پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم نااہلی کا نیا ریکارڈ۔عوام کے دکھوں کا مداوا کون کرے گا؟
سندھ میں ہونے والی حالیہ تباہ کن بارشوں نے وفاقی اور صوبائی حکومت کی نااہلی، نالائقی، عدم کارکردگی اور بے حسی پر مہرِ تصدیق ایک مرتبہ پھر ثبت دی ہے۔ سندھ میں ہونے والی ان طوفانی بارشوں کی وجہ سے اگر ماضی میں ہونے والی اس طرح کی بارشوں کے سابقہ ریکارڈ چکناچور ہوئے ہیں تو دوسری جانب گزشتہ ایک عرصے سے سندھ پر برسرِاقتدار رہنے والی حکمران جماعت پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی قیادت اور ذمہ داران کی نااہلی کے بھی نئے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں۔ حالیہ لگ بھگ ایک ہفتے تک جاری رہنے والی تباہ کن طوفانی بارشوں کی وجہ سے کراچی، حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ، میرپورخاص ڈویژن سمیت سندھ بھر کے دیگر چھوٹے بڑے اضلاع اور شہروں میں جس طرح سے بہت بڑے پیمانے پر تباہی آئی ہے، نہروں کے پشتے ٹوٹنے سے جس انداز میں تیار کھڑی فصلیں تباہ ہوئی ہیں اور گائوں کے گائوں، بلکہ شہروں کی آبادیاں غرقِِ آب اور متاثر ہوئی ہیں، اُس سے اس بات کا واضح اور ٹھوس ثبوت سامنے آیا ہے کہ سندھ میں درحقیقت حکومت نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں ہے۔ ہر متاثرہ ضلع میں وہاں کی مقامی ضلعی سرکاری مشینری اگر کہیں دکھائی نہیں دی تو دوسری جانب یو سی سطح سے صوبائی اور قومی سطح کی منتخب عوامی قیادت بھی نظر نہیں آئی۔
جیکب آباد کی گنجان آبادی پر مشتمل شہبازپور جیٹل شاہ کالونی قریب سے گزرنے والی جمالی واہ (نہر) میں 100 فٹ گہرا شگاف پڑنے سے کئی فٹ پانی میں ڈوب گئی اور ہزاروں افراد گھروں میں پانی داخل ہوجانے کی وجہ سے در بدر ہوگئے لیکن ضلعی انتظامیہ یا منتخب عوامی نمائندگان میں سے کسی کو بھی فرصت نہیں مل سکی کہ متاثرہ عوام کی مدد اور دل جوئی کے لیے ان سے ملنے کی زحمت گوارا کرتا۔تاہم جماعت اسلامی کے امیر دیدار لاشاری اور نائب امیر امداد اللہ بجارانی نے الخدمت کے رضاکاروں کے ساتھ متاثرین میں کھانا تقسیم کیا۔ بدقسمتی سے سندھ کے بیشتر اضلاع کے ضلعی اور سٹی کے منتخب ناظمین پی پی کے قومی اور صوبائی اسمبلی کے منتخب نمائندگان کے قریبی رشتے دار یا چہیتے ہیں، اس لیے وہ ہر سرکاری محاسبے اور عوامی مواخذے سے خود کو ماورا سمجھتے ہیں۔ لہٰذا عوام کو مقامی سطح پر درپیش دکھوں اور مسائل کا درماں کرنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔ سندھ کے عام شہر، گوٹھ، قصبات اور اضلاع تو لاوارث ہیں ہی، اور اس جدید، ترقی یافتہ دور میں بھی کھنڈرات کا منظر پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں، لیکن پی پی کا سیاسی گڑھ ضلع لاڑکانہ بھی حالیہ تباہ کن طوفانی بارشوں سے بری طرح متاثر ہوا ہے، اور یہاں کے مقامی باشندے بھی اپنے منتخب عوامی نمائندوں اور سرکاری انتظامیہ کی نااہلی سے حد درجہ نالاں، برہم اور ناراض دکھائی دیتے ہیں۔ بے چارے عوام جب شدید گرمی، لوڈشیڈنگ اور حبس سے تنگ آجاتے ہیں تو اللہ سے بارش کی دعائیں مانگنے لگ جاتے ہیں، لیکن جب بارش برستی ہے اور ہر طرف پانی ہی کھڑا ہوجاتا ہے، آمدورفت کے راستے معطل ہوجاتے ہیں، اور متعلقہ سرکاری اداروں کے اہلکاروں کی نااہلی کے باعث بارش بجائے رحمت کے زحمت بن جاتی ہے تو وہی ہاتھ بارش تھمنے کی دعا مانگنے کے لیے اٹھ جاتے ہیں۔ اس میں قصور ان متعلقہ سرکاری اداروں کے ذمہ داران کا ہے جنہوں نے اس نوع کی صورتِ حال سے نمٹنے کے انتظامات نہیں کیے ہوتے، اور ہر سال اس حوالے سے مختص کردہ اربوں روپے کا بجٹ ملی بھگت سے ٹھکانے لگا دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے قدرتی آفات کی صورت میں ساری اذیت اور تکلیف عوام کو بھگتنا پڑتی ہے۔
حکومتِ سندھ نے تباہ کن بارشوں کی وجہ سے جہاں ایمرجنسی نافذ کردی ہے، وہیں صوبے کے 20 اضلاع کو آفت زدہ بھی قرار دے ڈالا ہے۔ ایک سروے کے مطابق سندھ کا 70 فیصد علاقہ شدید طوفانی بارشوں سے متاثر ہوا ہے، ایسے میں ایمرجنسی کے اعلانات وغیرہ کسی مذاق سے کم ہرگز نہیں ہیں، کیوں کہ ایمرجنسی لگانے یا بیس اضلاع کو آفت زدہ قرار دینے سے متاثرہ عوام کے مسائل، مصائب اور تکالیف میں کسی نوع کی حسبِ سابق و روایت کوئی کمی واقع نہیں ہوگی، تو آخر اس قسم کے نام نہاد رسمی سرکاری اعلانات کرنے کا تکلف کیوں کیا جاتا ہے؟ اس کا جواب دینا بھی حکومتِ سندھ کے ذمہ داروں کا فرض بنتا ہے۔
اوپر ذکر ہورہا تھا پی پی کے سیاسی مرکز اور گڑھ لاڑکانہ کا… سندھ کے دیگر اضلاع کی طرح یہاں بھی طوفانی بارشوں کی تباہ کاریوں نے مقامی بلدیاتی اور سرکاری اداروں کی غیر معیاری کارکردگی اور ذمہ داران کی نااہلی اور نالائقی کو واضح طور پر مع ٹھوس ثبوتوں کے عیاں کرڈالا ہے۔ سندھ سمیت اہلِ لاڑکانہ بجا طور پر سوال کررہے ہیں کہ کیا ہماری ضلعی سرکاری انتظامیہ، بلدیہ کی قیادت اور منتخب عوامی نمائندوںکو علم نہیں تھا کہ ہر سال کی طرح امسال بھی متوقع مون سون کی بارشوں سے مسائل جنم لے سکتے ہیں؟ تو انہوں نے اس بارے میں پیشگی اقدامات کیوں نہیں کیے؟ بلاول بھٹو زرداری کا حلقۂ انتخاب ہونے کے باوجود لاڑکانہ بھی دیگر شہروں کی طرح تباہی و بربادی کا ہولناک منظر پیش کررہا ہے لیکن منتخب عوامی قیادت کہیں دور دور تک دکھائی نہیں دی۔ لاڑکانہ تو ٹھیرا ایک طرف، سندھ کے کسی بھی ضلع میں ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات نہیں کیے گئے تھے۔ لاڑکانہ سمیت کسی بھی ضلع یا شہر میں رین ایمرجنسی سینٹر یا کنٹرول روم قائم نہیں کیے گئے جہاں پر عوام اپنی شکایات درج کرواتے یا تعاون طلب کرسکتے۔ حالیہ بارشوں کی وجہ سے لاڑکانہ کے گھروں، سرکاری عمارتوں اور اسپتالوں میں کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہوگیا تھا لیکن لاڑکانہ کے میئر خیر محمد شیخ سمیت مقامی بلدیاتی، صوبائی یا قومی اسمبلی کے منتخب عوامی نمائندے کہیں بھی دکھائی نہیں دیے۔ یہی حالتِ زار سندھ کے دیگر اضلاع اور شہروں کی بھی تھی۔ لگتا یہ ہے کہ اب ہمارے سرکاری اور بلدیاتی اداروں کی کارکردگی یکسر ختم ہوچکی ہے، اور ان کے ذمہ داران کا مقصد عوام کو ریلیف پہنچانے کے بجائے محض لوٹ کھسوٹ کرنا ہی رہ گیا ہے۔
جب پی پی کے سیاسی گڑھ لاڑکانہ کی ایسی ابتر اور ہولناک صورتِ حال ہے تو ’’قیاس زکن گلستان من بہار مرا‘‘… سندھ کے دیگر اضلاع کی حالتِ زار کا اس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ حالیہ بارشوں سے کہیں زیادہ سندھ کے اضلاع کو غرقِ آب کرنے یا تباہ کرنے میں بدانتظامی اور نااہلی کا کردار تھا۔ یہ بات بھی زبان زدِ عام ہوچلی ہے کہ سندھ کے بڑے شہروں کو ایم کیو ایم اور دیگر اضلاع کو پی پی کی قیادت نے اپنی نااہلی اور بدعنوانی سے تباہ و برباد کر ڈالا ہے۔ ایک طرف شدید بارشوں اور دوسری جانب نہروں میں پڑے والے شگافوں سے بھی سندھ کے بیشتر اضلاع کی بڑی بڑی آبادیاں اور بستیاں غرقِ آب ہوئی ہیں۔ جیکب آباد کا ذکر رپورٹ کی شروع میں کیا جا چکا ہے، لیکن اس حوالے سے ناموں کی ایک طویل فہرست ہے۔ جن جن علاقوں میں نہروں کے ناقص پشتوں میں پڑنے والے شگافوں کی وجہ سے قریبی شہروں اور بستیوں میں اچانک تباہی وارد ہوئی ہے اور بے چارے لاکھوں عوام اس کی وجہ سے بے گھر اور دربدر ہوئے ہیں ان نہروں میں پڑنے والے شگافوں کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ پر محیط چاول، ٹماٹر اور مرچ کی فصلیں تباہی سے دوچار ہو کر کاشت کاروں کو مزید بدحالی اور پریشانی سے دوچار کر گئی ہیں جن کا اب کوئی بھی پرسانِ حال نہیں ہے، کیوں کہ حکومت نام کی کوئی چیز تو ہمارے ہاں موجود ہی نہیں ہے۔ بارش کے پانی کی قدرتی گزرگاہوں پر قائم تجاوزات سے بھی بڑی تباہی آئی ہے۔ اہلِ سندھ شاکی ہیں کہ حکومتِ پاکستان اور حکومتِ سندھ سمیت سارے میڈیا کی توجہ سندھ کے دارالحکومت کراچی پر مرتکز ہے لیکن سندھ کے دیگر اضلاع میں جو ہولناک تباہی اور بربادی آئی ہے اس کا ذکر بہت کم کیا جارہا ہے۔ آخر ہمارے دکھوں اور غموںکا مداوا کون کرے گا؟