کراچی کا بحران 

وفاق اور سندھ سمیت تمام صوبوں کو اس نکتے پر لانا ہوگا کہ وہ مقامی حکومتوں کے نظام کی نئے سرے سے تشکیل کریں

کراچی کا بحران بہت پیچیدہ صورت اختیار کرگیاہے، کراچی میں موجود سیاسی کردارخود بھی بحران کے حل میں کوئی مؤثر کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس وقت کراچی کا سیاسی مینڈیٹ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے پاس ہے۔ تحریک انصاف کی وفاق میں حکومت ہے اور ایم کیو ایم وفاق میں اس کی اہم اتحادی جماعت ہے۔ لیکن اس کے باوجود کراچی کا بحران کم نہیں ہورہا بلکہ شدت کے ساتھ خرابیاں پیدا کررہا ہے۔
ایک طرف وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان تنائو یا بداعتمادی کی فضا ہے، تو دوسری طرف سندھ میں پیپلز پارٹی اور کراچی کی نمائندہ جماعت ایم کیو ایم کے درمیان بھی ایک دوسرے کی قبولیت سے جڑے مسائل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم کو سب سے بڑا گلہ یہ ہے کہ سندھ کی حکومت نے کراچی کی شہری یعنی مقامی حکومت کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ ان کے بقول تمام تر اختیارات کا مرکز وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ ہیں، جبکہ بلدیہ کراچی عدم اختیارات کا شکار ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی 18ویں ترمیم کی نہ صرف حمایتی ہے بلکہ اُس کے بقول اس ترمیم نے وفاق کے مقابلے میں صوبوں کو زیادہ بااختیار اور خودمختار بنادیا ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی کا لطیفہ یہ ہے کہ وہ سندھ میں موجود مقامی حکومتوں کے نظام کو کسی بھی سطح پر 1973ء کے دستور کی شق 140-Aکے تحت سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات دینے کے لیے تیار نہیں، جو عملاً 18ویں ترمیم و جمہوری روح کے ہی منافی ہے۔
دنیا بھر میں بڑے میگا شہروں کا نظام عمومی شہری نظام سے بہت مختلف ہوتا ہے، کیونکہ بڑے شہروں کے مسائل چھوٹے شہروں سے مختلف ہوتے ہیں، اور یہاں روایتی نظام سے نتائج حاصل نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے شہروں کا نظام غیر معمولی انداز میں چلایا یا تشکیل دیا جاتا ہے ۔ جبکہ ہم چھوٹے اور بڑے شہروں کے نظام کو یکساں بنیادوں پر چلا کر مسائل کو حل کرنے کے بجائے ان میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہم نے 18ویں ترمیم تو منظور کرلی لیکن نظام کو چلانے کی جو سیاسی روش ماضی میں مرکزیت کے نظام کی بنیاد پر قائم تھی وہی آج بھی قائم ہے۔ وفاق اسلام آباد سے پورے ملک کا نظام، اور صوبے اپنے دارالحکومتوں سے بیٹھ کر پورے صوبے کا نظام چلانا چاہتے ہیں۔ ایسے نظام کو مرکزیت کا نظام کہتے ہیں جہاں سیاسی، انتظامی اور مالی طور پر وسائل کی تقسیم کے عمل کو ایک خاص دائرے تک محدود کرکے حکمرانی کے نظام کو مفلوج رکھا جاتا ہے۔
پیپلز پارٹی کی سندھ میں تسلسل کے ساتھ یہ تیسری حکومت ہے۔ یعنی پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومت پچھلے تیرہ برسوں سے قائم ہے لیکن اُس نے 2010ء میں 18ویں ترمیم کی منظوری کے باوجود سندھ کی سیاست میں اختیارات کو تقسیم کرنے کے بجائے وہی غلطیاں دہرائی ہیں جو ماضی کی سیاست کا حصہ تھیں۔ اگرچہ مقامی حکومتوں کا نظام صوبائی معاملہ ہے اور صوبوں کو اختیار ہے کہ وہ اپنی مرضی اور ضرورت کے تحت مقامی نظام کی تشکیل دیں اور اسے مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ لیکن سندھ سمیت چاروں صوبائی حکومتیں مقامی نظام کو مضبوط بنانے کے بجائے اسے خودمختاری دینے کے ہی خلاف ہیں۔ یہاں تک کہ مقامی نظام حکومت تشکیل دینے کے لئے بھی تیار نہیںاس لیے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ محض صوبائی حکومتیں مقامی نظام کو تن تنہا مضبوط بناسکیں گی، وہ غلطی پر ہیں۔ وفاق کا کردار تین صورتوں میں موجود ہونا چاہیے: ۔
(1) مقامی حکومتوں کا تسلسل اور بروقت انتخابات۔
(2) آئین کی شق140-Aکے تحت صوبے ان اداروں کے سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات کو یقینی بنائیں، اوراگر آئین کی اس شق سے انحراف کیا جائے تو صوبوں کی جواب دہی کو ممکن بنایا جائے۔
(3) وسائل کی منصفانہ تقسیم اور شہریوں یا خاص طور پر محروم طبقات کی اس مقامی نظام میںآئین کی شق32کے تحت بھرپور شمولیت۔
یعنی وفاق کو ایک بڑا فریم ورک صوبوں کو مقامی نظام کی صورت میں دینا ہوگا کہ وہ اس دائرۂ کار میں نظام کی تشکیلِ نو کریں۔
کراچی میں مسئلہ محض گندے پانی کے نالوں کی صفائی کا ہی نہیں ہے، بلکہ شہری نظام سے جڑے تمام مسائل جن میں ناجائز تجاوزات، صفائی کا نظام، صاف پانی کی فراہمی، سیوریج کا نظام، بے ہنگم ٹریفک، اسٹریٹ کرائم، امن و امان، پارکوں کی تعمیر، پارکنگ کے مسائل، تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی، روزمرہ کی اشیاء کی قیمتوں کو کنٹرول کرنا، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، پولیس و عدم سیکورٹی نظام، منشیات کی خریدو فروخت سمیت بنیادی سوک ایجوکیشن کی بنیاد پر شہری حکومتی نظام کے بڑے امور ہیں۔ یہ تمام مسائل یقینی طور پر ایک مضبوط اور مربوط مقامی حکومتوں کے نظام کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں۔ تحریک انصاف جو خود مقامی نظام کی بڑی حمایتی سمجھی جاتی ہے، اس کا بھی مجموعی کردار عملاً مقامی نظام کے خلاف نظر آتا ہے۔
وفاقی سطح سے کراچی کے مسائل کے حوالے سے ہمیں مختلف خبریں سننے کو ملتی ہیں جن میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ کراچی کے نظام کو وفاق اپنے کنٹرول میں لے سکتا ہے، جو بظاہر ممکن نظر نہیں آتا۔ اصل مسئلہ مقامی حکومتوں کے نظام سے جڑا ہوا ہے۔ سندھ کا مقامی حکومتوں کا جو نظام ہے وہ خود ایک فرسودہ نظام کی عکاسی کرتا ہے۔ اس موجودہ مقامی نظام کے تحت حکمرانی کے نظام کو مؤثر اور شفاف بنانا، یا عام لوگوں کے مسائل کو حل کرنا ممکن نہیں۔ اسی طرح جب صوبائی حکومتوں کی ترجیحات میں ہی مقامی نظام کی مضبوطی نہیں تو پھر اس نظام کی کامیابی کے امکانات مزید محدود ہوجاتے ہیں۔ بڑی رکاوٹ ہمارے ارکانِ اسمبلی ہیں جو ترقیاتی فنڈز کی سیاست میں الجھ کر رہ گئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ترقیاتی فنڈز کا حصول اُن کا استحقاق ہے۔ اسی طرح بیوروکریسی خود مقامی نظام حکومت میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ مقامی نظام کی موجودگی سے اس کے اختیارات محدود ہوتے ہیں، اس لیے وہ بھی نظام کو کمزور رکھنا چاہتی ہے۔
کراچی کو تباہ کرنے میں سیاسی اور فوجی دونوں حکومتوں کا کردار ہے۔ خاص طور پر جنرل پرویزمشرف، اور ان کے بعد ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی خرابیوں کی ذمہ دار ہیں۔ اب خود تحریک انصاف بھی ان خرابیوں کو برقرار رکھنے میں ایک فریق بن گئی ہے۔ این ڈی ایم اے کو جب کراچی کے نالوں کی صفائی کے لیے بھیجا گیا تو ان کا پہلا بیان ہی بہت حد تک درست تھا کہ ہماری آمد عارضی ہے، اصل مسئلہ وفاق، سندھ اور کراچی کی شہری حکومت کا بیٹھنا اور شہر کے ماسٹر پلان کو ترتیب دینا اور عمل درآمد کرنا ہے۔ اب کہا جارہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت پر وفاق اور سندھ حکومت ایک میز پر بیٹھنے کے لیے تیار ہوگئے ہیں۔ ایک چھے رکنی نگران کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے، اس کمیٹی میں وفاق کی جانب سے تحریک انصاف کے وفاقی وزیر اسد عمر، علی زیدی، اورایم کیو ایم کے امین الحق شامل ہیں۔ جبکہ سندھ حکومت کی نمائندگی پیپلز پارٹی کے دو صوبائی وزرا ناصر شاہ اور سعید غنی کریں گے۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اس مشاورتی کمیٹی کے سربراہ ہوں گے۔ اچھی بات ہوگی اگر تینوں جماعتوں پر مشتمل یہ کمیٹی حقیقی معنوں میں کراچی کے مسائل کے حل میں کوئی کلیدی اور شفاف کردار ادا کرسکے۔ لیکن یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ کمیٹی خود وفاق اور سندھ نے نہیں بنائی بلکہ ان پر اوپر سے دبائو ڈالا گیا ہے کہ مزید تنازعات پیدا کرنے کے بجائے مل بیٹھ کر کراچی کے بحران کا حل تلاش کریں۔ کاش یہ ممکن ہوسکے۔
اصل مسئلہ کراچی کے بحران کے تناظر میں کمیٹی کی تشکیل نہیں، بلکہ وفاق اور سندھ سمیت تمام صوبوں کو اس نکتے پر لانا ہوگا کہ وہ مقامی حکومتوں کے نظام کی نئے سرے سے تشکیل کریں اور نظام میں روایتی اندازِ فکر اختیار کرنے کے بجائے اس میں جدت پیدا کریں، اور دنیا سے سیکھیں کہ انہوں نے بڑے شہروں کی حکمرانی کے نظام کو کیسے مؤثر اور شفاف بنایا ہے۔ لیکن جو موجودہ سیاسی تقسیم یا ٹکرائو ہے اس میں ان تمام سیاسی جماعتوں کا مل بیٹھ کر کراچی کے بحران کو حل کرنا مشکل اور ناممکن نظر آتا ہے۔