جمعیت الفلاح میں تعزیتی تقریب سے ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی، ڈاکٹر رؤف پاریکھ و دیگر مقررین کا اظہار خیال
پروفیسر عنایت علی خان طویل علالت کے بعد گزشتہ دنوں کراچی میں رحلت فرما گئے۔ مرحوم علمی، ادبی دنیا میں اور خاص کر مزاح کے حوالے سے دنیا بھر کے اردو حلقوں میں مقبول رہے، اکبر الٰہ آبادی کے بعد شائستہ مزاح کے حوالے سے بڑا نام آپ کا ہی لیا جاتا ہے۔ مرحوم تحریک اسلامی سے وابستہ رہے۔ مزاح گو شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ آپ ایک بہترین استاد تھے اور کئی نصابی کتابوں کے مصنف بھی، سیّدی مودودیؒ سے وابستگی اور اُن کے نظریات و افکار آپ کی دلنشیں گفتگو میں واضح طور پر محسوس کیے جاتے ہیں۔ دراز قد، ہنس مکھ، سادہ لباس میں ملبوس آپ کی شخصیت ہر محفل میں توجہ کا مرکز رہتی۔ بقول الحاجؔ نجمی ’’انہیں میں نے ہمیشہ سنجیدگی کی شاخ پر پُرمغز بذلہ سجنی سے مزاح کے دلنشین خوبصورت رنگوں میں حکمت و دانش کے خوشبودار پھول کھلاتے دیکھا۔ وہ مسکراتے ہوئے بہت بڑی بات کہہ جاتے اور سننے والے کو ایک زور کا جھٹکا دھیرے سے لگادیتے اور سننے والا دیر تک لُطف انداز ہوتا رہتا۔ وہ علم و دانش کا برمحل اور حقیقت پسندانہ استعمال کرتے، میں نے انہیں کبھی غیر ضروری اور غیر متعلقہ موضوع پر لب کشائی کرتے نہیں دیکھا۔
تھے محفل یاران میں بریشم کی طرح نرم
سررزمِ حق و باطل میں وہ فولاد صفت تھے
تعزیتی تقریب کی ابتدا اقبال احمد یوسف کی تلاوت کلام پاک سے ہوئی، نعت مبارکہ کی سعادت نظر فاطمی نے حاصل کی۔ نظامت کے فرائض سعید صدیقی نے انجام دیے۔ جہانگیر خان نے ابتدائی کلمات میں مرحوم کی تحریک اسلامی سے وابستگی پر روشنی ڈالی۔ محمود احمد خان غازی بھوپالی نے بتایا کہ اُن کا 1964ء سے عنایت صاحب سے تعلق رہا ہے۔ آخری ملاقات گزشتہ عیدالفطر کے روز ہوئی جب ڈاکٹروں نے انہیں بولنے سے منع کردیا تھا۔ انہوں نے ان کی ایک نظم
میں ٹیچر تھا گھر گھر پڑھاتا پھرتا تھا
سنائی جسے حاضرین نے بہت پسند کیا۔حیدر آباد سے اُن کے ساتھی شکیل احمد خان نے کہا کہ وہ ایک بااصول آدمی تھے، طالب علموں سے ان کا رشتہ ایسا تھا کہ ان کی کلاس ہمیشہ طالب علموں سے بھری رہتی۔ انہوں نے کہا کہ ایک زمانہ تھا کہ ممتاز شیریں، سلیم احمد، شمیم احمد جیسے لوگ ہمارے ساتھ تھے۔ جمعیت الفلاح کو چاہیے کہ ان کی غیر مطبوعہ کتابوں کو شائع کرے۔ نظرفاطمی، پروفیسر صفدر علی انشاء اور اختر سعیدی نے منظوم خراج تحسین پیش کیا۔
علم کا دریا تھا اور طنز و مزاح کا شہہ سوار
اس کے آگے کوئی نہ ٹہرا جو ٹہرا ڈھے گیا
وہ عنایت چل دیا وطن حقیقی کی طرف
اور زمانہ دیکھتے کا دیکھتا رہ گیا
(صفدر علی انشا)
پروگرام کی ابتدا میں ہی برقی رو کا سلسلہ منقطع ہوگیا تھا جس کی وجہ سے مقررین کو دشواری کا سامنا رہا۔
حادثے سے بڑا حادثہ یہ ہوا
لوگ ٹہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
(عنایت)
سابق امیر جماعت اسلامی حیدر آباد مشتاق احمد خان نے کہا کہ وہ دنیائے ادب میں اِک نئی پہچان رکھتے تھے۔ وہ ادیب، شاعر اور ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے منتظم بھی تھے۔ ایک دفعہ کسی مسئلہ پر طلبہ نے کالج میں احتجاج کا پروگرام بنایا۔ میں بھی شامل تھا۔ خوب نعرے بازی ہورہی تھی کہ عنایت صاحب تشریف لائے اُن کا رعب دبدبہ ایسا تھا کہ طالب علم تو اُن کو دیکھتے ہی بھاگ کر اپنی کلاسوں میں چلے گئے۔ میں تنہا رہ گیا تو آپ نے مجھ سے کہا، کیا پولیس کو بلائوں۔ ایک دفعہ انہوں نے امتیازی نمبروں سے ایک امتحان پاس کیا اور انہیں گولڈ میڈل ملا، وہ انہوں نے سنبھال کر رکھا، اور جب بچی کی شادی ہورہی تھی اُسے لے کر سنار کے پاس گئے، تو حقیقت کا پتا چلا کہ گولڈ میڈل کیسا ہوتا ہے، اس سے آپ اُن کی سادگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
پروفیسر اسحق منصوری نے کہا کہ انہوں نے اپنی زندگی کا مقصد متعین کیا اور پوری زندگی اس پر عمل کرنے میں گزار دی۔ وہ نہایت صابر و شاکر اور ہر حال میں خوش رہنے والے انسان تھے۔
ڈاکٹر عبدالرئوف پاریکھ نے کہا کہ وہ ایک بڑے انسان تھے۔ شائستہ طنز و مزاح کی جو روایت اکبر الٰہ آبادی سے شروع ہوئی اُسے بعد میں سید محمد جعفری، ضمیر جعفری اور عنایت علی خان نے آگے بڑھایا۔ آپ نے اکبر الٰہ آبادی کی شاعری پر بھرپور گفتگو کی اور اس تناظر میں عنایت علی خان کی شاعری کا عمدہ تجزیہ کیا۔
میں ایک تنہا پیڑ کی صورت ہانپ رہا ہوں صحرا میں
وقت کی آندھی پوچھ رہی ہے اب بھی ہمت باقی ہے
صدر محفل ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے کہا کہ وہ ایک سچے، کھرے اور شائستہ انسان تھے۔ انہوں نے اس عہد میں رہتے ہوئے ہمیں یہ بتایا کہ زندگی کیسے گزارنی چاہیے، ہمیں ان کی باتیں نئی نسل کو بتانا ہوں گی کہ زندگی کی اچھی اقدار کے ساتھ کیسے چلا جاتا ہے۔ ہمیں نئی نسل کو اپنی تہذیب سے جوڑنا ہوگا جو اُس سے دور ہوتی جارہی ہے۔ آپ نے کہا کہ آج کا زمانہ کمپیوٹر کا زمانہ ہے، ہم اپنی تہذیب، ثقافت کوریئر سے نہیں بھیج سکتے بلکہ ہمیں عنایت علی خان جیسے اسکالروں کی تعلیمات، ان کی شاعری اپنی گفتگو اور ایسی ادبی نشستوں کے ذریعے نئی نسل کو منتقل کرنا ہو گی۔ انہوں نے ڈاکٹر عبدالرئوف پاریکھ کے لیے کہا کہ ان جیسے صاحب علم و بصیرت سے ہمیں سیکھنا چاہیے جمعیت الفلاح کو چاہیے کہ وہ ان کے اور ان جیسے دوسرے اسکالروں کے ساتھ ادبی نشستیں منعقد کرے۔
تقریب میں بڑی تعداد میں شرکا کے ساتھ، فرحت اللہ قریشی، عطا محمد تبسم، احسان الحق احسان، ارشد علی خان نے شرکت کی۔ جسٹس صلاح الدین مرزا لفٹ نہ چلنے کے باعث واپس تشریف لے گئے۔ جمعیت الفلاح کے صدر قیصر خان، سیکرٹری محمد قمر خان نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ پروفیسر محمد اسحق منصوری کی خصوصی دعائے مغفرت پر تقریب کا اختتام ہوا۔