اگر ٹرمپ نومبر میں شکست سے دوچار ہوئے تو ایک نیا بحران جنم لے سکتا ہے۔ لہٰذا نومبر ہر لحاظ سے ہمارے لیے اور عرب دنیا کے لیے بہت اہم مہینہ ہے
قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن ارکان نے باہمی رضامندی سے 5 ترمیمی بل اتفاقِ رائے سے منظور کرلیے، ان میں سرفہرست انسدادِ دہشت گردی ترمیمی بل2000 ہے، اور جملہ منظوری پانے والے بل شراکت محدود ذمہ داری، کمپنیز ایکٹ، نشہ آور اشیا کی روک تھام اور علاقہ دارالحکومت ٹرسٹ سے متعلق ہیں۔ جے یو آئی کے ارکان کے مطالبے پر دارالحکومت علاقہ جات وقف املاک بل اگلے اجلاس تک مؤخر کردیا گیا ہے۔ منظور کیے جانے والے متذکرہ بلوں میں انسداد دہشت گردی ترمیمی بل انتہائی حساس نوعیت کا حامل ہے جو پاکستان کے ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ سے بچنے اورگرے لسٹ سے نکلنے کے معاملے میں ناگزیر تھا۔ اس قانون کے تحت کالعدم تنظیموں اور ان سے تعلق رکھنے والوں کو قرضہ یا مالی معاونت فراہم کرنے پر پابندی ہوگی، جبکہ کوئی بینک یا مالیاتی ادارہ ممنوعہ شخص کو کریڈٹ کارڈ جاری نہیں کرسکے گا۔ ترمیمی بل کے تحت پہلے سے جاری اسلحہ لائسنس منسوخ تصور ہوں گے، منسوخ شدہ لائسنس کا حامل اسلحہ ضبط کرلیا جائے گا، ایسا لائسنس رکھنے والا سزا کا مستوجب ہوگا اور اسے نیا اسلحہ لائسنس بھی جاری نہیں کیا جائے گا۔ بل کے مطابق دہشت گردی میں ملوث افراد کو پانچ کروڑ روپے تک جرمانہ اور قانونی شخص کی صورت میں پانچ سے دس سال قید کی سزا اور ڈھائی کروڑ جرمانہ بھی ہوگا۔ ترمیم کے بعد ممنوعہ افراد یا تنظیموں کے لیے کام کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں گے اور ایسے افراد کی رقوم اور جائداد کسی نوٹس کے بغیر منجمد اور ضبط کرلی جائیں گی۔ یہ قانون سازی ایف اے ٹی ایف کے مطالبات پورے کرنے کے لیے کی گئی ہے۔ اس فورم میں سعودی عرب، ترکی، ملائشیا، گلف تعاون کونسل، امریکہ، چین، بھارت سمیت 39 ملک شامل ہیں۔ اس قانون سازی اور پاک سعودی عرب حالیہ کشیدگی کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کر دیکھا، پڑھا اور پرکھا جائے تو کچھ نہ کچھ شکل واضح ہوسکتی ہے۔ اس حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ امریکہ ناراض نہ ہو، اور بھارت کے اشتعال کو نکیل ڈال کر رکھا جائے، اسی لیے سی پیک پر حکومت نے سرگرمی نہیں دکھائی، کیونکہ بھارت اور امریکہ دونوں ہی سی پیک کے خلاف ہیں۔ چین نے اپنے معاشی مفادات کے تحفظ کے لیے حکومت کی مدد کی، زرمبادلہ کے ذخائر میں تعاون کیا، اب وہ چاہتا ہے کہ سی پیک منصوبہ اپنی طے شدہ مدت میں مکمل ہو۔ چین نے اس بارے میں تحریری تحفظات ظاہر کیے ہیں۔ اس حکومت میں امریکی لابی چین کے لیے مسئلہ بن رہی ہے۔ بیجنگ نے سکھر موٹر وے اور آئی پی پیز کے ایشوز پر سنجیدہ تحفظات ظاہر کیے ہیں، اگر حکومت میں شامل امریکی لابی حقائق کی بنیاد پر ان منصوبوں کے بارے میں بات کرتی تو چین بھی خاموش رہتا، مگر حکومت نے حقائق کے برعکس محض اپوزیشن کو رگیدنے کے لیے الزامات لگائے جسے پسند نہیں کیا گیا۔ سعودی عرب پاکستان سے ناراض نہیں، البتہ تحفظات ضرور ہیں۔ وہ اپنی تجارتی اور خارجہ پالیسی پاکستان کی طرف دیکھ کر نہیں بناتا۔ ہماری اُس سے توقعات اس خطے میں کشمیر کے باعث بہت زیادہ ہیں۔ ملائشیا اور ترکی کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی نوعیت مختلف ہے، سعودی سمجھتے ہیں کہ پاکستان اگر ہم سے توقع رکھتا ہے تو پھر ہمارے تحفظات کیوں نظرانداز ہورہے ہیں؟ معاملہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کی خارجہ امور کی ٹیم سعودی عرب اور دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات میں توازن نہیں رکھ پارہی۔ تحریک انصاف کی حکومت میں کچھ شخصیات ایسی بھی ہیں جن پر سعودی عرب کے تحفظات ہیں، تاہم یہ معاملہ اتنا سنجیدہ نہیں، تاہم ملائشیا اور ترکی کے ساتھ پاکستان کو سفارتی تعلقات کے لیے ایسا توازن رکھنا چاہیے جس سے سعودی عرب کے ذہن میں سوالات پیدا نہ ہوں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا بیان جو اثرات اور نتائج دکھا سکتا تھا، وہ دکھا چکا ہے۔ نوازشریف دور میں جب سعودی عرب نے فوج مانگی تھی تو پارلیمنٹ میں پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) تینوں ایک پیج پر تھیں اور فوج سعودی عرب نہیں بھجوائی گئی، سعودی عرب کو نوازشریف پر بہت ناز تھا مگر اس واقعے کے بعد تعلقات بدل گئے۔ اب بھی ویسی ہی کیفیت ہے، مگر آج کی حقیقت یہی ہے کہ حکومت کو ’’58/2/bجیسی تلوار کا سامنا نہیں ہے۔ سوچ یہی ہے کہ اب معاملات سمیٹنے کی ضرورت ہے جس کے لیے ایک بڑی پیش رفت شروع ہوچکی ہے۔ یہاں اگر آرمی چیف کے دورۂ سعودی عرب سے پہلے پاکستان میں حکومت اور اس خطے کے علاوہ دنیا بھر میں تبدیل ہوتے ہوئے سیاسی نقشے کی بات کی جائے تو پاکستان کے اعلیٰ ترین باخبر حلقوں میں ان نکات پر بحث ہورہی ہے:
خلیج میں تبدیلی آچکی ہے اور یہ آگے بڑھے گی، (اس بات کو ایک بہت بڑے مفہوم میں دیکھا جائے)۔
فلسطین کا معاملہ بہت سنجیدہ بن جائے گا اور انہیں مطمئن کیا جائے گا۔
ترکی مسلم دنیا کا لیڈر بننا چاہتا ہے۔
ولی عہد محمد بن سلمان کا سیاسی کردار مستقبل میں بہت اہمیت اختیار کرجائے گا۔
امریکہ اور بھارت سی پیک کے مخالف ہی نہیں بلکہ بدترین دشمن تصور کیے جاتے ہیں۔
اس خطے میں پاکستان کو ترقی کے لیے سیاسی استحکام اور متوازن خارجہ پالیسی چاہیے۔
ان تمام نکات کو سامنے رکھ کر سفارتی دنیا میں حالیہ ارتعاش اور پاکستان کے نکتہ نظر سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورۂ سعودی عرب کو دیکھنے، پرکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سعودی لیفٹیننٹ جنرل فہد بن ترکی سے ملاقات کے دوران دونوں ممالک کے مابین عسکری اور دفاعی تعاون کو مزید فروغ دینے پر غور کیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ نے ریاض میں سعودی جنرل اسٹاف ہیڈکوارٹر کا دورہ کیا اور سعودی چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل فیاد بن حامد سے ملاقات کی۔ آرمی چیف کی لیفٹیننٹ جنرل (اسٹاف) فہد بن ترکی السعود کمانڈر جوائنٹ فورس سے بھی ملاقات ہوئی۔ سعودی وزارتِ دفاع پہنچنے پر آرمی چیف جنرل باجوہ کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ استقبال کا یہ حصہ ہی دورے کی اصل خبر ہے۔ سعودی قیادت سے فلسطین اور مسئلہ کشمیر پر بھی گفتگو ہوئی۔ یہ دورہ پہلے سے طے شدہ تھا، لیکن جب سب کچھ پہلے سے طے شدہ تھا، عین دورے سے تین چار روز قبل وزیر خارجہ نے بیان دے کر سفارتی تلوار نیام سے باہر نکال لی جس سے سفارتی تعلقات کا نقشہ ہی بدل جانے کا امکان پیدا ہوگیا۔ صورتِ حال کو سنبھالنے آرمی چیف سعودی عرب پہنچے ہیں۔ اس صورتِ حال کا تجزیہ کرنے سے قبل اس بات کا بھی جائزہ لینا بہت ضروری ہے اور یہ جائزہ سفارتی ماہرین کی رائے پر مبنی ہے کہ پوری دنیا اس وقت تقسیم ہے، تقسیم کے اثرات امریکہ اور چین کے سفارتی تعلقات کے صحن میں اگنے والی عدم اعتماد کی جڑی بوٹیوں سے شروع ہوئے۔ اب یہ اثرات جنوبی ایشیا، امریکی جسے انڈوپیسفک کہتے ہیں، تک پہنچ چکے ہیں۔ ان اثرات کے باعث ہی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے لب وزیراعظم کی ہدایت پر کھولے ہیں: ’’او آئی سی آنکھ مچولی اور بچ بچاؤ کی پالیسی نہ کھیلے، کانفرنس کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلایا جائے، اگر یہ نہیں بلایا جاتا تو میں وزیرِاعظم سے کہوں گا کہ پاکستان ایسے ممالک کا اجلاس خود بلائے جو کشمیر پر پاکستان کے ساتھ ہیں‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’آج اسی دوست کو کہہ رہا ہوں جس کی سالمیت اور خودمختاری کی خاطر ہر پاکستانی لڑنے مرنے کے لیے تیار ہے، لیکن ساتھ وہ آپ سے یہ تقاضا بھی کررہے ہیں کہ آپ بھی وہ قائدانہ صلاحیت اور کردار ادا کریں جس کی امتِ مسلمہ کو آپ سے توقع ہے۔‘‘ اس بیان کے بعد سعودی عرب نے نومبر 2018ء میں ایک معاہدے کے تحت دیے گئے 3 ارب ڈالر نقد میں سے ایک ارب ڈالر واپس مانگ لیے اور پاکستان نے چین سے رقم قرض لے کر سعودی عرب کو لوٹا دی، تاہم بقایا 2 ارب ڈالر بھی واپس کرنا ہوں گے اور ادھار تیل کی سہولت کا معاہدہ بھی ختم ہوچکا ہے۔ پاکستان اس معاہدے کی تجدید چاہتا ہے۔ اس بیان پر سفارتی تجزیہ یہ ہے کہ پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی تبدیل ہونے جارہی ہے، کیونکہ باقی دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں اور پیش رفت سے پاکستان الگ نہیں رہ سکتا۔ پاکستان بھی مستقبل میں ایک فیصلہ کرنے جارہا ہے، یہ فیصلہ خارجہ پالیسی کی بنیادی اساس ہلا کر رکھ سکتا ہے، لیکن یہ کام ہوکر رہے گا۔ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات بھی ایک حقیقت ہیں کہ ریاض اسلام آباد سے تو ناراض ہوسکتا ہے مگر ہمارے راولپنڈی سے دور نہیں رہ سکتا۔ ماضی میں سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ، اُس وقت کے صدر آصف علی زرداری کی وجہ سے تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں، تب بھی جنرل کیانی نے معاملہ سنبھالا تھا۔ شاہ عبداللہ نے پاکستان میں حکومت تبدیل ہوتے ہی قرض کے بجائے ڈیڑھ ارب ڈالر کا تحفہ دیا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت بنی تو 3 ارب ڈالر کے علاوہ 3 ارب ڈالر ادھار تیل مل گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ نومبر 2018ء سے اگست 2020ء کے دوران ایسا کیا ہوا کہ وزیر خارجہ کو سرِعام بولنا پڑا؟ کہانی کوالالمپور سے نہیں، بلکہ سعودی عرب اور ایران کے مابین کشیدگی ختم کرانے کی پیش کش سے شروع ہوئی۔ سعودی کہتے رہے کہ ہم نے ایسی کوئی خواہش ظاہر نہیں کی۔ پھر معاملہ یہاں تک پہنچا کہ وزیراعظم نے کہا کہ وہ ایران امریکہ کشیدگی ختم کرانا چاہتے ہیں۔ کوالالمپور میں پاکستان، ترکی، قطر اور ایران کی بات چیت تو الگ موضوع ہے،پاکستان میں ایک حلقے کی رائے ہے کہ ہمیں امت مسلمہ میں تقسیم پیدا کرنے کے بجائے اسے باہم جوڑنا چاہیے، سعودی ایران تعلقات یا ایران امریکہ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش یا پیش کش کرنے میں اسلام آباد کو محتاط رہنا چاہیے تھا۔ حالیہ ایشوز دراصل ایران قطر پائپ لائن سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ عرب دنیا میں قطر پُرجوش دوست شمار نہیں ہوتا، ترکی اور سعودی عرب کے تعلقات بھی جمال خاشقجی کیس کے باعث کشیدہ ہیں، شام کا حالیہ بحران بھی ایک مسئلہ ہے، سعودی عرب کے مفادات اور تعلقات کے مدوجزر کو اس تناظر میں دیکھنا پڑے گا۔ کشمیر اور فلسطین پر پاکستان کا مؤقف واضح ہے، ترکی اسی وجہ سے بھارت اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات بگاڑ چکا ہے اور پاکستان بھی مسئلہ کشمیر پر بھارت کے ساتھ تقریباً تمام روابط توڑ چکا ہے، اور امریکی صدر کی جانب سے ثالثی کی پیشکش ایک ڈھکوسلا ثابت ہوئی ہے۔ لداخ میں چین بھارت تصادم کے بعد امریکہ کھل کر بھارت کے ساتھ کھڑا ہے، امریکی صدر ٹرمپ اپنے صدارتی انتخاب میں کامیابی کے لیے ہر وہ حربہ اختیار کرنا چاہتے ہیں جس سے ان کی کامیابی ممکن ہوسکے۔ خلیج کے ایک ملک یو اے ای کی اسرائیل کے ساتھ دوستی کی ابتدا امریکی صدارتی انتخاب سے جوڑ کر دیکھی جائے تو صورتِ حال سمجھ میں آجاتی ہے۔ امریکیوں نے دبائو کے لیے جمال خاشقجی کے قتل کے واقعے کو استعمال کرنا شروع کیا ہے، اور سعودی حکمران خاندان چاہتا ہے کہ وہ اس قتل کے داغ کو جس قدر جلد ہو، دھو ڈالے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس سال نومبر میں جہاں امریکی صدارتی انتخاب ہونا ہے، وہیں اسی ماہ عرب دنیا میں بھی کوئی اہم تبدیلی آجائے۔ ہوسکتا ہے کہ محمد بن سلمان نومبر تک بادشاہ بن جائیں۔ امریکیوں نے اس منصب کے لیے سعودی ولی عہد کے بجائے سعدالجبری کی طرف دیکھنا شروع کیا ہوا ہے۔ اگر ٹرمپ نومبر میں شکست سے دوچار ہوئے تو ایک نیا بحران جنم لے سکتا ہے۔ لہٰذا نومبر ہر لحاظ سے ہمارے لیے اور عرب دنیا کے لیے بہت اہم مہینہ ہے۔
تبدیلی کا ایک اہم عنصر چین کا مختلف ملکوں کے لیے اقتصادی راہداری منصوبہ بھی ہے۔ چین ایران کے ساتھ 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کی جانب بڑھ رہا ہے اور ایران کو امریکی دباؤ کا سامنا ہے۔ عرب دنیا میں وزیراعظم کے اس بیان پر کہ وہ ایران امریکہ کشیدگی ختم کرانا چاہتے ہیں، تشویش پائی گئی، جس کے بعد چاہ بہار ریلوے منصوبے سمیت بہت سے منصوبوں سے بھارت بے دخل ہوگیا تو بھارت نے سعودی عرب سے مدد مانگی۔ سعودی عرب نے ہمیں پیسے واپس کرنے کے لیے کہا، تیل ادھار دینے سے انکار کردیا اور پاکستانی لیبر بھی واپس بھجوا دینے کا اشارہ دیا، یہ صورتِ حال ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں تھی، اسی لیے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ریاض کا دورہ کیا۔ آئی ایس پی آر نے کچھ بین الاقوامی میڈیا سے استفسار کرنے کے سلسلے میں ریاض کے دورے کی تصدیق کی تھی، لیکن اس دورے کی تفصیلات شیئر نہیں کی گئی تھیں۔ اب چونکہ دورہ ہوچکا اور نتائج بھی مل چکے ہیں، لہٰذا اب تفصیلات کی ضرورت ہی نہیں رہی، خود ہی سب کچھ سامنے آجائے گا۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا جب سعودی پاک تعلقات تناؤ کا شکار ہیں، اس صورتِ حال کا ایک پس منظر یہ بھی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ان مسلم ممالک کے سربراہی اجلاس کے لیے ترکی اور ملائشیا میں شمولیت کا اعلان کیا جو اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) کا متبادل تلاش کرنا چاہتے ہیں، لیکن بعد میں سعودی دباؤ پر پیچھے ہٹ گئے۔ ریاض نے پاکستان کی پالیسی پر برہمی کا اظہار کیا اور اس سے کہا کہ وہ تین بلین ڈالر میں سے ایک بلین ڈالر فوراً واپس کرے۔ پاکستان کے لیے موخر ادائیگی پر سعودی تیل کی سہولت بھی ختم ہوگئی تھی۔ اگرچہ اسلام آباد نے سعودی عرب سے باضابطہ طور پر اسے دوبارہ شروع کرنے کی درخواست کی ہے لیکن ریاض نے پچھلے ایک ماہ میں کوئی مثبت اشارہ نہیں دیا۔ اس سارے پس منظر میں قانون سازی اور ایف اے ٹی ایف کے مطالبات کو دیکھا اور پرکھا جائے۔ جہاں تک قانون سازی کا تعلق ہے، اس عمل میں تینوں جماعتوں کا اکٹھا ہوجانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ یہ تینوں سیاسی جماعتیں ملکی اور غیر ملکی قوتوں کے اثرات، مطالبات اور خواہشات کو سمجھتی ہیں۔ ملک کی قوم پرست سیاسی جماعتیں بھی ساتھ ہیں، مگر چونکہ ان کے ووٹ کے بغیر بھی کام چل گیا ہے لہٰذا ان کی اہمیت نہیں سمجھی گئی۔