بہت دن ہوئے ایک گھوڑا اور ایک بھینس پہاڑوں کے بیچ میں ایک سبزہ زار میں رہتے تھے۔ چرنے کے لیے گھاس اور پینے کے لیے پانی افراط سے تھا اور دونوں اچھے دوست بن گئے تھے۔ لیکن ایک سال بارش نہیں ہوئی اور سبزہ زار کے چشمہ میں پانی ختم ہوگیا اور گھاس سوکھ کر بھوری پڑ گئی۔ جلد ہی گھوڑے اور بھینس میں پانی اور گھاس کی کم یابی پر لڑائی ہونے لگی۔ ایک دن روزانہ کی لڑائی خاصی گمبھیر ہوگئی۔ بھینس نے اپنے نوکیلے سینگوں سے گھوڑے کو زخمی کردیا۔ زخمی گھوڑے کے پاس وہاں سے بھاگ جانے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ کچھ دن بعد گھوڑا بہتر محسوس کرنے لگا لیکن وہ یہ نہ بھول سکا کہ بھینس نے اس کے ساتھ کیسا برا برتائو کیا اور اسے زخمی کردیا تھا۔ اس نے بدلہ لینے کی تیاری شروع کردی۔ خاصے غور و خوض کے بعد اس نے ایک انسان کی مدد لینا طے کیا۔ گھوڑے کی کہانی سننے کے بعد اس شخص نے لاپروائی سے کہا:
’’تم لوگ آپس میں ایک دوسرے سے لڑے اور تم ہار گئے۔ میں اس جھگڑے میں کیوں پڑوں؟ بہرحال بھینس کے نوکیلے سینگ ہیں، اگر وہ تم کو زخمی کرسکتی ہے، تو مجھے تو یقیناً جان سے مار دے گی‘‘۔
اتنا کہہ کر اس شخص نے گھوڑے سے کہاکہ وہ اس کا پیچھا چھوڑ دے تاکہ وہ اپنا کام کرسکے۔ ایک مرتبہ اور گھوڑے نے اس شخص سے اپنی وکالت کی۔ اس نے کہا:
’’اگر تم میری مدد کرو تو میں بھینس پکڑنے میں تمہاری مدد کروں گا۔ تب تم اس کو رکھ لینا اور چراگاہ بس میرے لیے رہ جائے گی‘‘۔
وہ شخص ہنسا اور بولا: ’’میں ایک گرفتار یا قبضے میں آئی بھینس کا کیا کروں گا! وہ میرے کسی کام کی نہیں‘‘۔
تب گھوڑے نے بھینس کے میٹھے دودھ کے بارے میں بتایا:
’’وہ نہ صرف مزے میں اچھا ہے بلکہ صحت کے لیے بھی مفید ہے۔ اگر تم روزانہ اس کو پیوگے تو جنگل کے سب جانوروں سے بھی زیادہ طاقت ور بن جائوگے‘‘۔
وہ شخص اس بات سے متاثر نظر آیا اور گھوڑے کی مدد کرنے کے لیے راضی ہوگیا، لیکن بھینس کے نوکیلے سینگ اس کو پھر بھی پریشان کرتے رہے۔ لیکن گھوڑے کے پاس ایک تجویز تھی:
’’تمہیں ایک بڑے موٹے ڈنڈے کی ضرورت ہے‘‘۔ اس نے کہا: ’’بس میری کمر پر سوار ہوجائو اور ہر مرتبہ جب میں بھینس کے پاس سے دوڑ کر گزروں تم اس کو ڈنڈے سے مارنا۔ وہ مجھ سے زیادہ تیز نہیں دوڑ سکتی اس لیے وہ ہمیں پکڑ نہیں پائے گی‘‘۔
تجویز اچھی لگی اور وہ انسان اس کے لیے تیار ہوگیا۔ اگلے دن وہ شخص ڈنڈا لے کر گھوڑے پر سوار ہوا اور جب سبزہ زار میں بھینس نظر آئی تو گھوڑے نے اس کی طرف دوڑنا شروع کردیا۔ تجویز کامیاب ہوتی محسوس ہوئی۔ ڈنڈا کئی مرتبہ مارنے پر بھینس زمین پر گر گئی اور اس شخص نے بھینس کو قبضے میں کرلیا اور اپنی جھونپڑی کے پاس ہی ایک درخت سے باندھ دیا۔ اب گھوڑا سبزہ زار سے بھینس کو ہٹا دیئے جانے پر واقعی بہت خوش تھا۔ اُس نے اس شخص کا شکریہ ادا کیا، اور جیسے ہی جانے کے لیے تیار ہوا تو اسے پتا چلا کہ وہ بھی ایک رسّی سے درخت سے باندھ دیا گیا ہے۔ گھوڑا اس شخص کی طرف مڑا اور بولا:
’’پیارے دوست اب جب کہ ہمارا کام ختم ہوگیا ہے، مجھے جانے دو، میں سبزہ زار میں مزے کروں گا اور تم بھینس کے دودھ کا مزہ لینا‘‘۔
اس شخص نے جواب دیا: ’’میرے پیارے دوست تم میرے لیے اتنے مفید ثابت ہوئے ہو، تم نے مجھے یہی نہیں سکھایا کہ بھینس کیسے پکڑتے ہیں بلکہ گھوڑا سواری بھی کرنا سکھا دیا ہے۔ اب جب کہ میں جان گیا ہوں کہ تم دونوں میرے لیے کتنے فائدہ مند ہو تو میں تم میں سے کسی کو بھی کیسے جانے دے سکتا ہوں؟ میں وعدہ کرتا ہوں کہ تم دونوں کا خوب خیال کروں گا‘‘۔
افسردہ گھوڑے نے دل برداشتہ محسوس کیا، لیکن کافی سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ اسے جو تکلیف اب اٹھانی پڑ رہی ہے وہ انتقام خواہی اور چھوٹا ہونے کی وجہ سے ہورہی ہے۔ انسان کو بھینس کے دودھ کا راز بتاکر اس نے اپنی دوست بھینس کو دھوکا دیا۔ اس دن کے بعد سے اس نے فیصلہ کیا کہ اب آئندہ کسی کا بھی بھروسا وہ نہیں توڑے گا، اپنے قید کرنے والے انسان کا بھی نہیں۔ شاید اسی وجہ سے گھوڑے (اور کتے) انسان کے سب سے اچھے اور معتبر دوست سمجھے جاتے ہیں۔