حضرت شعیب علیہ السلام کے زمانے میں ایک آدمی اکثر یہ کہتا رہتا تھا کہ ’’مجھ سے بے شمار گناہ اور جرم سرزد ہوتے رہتے ہیں۔ اللہ کے کرم سے مجھے کچھ نہیں ہوتا‘‘۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے جب اس کی یہ باتیں سنیں تو فرمانے لگے: ’’ارے بے وقوف تُو صراطِ مستقیم سے بھٹک گیا ہے۔ تیری مثال اُس سیاہ دیگ کی سی ہے جس پر اسی کا رنگ چڑھتا رہتا ہے۔ اسی طرح تیرے اعمالِ بد نے تیری روح کی پیشانی بے نور کردی ہے۔ تیرے قلب پر زنگ کی اتنی تہیں چڑھ گئی ہیں کہ تجھے خدا کے بھید دکھائی نہیں دیتے۔ جو بدنصیب گناہ میں آلودہ ہو اور اوپر سے اس پر اصرار کرے تو اس کی عقل پر خاک پڑ جاتی ہے۔ اسے کبھی توبہ کی توفیق نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ اسے گناہ کے کاموں میں لذت ملنے لگتی ہے۔ وہ شخص گمراہ اور بے دین ہوجاتا ہے۔ اس میں حیا اور ندامت کا احساس ہی باقی نہیں رہتا‘‘۔
حضرت شعیب علیہ السلام کی یہ باتیں سن کر اس شخص نے کہا: ’’آپ علیہ السلام نے بجا فرمایا، لیکن یہ تو بتایئے کہ اگر اللہ تعالیٰ میرے گناہوں کا مواخذہ کرتا ہے تو اس کی علامت کیا ہے؟‘‘
بارگاہِ خداوندی سے ارشاد ہوا: میں ستارالعیوب ہوں۔ البتہ اس کی گرفت کی ایک واضح علامت یہ ہے کہ یہ نماز، روزے کی پابندی کرتا ہے، زکوٰۃ بھی ادا کرتا ہے، لمبی لمبی دعائیں بھی مانگتا ہے اور نیک عمل بھی دکھاوے کے لیے کرتا ہے، لیکن اس کی روح کو ان عبادتوں اور نیکیوں سے ذرّہ برابر بھی لذت نہیں ملتی۔ ظاہر میں اس کی عبادت اور نیکیاں خشوع و خضوع سے لبریز ہیں لیکن باطن میں پاک نہیں۔ اس کو کسی عبادت میں بھی روحانی سکون حاصل نہیں ہوتا۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے درخت میں اخروٹ تو اَن گنت لگتے ہوں مگر ان میں مغز نہ ہو۔ عبادت اور نیکیوں کا پھل پانے کے لیے ذوق درکار ہے۔
جب اس شخص کو اپنے باطن کا پتا چلا اور اپنی روحانی بیماری معلوم ہوئی تو وہ بہت حیران و پریشان ہوا۔
درسِ حیات: انسان اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ اس کی بدعملی اور غلط کاری پر اس کی گرفت نہیں ہوتی۔ گرفت کا انداز مختلف قسم کا ہوتا ہے۔
۔( ”حکایات ِرومیؒ“۔مولانا جلال الدین رومیؒ)۔
مکڑی خود اپنے جال میں کیوں نہیں پھنستی؟
ایک سوال اور اس کا جواب
مکڑی کا جالا ایک ایسا جال ہے جس میں بے خبر کیڑے بہ آسانی پھنس جاتے ہیں اور پھر انہیں مکڑی اپنی غذا کے لیے استعمال کرلیتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خود مکڑی اپنے اس جال میں کیوں نہیں پھنستی؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ مکڑی کے پائوں میں تیل کی ایک باریک سی فلم چپکی ہوتی ہے جو اس کو جالے میں پھنسنے نہیں دیتی۔ تجربے سے یہ پتا چلا ہے کہ جب مکڑی کے پائوں گلیسرین جیسے محلول میں ڈبو کر صاف کرلیے جاتے ہیں اور پھر اس کے بعد اُسے اس کے جالے میں واپس بھیجا جاتا ہے تو مکڑی بھی دوسرے کیڑوں کی طرح اپنے جالے سے باہر نکلنے سے عاجز ہوتی ہے۔
۔(بشکریہ: ’’محجوبہ‘‘۔ تہران)۔
حاتم طائی کی سخاوت اور ایک لکڑہارا
شیخ سعدی اپنی مشہور زمانہ کتاب گلستان میں بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ قبل اسلام دور میں سخاوت کے لیے مشہور حاتم طائی سے کسی نے کہا کہ اے حاتم کیا اس دنیا میں تم سے زیادہ سخی یا نیک شخص اور کوئی ہو گا؟
حاتم طائی نے فوراً ہاں میں سرہلایا۔ وہ شخص یہ سوچ کر حیران ہوا کہ بھلا وہ کیسا انسان ہوگا جو حاتم طائی سے زیادہ نیک ہو! اس نے تجسس سے پوچھا: وہ کون ہے اور کہاں ہے؟ حاتم طائی نے کہا کہ ایک دفعہ میرا گزر کسی جنگل سے ہوا تو میں نے دیکھا کہ ایک بوڑھا لکڑہارا پسینے میں شرابور لکڑی توڑنے میں مگن ہے۔ جبکہ انہی دنوں میرے گھر پر چالیس اونٹ ذبح کرکے ہر خاص و عام کے لیے مفت لنگر کا اہتمام تھا۔ میں نے اس بوڑھے لکڑہارے سے پوچھا: بابا جی حاتم طائی کے گھر پر دعوتِ عام ہے اور سارے لوگ وہاں مفت کھانا کھا رہے ہیں اور آپ یہاں اتنی مشقت اٹھا رہے ہیں؟ اس پر باباجی نے حاتم کو جو جواب دیا شیخ سعدی نے اسے یوں منظوم کیاہے:۔
ہر کہ نان از عمل خویش خورد
منتِ حاتمِ طائی نہ برد
یعنی اس نے کہا کہ جو آدمی خود محنت سے کما کے روٹی کھا سکتا ہے وہ حاتم طائی کی منت کیوں اٹھائے! حاتم طائی نے یہ واقعہ سنا کر اس شخص سے کہا کہ میرے نزدیک نیکی میں اس محنت کش بوڑھے کا مقام مجھ سے کئی درجے بلند ہے۔