نیب لاہور کی سرگرمیوں میں تیزی

مریم نواز، عثمان بزدار اور دیگر کی پیشیاں

قومی احتساب بیورو (نیب) لاہور ان دنوں خاصا سرگرم ہے، اور انہی سرگرمیوں کے سبب خوب خوب خبروں میں بھی ہے۔ منگل 11 اگست کو جاتی عمرہ رائے ونڈ اراضی کیس میں نیب لاہور نے سابق وزیراعظم پاکستان، حال مقیم لندن کی صاحب زادی اور مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر محترمہ مریم نواز کو طلب کر رکھا تھا، وہ نیب لاہور کے دفتر تشریف بھی لائیں، مگر ان سے تحقیق و تفتیش اور سوال و جواب کرنے کے بجائے انہیں دفتر کے باہر ہی سے واپس بھجوا دیا گیا۔ سبب اس کا ذرائع ابلاغ تمام دن براہِ راست دکھاتے رہے، نواز لیگ کے کارکنوں نے بڑی تعداد میں نیب دفتر کے باہر جمع ہوکر نعرہ بازی ہی نہیں کی بلکہ پتھرائو بھی کیا، جس کے سبب نیب کے ترجمان کے مطابق نیب کے دفتر کے شیشے ٹوٹ گئے، جب کہ محترمہ نے نیب دفتر کے باہر اور بعد ازاں باقاعدہ پریس کانفرنس کے دوران یہ الزام عائد کیا کہ پتھرائو پولیس نے کیا جس سے ان کی ’’بلٹ پروف‘‘ گاڑی کا سامنے والا شیشہ ٹوٹ گیا اور گاڑی اگر بلٹ پروف نہ ہوتی تو سامنے سے آنے والے پراسرار پتھروں سے خود ان کو بھی نقصان پہنچ سکتا تھا۔ تاہم جب یہ سوال سامنے آیا کہ یہ کیسی ’’بلٹ پروف‘‘ گاڑی تھی جس کا شیشہ پتھر لگنے سے ٹوٹ گیا؟ تو وقوعہ کے پانچ روز بعد پارٹی کے صوبائی صدر جناب رانا ثناء اللہ نے یہ دعویٰ کردیا کہ ’’نیب پیشی پر مریم نواز کی گاڑی پر گولیاں چلائی گئیں۔ تفتیشی ماہرین سے گاڑی کا معائنہ کروا لیا ہے، سازش میں جو بھی ملوث ہوا اس کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے، گاڑی کی فرانزک کے لیے ماہرین کی خدمات حاصل کرلی ہیں، مریم نواز کی گاڑی بلٹ پروف نہ ہوتی تو کوئی سانحہ بھی ہوسکتا تھا۔‘‘
رانا ثناء اللہ کا یہ دعویٰ بظاہر اپنا جواز رکھتا ہے، مگر اس کے ساتھ ہی یہ مزید کئی سوالات کو بھی جنم دے رہا ہے کہ محترمہ جب جلوس کی صورت نیب کے دفتر تشریف لا رہی تھیں تو ان کے دائیں بائیں، آگے پیچھے درجنوں کیمرے اس جلوس کی کوریج کررہے تھے، ان کے بقول اگر گولی یا پتھر بھی گاڑی کی فرنٹ اسکرین پر لگے ہوں تو یہ منظر کیمروں کی آنکھ سے کیونکر پوشیدہ رہا؟ گاڑی کو پتھر یا گولی لگنے کی بریکنگ نیوز آخر کسی بھی برقی چینل سے نشر کیوں نہ ہوسکی جب کہ وہ محترمہ کی آمد کے ایک ایک لمحے کی اطلاعات دے رہے تھے؟ اگر بفرضِ محال یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ گاڑی کو پولیس کا پھینکا ہوا پتھر یا گولی لگنے کے وقت تمام کیمرے اور ذرائع ابلاغ کے رپورٹر اندھے ہوگئے تھے یا انہوں نے کسی حکومتی دبائو، خوف یا لالچ کے زیراثر یہ اہم خبر نشر نہیں کی اس لیے خود مریم نواز کو اس واقعے کا انکشاف کرنا پڑا تب بھی یہ سوال، جواب طلب رہ جاتا ہے کہ مریم کی گاڑی کے ساتھ دوڑنے والے درجنوں محافظ اور کارکنان ان پتھروں اور گولیوں کی زد میں کیوں نہیں آئے؟ اور ان میں سے کسی کو بھی معمولی خراش تک نہ آئی مگر یہ پتھر یا گولی سیدھے گاڑی کی فرنٹ اسکرین پر اس زور سے لگے کہ ’’بلٹ پروف‘‘ ہونے کے باوجود اسکرین اس طرح ٹوٹی کہ گاڑی میں بیٹھے ہوئے مسافروں مریم نواز اور ان کے شوہرِ نامدار کیپٹن(ر) صفدر بھی ہر طرح سے محفوظ ومامون رہے۔
مریم نواز کی اس ہنگامہ خیز پیشی کے اگلے ہی روز نیب لاہور نے وزیراعظم عمران خان کے ’’وسیم اکرم پلس‘‘ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو طلب کر رکھا تھا، جو کارکنوں یا سرکاری اہلکاروں کی فوجِ ظفر موج کے بغیر کسی پروٹوکول کے بغیر ’’تن تنہا‘‘ نیب کے دفتر میں پیش ہوئے اور اکثر سوالوں کے جواب میں ’’مجھے علم نہیں، جواب کے لیے وقت دیا جائے‘‘ کہہ کر مزید مہلت لے کر واپس آگئے۔ ان پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک ہوٹل کو شراب کی فروخت کا لائسنس جاری کیا۔ تاہم وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے پیر 17 اگست کو ایوانِ صنعت و تجارت لاہور میں ’’اسٹیٹ آف دی آرٹ ون ونڈو اسمارٹ سروسز‘‘ کا افتتاح کرنے کے بعد ذرائع ابلا غ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ نیب نے مجھے ملزم نہیں گواہ کے طور پر بلایا تھا، میرا دامن صاف ہے، نیب جب بھی بلائے گا، خود پیش ہوں گا اور نیب کو تمام سوالات پر مطمئن کروں گا۔ ممکن ہے محترم وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار صاحب کا یہ دعویٰ درست ہو کہ نیب نے انہیں ملزم نہیں گواہ کے طور پر طلب کیا تھا، مگر یہاں بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر محترم عثمان بزدار محض گواہ ہیں، ملزم نہیں تو نیب نے ان سے تنخواہ اور آمدن کے دیگر ذرائع کی تفصیلات کیوں پوچھی ہیں؟ ان کے بیرونِ ملک دوروں، وراثت میں حاصل ہونے والی جائداد، بجلی، گیس، ٹیلی فون اور موبائل کے بلوں اور ملازمین کی تعداد کے بارے میں استفسارات ان سے کیوں کیے گئے ہیں؟ نیب نے یہ کیوں کہا ہے کہ وہ اثاثے جو خریدے گئے، لیز پر یا بذریعہ نیلامی حاصل کیے گئے، یا تحفے کے طور پر ملے، سب کی تفصیل فراہم کریں، ایسے اثاثے جو عثمان بزدار کی ملکیت نہیں رہے، کب اور کسے فروخت کیے گئے، حتیٰ کہ وزیراعلیٰ پنجاب کو ذاتی بینک اکائونٹس، ان کے یا اہلِ خانہ کے نام کریڈٹ کارڈز اور قرضوں وغیرہ سے متعلق معلومات فراہم کرنے کی ہدایات بھی دی گئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا گواہ سے بھی کبھی اس طرح کی تفصیلات طلب کی گئی ہیں؟ اس طرح کا سخت شکنجہ کسنے کی مثالیں تو ملزمان سے متعلق بھی کم ہی ملتی ہیں، کجا کہ صوبے کے ذمہ دار ترین منصب پر موجود ایک فرد کو محض گواہی کے لیے طلب کیا جائے اور اُسے ایسے سخت، ذاتی و خاندانی سوالات کا سامنا کرنا پڑے۔ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔
نیب کی طلبیوں کا یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا، بلکہ 17 اگست پیر کے روز ایک درجن کے قریب اہم سیاسی رہنمائوں اور سینئر بیوروکریٹس نے نیب لاہور کے دفتر میں حاضری دی، نواز لیگ کے مرکزی رہنما حنیف عباسی پنجاب اسپورٹس بورڈ کرپشن کیس میں طلب کیے گئے تھے جنہوں نے ڈیڑھ گھنٹے تک تفتیشی ٹیم کے سوالات کے جوابات دیئے مگر ٹیم نے مطمئن نہ ہونے کے باعث 27 اگست کو دوبارہ انہیں طلب کیا ہے۔ وزیراعلیٰ کی جانب سے شراب کے لائسنس کی خلافِ ضابطہ اجازت دیئے جانے کے کیس میں وزیراعلیٰ کے سابق پرنسپل سیکرٹری راحیل صدیقی کو طلب کیا گیا تھا جنہوں نے اپنے تحریری جوابات جمع کروا دیئے۔ اس کیس میں ڈی جی ایکسائز اکرم اشرف گوندل، جو وعدہ معاف گواہ بتائے جاتے ہیں، اور شراب کا لائسنس حاصل کرنے والے نجی ہوٹل کے سی ای او جمیل عباس بھی طلب کیے گئے تھے، ان سے بھی گھنٹوں سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہا۔ شاہ شمس کچی آبادی لاہور میں غیر قانونی الاٹمنٹس کے کیس میں مسلم لیگ (ن) کے سابق ارکانِ اسمبلی محترمہ مریم نواز کے ماموں زاد میاں محسن لطیف اور ماجد ظہور کے علاوہ سابق کونسلر امیر محمد گجر بھی نیب حکام کے روبرو پیش ہوئے، جنہیں ابتدائی پوچھ گچھ کے بعد تحریری سوال نامہ دے کر 27 اگست کو دوبارہ طلب کیا گیا ہے۔ نواز لیگ ہی کے سابق رکن قومی اسمبلی مدثر قیوم ناہرہ بھی 17 اگست ہی کو نیب کے لاہور دفتر میں پیش ہوئے اور آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں تفتیش کا سامنا کیا۔ رائے ونڈ میں مریم نواز اراضی الاٹ کرنے کے کیس میں سابق ڈپٹی کمشنر لاہور نورالامین مینگل نے بھی اس روز نیب حکام کے سوالات کے جوابات دیئے، جب کہ خیابان امین ہائوسنگ سوسائٹی کے سی ای او امین اللہ دتہ ہیرا نے سوسائٹی میں تعمیر شدہ اور بقایا مکانات کا ریکارڈ پیش کیا۔ اس گروپ کو دسمبر 2019ء میں تمام الاٹیوں کو تعمیر شدہ مکانات کی چابیاں دینا تھیں جس میں ناکام رہنے پر انہیں نیب میں طلب کیا گیا تھا۔ سرکاری اراضی کی غیر قانونی فروخت پر انکوائری کے ضمن میں تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی غضنفر عباس چیمہ نے ڈیڑھ گھنٹے تک اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔ صوبائی وزیر محنت انصر مجید نیازی نے 19 اگست کو اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام میں نیب لاہور کے دفتر حاضری دی۔ یوں حکومت اور حزبِ اختلاف کے سیاست دانوں، سینئر بیوروکریٹس اور کاروباری حضرات سبھی کے گرد نیب لاہور کا شکنجہ سخت ہوتا نظر آرہا ہے۔ اللہ کرے نیب سے متعلق حکومت مخالف سیاست دانوں کے خلاف انتقام کا جو الزام عام ہورہا ہے اس کا ازالہ ہوسکے، اور عوام گزشتہ دو سال سے احتساب، احتساب کا جو شور سن رہے ہیں اس کی حقیقی عملی صورت سامنے آسکے۔