کے الیکٹرک کے آئینے میں طرزِ حکمرانی کی تصویر

پاکستان میں طرزِ حکمرانی کا بحران کئی شہروں سے قومی مسائل کی فہرست میں سب سے اوپر آچکا ہے۔ اس دوران نظام حکمرانی کے بارے میں عدالت ہائے عالیہ و عظمیٰ میں جن مقدمات کی سماعتیں ہوئی ہیں انہوں نے بھی تمام ریاستی اداروں اور سابق و موجودہ سیاسی و فوجی حکومتوں کی کارکردگی کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ حکومتی کارکردگی اور ریاستی اداروں کی ناکامی کا سب سے بڑا مظہر کراچی شہر بن کر قوم کے سامنے آیا ہے۔ اس شہر کو تھوڑی سی غیر معمولی بارشوں نے ’’آفت زدہ‘‘ شہر بنا دیا ہے، کراچی شہر کی صورتِ حال اتنی سنگین ہوگئی ہے کہ افواجِ پاکستان کے سالارِ اعلیٰ بھی کور کمانڈر کے دفتر میں ’’شہری سیلابی کیفیت‘‘ یعنی ’’اربن فلڈنگ‘‘ کا جائزہ لینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
کراچی میں بارش کی تباہ کاری کو قدرتی آفت قرار دیا جارہا ہے، جبکہ یہ معمول سے زیادہ بارش ضرور ہے لیکن اسے ’’قدرتی آفت‘‘ نہیں کہا جاسکتا۔ ہاں یہ ’’انسانی ساختہ‘‘ تباہی ضرور ہے، اس لیے کہ بڑے شہر کی جو بنیادی ضروریات ہیں جن کی فراہمی کے لیے عقلِ عام کافی ہے، وہ پوری نہیں کی گئیں۔ کراچی بارش میں اس لیے ڈوبا کہ اس شہر کا انفرااسٹرکچر، ماسٹر پلان تباہ کردیا گیا۔ اس شہر میں قدرتی برساتی نالے اور دو بڑی ندیاں پہلے سے موجود تھیں، انہیں تباہ کردیا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بدعنوانی اور رشوت خوری کے کلچر نے تمام ریاستی اداروں پر مافیائوں کا ایسا تسلط قائم کردیا ہے جس نے تمام اصولوں اور ضابطوں کو پامال کردیا ہے۔ شہری انتظامات میں جو خرابیاں پیدا ہوچکی ہیں ان کا علاج بھی بحران کا سبب ہے۔
غیر معمولی بارشوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران کے دوران میں عدالتِ عظمیٰ میں کراچی کے مسئلے پر لیے گئے ازخود نوٹس کے تحت مقدمات کی سماعت کی تاریخ بھی آگئی۔ ہم گزشتہ کسی شمارے میں ان ہی صفحات میں کراچی کے مسائل بالخصوص نجکاری کے بعدکراچی کو بجلی فراہم کرنے والے ادارے ’کے الیکٹرک‘ کی کارکردگی پر عدالتِ عظمیٰ کے سربراہ منصفِ اعلیٰ جسٹس گلزار احمد کے اظہارِ غیظ و غضب کو بلاتبصرہ پیش کرچکے ہیں جو پاکستان کے حکمرانوں، عام حکومتی و ریاستی اداروں کے خلاف ’’فردِ جرم‘‘ تھی۔ کراچی کو آفت زدہ قرار دیے جانے کے بعد اسلام آباد میں اسی مقدمے کی جو نئی سماعت ہوئی ہے، اس میں چیف جسٹس گلزار احمد کے تبصروں کی تلخی اسی طرح برقرار ہے، اور اس بات کی علامت ہے کہ عشروں سے جاری تباہی کے باوجود نظامِ حکمرانی میں کسی قسم کی بہتری کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آرہے، پاکستان میں حقیقی حکمرانی مافیائوں کی قائم ہو چکی ہے اور ریاستی انتظامیہ مافیائوں کی غلام ہے۔
کے الیکٹرک کے بارے میں عدالتِ عظمیٰ کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کے تلخ تبصرے آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ ’’حکومت میں ملک چلانے کی صلاحیت ہے نہ اہلیت۔ وہ کے الیکٹرک کی کلرک اور منشی بنی ہوئی ہے‘‘۔ دورانِ سماعت عدالتِ عظمیٰ نے کے الیکٹرک کے بارے میں پاور ڈویژن کی رپورٹ پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’پاور ڈویژن کی رپورٹ کے الیکٹرک سے پیسے لے کر بنائی گئی ہے، جس افسر نے رپورٹ بنائی اُس کو پھانسی دے دینی چاہیے۔ کیوں ناں ایسی رپورٹ پر جوائنٹ سیکریٹری کو نوکری سے فارغ کردیں، پاور ڈویژن والوں کو کراچی لے جائیں، دیکھیں لوگ ان کو کیسے پتھر مارتے ہیں۔ کراچی جاکر ان لوگوں کا دماغ ٹھیک ہوجائے گا۔ کراچی میں بارشوں کی وجہ سے صورتِ حال مزید خراب ہوچکی ہے۔ آج بھی آدھا کراچی پانی اور اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔ کراچی میں کے ایم سی اور کنٹونمنٹ بورڈ ہیں، لیکن ان کے ملازم نظر نہیں آرہے، لگتا ہے سارے گھوسٹ ملازمین بھرتی ہوئے ہیں۔ خوامخواہ کہا جاتا ہے کہ کراچی ملکی معیشت کا 70 فیصد دیتا ہے، کراچی کے پاس اب دینے کے لیے کچھ نہیں۔ کراچی میں اربوں روپے جاری ہوئے ہیں لیکن خرچ کچھ نہیں ہوا۔ پہلے ہی اربوں روپے بیرونِ ملک جاچکے ہیں، کراچی میں مال بنانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے، کراچی والوں کے بیرونِ ملک اکائونٹ فعال ہوچکے ہیں، کے الیکٹرک عوام کو بجلی اور حکومت کو پیسے نہیں دیتی، 2015ء سے کے الیکٹرک نے ایک روپیہ حکومت کو نہیں دیا، آپ لوگ ان کے ترلے کررہے ہیں!‘‘
ان تبصروں سے حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے، لیکن عدالتِ عظمیٰ کے سربراہ نے سب سے اہم سوال یہ اٹھایا ہے کہ ’’وفاقی حکومت کی رٹ کہاں ہے؟‘‘ اس سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ اصل حکم کے الیکٹرک کا چلتا ہے۔ وفاقی حکومت بے بس ہے۔ یہ ہے پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور تجارتی و صنعتی دارالحکومت کا منظرنامہ، اور اس منظرنامے کے آئینے میں طرز ِحکمرانی کی حقیقی تصویر۔