پنجاب میں 14 کھرب 60 ارب روپے کہاں خرچ کیے گئے؟
سندھ حکومت 63 ارب 39 کروڑ روپے بچانے کے بجائے کراچی پر خرچ کردیتی تو عوام کو مصائب اور خود کو بدنامی سے بچا سکتی تھی
وفاقی وزارتِ خزانہ کی جانب سے جاری کی گئی ایک تازہ ترین رپورٹ میں چاروں صوبوں کے گزشتہ مالی سال 2019-20ء کے دوران آمدن اور اخراجات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ اس جائزے کے مطابق ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی حکومت نے گزشتہ مالی سال میں آمدن سے 8 ارب 34 کروڑ روپے زائد خرچ کیے۔ صوبے کی مجموعی آمدن 14 کھرب 59 ارب 32 کروڑ 60 لاکھ روپے تھی، جب کہ مجموعی اخراجات 14 کھرب 68 ارب روپے سے متجاوز تھے۔ صوبہ خیبر کی مجموعی آمدن 5 کھرب 95 ارب روپے رہی، اور اخراجات کا مجموعی حجم 5 کھرب 97 ارب 23 کروڑ تک جا پہنچا۔ یوں صوبے کو گزشتہ مالی سال کے دوران 2 ارب 21 کروڑ روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑا۔ صوبہ سندھ کے بارے میں رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہاں مجموعی آمدن کا حجم 8 کھرب 42 ارب 47 کروڑ روپے رہا، جب کہ صوبے کے اخراجات 7 کھرب 79 ارب 8 کروڑ روپے رہے۔ یوں سندھ کا بجٹ فاضل رہا اور صوبے کو 63 ارب 39 کروڑ روپے کی بچت گزشتہ مالی سال کے دوران ہوئی۔ رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے اور آبادی کے حساب سے سب سے چھوٹے صوبے بلوچستان کا معاملہ یوں رہا کہ صوبے کو گزشتہ برس 3 کھرب 44 ارب 18کروڑ روپے کے وسائل ملے جبکہ 3کھرب 19ارب 96 کروڑ روپے خرچ کے گئے۔ اس طرح وفاقی حکومت کی 31 اگست 2020ء کو جاری کی گئی رپورٹ کی روشنی میں صوبہ بلوچستان کے پاس بھی گزشتہ مالی سال کے دوران24 ارب 22 کروڑ روپے کے وسائل وافر رہے جنہیں خرچ کرنے کی نوبت نہیں آ سکی۔
وفاقی وزارتِ خزانہ کی اس رپورٹ کا سرسری جائزہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ جن دو صوبوں میں تحریک انصاف کی اپنی حکومتیں ہیں ان دونوں صوبوں میں اخراجات آمدن کے مقابلے میں زیادہ رہے۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں صوبوں کی حکومتوں نے آمدن سے زائد اخراجات کے لیے وفاقی حکومت، قومی بینکوں یا بین الاقوامی اداروں سے قرض کی بھیک مانگی ہوگی جو تحریک انصاف کے منشور، وزیراعظم عمران خان کے وژن اور اقتدار میں آنے سے پہلے کے دعووں کے سراسر منافی ہے، جس کی کسی بھی طرح تائید و حمایت نہیں کی جا سکتی۔ تحریک انصاف کی یہ دونوں صوبائی حکومتیں اگر چادر دیکھ کر پائوں پھیلاتیں تو اس نامناسب صورتِ حال سے بچنا کچھ زیادہ مشکل نہ تھا۔
جہاں تک سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کا تعلق ہے تو ان کی پوزیشن اس لحاظ سے یقیناً بہتر اور قابلِ ستائش ہے کہ انہوں نے قرض کی دلدل میں پھنسنے کے بجائے بچت کا راستہ اختیار کیا، اور بچت بلاشبہ ایک اچھی عادت ہے، خصوصاً سندھ حکومت نے اگر 63 ارب 39کروڑ روپے بچائے ہیں تو اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ مخالفین کی جانب سے صبح شام سندھ حکومت پر کرپشن، بدعنوانی اور سرکاری وسائل سے ذاتی تجوریاں بھرنے کا جو الزام عائد کیا جاتا ہے، تو وفاقی وزارتِ خزانہ کی جاری کردہ یہ رپورٹ ان الزامات کی تائید نہیں کرتی، کیونکہ بدعنوان لوگوں کا طرزِعمل یہ نہیں ہوا کرتا کہ وہ سرکاری خزانے کی رقم کی بچت کریں۔ ایسے لوگ تو عموماً دستیاب رقوم کو جلد از جلد فرضی منصوبوں ہی پر سہی، خرچ ہونا ظاہر کرکے ذاتی جیب یا خاندانی بینک اکائونٹس میں منتقل کرنے پر تمام تر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ سرکاری خزانہ بچانا تو کسی طور اُن کے کرپشن کے مشن سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس صورتِ حال کا ایک دوسرا پہلو البتہ سندھ حکومت کی نااہلی ضرور ظاہر کرتا ہے کہ اس نے 63 ارب روپے کی یہ خطیر رقم اگر کراچی کی تعمیر و ترقی اور نالوں کی صفائی ستھرائی پر دیانت داری اور سنجیدگی سے خرچ کی ہوتی تو آج شدید بارشوں کے بعد اہلِ کراچی کو جس ناگفتہ بہ اور نا قابلِ برداشت صورتِ حال کا سامنا ہے، اور جس کے سبب عوام، سیاسی مخالفین اور ذرائع ابلاغ کی جانب سے کرپشن، بدعنوانی اور نااہلی کے شدید الزامات پیپلز پارٹی اور سندھ کے اربابِ اقتدار پر عائد کیے جارہے ہیں ان سب سے سو فیصد نہ سہی تو بڑی حد تک بچا جا سکتا تھا، عوام ان مسائل اور مصائب سے محفوظ رہتے جو انہیں گزشتہ کئی روز سے در پیش ہیں، اور حکمران اس تندو تیز تنقید سے، جس کا جواز خود انہوں نے اپنی نااہلی اور ناقص کارگزاری سے فراہم کیا ہے۔
ایک مزید پہلو اس رپورٹ کا یہ ہے کہ سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کے عہدیداران آج کل صبح شام یہ چیخ و پکار کرنے میں مصروف ہیں کہ وفاقی حکومت نے وفاقی محاصل میں سے سندھ کے طے شدہ حصے سے دو ڈھائی ارب روپے کم فراہم کیے ہیں جو آئین کے منافی اور صوبائی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ بلاشبہ وفاقی حکومت اگر ایسا کرتی ہے تو یہ غلط ہے، وفاق کو صوبوں کو اُن کے طے شدہ وسائل پورے کے پورے ادا کرنے چاہئیں، البتہ صوبائی حکومت سے اگر یہ سوال کیا جائے کہ آپ تو پہلے سے دستیاب وسائل بھی پوری طرح استعمال نہیں کرسکے تو وفاق اگر اپنی مالی حیثیت کی کمزوری اور ضروریات کے پیش نظر صوبوں کو اُن کے حصے سے قدرے کم دینے پر اصرار کرتا ہے تو سندھ کی جانب سے 63 ارب روپے کو خرچ نہ کرکے اس کا موقع اور جواز خود فراہم نہیں کیا گیا…؟
بلوچستان کا معاملہ بھی سندھ سے کچھ مختلف نہیں کہ اکثر بلوچ سیاست دانوں کی جانب سے اپنے صوبے کی پسماندگی کا شکوہ سننے میں آتا ہے جو صوبے کی حالت دیکھ کر غلط بھی نہیں ٹھیرایا جا سکتا، تاہم ماضی میں ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں پر متمکن رہنے والے بلوچ سیاست دانوں کی اپنی کوتاہیوں کا تذکرہ اگر اس وقت نہ بھی کیا جائے تو گزشتہ برس کا آمدن و اخراجات کا گوشوارہ سامنے آنے کے بعد کیا بلوچ سیاست دانوں اور صوبائی حکمرانوں سے یہ سوال کرنا بلا جواز ہوگا کہ صوبے کے عوام کی زبردست پسماندگی کے باوجود دستیاب وسائل ان کی فلاح و بہبود پر خرچ کیوں نہیں کیے؟ بلوچ عوام کے تمام مسائل حل نہ بھی ہوتے، ان کی پسماندگی کا مکمل علاج نہ بھی ہوپاتا مگر ان مسائل اور اس پسماندگی میں کچھ تو کمی لائی جا سکتی تھی۔ چوبیس ارب روپے سے بہت کچھ نہ سہی، چند اسپتال تو تعمیر کیے جا سکتے تھے، کچھ اسکول بھی بنائے جا سکتے تھے، صوبے کی بعض سڑکوں کو پختہ بھی کیا جا سکتا تھا۔ مگر یہ کرنا تو صوبائی حکومت ہی کو تھا جس کے پاس وسائل دستیاب تھے، اور عوام کی فلاح و بہبود، صوبے کی تعمیر و ترقی پر ان وسائل کو خرچ کرنے پر وفاق یا کسی اور جانب سے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی تھی، کوئی پابندی بھی عائد نہیں کی گئی تھی تو پھر آخر یہ وسائل استعمال نہ کرنے کا ذمہ دار صوبائی حکومت کے سوا کوئی دوسرا کیونکر ہوسکتا ہے؟
صوبہ خیبر کے بارے میں تو ہم کچھ عرض کرنے سے قاصر ہیںکہ وہاں سے متعلق کچھ زیادہ معلومات ہمیں دستیاب نہیں، البتہ پنجاب میں دستیاب وسائل سے 8 ارب 34 کروڑ روپے زائد اخراجات سے متعلق یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ یہ کہاں خرچ کیے گئے؟ کیونکہ صوبے میں گزشتہ برس کوئی ایک بھی قابلِ ذکر منصوبہ مکمل ہونے کی اطلاع عوام تک نہیں پہنچی، البتہ پہلے سے جاری منصوبوں پر عمل درآمد بند کرنے یا ان کی رفتار سست کرنے سے متعلق اطلاعات ضرور موجود ہیں، جن میں سرفہرست میٹرو ٹرین کا عوامی سہولت کا منصوبہ ہے۔ اس کی افادیت و ضرورت سے متعلق بہت سے سوالات و اعتراضات ہوسکتے ہیں، تاہم اب جس مرحلے پر یہ پہنچ چکا ہے اور جس قدر خطیر رقم اس پر خرچ ہوچکی ہے اس کے ہاتھی گزر چکنے کے بعد پونچھ کو پھنسائے رکھنے کی کوئی معقول وجہ موجود نہیں۔ میاں شہبازشریف صوبے میں ایک آدھ ماہ اور وزیراعلیٰ رہ جاتے تو یہ منصوبہ آج سے ڈھائی سال قبل مکمل ہوچکا ہوتا اور لوگ اس سے اسی طرح مستفید ہورہے ہوتے جس طرح میٹرو بس سے مستفید ہورہے ہیں۔ مگر موجودہ حکمران محض اس لیے اسے چالو کرنے میں بہانہ تراشیاں کررہے ہیں کہ اس کی پیشانی پر شہبازشریف کا نام لکھا ہے۔ سوال یہ ہے کہ محض شہبازشریف کا نام ہونے کے سبب عوام کو اس سہولت سے محروم رکھنا کہاں تک مناسب ہے؟ جب میٹرو ٹرین کو بلاوجہ التوا کا شکار کیا جارہا ہے، پہلے سے چلنے والی میٹرو بس سروس بھی کورونا کے بہانے سال میں چار پانچ ماہ بند رکھی گئی اور اس پر دی جانے والی اربوں روپے کی سبسڈی کی رقم بھی صوبائی حکومت کو خرچ نہیں کرنا پڑی، صوبے بھر میں کوئی دوسرا بڑا منصوبہ بھی موجودہ حکومت نے شروع کیا ہے نہ مکمل، تو پھر آخر صوبے کی آمدن کے 14 کھرب 59 ارب روپے اور اس پر ساڑھے 8 ارب روپے کے اضافی اخراجات کہاں کیے گئے؟ وزیراعظم عمران خان کو اپنے وسیم اکرم پلس سے اس سوال کا جواب ضرور پوچھنا چاہیے۔