کوٹہ سسٹم کا خاتمہ؟۔

پارلیمانی جماعتوں کی صفوں میں خاموشی…۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور1973ء میں نافذ ہوا، اس سے قبل1956ء اور1962ء میں دستور بنائے گئے اور نافذ بھی ہوئے، مگر یہ دستور ریت کے گھروندے ثابت ہوئے۔ 1973ء کا دستور اُس وقت نافذ ہوا جب ملک دو حصوں میں تقسیم ہوچکا تھا، اور اس دستور کے ذریعے باقی ماندہ ملک کی حفاظت، اس کی سلامتی اور اس کے جغرافیائی نقشے کی حفاظت اور جمہور کی آواز کے مطابق اللہ کی حاکمیت تسلیم کرتے ہوئے اقتدارِ اعلیٰ عوام کے منتخب نمائندوں کے سپرد کرنے کی آئینی قسم کھائی گئی تھی۔ آج ملک میں دستور نافذ ہوئے47 سال ہوچکے ہیں اور تین سال بعد ہم اس آئین کی گولڈن جوبلی منارہے ہوں گے، اس دوران ملک میں تین بار آئین معطل ہوا، ایک بار جنرل ضیا الحق اور دوبار جنرل پرویزمشرف نے اس کے متعدد حصے معطل کیے اور اسے غیر مؤثر بنائے رکھا۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ جمہوری حکومتوں نے بھی آئین پر عمل نہیں کیا۔ آئین میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے علاوہ مقامی حکومتوں کا بھی ذکر ہے، مقامی حکومتیں عوام کے ووٹ سے قائم کیے جانے کی ضمانت دی گئی ہے، مگر اس وقت پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان میں یہ حکومتیں کام نہیں کررہی ہیں۔ تحریک انصاف مقامی حکومتوں کے لیے ایک نیا نظام لانا چاہتی ہے۔ سابق حکومتیں مدت مکمل کیے بغیر ہی ختم کی گئی ہیں، اور اب وہاں انتظامی افسران تعینات ہیں۔ آئین میں مقامی حکومتوں کے تحفظ کی ضمانت ہے، لیکن یہ ضمانت کیوں محفوظ نہیں؟ اس کا جواب تحریک انصاف ہی دے سکتی ہے، مگر پارلیمنٹ میں آج تک کسی رکن اسمبلی نے یہ معاملہ نہیں اٹھایا۔ آئین کا آرٹیکل 6 کیا کہتا ہے، بہت سے سوالات ہیں جن کے جواب اس پارلیمنٹ کے ذمے ہیں، اور پارلیمنٹ ان سوالوں کے جواب نہیں دے پارہی۔
آئین میں اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ پاکستان میں بسنے والے ہر شہری کو مذہب، نسل اور ذات سے بالاتر ہوکر بلا امتیاز سیاسی، معاشی اور سماجی انصاف فراہم کیا جائے گا۔ آئین کے آرٹیکل5 میں یہ بھی لکھا ہوا کہ ہر شہری ریاست کا وفادار ہوگا۔ ریاست سے وفاداری، آئین کی پاس داری دونوں کو ملا کر اگر دیکھا اور پرکھا جائے تو بہت سے سوالات کے جواب خود ہی مل جاتے ہیں۔ اگر آج آئین کے صرف ایک آرٹیکل27کا ہی جائزہ لیا جائے تو اس وقت بہت بڑا خلا نظر آتا ہے۔ اس آرٹیکل پر عمل درآمد کس کی ذمے داری ہے؟ چونکہ یہ معاملہ سیاسی جماعتوں کی خاموشی کے باعث الجھا ہوا ہے اسی لیے اس موضوع پر بحث زور پکڑ رہی ہے۔ تحریک انصاف نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایک کروڑ نوکریاں دے گی۔ دو سال گزر گئے یہ وعدہ ابھی تک پورا نہیں ہوا، اس جانب کوئی بڑی پیش رفت بھی سامنے نہیں آئی ، بلکہ ایک سوال اٹھایا جارہا ہے کہ بی آرٹی کے لیے بھرتیاں کیسے ہوئیں؟ ان نوکریوں کے لیے اشتہار کب شائع ہوا؟ یہ سوال کے پی کے میں اٹھایا جارہا ہے، اور اسی طرح کا سوال سندھ کے شہری علاقوں کے نوجوانوں کے ذہنوں میں بھی ہے کہ سرکاری ملازمتوں کے لیے ان کے گرد کوٹہ سسٹم کی آکاس بیل کب ہٹائی جائے گی؟ جب یہ آئین نافذ کیا گیا تو اُس وقت کے معروضی حالات کے پیش نظر دستورِ پاکستان میں آرٹیکل27 شامل کیا گیا۔ پاکستان میں1973ء میں دستور نافذ کرتے ہوئے ملازمتوں میں امتیاز کے خلاف تحفظ کرتے ہوئے آرٹیکل27کے ذریعے یہ بات شامل کی گئی تھی کہ ’’کسی شہری کے ساتھ جو بہ اعتبار دیگر پاکستان کی ملازمت میں تقرر کا اہل ہو، کسی ایسے تقرر کے سلسلے میں محض نسل، مذہب، ذات، جنس، سکونت، یا مقامِ پیدائش کی بنا پر امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا مگر شرط یہ ہے کہ یومِ آغاز سے زیادہ سے زیادہ چالیس سال کی مدت تک کسی طبقے یا علاقے کے لوگوں کے لیے اسامیاں محفوظ کی جاسکیں گی تاکہ پاکستان کی ملازمت میں ان کو مناسب نمائندگی حاصل ہوجائے۔ مزید شرط یہ ہے کہ مذکورہ ملازمت کے مفاد میں مصرحہ اسامیاں یا ملازمتیں کسی ایک جنس کے افراد کے لیے محفوظ کی جاسکیں گی اگر مذکورہ اسامیوں یا ملازمتوں میں ایسے فرائض اور کارہائے منصبی کی انجام دہی ضروری ہو جو دوسری جنس کے افراد کی جانب سے مناسب طور پر انجام نہ دیے جاسکتے ہوں، آرٹیکل کی ذیلی شق(2) کی شق(1) میں ہے کہ مذکورہ کوئی امر کسی صوبائی حکومت یا کسی صوبے کی مقامی یا دیگر ہیئت مجاز کی طرف سے مذکورہ حکومت یا ہیئت مجاز کے تحت کسی اسامی یا کسی قسم کی ملازمت کے سلسلے میں اس حکومت یا ہیئت مجاز کے تحت تقرر سے قبل، اس صوبے میں زیادہ سے زیادہ تین سال تک سکونت سے متعلق شرائط عائد کرنے میں مانع نہیں ہوگا۔ اس وقت بحث یہ ہورہی ہے کہ کیا آئین میں دی جانے والی یہ مدت مکمل ہوچکی ہے؟ اگر مدت مکمل ہوچکی ہے تو پھر قانون کیا کہتا ہے؟ آئینی ماہرین کے خیال میں آئین میں دی گئی یہ مدت 2013ء میں ختم ہوچکی ہے، اب اگر اسے برقرار رکھنا ہے تو اس کے لیے صرف دو ہی راستے ہیں، پہلا یہ کہ صدارتی آرڈیننس جاری کیا جائے، مگر اس کے ذریعے بھی ایک خاص مدت تک ہی آرٹیکل میں دی گئی ضمانت کو تحفظ دیا جاسکتا ہے اور پھر توثیق کے لیے اسے پارلیمنٹ میں لانا ہوگا، یا پھر آرڈیننس اپنی قانونی مدت مکمل ہوجانے پر ازخود ختم تصور ہوگا۔ دوسرا راستہ پارلیمنٹ ہے، جہاں آئین کے اس آرٹیکل میں ترمیم کے لیے پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت کا ووٹ چاہیے، اس کے بغیر یہ معاملہ آگے نہیں چل سکتا، اسے وزیراعظم یا حکومت کسی انتظامی حکم کے تحت بڑھا سکتی ہے اور نہ نافذ کرسکتی ہے، یہ اختیار صرف پارلیمنٹ کے پاس ہی ہے۔ اگر آئین میں دی ہوئی مدت کا جائزہ لیا جائے تو حقائق یہی ہیں کہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل27 کے تحت ملازمتوں کے تحفظ کے لیے دیا جانے والا کوٹہ سسٹم ختم ہوچکا ہے اور اس وقت آئین کے تحت اسے بحال اور برقرار سمجھنا، اس کی رو سے فائدہ اٹھانا غیر قانونی فعل تصور ہوگا۔ چونکہ ابھی تک اس معاملے میں خاموشی ہے لہٰذا اسی بنا پر ابہام پیدا ہو رہا ہے، جسے اب دور کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ وفاقی دارالحکومت کے اہم حکومتی حلقوں کے مطابق حکومتِ پاکستان اس قانونی سقم اور آئینی معاملے کو حل کرنے کے لیے سوچ بچار کررہی ہے، تاہم ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا ہے۔ اگر اس معاملے میں کوئی قانون سازی کرنا مقصود ہوئی تو صدارتی آرڈیننس لایا جاسکتا ہے، یا پھر معاملہ پارلیمنٹ میں ہی پیش کیا جائے گا، پارلیمنٹ سے پہلے یہ معاملہ وفاقی کابینہ میں پیش ہوگا اور کابینہ کی منظوری کے بعد ہی اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ پارلیمنٹ میں اس وقت تحریک انصاف کے علاوہ دیگر جماعتوں کی صفوں میں بھی اس معاملے پر خاموشی اور ہو کا عالم ہے، اور پارلیمانی جماعتوں کی جانب سے فی الحال اس پر کوئی ہوم ورک بھی نظر نہیں آرہا۔
آئینی ماہرین کی رائے ہے کہ وفاق کی سرکاری ملازمتوں میں صوبوں کو آبادی کے لحاظ سے کوٹہ ملتا ہے، اور تازہ ترین مردم شماری کے نتائج کے مطابق بھی یہ معاملہ طے ہونا ضروری ہے کہ کس صوبے کی آبادی کتنی ہے؟ اگر ملک کا کوئی شہری مفادِ عامہ کے تحت یہ معاملہ آئین کے آرٹیکل184/3 کے تحت عدالتِ عظمیٰ کے روبرو پیش کرے اور معاملے کی آئینی حیثیت معلوم کرنے کی استدعا کرے تو ملک کی اعلیٰ ترین آئینی عدالت سپریم کورٹ آف پاکستان اس اہم آئینی نکتے پر اپنی آئینی تشریح دے سکتی ہے۔ عدالتی فیصلے کی نظیر موجود ہے کہ سپریم کورٹ نے معاملہ روبرو پیش کیے جانے پر ماضی میں آئین میں 13ویں اور 14ویں ترمیم پر اپنا فیصلہ دے رکھا ہے، اگر یہ معاملہ آئینی لحاظ سے گنجائش رکھتا ہے تو عدلیہ سے یہ استدعا کی جاسکتی ہے کہ آئین کی16 ویں ترمیم پر قانونی تشریح کرے۔ اگر اس آرٹیکل سے متعلق پارلیمنٹ سے باہر یا اس کے اندر ہونے والی کارروائی کا جائزہ لیا جائے تو یہ نکتہ سامنے آتا ہے کہ جب ملک میں آئین نافذ ہوا تو یہ آرٹیکل بھی شامل کیا گیا، بعد میں1977ء میں ملک میں جنرل محمد ضیا الحق کی سربراہی میں مارشل لا نافذ ہوگیا تو آئین کے کچھ حصے معطل یا غیر مؤثر کرکے ایک عبوری حکم کے تحت ملک کا نظم و نسق چلایا گیا، اس کے بعد 1985ء میں اُس وقت کے صدر جنرل ضیا الحق نے کوٹہ سسٹم کے بارے میں صدارتی آرڈیننس جاری کیا اور غیر جماعتی انتخابات کے بعد پارلیمنٹ نے دیگر صدارتی احکامات کے ساتھ ساتھ اسے بھی آٹھویں آئینی ترمیم کے تحت آئینی تحفظ دے دیا، اور اس کے بعد آنے والی حکومت نے پارلیمنٹ میں دو تہائی ووٹ کے ذریعے اسے آگے بڑھایا، مگر اس وقت یہ مدت اپنی آئینی عمر پوری کرچکی ہے، اور یوں آئینی لحاظ سے کوٹہ سسٹم بحال رکھا جانا غیر آئینی عمل تصور ہوگا۔1973ء کے آئین کی رو سے چالیس سال کی مدت 2013ء میں مکمل ہوچکی ہے ۔ کوٹہ سسٹم میں اب تک آخری بار توسیع نوازشریف کے دوسرے دور میں ہوئی جب اُس وقت کے وزیر قانون خالد انور نے قومی اسمبلی میں خدمات میں علاقائی کوٹہ سسٹم کی بحالی کے لیے 16 ویں آئینی ترمیمی کا بل پیش کیا تھا، جسے قومی اسمبلی نے 27 جولائی 1999ء کو پاس کیا اور پھر بعدازاں سینیٹ میں 3 اگست 1999ء کو اس کی توثیق ہوئی، اور 5 اگست 1999ء کو صدرِ پاکستان کے دستخطوں کے بعد اسے نافذ کردیا گیا۔ آرٹیکل 27 میں خدمات کے لیے 10 سال کا کوٹہ لگایا گیا، جسے 1985ء میں بڑھا کر 20 سال کردیا گیا، اور بعد میں سولہویں ترمیم میں اس حد کو بڑھا دیا گیا۔ اس بل میں آئین کے آرٹیکل 27 میں ترمیم پیش کی گئی تھی کہ اس میں آرٹیکل 27 کی پہلی شق (1) میں کہا گیا ہے کہ ’’بیس‘‘ کے لفظ کے لیے ’’چالیس‘‘ کا لفظ لیا جائے گا اور اسے ہمیشہ بدلا سمجھا جائے گا۔
آئین کے آرٹیکل 27 کو موضوع بناکر ایک بحث جاری ہے، اگر پارلیمنٹ میں اس پر افہام و تفہیم نہ ہوئی تو معاملہ سپریم کورٹ میں طے ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ پارلیمانی امور سے متعلق وزارت اس مسئلے کا جائزہ لے رہی ہے اور نوازشریف دور میں پیش کیے جانے والے بل کی تمام جزیات کا بھی جائزہ لیا جارہا ہے۔ یہ موضوع ایک مکمل سبجیکٹ ہے، لیکن جس طرح حکومت کے دو سال گزرے ہیں تجزیہ کار حلقوں کا اندازہ یہی ہے کہ باقی مدت بھی اسی طرح گزر جائے گی۔