے۔ سی این این کے مطابق ری پبلکن پارٹی نے صرف ایک ہفتے کے دوران 10 لاکھ ووٹوں کا اندراج کروایا ہے۔
صدر ٹرمپ کی اس نئی حکمت عملی سے نتائج پر کیا اثر پڑے گا اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہے، ورنہ تمام جائزے اور اشارے جوبائیڈن کے حق میں لگ رہے ہیں۔ جیسا کہ ہم اس سے پہلے عرض کرچکے ہیں امریکہ میں صدارت کا فیصلہ عام ووٹوں کے بجائے الیکٹورل کالج کے ووٹوں سے ہوتا ہے۔ گزشتہ انتخابات میں ہلیری کلنٹن نے صدر ٹرمپ سے 35 لاکھ ووٹ زیادہ حاصل کیے لیکن ان کے 227 ووٹوں کے مقابلے میں 304 الیکٹورل ووٹ لے کر صدر ٹرمپ نے وہائٹ ہائوس کی کنجی اپنے نام کرلی۔
امریکہ کا سیاسی جغرافیہ بڑا روایتی نوعیت کا ہے اور امریکی سیاسی ترجیحات کے معاملے میں تلون مزاج نہیں۔ امریکہ کا مشرقی و مغربی ساحل ڈیموکریٹس کا گڑھ ہے یعنی بحرالکاہل کے ساحل پر کیلی فورنیا، اوریگن اور ریاست واشنگٹن سے ڈیموکریٹک پارٹی کی کامیابی کا امکان ہے۔ مشرق میں بحراوقیانوس کے ساحلوں پر نیویارک، نیوجرسی، میساچیوسٹس، دوسری چھوٹی ریاستوں اور امریکی دارالحکومت پر بھی خرمستیاں عروج پر ہیں۔ مذہبی رجحان کا حامل جنوبی بائبل بیلٹ ری پبلکن پارٹی کا قلعہ ہے، اسی طرح وسط اور شمال میں بھی اصحابِ فیل بہت مضبوط ہیں۔
اصل معرکہ 9 ریاستوں یعنی مشی گن، پنسلوانیا، فلوریڈا، وسکونسن، اریزونا، شمالی کیرولینا، مینی سوٹا، نیواڈا اور نیو ہیمپشائر میں برپا ہونا ہے جہاں مجموعی طور پر 113 انتخابی ووٹوں کا فیصلہ ہوگا۔ انتخابی جائزوں کے مطابق ان تمام ریاستوں میں جو بائیڈن صدر ٹرمپ سے آگے ہیں۔ یعنی ریاضی کے ضابطے سے صدر ٹرمپ ذرا مشکل میں ہیں۔ ایک اور کلیدی نکتہ ووٹ ڈالنے کا رجحان و تناسب ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے ووٹروں کی اکثریت تعلیم یافتہ سفید فاموں، مزدوروں، افریقی نژاد امریکیوں، ہسپانویوں اور غیر ملکی نژاد رنگ داروں کی ہے جو مصروفیت کی بنا پر ووٹ ڈالنے نہیں جاتے۔ سیاہ فام علاقوں میں ووٹنگ کا انتظام بڑا ناقص ہے۔ طویل قطار اور جانچ پڑتال کے سخت نظام کی وجہ سے ووٹ ڈالنے کا تناسب کم ہے، جبکہ ہسپانویوں اورچہرے مہرے سے غیر ملکی نظر آنے والے دوسرے رنگ داروں کو ہراساں کیے جانے کا خوف پولنگ اسٹیشن سے دور رکھتا ہے۔ پولنگ حکام کا یہ رویہ امریکہ کی سیاسی اصطلاح میں Voters Suppressionکہلاتا ہے۔ 2008ء کے انتخابات میں جب صدر اوباما امریکی تاریخ کے پہلے سیاہ فام امیدوار کی حیثیت سے سامنے آئے تھے تب شہری آزادیوں، نسلی مساوات اور سماجی انصاف کی تنظیموں نے سیاہ فام ووٹروں کے قانونی حقوق کے تحفظ کے لیے حساس پولنگ اسٹیشنوں پر رضاکار تعینات کیے تھے۔ اِس بار اس قسم کے کسی اہتمام کی تفصیل سامنے نہیں آئی۔
کسی بھی انتخاب کی طرح 3 نومبر کے انتخاب کے متوقع نتائج کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے، تاہم اگر ڈیموکریٹک پارٹی اپنے روایتی حلقوں میں ووٹروں کو گھروں سے نکالنے میں کامیاب ہوگئی تو صدارت کے ساتھ شاید سینیٹ و ایوانِ نمائندگان میں بھی ان کا پارلیمانی حجم بہتر ہوسکتا ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ بھی غافل نہیں، اور وہ نفرت کی مہم چلاکر گوروں کو خوف زدہ کرنے میں مصروف ہیں۔ ان کوششوں سے شاید صدر ٹرمپ انتخاب تو جیت لیں لیکن یہ امریکہ کے حق میں بہتر نہ ہوگا، کہ نفرت مزید نفرت کو جنم دیتی ہے۔ تعصب و منافرت کی سیاست نے تیسری دنیا کا کیا حال کیا ہے امریکی صدر کو یقیناً اس کی خبر ہوگی۔
………
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.com اور ٹویٹر Masood@MasoodAbdali پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹwww.masoodabdali.com پر تشریف لائیں۔