میری بستی کا مان ڈاکٹر مغیث الدین

سینکڑوں اساتذۂ صحافت، ہزاروںعامل صحافیوں، درجنوں ٹی وی اینکراور تعلقاتِ عامہ، ریڈیو، ٹی وی، ایڈورٹائزنگ اور سوشل میڈیا کے سینکڑوں نامور لوگوں کے استاد ڈاکٹر مغیث الدین شیخ ہزاروں لاکھوں لوگوں کو سوگوار اور اداس کرکے اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے۔ اس رب کی کبریائی کا جھنڈا انہوں نے مرتے دم تک بلند رکھا۔ وہ کچھ محرومیوں، تھوڑی مخالفتوں اور زیادہ مزاحمتوں تلے دبی سسکتی زندگی کو حوصلہ، دانش مندی، محنت اور اعلیٰ منصوبہ بندی سے ایک ہنستی مسکراتی زندگی میں بدل دینے والے کامیاب انسان تھے۔ انہیں آخری وقت تک مزاحمتوں کا سامنا رہا، لیکن ان کی جدوجہد بھی آخری لمحے تک جاری رہی۔ اقبالؒ نے ایسے ہی لوگوں کی بھرپور اور پُراستقلال زندگی کے بارے میں کہا تھا: ۔

برتر از اندیشۂ سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی
تُو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں، پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی
زندگانی کی حقیقت کوہ کن کے دل سے پوچھ
جوئے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ہے زندگی

اس سنگِ گراں زندگی کو محنت اور صلاحیت سے گل و گلزار بنانے والے باکمال انسان ڈاکٹر مغیث الدین شیخ بے پناہ کامیابیوںکے ساتھ ساتھ زندگی بھر مخالفتوں اورمزاحمتوں کے خارزاروں میں آبلہ پائی کرتے رہے۔ انسانی صلاحیتوں کا اتنا بڑا اور خوبصورت امتزاج کم انسانوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی ذات میں قدرت کی عطا کردہ بے پناہ صلاحیتیں اور خوبیاں جمع ہوگئی تھیں اور انہوں نے بھی ان کا جتنا بھرپور استعمال کیا ہے وہ بہت ہی کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔ وہ میری بستی کا مان تھے اور اب اُن کے چلے جانے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ وہ لاہور کی اس مضافاتی بستی کے سب سے بڑے انسان تھے۔ غریب محنت کشوں، درمیانے درجے کے سرکاری و نجی ملازمین اور چھوٹے چھوٹے کاروبار کرنے والے لوگوں کی اس بستی میں پی ایچ ڈی تو ایک دو اور بھی تھے لیکن ڈاکٹر صاحب نے جتنا فیض اور علم بانٹا اس میں وہ سب پر سبقت لے گئے تھے۔ اُن کی نماز جنازہ میں قاری محسنین خان بتارہے تھے کہ ڈاکٹر صاحب نے اُن سمیت بیسیوں لوگوں کو ابلاغِ عامہ میں ماسٹر کرنے کی ترغیب دی۔ انہیں اپنے شعبے میں داخلہ دیا، دورانِ تعلیم ہر طرح سے خیال رکھا اور تعلیم کے بعد روزگار کے معاملے میں بھی حتی الوسع مدد کی۔ تعلیمی میدان میں اُن کا آخری مورچہ یونیورسٹی آف مینجمنٹ ٹیکنالوجی تھا، جہاں انہوں نے 38 میڈیا پروفیشنلز کو وزیٹنگ فیکلٹی میں کام کرنے کا موقع فراہم کیا۔ ان میں بیشتر افراد پیشہ ورانہ طور پر بے حد مصروف تھے، لیکن ڈاکٹر صاحب کو انکار کرنا ان کے لیے ممکن نہیں تھا۔ اس طرح ڈاکٹر صاحب نے اپنی یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کے لیے عملی صحافت کے بہترین افراد کی خدمات حاصل کرلیں۔ یہ کام وہ ہر ادارے میں کرتے تھے۔ ہمارے دوست اور سینئر صحافی جناب زاہد رفیق سمیت انہوں نے بہت سے طلبہ و طالبات کو ذاتی دلچسپی لے کر میڈیا کے اداروں میں ایڈجسٹ کروایا، جو آج بھی صحافت کے شعبے میں اعلیٰ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ صدقۂ جاریہ ان شاء اللہ ان کی بخشش کا ذریعہ بنے گا۔
ڈاکٹر صاحب کا خاندان غیر منقسم ہندوستان کے علاقے بدایوںسے ہجرت کرکے لاہور پہنچا تھا، جہاں انہیں ہماری مضافاتی بستی میں ایک مکان الاٹ ہوگیا تھا۔ ابھی اس خاندان کے ہجرت کے زخم مندمل نہیں ہوئے تھے اور یہ پوری طرح ایڈجسٹ بھی نہیں ہوسکا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کے والد ظہیر الدین کا اچانک انتقال ہوگیا۔ اُس وقت ڈاکٹر صاحب کی عمر بمشکل دو تین سال ہوگی، جبکہ ان کے بڑے بھائی رئیس الدین اور قمر الدین شاید پانچ چھے سال کے ہوں گے، لیکن ان کی باہمت اور نیک صفت والدہ نے ہمت ہارنے کے بجائے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کا تہیہ کرلیا۔ ڈاکٹر مغیث کے چچا بدراعلیٰ پوری بہت نفیس اور اعلیٰ انسان تھے۔ وہ ریلوے ہیڈ کوارٹر میں ملازم تھے اور شام کو مترجم قرآن حافظ نذر احمد کے قائم کردہ شبلی کالج میں ریاضی پڑھایا کرتے تھے۔ وہ اردو کے بہت اعلیٰ شاعر تھے۔ کاش اُن کا کلام محفوظ ہوسکتا۔ انہوں نے اپنے کلام کو محفوظ کرنے پر تو زیادہ توجہ نہ دی مگر اپنے بھتیجوں اور بچوں کی تعلیم کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ ڈاکٹر صاحب کی والدہ جو اپنی حلیم و باوقار شخصیت اور سفید چاندی جیسے بالوں کے ساتھ کوئی نورانی مخلوق لگتی تھیں، اپنا زیادہ وقت محلے کے بچوں اور بچیوں کو قرآن پاک پڑھانے پر لگاتیں۔ ان کے ہاتھ کے پکے ہوئے کھانے مجھے آج بھی یاد ہیں۔ میں نے انہیں کبھی ننگے سر نہیں دیکھا۔ شوہر کے انتقال کے بعد مشکل حالات میں بھی انھوں نے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی۔ چنانچہ 1970ء کی دہائی میں ایک ایسا وقت آیا جب ہماری بستی کے اس عام سے گھر سے صبح تین بچے اعلیٰ تعلیم کے لیے یونیورسٹی جاتے تھے۔ بستی میں ایسے خوش قسمت گھر دو تین ہی ہوں گے۔ اُس وقت ڈاکٹر مغیث پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ طبیعات میں بی ایس سی آنرز، ان کے بڑے بھائی رئیس الدین مرحوم اور سب سے بڑے بھائی قمرالدین مرحوم ہیلی کالج سے ایم کام کررہے تھے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ ڈاکٹر مغیث اسلامی جمعیت طلبہ کے ہراول دستے کے متحرک فرد تھے، اور یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کی انتخابی مہم میں فرنٹ لائن پر ہوتے تھے۔ وہ حفیظ خان اور جاوید ہاشمی کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے۔ جاوید ہاشمی کی یونین میں تو وہ اسلامک اسٹڈیز کمیٹی کے چیئرمین بھی منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے جسٹس (ر) نذیر غازی کو شکست دی تھی۔ دوسری جانب ڈاکٹر صاحب کے بڑے بھائی رئیس الدین جہانگیر بدر کے حامی تھے اور اُن کی انتخابی مہم میں شریک تھے، لیکن اس سیاسی اختلاف کے باوجود دونوں کے درمیان کوئی جھگڑا نہیں تھا، بلکہ پیار محبت کی فضا میں یہ اختلاف جاری تھا۔ اور دونوں بھائی ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرتے تھے۔ رئیس بھائی ہماری بستی میں پیپلز پارٹی کی تنظیم قائم کرنے والے نوجوانوں میں شامل تھے، جبکہ ڈاکٹر مغیث اسلامی جمیعت طلبہ کا یونٹ قائم کرنے والے طلبہ کے سرخیل تھے۔ رئیس بھائی تعلیم مکمل کرنے کے فوری بعد روزگار کے سلسلے میں حیدرآباد چلے گئے اور کچھ عرصے بعد اپنی فیملی سمیت کراچی منتقل ہوگئے جہاںکوئی چار سال قبل ان کا انتقال ہوگیا۔
انسانی زندگی کے کچھ المیے عجیب ہوتے ہیں اور بعض تو سوہانِ روح بن جاتے ہیں۔ رئیس بھائی کا انتقال ہوا تو اُدھر ان کے بچے وصیت کے مطابق جلد تدفین کرنا چاہتے تھے، اور اِدھر ڈاکٹر صاحب چار گھنٹے لاہور ایئر پورٹ پر بیٹھے رہے مگر انہیں ٹکٹ نہ مل سکا، اس طرح وہ اپنے عزیز بھائی کے جنازے میں شریک نہ ہوسکے۔ والد کے انتقال کے وقت وہ اس قدر چھوٹے تھے کہ جنازے میں شریک نہ ہوسکتے تھے۔ والدہ نے آخری سانس لی تو ان کی صحت یابی کی دعا کرنے وہ لندن سے سعودی عرب روانہ ہوچکے تھے۔ چنانچہ جہاز سے اترتے ہی حرم پہنچے اور اس عظیم ماں کے لیے… جس نے بچپن بریلی، جوانی اور بڑھاپا لاہور اور زندگی کے آخری ایام راولپنڈی میں بِتائے تھے… صحت یابی کے بجائے مغفرت کی پُرسوز دعائیں کرکے وطن لوٹ آئے۔ ڈاکٹر صاحب کے سب سے بڑے بھائی قمرالدین ان کے سیاسی پشتی بان تھے۔ وہ سیاسی طور پر تو متحرک نہ تھے لیکن ان جلسے جلوسوں میں ضرور جاتے جن میں ڈاکٹر صاحب کی گرفتاری کا خدشہ ہوتا۔ 1973ء کی تحریکِ ختمِ نبوت میں ان کی موجودگی نے ہم سب کو بہت حوصلہ دیا۔ وہ انویسٹمنٹ کارپوریشن آف پاکستان میں ملازم تھے اور ڈاکٹر صاحب کی شادی سے قبل ہی راولپنڈی ٹرانسفر ہوچکے تھے۔ والدہ کا انتقال ان ہی کے پاس ہوا تھا۔ کوئی دو سال قبل علالت کے بعد ان کا بھی انتقال ہوگیا۔ یہ کسی خونیں رشتے کا واحد جنازہ تھا جس میں ڈاکٹر صاحب شریک ہوسکے، اور اب 24 جون کو ہماری بستی کے اس سادہ مکان کا آخری وارث بھی پنجاب یونیورسٹی نیوکیمپس کے قبرستان میں اس طرح جا سویا کہ اسے لحد میں اتارنے کے لیے کوئی بھائی موجودنہیں تھا:۔

جب احمدِ مرسلؐ نہ رہے کون رہے گا

اردوکا متروک محاورہ ہے کہ پوت کے پاؤں پالنے ہی میں نظر آجاتے ہیں۔ بچپن ہی میں ڈاکٹر صاحب کے اندر ایک بڑا آدمی چھپا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ ہماری بستی کی کچی پکی گلیوں میں کنچے، اخروٹ، کیڑی کاٹا، گلی ڈنڈا اور پٹھو گرم کھیلا جاتا۔ کبوتروں کی بازیاں لگتیں اور لٹوؤں کی بردیں لگائی جاتیں۔ مگر ڈاکٹر صاحب کی ان کھیلوں میں دلچسپی نہیں تھی۔ اُس وقت ڈاکٹر صاحب بہت دبلے پتلے بلکہ منحنی ہوتے تھے۔ وزن تو ان کا بہت بعد میں بڑھا۔ انھوں نے پرائمری سینٹ قادر اسکول سے کیا جو محض نام کی حد تک اُس زمانے کا نیم انگریزی میڈیم اسکول لیکن اصل میں عارف ہائی اسکول کا پرائمری سیکشن تھا جسے تکنیکی ضرورت کے تحت یہ نام دیا گیا تھا۔ وہ شروع ہی سے پڑھائی میں بہت اچھے تھے۔ چھٹی کے دن یا اتوار کے روز سفید کرتا شلوار پہن کر اس بڑے میدان میں کرکٹ کھیلتے جسے ہم لوگ کرکٹ گراؤنڈ سمجھتے تھے۔ ہم ایک دیوار پھلانگ کر اس ’’عالی شان گراؤنڈ‘‘ میں داخل ہوتے جہاں وکٹوں کے اوپر بیلز کا کوئی تصور نہیں تھا۔ بیٹنگ پیڈ اُس وقت تک ہم نے دیکھے ہی نہیں تھے۔ آنہ آنہ جمع کرکے ایک بیٹ، چار وکٹیں، گلوز کا ایک جوڑا جو محض کاروباری جعل سازی کا شاہکار ہوتا اور ایک گیند خرید لی جاتی۔ گیند البتہ حقیقتاً سرخ رنگ کی ہارڈ بال ہوتی جو فرسٹ کلاس سے ٹیسٹ میچز تک میں استعمال ہوتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب اپنی باری کے انتظار میں پویلین (جو اصل میں گندے نالے کا کنارہ تھا) میں بیٹھ کر ہر بولر اور بیٹسمین کا عمیق نظروں سے جائزہ لیتے اور یہ منصوبہ بندی کرتے کہ کس بولر کو کس طرح کھیلنا ہے اور کس بیٹسمین کا کون سا انداز اپنانا ہے۔ چنانچہ ہر بار اچھا کھیلتے اور کئی بار تالیوں کی گونج میں نالہ پھلانگ کر اس ’’تاریخی‘‘ پویلین میں واپس آتے۔ اب اس پویلین اور گراؤنڈ پر مکانات تعمیر ہوگئے ہیں اور گندہ نالہ انڈر گراؤنڈ سیوریج سسٹم میں تبدیل ہوچکا ہے۔ پانچویں جماعت پاس کرکے ڈاکٹر صاحب اسلامیہ ہائی اسکول لاہور کینٹ چلے گئے جو پڑھائی، ڈسپلن اور ہم نصابی سرگرمیوں کے لحاظ سے اس علاقے کا بڑا اسکول تھا اور یہاں کے بچے اکثر لاہور بورڈ کے امتحانات میں پوزیشن حاصل کرتے تھے۔ یاد رہے کہ اُس زمانے میں لاہور تعلیمی بورڈ کی حدود پورے پنجاب تک پھیلی ہوئی تھیں۔ اس اسکول کے ماحول نے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کو نکھارنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ یہیں سے ڈاکٹر صاحب نے تلاوت، تقاریر اور مضمون نویسی کا آغاز کیا۔ اسکول کے درویش صفت اساتذہ نے ڈاکٹرصاحب کی صلاحیتوں کو مزید نکھارا ۔ ان میں سے کئی کا ڈاکٹر صاحب اب تک ذکر کرتے تھے۔ میٹرک کا امتحان دینے کے بعد ہماری بستی کے بچے ٹائپ رائٹنگ اور شارٹ ہینڈ سیکھتے تھے کہ یہ سرکاری نوکری کے لیے بنیادی شرط تھی، اور اس بستی کے لوگ کلرک سے بڑی نوکری کے بارے میں سوچنے کے بھی عادی نہیں تھے۔ مین روڈ پر ایک دو ٹائپنگ اسکول بھی موجود تھے۔ کسی چھوٹی سی دکان میں دو تین بوسیدہ سے ٹائپ رائٹر اور اس سے بھی زیادہ بوسیدہ حال ’’استاد جی‘‘ ان ٹائپنگ اسکولوں کی کُل کائنات تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے کسی ٹائپنگ اسکول میں داخلہ نہ لینے کا انقلابی فیصلہ کیا اور فراغت کے ان دنوں میں باقاعدہ قرأت سیکھنا شروع کردی۔ خوش قسمتی سے گورنر ہاؤس اور پنجاب اسمبلی کے نوٹیفائیڈ قاری جناب علی حسین صدیقی ہماری بستی ہی میں رہائش پذیر تھے ۔ ریڈیو پاکستان سے صبح اور شام کو ان کی قرأت نشر ہوتی تھی، ٹیلی ویژن کے آنے کے بعد وہ ٹی وی اسکرین پر بھی تلاوت کرتے ہوئے نظر آتے تھے۔ وہ کئی لہجوں میں بہت اعلیٰ تجوید کے ساتھ قرآن پڑھتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے رزلٹ آنے تک کے عرصے میں اُن سے قرأت سیکھی، تلاوت تو وہ اسکول میں پہلے ہی کرتے تھے۔ قدرت نے گلا بھی اچھا دیا تھا۔ اعتماد ان میں بلا کا تھا۔ بہت جلد وہ اس قرآنی فن کے اسرار و رموز جان گئے۔ چنانچہ مقابلوں میں جانے اور انعامات پر انعامات جیتنے لگے۔ ان ہی دنوں انہوں نے ریڈیو پاکستان کے پروگراموں میں تلاوت کا آغاز کردیا۔ اس طرح وہ عام حلقوں میں قاری کے نام سے مشہور ہوگئے۔ اس مختصر سے عرصے میں قاری علی حسن صدیقی نے سکھانے اور نوآموز قاری نے سیکھنے کا حق ادا کردیا۔ رزلٹ آیا تو ڈاکٹر صاحب بہت اعلیٰ نمبروں کے ساتھ پاس ہوگئے۔ اُس زمانے میں میٹرک کے رزلٹ کا ضمیمہ اخبارات میں شائع ہوتا تھا۔ شاید ہماری بستی میں سب سے زیادہ نمبر ڈاکٹر صاحب ہی کے تھے۔ وہ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں داخل ہوگئے جہاں ان کی صلاحیتوں کی گونج لاہور کے علاوہ دیگر شہروں تک سنائی دینے لگی۔ وہ حسنِ قرأت، نعت خوانی، بین الکلیاتی مباحثوں اور تقریری مقابلوں میں شریک ہوتے اور انعامات جیت کر لاتے۔ ریڈیو پروگرام بزم طلبہ اور بزم جواں فکر میں شریک ہوتے۔ یہ دو سال پلک جھپکتے میں گزر گئے۔ ایف ایس سی میں ڈاکٹر صاحب نے نمبر تو اچھے لیے لیکن انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخلہ نہ ہوسکا۔ یہ دھچکا ان کے لیے نعمت بن گیا، وہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ طبیعات میں بی ایس سی آنرز میں داخل ہوگئے اور یہیں سے اس مقام تک پہنچے جس کی خواہش میں لوگ زندگیاں بِتا دیتے ہیں۔
ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کی صلاحیتوں کے اظہار اور اعتراف کی جولان گاہ جامعہ پنجاب تھی۔ وہ اسلامی جمعیت طلبہ اور یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین میں کسی عہدے کے بغیر بھی بہت جلد نمایاں ہوتے گئے۔ حافظ ادریس سے لیاقت بلوچ تک کی انتخابی مہم کے سرخیل وہی تھے۔ تقریبات کے انتظامات، اساتذہ سے تعلقات اور طلبہ مسائل کے حل میں وہ دیگر ہم نصابی سرگرمیوں کی طرح سب سے آگے ہوتے۔ اس دور کی طلبہ سیاست کی ہنگامہ خیزیوں میں ان کا کردار نمایاں تھا۔ نیوکیمپس کی رومان پرور فضا، بے مثال علمی ماحول، اہلِ علم اساتذہ کی مجالس اور مستقبل کے سیاسی کرداروں کی معیت نے انہیں بی ایس سی آنرز فزکس کے بعد شعبۂ صحافت میں لا کھڑا کیا، اور یہی ان کی اصل جگہ تھی۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوجاتے تو کوئی بدمزاج بیوروکریٹ ہوجاتے، ایم ایس سی فزکس کرلیتے تو ایک روکھے سے سائنس دان بن جاتے، لیکن صحافت اور پھر تدریسی صحافت نے آخری دم تک انہیں اپنی صلاحیتوں کے بھرپور اظہار کے مواقع فراہم کیے۔ اسی دوران انہوں نے ہمارے علاقے میں 1973ء کی تحریک ختم نبوت کو بہترین انداز میں منظم کیا۔ اللہ پاک اُن کی اس کاوش کو اُن کے لیے ذریعۂ نجات بنادے۔ جس روز ربوہ ریلوے اسٹیشن پر نشتر میڈیکل کالج کے طلبہ پر قادیانیوں کے حملے کی خبر آئی، یہ جمعہ کا دن تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس روز میرے گھر کی بیٹھک میں پورا پروگرام مرتب کرلیا۔ قاری محسنین خان کو لے کر ہم اپنے علاقے کی مسجد کبریٰ پہنچے جہاں نماز جمعہ کے بعد ڈاکٹر صاحب نے خطاب کرکے سماں باندھ دیا۔ پھر ہر روزعصر، مغرب اور عشاء کی نمازوں کے بعد علاقے کی مساجد میں چھوٹے چھوٹے جلسوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اہم بات یہ ہے کہ ابھی ملکی سطح پر بیانات سے آگے بات نہیں بڑھی تھی مگر ہماری بستی میں یہ ایک تحریک کی شکل اختیار کرچکی تھی۔ اس تحریک کے دوران ڈاکٹر صاحب گرفتار بھی ہوئے اور مہینہ ڈیڑھ مہینہ کوٹ لکھپت جیل میں رہے۔ تحریک کے دوران اور بعد میں ڈاکٹر صاحب نامور طالب علم رہنماؤں کو اپنی بستی میں بلاتے اور ان کے جلسے کراتے۔ 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف تحریک نظام مصطفی چلی تو ڈاکٹر صاحب پنجاب یونیورسٹی اور اپنی بستی میں بہت سرگرم اور متحرک تھے۔ 9 اپریل 1977ء کو حکومت نے سفاکی کی انتہا کردی اور احتجاجی خواتین پر تشدد کے لیے اُس نتھ فورس کا بے دریغ استعمال کیا جو بازارِ حسن کی عورتوں کو پولیس کی وردیاں پہناکر میدان میں اتاری گئی تھی۔ اس جلوس میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اُن کی ضعیف والدہ بھی شریک تھیں۔ ملک میں مارشل لا لگنے کے بعد 1979ء میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوا تو ڈاکٹر صاحب پھر میدان میں تھے۔ ہمارا علاقہ پیپلزپارٹی کا گڑھ اور ذوالفقار علی بھٹو کا حلقۂ انتخاب تھا۔ چنانچہ سخت محنت کے باوجود جماعت اسلامی کے چودھری صدیق پیپلزپارٹی کے مسعود انور سے انتخاب ہار گئے۔ یہی مسعود انور لاہور سے پیپلز پارٹی کے ڈپٹی میئر کے امیدوار تھے۔ ڈاکٹر مغیث کے مشورے پر چودھری صدیق نے انتخابی عذرداری دائر کی اور تقریباً تین سال بعد وہاں ضمنی انتخاب ہوا تو ڈاکٹر صاحب نے اس مشکل زمین پر اپنی منصوبہ بندی اور محنت سے جماعت اسلامی کے امیدوار احسان عزیز قریشی مرحوم کو کامیاب کرا دیا۔ 1983کے بلدیاتی انتخابات میں بھی احسان عزیز قریشی جیتے۔ اس سے پہلے اور بعد میں کبھی یہ نشست جماعت اسلامی نہ جیت سکی۔ اس دوران ڈاکٹر صاحب کی پہلے گومل یونیورسٹی میں بطور لیکچرر تعیناتی ہوئی، اور پھر وہ بطور اسسٹنٹ پروفیسر پنجاب یونیورسٹی میں آگئے۔ انہوں نے بہت جلد اپنے علم، ذہانت، محنت اور اندازِ تدریس سے طلبہ اور اساتذہ میں اپنی جگہ بنا لی، اور خود اپنی علمی استعداد بڑھانے میں لگ گئے۔ چنانچہ امریکہ کی آئیووا یونیورسٹی سے دو سال سے بھی کم مدت میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد لوٹے تو وہ ایک مختلف ڈاکٹر مغیث تھے۔ بیرونِ ملک سے صحافت میں ڈاکٹریٹ کرنے والے وہ اس جامعہ کے پہلے استادِ صحافت تھے۔ اب اُن کا اعتماد پہلے سے کئی گنا بڑھ گیا تھا۔ انگریزی بولنے اورلکھنے کی صلاحیت نے اس اعتماد میں مزید اضافہ کردیا۔ وہ امریکہ سے تدریس کے جدید طریقے سیکھ کر آئے تھے۔ صحافت کے جدید رجحانات کا گہرا مطالعہ، مشاہدہ اور تجزیہ بھی ان کے ساتھ تھا۔ امریکہ میں رہتے ہوئے وہ مکمل پاکستانی تھے اور وہاں کشمیر، فلسطین اور مسلم امہ کے معاملات کو ہر سطح پر اٹھاتے رہے۔ پاکستان واپسی پر وہ اپنے شعبے کو امریکہ اور جدید دنیا کی سطح پر لانے کے لیے سرگرداں ہوگئے۔ وہ پوری تیاری کے ساتھ لیکچر دیتے، موضوع اُن کی مکمل گرفت میں ہوتا۔ تیکھے سوالات کے جوابات دینا اور نوجوان طلبہ و طالبات کے ذہنی خلجان کو علمی اور عملی راہ پر ڈالنا ان کا طرزِ تدریس تھا۔ ان سے اختلاف کرنے والے طلبہ بھی ان کے لیکچرز میں دلچسپی کے ساتھ شریک ہوتے۔ اپنے سینئر اساتذہ کے ساتھ مل کر انہوں نے شعبہ صحافت کو شعبہ ابلاغیات (ڈپارٹمنٹ آف ماس کمیونی کیشن) میں تبدیل کرایا۔ کچھ عرصے بعد وہ اس شعبے کے سربراہ ہوگئے۔ تب سے یہ شعبہ اور اس کے معاملات ان کا اوڑھنا بچھونا ہوگئے۔ انہوں نے نئے نئے کورس ڈیزائن کیے۔ دوپہر اور شام کی کلاسیں شروع کیں۔ پورے شہر سے صحافت اور زبان کے علاوہ ریڈیو، ٹی وی، اخباری صحافت، تعلقاتِ عامہ اور ایڈورٹائزنگ کے عملی ماہرین کو وزیٹنگ فیکلٹی میں اکٹھا کیا اور صحافت کے طلبہ کی عملی تربیت کا بندوبست کردیا۔ اس دوران وہ وائس چانسلر جنرل ارشد اور چانسلر خالد مقبول کے تعاون سے شعبہ ابلاغیات کو ادارۂ علوم ابلاغیات (انسٹی ٹیوٹ آف کمیونی کیشن اسٹڈیز) بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس طرح وہ اس انسٹی ٹیوٹ کے پہلے ڈائریکٹر بنے۔ اپنی یہ ذمہ داری سنبھالتے ہی انہوں نے ادارے کی بلڈنگ میں توسیع کی، ہر نئے بلاک یا لیکچر تھیٹر کو کسی نامور صحافی یا نامور استاد کے نام سے منسوب کیا، ادارے سے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی نشریات کا آغاز کیا، مقامی اور عالمی زبانوں کے کورس شروع کرائے، طلبہ و طالبات میں صحت مند سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی۔ چنانچہ ادارے میں ہر روز کوئی نہ کوئی سرگرمی ہورہی ہوتی۔ ملک بھر سے ہر شعبۂ زندگی کے ماہرین اور نامور افراد کو اپنے شعبے میں مدعو کرکے طلبہ و طالبات کو انہیں سننے، ان سے سیکھنے، سوال کرنے اور استفادہ کرنے کے مواقع فراہم کیے۔ ڈاکٹر صاحب نے قومی اور عالمی سطح کی جتنی میڈیا کانفرنسیں کرائیں اتنی اس شعبے کی مجموعی زندگی میں بھی نہیں ہوئیں۔ اس معاملے میں ان کا کمال یہ تھا کہ کم سے کم اخراجات سے بہترین انتظامات کراتے۔ ادارے کا عملہ، اساتذہ اور طلبہ و طالبات کی افرادی قوت جو اُن کا اصل سرمایہ تھی، اسے بھرپور انداز میں استعمال کرتے اور بہترین نتائج حاصل کرلیتے۔ اساتذہ کی گروپنگ کے باوجود انہوں نے ادارے کو عزت اور نام دلایا۔ 2005ء کے زلزلے کے بعد وہ اپنے ساتھیوں اور طلبہ کے ساتھ مظفر آباد پہنچ گئے اور وہاں سے زلزلہ زدگان کی رہنمائی اور مدد کے لیے یونیسیف کے تعاون سے ایک کامیاب ریڈیو اسٹیشن چلایا۔ وہ رات دیر گئے تک اپنے دفتر میں بیٹھتے جو ہر شخص کے لیے کھلا تھا، اور جہاں ہر آنے والے کی چائے اور بسکٹ سے تواضع ہوتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب دوپہر کا کھانا اپنے ساتھی اساتذہ کے ساتھ دفتر میںکھاتے، اور اس طرح ان کے ساتھ ایک غیر رسمی میٹنگ کرلیتے۔ ریگولر اور وزیٹنگ فیکلٹی کی وہ ہر معاملے میں رہنمائی کرتے اور انہیں نئے آئیڈیاز دیتے۔ پاکستانی صحافت کی زبوں حالی، میڈیا میں منفی رجحانات، مغربی میڈیا کی یلغار اور بالادستی، صحافت میں اخلاقی اقدار کی پامالی، دنیا میں یہودی پریس کی سازشوں اور پاکستان میں حکومت میڈیا تعلقات اور مالکانِ میڈیا اور عامل صحافیوں کے معاملات اور مفادات کے ٹکرائو پر وہ ہمیشہ فکرمند رہتے اور ان میں بہتری کے لیے اپنے خیالات اور تجاویز متعلقہ حلقوں تک پہنچاتے۔ ڈاکٹر صاحب پاکستان میں پبلک سیکٹر کی تقریباً ہر یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے مشاورتی بورڈ میں شامل تھے۔ وہ بہت سی یونیورسٹیوں میں علومِ ابلاغیات کے بورڈ آف اسٹڈیز اور نصاب کمیٹی کے رکن تھے۔ کئی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں شعبہ ابلاغیات کے قیام میں ان کا بنیادی کردار تھا۔ جامعہ پنجاب ان کا عشق تھا، جس کا ذکر وہ اس طرح کرتے جیسے کسی محبوبہ کا تذکرہ کررہے ہوں۔ چنانچہ یہاں کے انسٹی ٹیوٹ آف کمیونی کیشن اسٹڈیز میں انھوں نے جدید طرز کے آڈیٹوریم، کمیٹی رومز، آڈیوویڈیو سینٹر، کمپیوٹر لیب اور معیاری لائبریری قائم کیں اور اس کے ہر بلاک، ہر لیکچر تھیٹر اور ہر استفادہ گاہ کو عالمی سطح کے کسی ماہرِ ابلاغیات یا قومی سطح کے کسی نامور صحافی سے منسوب کیا۔ پنجاب یونیورسٹی کے علاوہ کئی یونیورسٹیوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی کلاسیں شروع کرائیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے سپیریئر یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کو مضبوط و منظم کیا۔ یہاں سے روزنامہ ’نئی بات‘ کے اجرا میں اہم کردار ادا کیا۔ اس سے قبل دنیا ٹی وی کے آغاز میں ان کا اہم کردار تھا۔ اسکول آف میڈیا اسٹڈیز اور میڈیا یونیورسٹی ان کے خواب تھے۔ یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب میں وہ اسکول آف میڈیا اسٹڈیز بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ UMT میں بھی میڈیا اسکول کی ابتدائی تیاریاں مکمل تھیں لیکن میڈیا یونیورسٹی ان کی زندگی میں عملی شکل اختیار نہ کرسکی۔ اس آئیڈیا پر ابتدائی کام شروع ہوگیا تھا لیکن گورنر پنجاب خالد مقبول کے اس عہدے سے رخصت ہوجانے اور بیوروکریسی کی روایتی سستی اور سازشوں کے باعث یہ کام اب تک رکا پڑا ہے۔ کاش ڈاکٹر صاحب اپنی زندگی میں پاکستان میں میڈیا یونیورسٹی دیکھ سکتے۔ ڈاکٹر صاحب جتنے اچھے آئیڈیاز رکھتے تھے، اور اپنی انتظامی صلاحیتوں اور منصوبہ سازی کی اہلیت کے باعث ان کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوجاتے تھے وہ اتنے ہی اچھے مقرر بھی تھے۔ کلاس روم کے علاوہ سیمینارز اور علمی مباحث میں وہ بہت جلد چھا جاتے تھے۔ موقع کی مناسبت سے وہ نئے اور اچھوتے نکات اٹھاتے اور پھر ان پر سب کو قائل بھی کرلیتے، لیکن ساتھی مقررین کی حوصلہ افزائی بھی کرتے۔ مجھے 1997ء میں بھارت جانے کا موقع ملا۔ اُن دنوں بھارت میں عام انتخاب ہورہے تھے۔ بھوپال کے مسلم اکثریتی حلقے سے کانگریس کے وزیر اطلاعات ڈاکٹر شنکر دیال شرما جو بعد میں بھارت کے نائب صدر اور پھر صدر بھی ہوئے، امیدوار تھے۔ ان کے مقابلے میں جن سنگھ سے تعلق رکھنے والے مسلمان نوجوان عارف بیگ انتخاب لڑ رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب اس حلقے سے 1942ء سے انتخاب جیت رہے تھے وہ اپنے حلقے میں بے حد مقبول تھے۔ شہر کے ہندو اور مسلم حلقوں میں ان کا بے پناہ احترام تھا، لیکن یہ انتخاب عارف بیگ نے محض اپنی خطابت کے زور پر جیت لیا۔ مجھے عارف بیگ کی خطابت کا رنگ ڈاکٹر مغیث میں نظر آتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب پبلک سیمینارز کے علاوہ نجی محفلوں کی بھی جان تھے۔ قرأت کے علاوہ غزلیں اچھی آواز کے ساتھ پڑھتے۔ محفل میں کبھی اپنی علمی دھاک بٹھانے کی کوشش نہ کرتے۔ ابلاغیات پر ان کے تحقیقی مقالہ جات بڑے کام کی چیز ہیں۔ اگر ان کی اشاعت کا بندوبست ہوجائے تو یہ ابلاغیات کے طلبہ و طالبات، اساتذہ، اور میڈیا انڈسٹری کے لیے رہنمائی کا کام کرسکتے ہیں۔ اتنی خداداد صلاحیتوں کا حامل شخص، نمایاں طالب علم، نامور استاد، بڑا قاری، لاجواب منتظم، بے مثال منصوبہ ساز، اعلیٰ پائے کا مقرر اور ایک بہترین انسان اتنی جلدی ہمارے درمیان سے اٹھ جائے گا ابھی تک یقین نہیں آ رہا۔

عدم خلوص کے بندوں میں اک خرابی ہے
ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں