میر غوث بخش بزنجو ملک کے بڑے سیاست دان اور رہنما تھے۔ بالخصوص ملک کی بائیں بازو کی سیاست اور دانش کدوں میں ان کے فکری اثرات اب بھی موجود ہیں۔ ان کی شناخت صوبائی اور علاقائی کے بجائے قومی سطح کی تھی۔ اگست 1989ء میں غوث بخش بزنجو کے انتقال کے بعد یہ خانوادہ سیاسی لحاظ سے بانجھ نہ ہوا۔ بڑے بیٹے بزن بزنجو سیاست میں متحرک تھے۔ البتہ میر حاصل خان بزنجو پوری طرح والد کے نقشِ قدم پر تھے۔ بزن بزنجو 1990ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 205 خضدار اور حلقہ 207 سے بیک وقت کامیاب ہوئے۔ یہ انتخاب انہوں نے پاکستان نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر لڑا۔ خضدار کی قومی اسمبلی کی نشست چھوڑی تو دوبارہ ضمنی انتخاب میں حاصل خان بزنجو آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئے۔ حاصل بزنجو 1997ء کے عام انتخابات میں بلوچستان نیشنل پارٹی کی طرف سے اس حلقے پر دوبارہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ حاصل خان بزنجو کی سیاسی تربیت یقینی طور پر والد کے زیر سایہ ہوئی تھی، مگر وہ خود بھی ذہین اور باصلاحیت نوجوان تھے۔ طالب علم کی حیثیت سے سیاسی عمل کا حصہ تھے۔ بلوچ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن سے وابستگی تھی۔ یونائیٹڈ اسٹوڈنٹ موومنٹ کے چیئرمین رہے۔ گویا انہیں اس طلبہ اتحاد کی قیادت ان کی سیاسی و قائدانہ صلاحیت کی بنیاد پر سونپی گئی تھی۔ بلوچستان نیشنل پارٹی سے علیحدگی کے بعد بلوچستان نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کی بنیاد رکھی۔ آگے جاکر 2003ء میں سیاسی انضمام کے تحت نیشنل پارٹی قائم کی گئی تو حاصل بزنجو اس جماعت کے صفِ اول کے رہنمائوں میں تھے۔ 2009ء میں نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے۔ 2013ء کے عام انتخابات کے بعد نیشنل پارٹی نے وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے ساتھ اتحاد کرلیا۔ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے اشتراک سے مخلوط حکومت تشکیل پائی۔ مری معاہدے کے تحت پہلے ڈھائی سال نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ بنائے گئے، معاہدے کی یہ مدت پوری ہوئی تو نواب ثناء اللہ زہری وزیراعلیٰ بن گئے، یعنی مسلم لیگ (ن) کی حکومت بن گئی۔ حاصل خان بزنجو کو 2013ء کے عام انتخابات کے بعد بننے والی وفاقی حکومت میں پورٹ اینڈ شپنگ کی وزارت ملی۔ حاصل بزنجو 2014ء میں نیشنل پارٹی کے صدر منتخب ہوئے۔ یہ زمانہ سیاسی تحرّک اور جدوجہد کا تھا۔ یادش بخیر، نیشنل پارٹی نے 2008ء کے عام انتخابات کا جماعت اسلامی، پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ مل کر بائیکاٹ کیا تھا۔ نیشنل پارٹی بلوچستان میں حکومت بنانے سے قبل ہی بلوچ عسکریت پسندوں کا ہدف بنی تھی۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اورحاصل خان بزنجو سمیت کئی رہنما شدت پسندوں کے نشانے پر تھے، جنہوں نے نیشنل پارٹی کے متعدد رہنمائوں اور کارکنوں کا ہدفی قتل کیا۔ یہ گروہ ان کی پارلیمانی سیاست میں حصہ لینے کی پالیسی پر معترض تھا۔ مگر حاصل بزنجو اور ان کی جماعت اپنی سیاسی سوچ اور پالیسیوں سے پیچھے نہیں ہٹے۔ گویا یہ مکتبِ فکر شدت پسندوں کے آگے سدِّ راہ تھا۔ حاصل خان بزنجو صوبائی خودمختاری، آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی اور حقیقی فیڈریشن کے قیام کے مبلغ تھے۔ بسا اوقات جمہوری اصولوں اور روایات کی پامالی پر بادشاہ گروں پربرس پڑتے۔ اس سچ کا ادراک بہرحال انہیں تھا کہ بڑی سیاسی جماعتوں اور ان سے وابستہ کئی چہروں نے ملک کے اندر جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے۔ یقینی طور پر چھوٹی سیاسی جماعتیں بھی مقتدرہ کے مکروہ کھیل کا حصہ بنی ہیں۔ بلوچستان میں 9 جنوری 2018ء کو سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اور سینیٹ آف پاکستان میں صادق سنجرانی کو بطور چیئرمین منتخب کروانا اس کھیل کی تازہ نظیریں ہیں۔ عدم اعتماد کی تخریبی سیاست کے بعد کئی غیر معروف لوگ مارچ 2018ء کے سینیٹ الیکشن میں جتوائے گئے۔ موجودہ سینیٹ چیئرمین میر صادق سنجرانی اسی لاٹ میں سے ہیں۔ آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والے ان امیدواروں کو میر حاصل بزنجو نے عسکری گروپ کہا تھا (بحوالہ 10مارچ 2018ء کے اخبارات)۔ پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری بلوچستان میں عدم اعتماد کی تحریک سے لے کر سینیٹ آف پاکستان کے چیئرمین کے انتخاب تک اس تمام کھیل کے انویسٹر اور دماغ تھے۔ یعنی یہ سارا کھیل مقتدرہ کے ساتھ مل کر رچایا گیا۔ آصف علی زرداری نے اپنی جماعت کے سینئر رہنما، کہنہ مشق سیاست دان رضا ربانی جن پر پوری حزبِ اختلاف میں کوئی دو رائے نہ تھیں، پر صادق سنجرانی کو فوقیت دے دی۔ چناں چہ پیپلزپارٹی کے اس فیصلے کے بعد حزبِ اختلاف نے مسلم لیگ (ن) کے راجا ظفرالحق کو اپنا امیدوار بنایا، مگر اکثریت رکھنے کے باوجود حزبِ اختلاف ہار گئی۔ ایسا صرف اور صرف آصف علی زرداری کی وجہ سے ہوا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی نے بھی صادق سنجرانی کی حمایت کی۔ چناں چہ مابعد جب آصف علی زرداری کو پی ٹی آئی کے ہاتھوں ضرب پڑی تو جولائی 2019ء میں پیپلزپار ٹی، جے یوآئی، مسلم لیگ (ن)، پشتون خوا میپ اور نیشنل پارٹی پر مشتمل حزبِ اختلاف صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی۔ میر حاصل خان بزنجو کو متحدہ حزبِ اختلاف کا امیدوار نامزد کیا۔ یہاں بھی حزب اختلاف نے اپنی پارہ پارہ صفوں کے باعث مات کھائی۔ گویا مذکورہ دو مواقع پر حزبِ اختلاف کے کئی ارکانِ سینیٹ نے پارٹی فیصلوں اور ہدایات کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کی منشا تسلیم کرلی۔ حالانکہ اگر عدم اعتماد کی تحریک میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ارکانِ سینیٹ دغا نہ کرتے تو صادق سنجرانی کا رخصت ہونا یقینی تھا، اور حاصل بزنجو چیئرمین سینیٹ منتخب ہوجاتے۔ اس دغا بازی میں جمعیت علمائے اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹرز کا نام بھی لیا جا چکا ہے۔ راجا ظفرالحق کے مقابلے میں جب صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے اور منصب کا حلف اُٹھانے کے بعد ایوان میں حاصل خان بزنجو نے جو تقریر کی، وہ تاریخ کا حصہ بن گئی۔ حاصل خان نے اس دن کہا کہ
’’آج عملی طور پر ثابت ہوچکا ہے کہ بالادست طاقتیں پارلیمنٹ سے طاقتور ہیں۔ پارلیمنٹ مکمل طور پر ہار چکی ہے۔ مجھے اس ہائوس میں بیٹھتے ہوئے شرم آتی ہے‘‘۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے انہیں ٹوکا تو حاصل بزنجو نے کہا کہ ’’بے نظیر بھٹو جیت جاتیں، ذوالفقار علی بھٹو جیت جاتے اگر آپ لوگ رضا ربانی کو چیئرمین بناتے، آپ لوگوں نے رضا ربانی کے لیے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کا نمائندہ ہے‘‘۔
نومنتخب چیئرمین صادق سنجرانی نے انہیں کہا کہ بزنجو صاحب تقریر کسی اور دن کریں آج صرف مبارک باد دیں، تو حاصل بزنجو نے کہا ’’آج کس کو مبارک باد دوں؟ اس بلڈنگ (سینیٹ) کو گرانے کے بعد بلوچستان کا نام لیا جارہا ہے۔ صوبائی اسمبلیاں منڈی بنائی گئیں۔ خدارا اس ملک میں جمہوریت کو چلنے دیں۔‘‘
اس تقریر کی پاداش میں ان کے خلاف گوجرانوالہ سمیت مختلف شہروں میں مقدمات قائم کیے گئے کہ حاصل نے ملکی ادارے کی توہین کی ہے۔ بہرحال حاصل بزنجو مرعوب نہ ہوئے اور اپنی کہی ہوئی باتوں پر قائم رہے۔ گویا حاصل بزنجو نے اپنی سیاسی زندگی کی دانستہ و نادانستہ لغزشوں کا کفارہ ادا کردیا۔ آپ گزشتہ دو سال سے پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا تھے۔ کینسر سے لڑتے لڑتے آخرکار20 اگست 2020ء کو کراچی کے اسپتال میں داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ حاصل بزنجو استدلال و تدبیر کے حامل سیاست دان و پارلیمنٹیرین تھے۔ بلامبالغہ وہ قومی سطح کے رہنما تھے۔ کسی نے حاصل خان بزنجو کو ’’ایک نادر سیاست دان‘‘ کے بجا الفاظ سے یاد کیا ہے۔ بلاشبہ وہ نادر سیاست دان ہی تھے۔