اسٹیبلشمنٹ سیاسی جماعتوں کو کمزور کررہی ہے

سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم رئیسانی سے گفتگو

نواب محمد اسلم رئیسانی بلوچستان کی قدآور سیاسی و قبائلی شخصیت ہیں۔ پیپلز پارٹی سے وابستگی تھی۔ صوبے کے وزیر خزانہ رہے ہیں، موجودہ اسمبلی کے بھی رکن ہیں۔ اپریل 2008ء سے جنوری 2013ء تک بلوچستان کے وزیراعلیٰ رہے۔ ان کی حکومت بدامنی اور شورش کے ایام میں بنی۔گویا بے پناہ مشکلات تھیں۔آصف علی زرداری اپنی بالادستی چاہتے تھے، جبکہ نواب تابع داری قبول نہیں کرتے تھے۔ گویا نواب اور آصف زرداری کے درمیان اوّل روز سے بنی نہیں۔ صوبے میں سازش کے تحت گورنر راج نافذ کیا گیا جو ایک لاحاصل مشق ثابت ہوا۔ مگر پھر بھی نواب رئیسانی کسی کے دبائو میں آئے نہ منصب سے مستعفی ہوئے، اور پانچ سالہ مدت پوری کرہی لی۔
پچھلے دنوں نواب اسلم رئیسانی سے ملاقات ہوئی جس میں بہت ساری باتیں ہوئیں۔ نواب رئیسانی نے بتایا کہ آصف علی زرداری شروع دن سے انہیں وزیراعلیٰ بلوچستان نہیں بنانا چاہتے تھے، ان سے ریکوڈک منصوبے، ٹرانسفر پوسٹنگ اور پرویزمشرف کے معاملے پر اختلافات تھے۔ پیپلز پارٹی ایک طرف پرویزمشرف کو بے نظیر بھٹو کا قاتل کہتی، دوسری طرف پارٹی قیادت کے گھر سے ان کا کوئٹہ آمد پر استقبال کرنے کے لیے کہا جاتا۔ وزارتِ اعلیٰ کے دور میں فوجی قیادت کی جانب سے جلا وطن بلوچ رہنمائوں سے مذاکرات کے لیے کہا گیا، مگر میں ضمانت کے بغیر مذاکرات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ حکومت کے لیے صرف عمران خان ہی آپشن نہیں، ان کے علاوہ بھی بہت سے آپشن ہیں۔ سردار اختر مینگل نے عمران حکومت کی حمایت ختم کرکے اچھا فیصلہ کیا۔ نواب اسلم رئیسانی نے کہا کہ گیلپ سروے میں کہا جارہا ہے کہ عمران خان کی مقبولیت گر گئی ہے۔ عمران خان کی جماعت پہلے کون سی مقبول تھی جو اب ان کی مقبولیت گر گئی ہے! تحریک انصاف پہلے ہی دھاندلی کے ذریعے آئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی کہتا ہے کہ آپشن ختم ہوگئے ہیں تو ایسا نہیں ہے، آپشن ہمارے پاس بہت ہیں۔ دو بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر جماعتیں بھی ہیں۔ حکومت کی تبدیلی جمہوریت کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے بڑے بڑے دعوے کیے مگر سب دعوے مبالغہ آرائی پر مبنی تھے۔
نواب رئیسانی نے مزید کہا کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی صورت حال غیر متوقع ہوتی ہے، کیونکہ یہ فوج کے ہاتھ میں ہے۔ مطلب، ایک سرکاری ملازم اور سیاست دان کی سوچ اور فکر میں فرق ہوتا ہے، تاہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے سیاست دان کیا کرتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے لوگ کیا کرتے ہیں؟ پتا نہیں عمران خان کو لانے والے کیا سوچ رہے ہیں؟ ان کو بھی سوچنا چاہیے کہ یہ فیڈریشن ضد اور طاقت سے نہیں چلے گی۔ آپ کو دوسر ے کی بات سننی ہے، اور اگر اس کی بات میں منطق ہے تو آپ اس پر عمل بھی کریں۔ اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ نہ ہم منطق، دلیل، نہ ہی آئین و قانون مانتے ہیں، اور سب کچھ ڈنڈے کے ساتھ چلائیں گے تو یہ بہت مشکل ہے، اس طرح فیڈریشن نہیں چل سکتی۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت کی حمایت سے دست بردار ہونے سے متعلق سوال پر نواب رئیسانی نے کہا کہ عمران خان کی حکومت سے علیحدگی اختیار کرکے سردار اختر مینگل نے اچھا فیصلہ کیا۔ البتہ تحریک انصاف کی حکومت کی حمایت کرنا سردار اختر مینگل کی غلطی نہیں تھی، بی این پی نے پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ چھے نکاتی معاہدہ کیا، کم از کم دنیا کو یہ تو پتا چلا کہ عمران خان اور ان کو لانے والوں نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔
کیا بلوچستان میں نواب ثناء اللہ زہری کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت کرکے بی این پی نے غلطی کی؟ کیا بلوچستان عوامی پارٹی کے وجود میں آنے سے صوبے کی سیاسی جماعتیں کمزور ہوئیں؟ ان سوالات پر نواب اسلم رئیسانی کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں اس لیے کمزور نہیں ہوئیںکہ کس نے کس کو ووٹ دیا، یا نہیں دیا۔ اسٹیبلشمنٹ سیاسی جماعتوں کو کمزور کررہی ہے، ان کے لوگ سیاسی جماعتوں میں گھسے ہوئے ہیں جو چیزوں کو ان کے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ نظام چلانے والے یہی سیاسی لوگ ہوتے ہیں، اس لیے ہر سیاسی جماعت اور ان کے کارکنوں کو ایسے لوگوں اور کالی بھیڑوں پر نظر رکھنی چاہیے۔ جو کسی اور کے ایجنڈے پر کام کرتے ہیں ان کو سیاسی میدان سے دور رکھنا چاہیے۔ یہ میں صرف سیاسی جماعتوں کے لیے نہیں کہتا، میں جو کہہ رہا ہوں وہ فیڈریشن کے استحکام کے لیے کہتا ہوں۔ اگر سیاسی جماعتیں مضبوط ہوں گی تو یہ فیڈریشن ٹھیک چلے گی، آئین کے مطابق چلے گی، اور اگر وہ سیاسی جماعتوں کو کمزور کریں گے تو ہوگا یہ کہ وہ آتے رہیں گے۔ کوئی ریٹائرمنٹ سے پہلے ایکسٹینشن لیتا رہے گا۔ چناں چہ کب تک یہ ایکسٹینشن میں چلتے رہیں گے! یہ ایکسٹینشن والے دھندے بند ہونے چاہئیں۔ مطلب یہ کہ ہم 1973ء کے آئین کے پابند ہیں۔ حالانکہ میری تجویز اور رائے نئے عمرانی معاہدے کی ہے، لیکن اگر میں اس آئین کا پابند ہوں تو ان کو بھی اس آئین کی پابندی کرنی چاہیے۔
نواب اسلم رئیسانی نے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ جام کمال فخریہ کہتے ہیں کہ میں چالیس واٹس ایپ گروپ کا ایڈمن ہوں۔ جام صاحب کی حکومت میں آئے دن کوئی وزیر ناراض ہورہا ہے، کوئی وزیر ساتھ چھوڑ رہا ہے۔ پھر یہ ان کو منانے جارہے ہیں یا کسی کو دھمکیوں کے ذریعے روک رہے ہیں۔ صوبائی بجٹ کی تقسیم میں بلوچستان حکومت نے ناانصافی کی ہے۔ اپوزیشن ارکان کو جو 13 کروڑ روپے کے منصوبے ملے ہیں وہ بہت کم ہیں، آج کل ایک واٹر سپلائی اسکیم بھی دو کروڑ روپے سے کم میں نہیں بنتی۔ دوسری جانب حکومت، اس کی اتحادی جماعتوں اور ان جماعتوں میں اپنے پسندیدہ افراد کو تین تین، چار چار ارب روپے کے منصوبے دیے گئے ہیں۔ اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ ہمارے حلقوں میں مداخلت نہ کی جائے اور ترقیاتی بجٹ میں برابری کی بنیاد پر منصوبے شامل ہونے چاہئیں۔ جام نے اپنے بہت سے چہیتوں کو بڑے فنڈز دیے ہوئے ہیں۔ کام تو ٹکے کا بھی نہیں ہوگا لیکن ان فنڈز سے ان اشخاص کو کمیشن ملیں گے۔ وہ بڑی بڑی زمینیں خرید رہے ہیں، زور سے، دھونس دھمکیوں سے وہ لوگوں کو خرید رہے ہیں، لوگوں کو اغوا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جب میں وزیراعلیٰ تھا، جس نے مجھے ووٹ دیا جس نے ووٹ نہیں دیا یعنی مخالف موافق سب کے ساتھ برابری کی بنیاد پر سلوک کیا۔ میں نے کسی کو اوپر یا کسی کو نیچے نہیں کیا۔ موجودہ حکومت توکسی اور کے کہنے پر یہاں کے حالات خراب کررہی ہے۔ عمران خان اور جام کمال کے ساتھ بیٹھے لوگوں پر فوج کا ہاتھ ہے۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ آپ ان کے سر سے ہاتھ ہٹائیں، کل یہی لوگ آکر ہمارے ساتھ بیٹھ جائیں گے۔
نواب رئیسانی کا کہنا تھا کہ حزبِ اختلاف میں بیٹھے افراد اپنا حقیقت پسندانہ مؤقف رکھنا چاہتے ہیں، جبکہ ہماری باتوں سے اسٹیبلشمنٹ خوش نہیں ہے، حالانکہ ہم انہیں صحیح بات بتاتے ہیں۔ دوسری طرف عمران اور جام کمال کے ساتھ بیٹھے لوگ جھوٹ بولتے ہیں، جنہوں نے جی حضوری کی کتاب پڑھی ہوئی ہے، ہر دور میں یہ حکومت کے ساتھ رہے ہیں۔ اگر اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ وہ پاکستان میں ان جیسوں کے ذریعے جمہوریت کو بہتر انداز میں پنپنے کا موقع دے رہی ہے، تو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ بہت کمزور لوگ ہیں، ہر دن رنگ بدلتے ہیں، لہذا ان سے سب کو ہوشیار رہنا چاہیے۔ اس ذیل میں نواب رئیسانی کا مزید کہنا تھا کہ جام حکومت اور ان کے پیچھے بیٹھے افراد صوبے کے قبائلی معاملات میں مداخلت کررہے ہیں۔ قبائل کو آپس میں لڑوانے کی کوششیں کررہے ہیں۔ جام اور اسٹیبلشمنٹ نے اپنے مقاصد کے لیے میرے بھائی سراج رئیسانی کو مجھ سے لڑانے کی کوشش کی۔
پیپلز پارٹی سے اختلافات سے متعلق سوال پر نواب اسلم رئیسانی کا کہنا تھا کہ ہم تو پیپلز پارٹی کو بلاول زرداری اور آصف علی زرداری کے بجائے ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ بلاول زرداری، بھٹو صاحب کے نواسے ہیں اور نوجوان ہیں، میں نے ان کی تقریر سنی ہے، ان کی پولیٹکل اپروچ دیکھی ہے، اچھے نوجوان ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب آصف علی زرداری کو آرام کرنا چاہیے اور بلاول زرداری کو معاملات دیکھنے چاہئیں۔ نواب رئیسانی نے کہا کہ پیپلز پارٹی والے پرویزمشرف کو بے نظیر بھٹو کا قاتل کہتے ہیں، لیکن جب میں وزیراعلیٰ تھا، پرویزمشرف پاکستان کے صدر تھے، وہ کوئٹہ آرہے تھے، اُس وقت چیف سیکریٹری بلوچستان ناصر محمود کھوسہ تھے، تو انہیں میں نے کہا کہ پرویزمشرف کو کہیں کہ وہ کوئٹہ نہ آئیں، ہم ان کو پسند نہیں کرتے۔ لیکن زرداری ہائوس اسلام آباد سے بار بار فون آرہے تھے، میں نے کوئی فون اٹینڈ نہیں کیا۔ پھر میرے اسٹاف کے ممبرز کو فون آئے کہ پرویزمشرف کا ایئر پورٹ پر استقبال کیا جائے۔ میں ایئر پورٹ گیا اور نہ ہی پرویزمشرف کا استقبال کیا۔ پرویزمشرف نے پروٹوکول آفیسر سے کہا کہ وزیراعلیٰ کو آنا چاہیے تھا۔ پیپلز پارٹی کے پانچ ایم پی ایز ایئر پورٹ گئے اور انہوں نے پرویزمشرف کو ریسیو کیا اور ان کے ساتھ لنچ بھی کیا۔ اب جب ایک سیاسی جماعت اس طرح کی حرکت کرتی ہے تو ظاہر ہے انسان کو دکھ ہوتا ہے۔ ایک طرف پیپلز پارٹی کہتی ہے کہ پرویزمشرف ہمارا قاتل ہے اور دوسری طرف وہ اپنے ایم پی ایز پرویز مشرف کو ریسیو کرنے بھیجتی ہے۔
آصف علی زرداری سے اختلافات سے متعلق سابق وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ انتخابات کے بعد جب خورشید شاہ اور اعجاز جاکھرانی کوئٹہ آئے تو مجھے پتا چلا کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کسی اور کو وزیراعلیٰ بلوچستان بنانا چاہتے تھے، لیکن اللہ کی مہربانی ہوئی اور میں وزیراعلیٰ بن گیا۔ پہلے دن سے ہی آصف زرداری مجھے پسند نہیں کرتے تھے۔ اسلام آباد سے تقرر و تبادلے ہوتے تھے، وزیراعلیٰ بننے کے بعد اس عمل کو میں نے بند کرایا۔ پھر ریکوڈک کا مسئلہ آیا، میری ڈیلنگ آصف علی زرداری کو پسند نہیں تھی، کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ ریکوڈک نہ میرا ہے، نہ آصف زرداری کا ہے، یہ تو بلوچستان کے عوام کی ملکیت ہے۔ یہ ذخائر بلوچوں کے علاقے میں ہیں اور بلوچوں کو ملنے چاہئیں۔ نواب اسلم رئیسانی نے بتایا کہ ٹی تھیان کاپر کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیا گیا، کمپنی کو 75فیصد شیئر دیے گئے اور ہمیں (بلوچستان کو) پچیس فیصد شیئر دیے گئے۔ پچیس فیصد شیئر میں بھی کمپنی نے کہاکہ وہ ہمارے لیے قرضے کا بندوبست کرے گی۔ ارے بابا! مال بھی ہمارا اور قرض کا بھی تم ہمارے لیے بندوبست کروگے! جب ہم نے جمع تفریق کی تو قرض کی شرح سود 14،15فیصد بن رہی تھی۔ ظاہر پہلے دن سے مجھے یہ قبول نہیں تھا اور آج بھی بہت سی چیزوں کو ہم دیکھ رہے ہیں کہ بلوچستان کے لوگوں کے مفاد میں نہیں۔ میں نے گوادر کو سرمائی دارالحکومت قرار دیا، وہاں وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ بنایا۔ مگر ڈاکٹر عبدالمالک سمیت کوئی بھی وزیراعلیٰ ایک دن بھی وہاں جاکر نہیں بیٹھا۔ اُس دفتر پر ڈاکٹر مالک اور باقیوں کی کوتاہیوں کی وجہ سے کسی اور نے قبضہ کرلیا۔
ایک سوال کے جواب میں سابق وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہمارا مسئلہ سیاسی ہے، انتظامی نہیں۔ جب تک پاکستان میں بسنے والی تمام قوموں کے تاریخی حقوق تسلیم نہیں کیے جاتے، معاملات اسی طرح چلتے رہیں گے۔ یہاں بلوچ، پشتون، سندھی اور جو بھی اقوام آباد ہیں، سب کا اپنا کلچر ہے، اپنی زبان ہے۔ ہماری اپنی تاریخ ہے اور ہمارا اپنا علاقہ ہے۔ ہم یہاںکوئی ہزار، دو ہزار سال پہلے سے آباد ہیں۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کو نئے عمرانی معاہدے کے لیے آگے آنا چاہیے۔ ہر دن کے مارشل لا اور ہر دن کی ڈکٹیشنز… اس طرح حکومتیں نہیں چلیں گی۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے 1940ء کی قرارداد منظور کی، محمد علی جناح نے خان آف قلات کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے۔ یہ دو اہم دستاویزات تھیں، ان پر کیوں عمل دآمد نہیں ہوتا؟ جو دستخط محمد علی جناح نے کیے کیا اس کی کوئی حیثیت نہیں؟ آج محمد علی جناح کے اقوال چھپ رہے ہیں، کرنسی پر ان کی تصاویر ہیں، یہ سب ٹھیک ہے، لیکن انہوں نے جو کمٹمنٹ ہم سب سے کی اُس پر کسی نے عمل نہیں کیا۔
جلا وطن بلوچ قوم پرست جماعتوں کے ساتھ مذاکرات سے متعلق سوال کے جواب میں نواب اسلم رئیسانی کا کہنا تھا کہ مجھے بھی وہاں سے کہا گیا کہ آپ جائیں خان قلات سے بات کریں۔ خان قلات ہم سب بلوچوں کے بزرگ ہیں۔ ہمارے آپس میں اختلافات سہی، لیکن وہ ہمارے بڑے ہیں۔ اگر میں جائوں خان قلات یا کسی اور عزیز کے پاس جو جلا وطن ہیں اور اُن سے بات کروں اور کل کے دن وہ پاکستان آئیں اور ان کو اسٹیبلشمنٹ گرفتار کرلے، پکڑ لے تو پھر ہمارے لیے کیا رہ جائے گا؟ ہم تو یقین دہانی چاہتے ہیں۔
سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ انہیں اُس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے گورنر ذوالفقار علی مگسی، ڈی جی آئی ایس آئی ظہیر الاسلام اور کمانڈر سدرن کمانڈ جنرل عالم خٹک کے ہمراہ دعوت پر بلایا اور کہا کہ آپ بیرونِ ملک بیٹھے بلوچ رہنمائوں سے بات کریں۔ میں نے انہیں کہا کہ میں اس طرح بات نہیں کروں گا، میں اگر خان قلات سے بات کروں گا یا کسی اور دوست سے، تو آئی ایس آئی کا بریگیڈیئر رینک کا ایک آفیسر میرے ساتھ ہونا چاہیے، اور جب میں خان قلات سے بات کروں گا تو میں اردو میں ان سے بات کروں گا تاکہ جو آفیسر میرے ساتھ بیٹھا ہو، وہ بھی سنے کہ میں کیا بات کررہا ہوں۔ کیونکہ اگر ہم اپنی زبان میں بات کریں گے تو ہم تو ہیں مشکوک۔ بلوچ مشکوک، پشتون مشکوک، سندھی مشکوک۔ ہم پر پنجاب کے حکمران شک کرتے ہیں۔
نواب اسلم رئیسانی نے کہا کہ آج فیڈریشن خانہ جنگی کا شکار ہے۔ کوئی قبول کرتا ہے، کوئی قبول نہیں کرتا۔ کسی کو نظر آتا ہے، کسی کو نہیں آتا۔ لیکن میں صاف صاف فیڈریشن آف پاکستان میں پشتون، بلوچ اور سندھی علاقوں میں ایک خانہ جنگی دیکھ رہا ہوں۔ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں کو اٹھا کر اور پھر ٹارچر کرکے مسخ شدہ لاشیں پھینک کر، لوگوں کو ڈرا دھمکا کر یہ معاملات ٹھیک ہوجائیں گے تو ایسا نہیں ہوسکتا۔ فی الوقت تو لوگ دب جائیں گے، خاموش ہوجائیں گے۔ لیکن اگر سات دہائیوں میں لوگ خاموش نہیں ہوئے ہیں تو میرے خیال میں اگلی سات دہائیوں تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ دفاع اور خارجہ جیسے امور کے سوا باقی تمام امور صوبوں کے پاس ہونے چاہئیں، انتخابات متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہونے چاہئیں۔ اکثریت کی حکمرانی ہونی چاہیے۔ مگر پنجاب کی اکثریت باقی اکائیوں کے مطابق ہونی چاہیے۔ یہ نہیں کہ پنجاب کے دو ڈھائی سو ایم این اے ہوں، وزیراعظم بھی ہمیشہ ان کا ہو، وزیر خارجہ اور وزیر دفاع بھی ان کا ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہ وفاق ہم کو چلانا ہے۔ اگر وفاق کو کچھ ہوتا ہے، تو یہاں ایک فساد تیارہے، پھر کوئی آرام سے نہیں بیٹھ سکے گا۔