صوبہ سندھ: خودکشی کے بڑھتے واقعات

خودکشی کی اہم ترین وجوہات غربت، بھوک، مہنگائی اور بے روزگاری قرار پائے ہیں

جب حکمران طبقے کی پالیسیاں بے سمت اور ذاتی اغراض پر مبنی ہوجائیں تو عوام کی زندگی بالکل اسی طرح سے اجیرن بن جاتی ہے جس طرح سے آج پاکستانی عوام کی ہے۔ ہمارے ہاں زندگی کا شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہوگا جس میں ہم زوال، انحطاط اور پستی سے دورچار نہ ہوں گے۔ حکمران طبقے کی بے حسی، سنگ دلی اور بے توجہی کے باعث آج وطنِ عزیز کا ایک عام فرد اس جدید اور ترقی یافتہ سائنسی دور میں بھی جدید سہولیات سے محروم ہے اور اسے زندگی کی ضروری بنیادی سہولتوں کے حصول کے لیے بھی سرگرداں اور پریشان حال دیکھا گیا ہے۔ صحت، سفر، روزگار، صاف میٹھا پانی، رہائش، تعلیم، گیس، بجلی سمیت دیگر متعدد بنیادی ضرورتوں کی سہولیات سے اہلِ وطن کی اکثریت اطمینان بخش طور سے بہرہ ور نہیں ہے۔ اگر کسی عام فرد سے اُس کے دل کا حال پوچھا جائے تو ہمیں اس کی رودادِ زندگی میں بے کیفی، بے سکونی، بددلی اور عدم اطمینان کی جھلک صاف اور نمایاں طور پر دکھائی دے گی۔ آئے روز بڑھتی ہوئی مہنگائی بھی ایک ایسا عذاب ہے جس نے اہلِ وطن کو بے حد پریشان اور نیم جان کر رکھا ہے۔ جس طور سے ہمارے ہاں اچانک روزمرہ استعمال کی اشیائے صرف کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اس کی وجہ سے کم اور محدود آمدنی والے افراد ذہنی مریض بن کر رہ گئے ہیں۔ حکمران طبقہ اور ان کے قائم کردہ متعلقہ سرکاری ادارے اس ساری صورتِ حال سے یکسر لاتعلق بنے ہوئے ہیں۔ ادویہ سمیت ہر ضروری چیز اچانک مارکیٹ سے نایاب یا کم یاب ہوجاتی ہے اور کچھ عرصے بعد جب وہ نایاب چیز (از قسم ادویہ، آٹا، چینی، دال وغیرہ) دستیاب ہونے لگتی ہے تو پہلے سے کہیں گراں قیمت پر۔ لیکن اس گراں فروشی کے ذمہ داران کے خلاف کبھی کوئی کارروائی ہوتی ہوئی نہیں دیکھی گئی ہے۔ اب تو عوام یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اگر سابق حکمران ’’کفن فروش‘‘ چور کی روایتی کہانی کے کرداروں کی طرح تھے تو موجودہ حکمران ان سابق چور حکمرانوں سے بھی کہیں بدتر اور گھنائونا کردار ادا کررہے ہیں، کہ جن کی نااہلی اور سنگ دلی کی وجہ سے ہم زندہ درگور ہوگئے ہیں اور زندگی کی تکالیف اور پریشانیوں نے ہمیں اپنی حیات سے ہی بیزار کرڈالا ہے۔ اپنے حال اور مستقبل سے مایوس اور دل برداشتہ عوام میں خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان بھی خطرے کی ایک ایسی گھنٹی ہے جس پر بے حد توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
صوبہ سندھ وسائل سے مالامال وطن عزیز کا ایک ایسا صوبہ ہے جس کے باسی بھی پورے ملک کے عوام کی طرح حکمران طبقے کی نااہلی کے باعث موجودہ حالات سے حد درجہ مایوس اور ناامید ہوچکے ہیں۔ سندھ میں گزشتہ کچھ عرصے سے جس طرح خودکشی کے الم ناک واقعات میں اضافہ ہوا ہے اس نے بلاشبہ سندھ کے اہلِ فکر و نظر اور دردِ دل رکھنے والے افراد میں تشویش اور پریشانی و اضطراب کی لہر دوڑا دی ہے۔ اس بات کا اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ جاری سال کے ابتدائی چھے ماہ کے دوران سندھ میں 69 خواتین کے17 بچوں سمیت خودکشی کے کُل 303 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جبکہ 43 عورتوں، 9 بچوں اور 99مردوں سمیت خودکشی کی کوشش کرنے والے مجموعی طور پر 151 افراد کو اس قدم کے اٹھانے سے بچایا گیا ہے۔ ان چھے ماہ میں خودکشی کے سب سے زیادہ واقعات عمرکوٹ اور تھرپارکر میں علی الترتیب 38 اور 26 رپورٹ ہوئے ہیں، جہاں پر خودکشی کرنے والوں میں اکثریت خواتین کی ہے۔ ضلع بدین میں اس عرصے میں 14مردوں اور 6 خواتین نے خودکشی کی ہے۔ جبکہ خیرپور، دادو، کراچی، لاڑکانہ ترتیب وار چوتھے، پانچویں، چھٹے اور ساتویں نمبر پر ہیں۔ خیرپور میں19، دادو 18، کراچی 17 اور لاڑکانہ میں خودکشی کے 16 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ خودکشی کے الم ناک واقعات کے حوالے سے ضلع نوشہرو فیروز، ضلع سانگھڑ آٹھویں نمبر پر آتے ہیں جہاں پر 14، 14 یہ واقعات رونما ہوئے ہیں۔ میرپورخاص 12، قنبر، شہداد کوٹ 11 واقعات کے ساتھ نویں اور دسویں نمبر پر آتے ہیں۔ گزشتہ سال اس عرصے میں کشمور اور جام شورو میں9،9، سکھر، ٹنڈوالہ یار اور مٹیاری میں 8، 8، حیدرآباد، ٹھٹہ، جیکب آباد اور ٹنڈو محمد خان کے اضلاع میں 7، 7، ضلع گھوٹکی میں 6 اور شکارپور میں خودکشی کے 5 واقعات اخبارات میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ تو خودکشی کے وہ الم ناک واقعات ہیں جو بذریعہ میڈیا منظرعام پر آئے ہیں، معلوم نہیں ایسے کتنے الم ناک واقعات تو شاید سامنے آہی نہیں سکے ہوں گے اور خونِ خاک نشیناں رزقِ خاک بن کر رہ گیا ہوگا۔ خودکشی کے سب سے کم 3 واقعات ضلع سجاول میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ مذکورہ خودکشی کے واقعات کی اہم ترین وجوہات میں غربت، مہنگائی اور بے روزگاری قرار پائے ہیں۔
حکومتی لاک ڈائون کے دوران خودکشی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ماہ اپریل، مئی اور جون تک 5 عورتوں سمیت 34 محنت کشوں نے لاک ڈائون کی وجہ سے خودکشی کی ہے۔ اس عرصے میں پاکستان میں سب سے زیادہ صوبہ سندھ میں خودکشی کے الم ناک واقعات رونما ہوئے ہیں۔ گزشتہ 5 برس کے عرصے میں سندھ میں مجموعی طور پر 1300 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جبکہ گزشتہ 6 ماہ کے عرصے میں یہ تعداد 303 تک پہنچ گئی ہے۔ سندھ کے حکمران طبقے کے لیے یہ الم ناک واقعات گویا معمول کا ایک حصہ ہیں اور وہ خودکشی کے کسی بھی الم ناک سانحے کو ایک انفرادی فعل سے زیادہ اہمیت دینے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتے۔ درآں حالیکہ اپنے بیوی بچوں سمیت کسی کنبے کے سربراہ کا اپنی جان لے لینا کوئی معمول کی بات یا نظرانداز کرنے جیسا واقعہ ہرگز نہیں ہے۔ سندھ کے اضلاع تھرپارکر، بدین اور عمرکوٹ میں خصوصاً خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات اس امر کے واضح غماز ہیں کہ مذکورہ اضلاع میں غربت، بدحالی اور بے روزگاری نسبتاً کہیں زیادہ ہے۔ صوبہ سندھ میں خاموشی کے ساتھ رسّی یا پھر دوپٹہ اپنے گلے میں باندھ کر درخت سے جھول کر خودکشی کرنے کے واقعات میں اضافہ بہت زیادہ توجہ کا متقاضی ہے۔
غربت، مہنگائی اور بدحالی میں جس تیزی سے اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے، خاکم بدہن مستقبل میں مزید ایسے الم ناک سانحات میں اضافے کا خدشہ ہے۔ اللہ پاک ہمارے حکمران طبقے کو ہدایت اور عقلِ سلیم دے کہ وہ ایسے واقعات کے خاتمے کے لیے دوررس اقدامات کرسکیں۔ (آمین)۔