علماے فرنگی محل

۔27 مارچ 1692ء کو قصبہ سہالی (بارہ بنکی، اتر پردیش) کے کچھ شرپسندوں نے اپنے وقت کے بے نظیر عالم معقولات و منقولات ملا قطب الدین سہالوی کو اُس وقت محل سرا میں گھس کر بے دردی سے شہید کردیا، جب وہ درس و تدریس میں مصروف تھے۔ ملا قطب الدین کی شہادت کے بعد بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے جو ملا قطب الدین کی علمی لیاقت اور دینی خدمات سے بہت متاثر تھا، ملا صاحب کے صاحب زادگان (ملا محمد اسعد، ملا محمد سعید) کی خواہش پر لکھنؤ میں فرانسیسی تاجروں کی ایک خالی کوٹھی1694ء میں انھیں الاٹ کردی۔ یہ کوٹھی ’’حویلی فرنگی‘‘ کہلاتی تھی اور سرکاری ملکیت کا حصہ تھی۔ اس طرح ملا قطب کا لٹا ہوا مختصر کنبہ سہالی سے ہجرت کرکے یہاں آبسا۔ یہاں سے خانوادہ ملا قطب کی نئی تاریخ کا آغاز ہوتا ہے، جسے آگے چل کر ’’خانوادہ فرنگی محل‘‘ کے نام سے پوری دنیا میں جانا گیا۔
اس نئی تاریخ کے بنیاد گزار ملا قطب کے تیسرے صاحب زادے استاذ الہند ملانظام الدین محمد (م: 1748ء) ہیں۔ ملا قطب کا مختصر کنبہ جب حویلی فرنگی میں آکر آباد ہوا تو اُس وقت آپ کی عمر صرف سولہ برس کی تھی۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب آپ نے فرنگی محل میں مسندِ تدریس لگائی تو کسی کو معلوم نہ تھا کہ قسام ازل نے اس نوجوان کو علومِ دینیہ کی تدریس کی تاجوری اور بادشاہت عطا کی ہے، دینی نصاب اس کے نام کا استعارہ بن کر ’’درسِ نظامی‘‘ کہلائے گا اور اس کے بعد پورے جنوبی ایشیا میں جو بھی علمِ دین حاصل کرے گا، اس کا سلسلۂ تلمذ فرنگی محل پر تمام ہوگا۔ جنوبی ایشیا میں کوئی بھی خاندان سلسلۂ درس، تعدادِ علما اور کثرتِ تصانیف کے اعتبار سے فرنگی محل کی ہم سری نہیں کرسکا۔ 1896ء میں علامہ شبلی نعمانی (م:1914ء) نے فرنگی محل کی زیارت کی اور علوم ِ اسلامیہ میں اس کی بے مثال، ناقابلِ یقین اور غیر معمولی خدمات کو دیکھتے ہوئے اسے ’’ہندوستان کا کیمبرج‘‘ کہا، جہاں سے داعیانِ اسلام کی فوج در فوج تیار ہوکر بحرو بر کی وسعتوں میں چھاگئی۔
دارالعلم و العمل فرنگی محل لکھنؤ کے علما ومشائخ کے احوال و آثار پر 115 برس قبل مستند تذکرے آثارالاوّل من علماء فرنگی محل کا عربی متن، ترجمہ ، تدوین وتحشیہ بنام ’’علماے فرنگی محل‘‘ ہمارے پیش نظر ہے۔ ’’آثارالاوّل‘‘ کے مصنف مولانا قیام الدین عبدالباری فرنگی محلی (م: 1926ء) ہیں، جنھوں نے اپنے خاندان کے بے شمار علما اور ان کی خدماتِ دینی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، اپنے ثقہ بزرگوں سے اپنے اسلاف کے احوال کو سنا تھا اور اپنے مستند خاندانی مآخذ سے استفادہ کیا تھا۔ مولانا کا یہ تذکرہ کئی اہم اور معروف تذکروں کا ماخذ و مصدر بھی رہا ہے جس سے اس کی اہمیت اور استنادی حیثیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
’’آثار الاوّل‘‘ کی پہلی اشاعت 1907ء میں ’’مطبع مجتبائی‘‘ لکھنؤ سے ہوئی۔ اس کے بعد یہ تذکرہ دوبارہ شائع نہیں ہوسکا۔ اسی اشاعت کے متعدد نسخے رضا لائبریری رام پور، کتب خانہ قادریہ بدایوں، پنجاب پبلک لائبریری لاہور اور مولانا ابوالکلام آزاد لائبریری، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں پائے جاتے ہیں۔ فاضل مرتب و مترجم ڈاکٹر خوشتر نورانی نے، جو اس سے قبل محمد حسین بدایونی (م:1918ء) کی ایک بہت اہم اور نایاب تصنیف ’’تذکرہ علماے ہندوستان‘‘ کو مرتب و مدون کرکے علمی دنیا سے دادِ تحقیق وصول کرچکے ہیں، ان تمام مطبوعہ نسخوں کی مدد سے اس کے عربی متن کو مرتب و مدون کرکے اس کا اردو ترجمہ کیا ہے۔
فاضل مرتب و مترجم کے مطابق فرنگی محل کے ڈھائی سو سے زائد علما کی فہرست تیار کی جاسکتی ہے، جنھوں نے اپنے اپنے عہد میں علمِ دین کی گراں قدر خدمات انجام دیں، یہ اعزاز کسی بھی خانوادے کو حاصل نہیں۔ حالانکہ زیرنظر تذکرہ ایک سو پندرہ برس پہلے لکھا گیا تھا، تاہم اس میں بھی تقریباً دو سو علماے فرنگی محل کا تذکرہ اور ان کی خدماتِ دینی و علمی درج ہیں۔ علماے فرنگی محل نے دعوت و تبلیغ، بیعت و ارشاد اور درس و تدریس کے ساتھ تصنیف و تالیف کے شعبے میں بھی حیرت انگیز کارنامے انجام دیے ہیں۔ زیرنظر تذکرے کے متن اور حواشی میں اس خاندان کے علما کی درجنوں علوم و فنون میں پانچ سو سے زائد تصانیف اور حواشی و شروحات کا ذکر ہے۔ ان میں سے بعض تصانیف، تفاسیر اور مجموعہ فتاویٰ چھے، آٹھ اور دس جلدوں میں ہیں۔ وہ سیکڑوں تصانیف جو امتدادِ زمانہ سے دست برد ہوگئیں وہ اس کے علاوہ ہیں۔
زیر نظرتذکرے میں 116علماے فرنگی محل کے احوال نسبتاً تفصیلی اور جلی عنوان کے تحت درج ہیں، جب کہ 20 علما کا تذکرہ ضمنی حیثیت سے آیا ہے۔ کتاب کی تصنیف کے دوران مصنف کی والدہ ماجدہ کا وصال ہوگیا تھا، اس لیے انھوں نے ان کا تفصیلی ذکر بھی شامل کرلیا ہے۔ اس طرح اس تذکرے میں 137 شخصیات کا ذکر شامل ہے۔ فاضل مرتب و مترجم ڈاکٹر خوشتر نورانی نے اس علمی کام کو درجِ ذیل چار ابواب اور ایک ضمیمے میں تقسیم کیا ہے:
پہلے باب میں زیر تحقیق تذکرے کے مصنف مولانا قیام الدین عبدالباری فرنگی محلی کا تفصیلی تعارف اور بیسویں صدی میں ان کی بے مثال دینی، علمی، ملّی اور سیاسی خدمات کو ’’اسلامیانِ ہند کا ایک گم شدہ قائد‘‘ کے عنوان سے پیش کیاہے۔ عموماً کتابوں میں مصنف کا سرسری تعارف ہی لکھا جاتا ہے ،مگرفاضل مرتب و مترجم نے رسمی تعارف کے بجائے کتاب کے 73صفحات پر مصنف کے انمٹ نقوش اور غیر معمولی کارناموں کا ذکر کیا ہے۔ یہ باب بجائے خود ایک مختصر تصنیف ہے۔ اس باب کا مطالعہ نہ صرف اہلِ علم و دانش کو تاریخ کے ایک نئے گوشے سے متعارف کرائے گا بلکہ اس حوالے سے بیشتر اہلِ قلم کی جانب سے کی جانے والی زیادتیوں کو اجاگر کرکے انھیں تاریخی سچائیوں سے روبرو کرائے گا، اور اہلِ قلم کو مصنف علام پر مزید لکھنے کے لیے انگیز کرے گا۔
دوسرے باب میں زیر تحقیق تذکرہ ’’آثار الاوّل‘‘ کے عربی متن کو پیش کیا گیا ہے، جس میں 137 شخصیات کے احوال کے علاوہ مصنف کا مختصر مقدمہ، کتبِ مصادر، نسب عامہ، ملاقطب شہید سہالوی کا تعارف اور فرنگی محل کی وجہ تسمیہ درج ہیں۔ یہ باب 95صفحات پر مشتمل ہے ، جس میں پورا تذکرہ ’’آثار الاوّل‘‘ شامل ہے۔ اس باب کے علاوہ بقیہ سب کچھ فاضل مرتب ومترجم کے اضافات ہیں۔
تیسرے باب میں عربی متن کا اردو ترجمہ دیا گیا ہے۔ عربی متن کا اردو ترجمہ کرنے میں اس بات کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ وہ بالکل لفظی نہ ہو، تاکہ ایک قاری کو مطالعہ کرتے وقت ترجمے کے بجائے مستقل عبارت محسوس ہو۔ اس باب میں ترجمے کے علاوہ فاضل مرتب و مترجم کو جہاں کہیں بھی مصنف کی کسی عبارت کی وضاحت مقصود ہوئی وہاں بطور ’’فٹ نوٹ‘‘ حاشیہ درج کردیا ہے۔
چوتھے باب میں متن پر فاضل مرتب و مترجم کے طویل حواشی اور تعلیقات ہیں، جو 107صفحات پر مشتمل ہیں، جن کی ضخامت متن سے زیادہ ہے۔ ان حواشی و تعلیقات کو تحریر کرنے میں اردو، عربی، فارسی اور انگریزی کی تقریباً پچاس سے زائد کتابوں سے استفادہ کیاگیا ہے۔
اس کے بعد مرتب نے کتاب میں ایک ’’ضمیمے‘‘ کا بھی اضافہ کیا ہے، جس کے تحت مصنف کی ذکر کردہ ’’کتب مصادر مراجع‘‘ کا اجمالاً تعارف لکھا گیا ہے تاکہ تاریخ علماے فرنگی محل کے بنیادی مآخذ و مصادر کا تعارف سامنے آجائے اور ان سے استفادہ عام ہو۔ آخر میں ’’وضاحتی اشاریہ‘‘ (Index) دیا گیا ہے، جو شخصیات اور اسمائے کتب پر مشتمل ہے۔
’’علماے فرنگی محل‘‘ ایک ایسا شاندار اور نادر تذکرہ ہے جس کے ذریعے فرنگی محل کا تین سو سالہ مذہبی، علمی، ملّی اور سیاسی منظرنامہ سامنے آجاتا ہے۔امید ہے کہ فرنگی محل کی تاریخ ساز خدمات کا یہ علمی مرقع اربابِ علم ودانش کی توجہ کا مرکز اور اہلِ قلم کے لیے فرنگی محل کے دیگر علمی و تاریخی گوشوں کو منظرعام پر لانے کا محرک بنے گا۔