شاہ محمود قریشی کے ’’بیان‘‘ کے بعد شیریں مزاری کی چارج شیٹ

وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کشمیر کے حوالے سے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے دفترخارجہ پر کھل کر برس پڑیں۔ انہوںنے کشمیر پالیسی کی ناکامیوں کی ذمہ داری دفترخارجہ پر عائد کی ہے۔ شیریں مزاری نے وزارتِ خارجہ کے اہلکاروں کو سستی اور کاہلی کا مرقع قرار دیا ہے۔ شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ دفتر خارجہ اور دیگر اداروں نے کشمیریوں کی جدوجہد کو ناکام بنایا، وزیراعظم نے تنہا کشمیر کا بیانیہ بدل کر دکھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ سفارت کاروں کا کام کلف لگے کپڑے اور تھری پیس سوٹ پہننا اور ٹیلی فون کرنا ہے، روایتی سفارت کاری سے نقصان ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی سیاست کچھ بھی ہو، اگر دفتر خارجہ کام کرتا تو دنیا ہماری بات ضرور سنتی۔ شیریں مزاری نے سوال اُٹھایا کہ کیا پاکستان برکینا فاسو جتنا سفارتی وزن بھی نہیں رکھتا؟ جس نے امریکہ کے خلاف قرارداد منظور کروائی۔ بیوروکریسی سے شکایات ہیں اور ہر جگہ بیوروکریٹک مشکلات ہیں۔
شیریں مزاری وفاقی وزیر ہیں اور ان کی یہ چارج شیٹ بھی حکومت کے ایک محکمے سے متعلق ہے۔ شیریں مزاری نے جو باتیں کی ہیں وہ سوفیصد سچ ہیں۔ ان میں کسی قسم کی مبالغہ آرائی ہے نہ بات کو زیب ِ داستاں کے لیے بڑھانے کی کوشش کی گئی ہے، بلکہ اس چارچ شیٹ میں بہت سے نکات کی کمی ہے۔ یہ اصل حقیقت سے بہت کم ہے۔ حقیقت اس سے بھی زیادہ تلخ اور بھیانک ہے۔ شیریں مزاری کے اس کڑوے سچ کی ٹائمنگ الفاظ کی حقیقت سے ایک الگ معاملہ ہے۔ اس کی ٹائمنگ دو لحاظ سے اہم ہے۔ اوّل یہ کہ پانچ اگست کو کشمیر کے لاک ڈائون اور کشمیر کی شناخت پر بھارت کے فیصلہ کن وار کو ایک سال ہوگیا، اور چند دن قبل قوم نے اس فیصلے کا ایک سال پورا ہونے پر یوم استیصال منایا۔ اس ایک سال میں مجموعی طور پر کشمیر پر پاکستان کے ردعمل اور حکمتِ عملی سے قوم میں عمومی طور پر مایوسی کے جذبات غالب رہے۔ صرف پاکستان کے اندر ہی نہیں بلکہ آزادکشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں یہ ایک سال مایوسی سے بھرپور رہا۔ کشمیری قیادت پاکستان کی طرف حتمی اور فیصلہ کن پالیسی کے لیے دیکھتی رہی مگر پاکستان سے کوئی واضح لائن اور امید افزا اشارہ نہ ملنے پر مایوسی کا پیدا ہونا فطری ہے۔ اس مایوسی کا اظہار آزادکشمیر کے وزیراعظم نے بھی یوم استیصال کے موقع پر وزیراعظم پاکستان کی موجودگی میں اسمبلی میں اپنے خطاب میں کیا۔ جس پر وزیراعظم پاکستان کچھ کبیدہ خاطر نظر آئے اور انہوں نے اس مایوسی پر دبے لفظوں میں حیرت اور ناراضی کا اظہار کیا۔ حقیقت میں یہ مایوسی ایک فرد نہیں بلکہ معاشرے کی عمومی سوچ کی عکاس تھی۔ اس مایوسی کا اظہار دائیں بائیں ہر طرف ہورہا ہے۔ قہوہ خانوں سے ٹی وی اسٹوڈیوز تک، چوپالوں سے اخبارات کے صفحات تک پہلی بار اپنے حصے کا کام نہ کرنے کی سوچ غالب ہے۔ یہ حد درجہ مثبت اور خوداحتسابی کا رویہ ہے۔ وقت نے عوام کو یہ شعور عطا کیا ہے۔
اس مایوسی کا رخ موڑنے کی ایک چھپی ہوئی کوشش اس سوچ کا غبارہ ہوا میں اُڑانے کے ذریعے ہوئی کہ لاک ڈائون میں وادی کے عوام اُٹھے ہی نہیں تو پاکستان کیا کرتا؟ مطلب یہ کہ مایوسی کے لیے قربانی کے جس بکرے کی تلاش تھی وہ وادی کے عوام کی صورت میں دستیاب ہوگیا تھا۔ اوّل تو وادی کے عوام بیٹھے ہی نہیں۔ اس ایک سال میں وادی کی مائوں نے اپنے کتنے بانکے اور سجیلے جوان مقتل کو روانہ کیے۔ اُٹھنا اور کس بلا اور ادا کا نام ہے؟ اگر یہ اُٹھنا نہیں، تو اُٹھنا کس کو کہتے ہیں؟ سیبوں کے کسی باغ میں آبادیوں کے پہلو اور پچھواڑے میں آنکھ بچا کر معمولی سی عسکری تربیت اور پرانی اے کے 47رائفل کے ساتھ فوج کی تین سے چار پرتوں کے گھیرے میں چھتیس گھنٹے لڑنے والا بائیس سال کا لڑکا اور اس کو خوشی خوشی مقتل بھیجنے اور اس کی موت کو شربت اور شیرینی سے سیلیبریٹ کرنے والے معاشرے کو اگر کوئی بیٹھا ہوا سمجھ رہا ہے تو پھر اس کی عقل اور اس سوچ پر کچھ نہ کہنا ہی بہتر ہے۔ سو اس موقع پر شیریں مزاری کا اس مایوسی کا رخ دفترخارجہ کے بابوؤں کی طرف موڑنا معنی خیز ہے۔ یہ مایوسی کا رخ ایک مخصوص حلقے کی طرف موڑنے کی کوشش ہے۔
دوئم یہ کہ شیریں مزاری کا یہ بیان اُس وقت سامنے آیا جب دفتر خارجہ کے سربراہ اور ’’باس‘‘ شاہ محمود قریشی مسئلہ کشمیر کی ناکامیوں کی ذمہ داری او آئی سی اور بالواسطہ طور پر سعودی عرب پر عائد کرکے جہاں پاکستانی رائے عامہ کی مقبول لہر پر سوار ہونے کی کوشش کرچکے ہیں وہیں خارجی طور پر ان کا یہ بیان بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے سے کم خطرناک نہیں۔ اس دبنگ اسٹائل کے بعد وزیر خارجہ منظر سے غائب ہیں اور سعودی عرب کی ناراضی کم کرنے کی تدابیر اختیار کی جارہی ہیں۔ وزیر خارجہ نے یہ بیان ذاتی حیثیت میں دیا ہوگا ایسا ممکن نہیں۔ یہ بھارت پر فریفتہ اور لٹو ہوتی سعودی حکومت کے لیے ’’توجہ دلائو نوٹس‘‘ تھا، اور اس نوٹس کو توجہ مل گئی ہے اور دونوں طرف سے نقصان کی ’’تلافی‘‘ کے اقدامات اُٹھائے جانے لگے ہیں۔ مگر یہ ملمع کاری ہے۔ یہ مسائل اُس وقت تک جاری رہیں گے جب تک کہ سعودی عرب اور پاکستان دو الگ اور متضاد عالمی کیمپوںکی طرف رینگتے رہیں گے۔
دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح سعودی عرب کے معاملے پر بھی امریکہ اور چین کے درمیان کھینچا تانی کا بھرپور دور چلا، مگر یوں لگا کہ چین کا ہاتھ سعودی دامن سے چھوٹ گیا اور وہ امریکہ کی طرف چل نکلا۔ سعودی عرب کو سی پیک کا دوسرا بڑا شراکت دار بنانے کی پاکستانی پیشکش بھی اس معاملے میں کارگر ثابت نہ ہوسکی۔ پاکستان شعوری طور پر چین کے ساتھ کھڑا ہے۔ دومتضاد اور متحارب عسکری اور اقتصادی کیمپوں میں کھڑا ہونے سے دونوں کے تعلقات میں شاید بڑا بگاڑ تو نہ آئے مگر تعلقات کی پرانی چاشنی کا برقرار رہنا بھی ممکن نہیں۔ سعودی عرب کی ناراضی کم کرنے کے لیے قربانی کے بکرے کا کردار بھی کسی کو تفویض کیا جا سکتا ہے، اب دیکھنا یہ ہے وہ کون ہے؟ شیریں مزاری کے کشمیر پالیسی کے حوالے سے سچ کے اس اُمڈتے ہوئے طوفان کو ان دوپہلوئوں سے الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا۔ مگر ان کی باتیں حقیقت پر مبنی ہیں۔ ریاست پاکستان کی کشمیر پالیسی زنگ آلود، بوسیدہ، وقت کے بدلتے تقاضوں سے دور اور پاکستانی اور کشمیری عوام کے جذبات سے قطعی متصادم ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ دنیا انصاف کا ترازو اُٹھائے ہماری درخواست کی منتظر ہے۔ انصاف کے یہ رویّے تجارت کی بے رحم اور سفاک راہوں کی نذر ہوگئے ہیں، مگر اس سے ہم اپنے ضمیر کی عدالت میں تو سرخرو ہوسکتے ہیں کہ ہم نے پوری قوت لگا کر مظلوموں کا مقدمہ لڑا۔ فی الحال تو ہم اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کی منزل سے بھی کوسوں دور ہیں۔