اشک آور شوخ بیانی

میں اپنے چھوٹے سے کمرے میں ماہنامہ ”ہمقدم“ کی ”کاپی جوڑنے“ میں جُٹا ہوا تھا۔ (”کاپی جوڑنے“ کی اصطلاح سے وہ تمام صحافی خوب واقف ہوں گے جو قریباً بیس برس اور اس سے پہلے سے ”صحیفہ سازی“ کررہے ہیں۔ اب تو کمپیوٹر کا زمانہ ہے، بیس پچیس برس قبل تک تمام اخبارات و جرائد کی تحریروں کو کاتب خوش خط لکھا کرتے تھے۔ شفاف کاغذ (بٹر پیپر) پر ان کی خوش خطی کو دوسرے شفاف کاغذ پر حسبِ نقشہ و ضرورت چسپاں کرلیا جاتا تھا، اس طرح کہ ایک قاعدے اور قرینے سے پوری شیٹ پر آٹھ، چار یا دو صفحات جوڑ دیے جاتے۔ یہ تھا کاپی جوڑنا۔
معاف کیجیے، یہ اصطلاح چونکہ اب عجائب گھر میں رکھے جانے کی عمر کو پہنچ چکی ہے اس لیے دورِ حاضر کے قارئین سے اس کا تفصیلی تعارف کروانا پڑا، چنانچہ ”تمہیدِ معترضہ“ طویل ہوگئی۔ بیاں ہورہا تھا، اپنا کہ1978ء کی اس دوپہر اس چھوٹے سے کمرے میں ”ہمقدم“ کی کاپی جوڑتے ہوئے میں پسینہ پسینہ ہورہا تھا۔ ”پسینہ آوری“ کی وجہ ”برق النساء“ تھیں جو اس وقت روٹھ کر کہیں روپوش ہوچکی تھیں! (اُس زمانے میں بھی بجلی جاتی تھی لیکن کبھی کبھار، تبدیلیِ ذائقہ کی خاطر!)۔
اتنے میں دروازے پر ایک جانی پہچانی صورت نمودار ہوئی۔ یہ تھے میرے مربّی اور پیش رو، برادر محمود فاروقی۔ ان کے تعاقب میں ایک اجنبی و انجانی صورت بھی تھی۔ صورت کیا تھی ماشاء اللہ خوش شکل، خوش اندام اور خوش لباس شخصیت تھی۔ چہرے پر تازگی اور بشاشت تھی جو یقیناً ”ریش و بروت کا صفایا“ کرنے یعنی مکمل شیو کا نتیجہ نہ تھی۔ سر پر ہلکے سے گھونگریالے گھنے سیاہ بال سلیقے سے ترشوائے گئے تھے۔
”یہ ہیں کلیم چغتائی!“ برادرم محمود فاروقی نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا (اس لہجے کو آج کے پروفیسر اور ماہنامہ ترجمان القران کے نائب مدیر سلیم منصور خالد اس وقت بھی ”لٹکا لٹکا لہجہ“ کہتے تھے!)۔
آنے والے صاحب نے میری شخصیت کا بڑے غور سے جائزہ لیا لیکن بولے کچھ نہیں۔ محمود فاروقی نے مہمان کے ساتھ کچھ اور باتیں چھیڑنے کا آغاز کیا، لیکن مختصر سے کمرے میں برق النساء کی غیر موجودگی کے باعث پنکھا خود استراحت فرما رہا تھا، لہٰذا ماحول کسی ٹھنڈے مزاج والے کو بھی گرمیِ گفتار پر آمادہ کرنے کے لیے کافی تھا۔
ایسے میں گرمی سے کچھ متاثر ہوکر آنے والی شخصیت نے قریبی میز پر رکھا ایک دبلا پتلا سا خبرنامہ اٹھا لیا۔ بڑے سائز کے چند صفحات پر مشتمل یہ خبرنامہ اتفاق سے عربی زبان میں تھا کہ کسی عرب ملک سے ہمیں بھیجا گیا تھا تاکہ (اگر ہم عربی زبان جانتے ہوں تو) ہم وہاں کی سرگرمیوں سے باخبر رہ سکیں۔
آنے والے جواں سال صاحب نے وہ عربی خبرنامہ اٹھا لیا اور اسے اپنے چہرے کے قریب لا کر ”پنکھا“ جھلنے لگے۔ دو چار لمحوں بعد اپنی باوقار آواز میں گویا ہوئے:
”اس میں سے تو عربی ہوا آرہی ہے!!!“۔
شدید گرمی میں اوسان خطا ہونے کے باوجود ان کا یہ چھوٹا سا فقرہ گویا تازہ اور خوش گوار ہوا کا جھونکا ثابت ہوا۔ آنے والی شخصیت بدستور ”سنجیدہ“ تھی لیکن برادرم محمود فاروقی اور میرے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ رہی تھی۔ پتا چلا، یہ ہیں اطہر ہاشمی!
ان سے اس پہلی ہی ملاقات میں بخوبی اندازہ ہوگیا کہ ان میں بے ضرر اور لطف آور شرارت کرنے کی صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، اور وہ کوئی بہت پُرمزاح فقرہ بڑے موقع سے چُست کرنے کے باوجود خود پر ”سنجیدگی“ طاری کیے رکھتے ہیں۔ بعد میں یہ اندازہ یقین میں بدل گیا اور ان کے صرف اسی وصف کے باعث ان سے دلی قربت پیدا ہوگئی۔ کچھ ہی عرصے بعد قریب جاکر علم ہوا کہ وہ محض شریرِ معصوم نہ تھے، بلکہ ان کے ”شریر“ میں تو ایک عظیم، نفیس، شفیق اور خلیق انسان بھی بسا ہوا تھا۔
”تھا“؟ اتنا لکھتے لکھتے میں چونک اٹھا ہوں۔
اب مجھے اس فردِ محبت پاش کے لیے لفظ ”تھا“ استعمال کرنا ہوگا؟
یہ ایکاایکی کیا ہوا؟

یہ چلا کون اٹھ کے پہلو سے
دل کی بستی میں پڑ گیا کہرام

اپنے دل کے بہت قریب کسی فرد کے دنیا چھوڑ جانے کا دکھ عموماً اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ اس کی یاد میں تحریر کا آغاز کرتے ہی قلم آنسو بہانے لگتا ہے۔ لیکن یہ کیسا فرد تھا جو میرے دل میں بستا تھا، جس کی بے پایاں محبت میرے پورے وجود کا احاطہ کیے رکھتی تھی، اور جس کی شفقت کی چھاؤں اور ٹھنڈک مَیں ہمہ وقت محسوس کرتا تھا، اس کےچلے جانے پر میں اپنے تاثرات کا آغاز یوں ہنستے کھیلتے کر ڈالوں گا۔ یہ کیسے ہوا؟
میں سمجھ گیا، وہ عظیم انسان زندگی بھر خوشیاں اور مسکراہٹیں تقسیم کرتا رہا۔ اس کی شگفتگی اور خوش مزاجی کا یہ سحر ہے کہ وہ صرف چند روز ہوئے ہمیں الوداع کہہ گیا ہے لیکن ہم اس کی ہر لمحہ عطا کردہ لطیف مسرتوں کے سحر میں اس کے ذکر کا آغاز بھی اسی کی شگفتہ بیانی سے کررہے ہیں۔ آہ کیسی شگفتہ بیانی، کہ جس کی تاثیر دل میں اترتی چلی جاتی تھی اور اب دل کو زخمی زخمی کیے دیتی ہے، کسی کل چین نہیں لینے دیتی، کسک پیدا کیے جاتی ہے۔ ایسی شگفتہ بیانی بھی کسی نے کاہے کو دیکھی ہوگی؟
اطہرہاشمی رخصت کیا ہوئے، اردو صحافت ایک خورشیدِ درخشندہ سے محروم ہوگئی۔ تہذیب، شرافت، شائستگی، شستگی اور شگفتگی کی روشن مثال رخصت ہوگئی۔
وہ ایسی پُرکشش شخصیت اور بلند اوصاف کے مالک تھے کہ ہر کوئی ان کی طرف کھنچا چلا آتا تھا۔ ہر فرد یہی سمجھتا تھا کہ وہ صرف اسی پر سب سے زیادہ شفقت کرتے ہیں۔
میں بھی یہی سمجھتا تھا۔ بلکہ میں تو انہیں اپنی ”جاگیر“ سمجھتا تھا!
میرے اور ان کے درمیان قدرِ مشترک حسِ مزاح اور مزاح سے دلچسپی تو تھی ہی، برسوں ایک ہی دفتر میں ساتھ کام کرنے، روز ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے یہ باہمی تعلق مزید گہرا ہوگیا تھا۔ پھر چونکہ میرا گھر ان کی رہائش گاہ سے کچھ ہی فاصلے پر تھا، اس لیے کم از کم واپسی ایک ہی راستے سے اکٹھے ہوتی تھی۔ یوں ان سے احترام آمیز اور بے تکلفانہ محبت تھی۔ وہ بھی مجھے شفقت کے ساتھ ”تم“ کہہ کر مخاطب کرتے تھے، اور بعد کے قریباً چالیس برسوں میں بھی ان کا یہی بے تکلفانہ اور ہلکا سا مربیانہ انداز میرے ساتھ رہا۔
”ہمقدم“ کی ادارت سے میری فراغت کے بعد برادرم محمود فاروقی کے سر میں سودا سمایا کہ نوجوانوں کے لیے ہفت روزہ ”زندگی“ کی طرز کا کوئی جریدہ شائع کیا جائے، جس میں نوجوانوں کو معلومات اور صحت مند تفریح اس انداز سے فراہم کی جائے کہ ان کی اچھی کردار سازی ہوسکے۔
”مالکان“ (یوں کہیے کہ ”سرمایہ کاروں“) کی طرف سے ”گرین سگنل“ ملنے پر محمود فاروقی نئے ہفت روزہ کی تیاری میں جی جان سے جُٹ گئے۔ انہوں نے انگریزی کے مشہور عالم جریدے ”ٹائم“ کا ترجمہ کرتے ہوئے، اپنے نوزائیدہ ہفت روزہ کا نام ”وقت“ رکھا۔ کچھ ہی دنوں میں انہیں اندازہ ہوگیا کہ ہفت روزہ رسالہ شائع کرنا بہت دشوار ہے تو انہوں نے اسے پندرہ روزہ کردیا۔ رہا وہ نام کا ہفت روزہ، لیکن اس پر ”پندرہ روزہ خصوصی اشاعت“ بھی درج کیا جانے لگا۔
اس ”پندرہ روزہ ہفت روزہ“ کے ایڈیٹر ظاہر ہے کہ ٹھیرے محمود فاروقی، جو ایک اور بزرگ صحافی اور مایۂ ناز ادیب محمود فاروقی سے خود کو ممیز کرنے کے لیے اپنا مکمل نام ”محمود احمد فاروقی“ لکھتے اور لکھواتے تھے۔
”وقت“ کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر بنائے گئے ”علی خان“!۔
یہ علی خان کوئی اور نہیں وہی اطہر ہاشمی تھے جن کی بزلہ سنجی بڑی دُور مار تھی اور رہے گی۔
برادر بزرگ اطہر ہاشمی نے ”علی خان“ کا راز یوں کھولا کہ ان کا مکمل نام سید اطہر علی خاں ہے۔ سید ہونے کے ناتے، وہ تو تھے ہی ہاشمی النسل، اس لیے صحافت میں ”اطہر ہاشمی“ کے مختصر نام سے شہرت کے جھنڈے گاڑنے لگے۔ ہفت روزہ ”وقت“ میں بیک وقت دو عدد ایسوسی ایٹ ایڈیٹر بنائے گئے۔ ”علی خان“ کے ساتھ دوسرا ایسوسی ایٹ ایڈیٹر بننے کا شرف مجھے حاصل ہوا۔
”وقت“ کا دفتر پہلے پہل نرسری پر بنایا گیا، لیکن وہاں کام ابھی سرسری انداز میں شروع ہوا تھا کہ اندازہ ہوا یہ جگہ ”وقت“ کے لیے ”بے وقت“ اور بے محل ہے۔ چنانچہ دفتر پاکستان چوک کے قریب ایک عمارت کی دوسری منزل پر منتقل ہوگیا۔ یہیں کچھ عرصہ قبل تک ماہنامہ ”ہمقدم“ کا دفتر بھی قائم تھا۔ یہ جگہ کشادہ تھی اور تمام سہولتیں بھی میسر تھیں۔ کئی کمرے، میزیں، کرسیاں، الماریاں،ٹیلی فون، باورچی خانہ وغیرہ وغیرہ۔
اطہر ہاشمی روزنامہ ”جسارت“ کراچی سے وابستہ تھے۔ ان کو صفحۂ طلبہ کا انچارج بنایا گیا تھا، پھر انہیں میگزین سیکشن میں بھیج دیا گیا جہاں وہ میگزین ایڈیٹر جناب ثروت جمال اصمعی کے ماتحت کے طور پر کام کرنے لگے۔ ان دنوں جسارت کا دفتر محمد بن قاسم روڈ (برنس روڈ) پر ایک عمارت ایور ریڈی چیمبر کی تیسری منزل پر واقع تھا۔ وہاں جگہ کی قلت تھی اس لیے میگزین سیکشن آرام باغ روڈ کی ایک عمارت میں منتقل کردیا گیا۔ اخبار کے خبری صفحات پر تو شام سے رات گئے تک کام ہوتا تھا لیکن میگزین سیکشن کے اوقاتِ کار دن کے تھے اور وہاں کام کا ایسا دباؤ بھی نہ تھا جیسا کہ نیوز روم میں ہوتا ہے۔
آرام باغ روڈ کی عمارت، قریب ہی پاکستان چوک پر واقع ”وقت“ کے دفتر سے بہت قریب تھی۔ لہٰذا ”علی خان“ یعنی اطہر ہاشمی بڑی سہولت سے اٹھ کر دفترِ ”وقت“ آجایا کرتے تھے۔ یہاں وہ مختلف مضامین تیار کردیتے تھے، بعض کی ادارت کردیا کرتے، کچھ کی پروف ریڈنگ بھی کرجاتے۔ انگریزی سے کچھ تراجم بھی بآسانی کرلیتے۔ یوں ان سے روز کا ساتھ ہو گیا اور ان کی شگفتہ بیانی سے لطف اندوز ہونے والوں میں، مَیں بھی شامل ہوگیا۔
ہفت روزہ ”وقت“ میں کسی تحریر کا ترجمہ کرتے ہوئے مجھے دقت پیش آتی تو میں ہاشمی صاحب کے گلے پڑتا۔ وہ کوئی گلہ کیے بغیر بہت نرم لہجے میں مجھے معنی سمجھا دیتے۔
ہم کبھی دفتر ہی میں چائے بنا کر خود میں اعصابی بیداری کی تحریک چلاتے تھے، کبھی قریبی ہوٹل کی آمدنی میں اضافہ کرتے تھے۔ اس ہوٹل کا ٹیلی فون نمبر ہم نے حاصل کرلیا تھا۔ جب اعصاب سے ”چائے چائے“ کا شور بلند ہونے لگتا تو ہم جھٹ ہوٹل کا نمبر گھما دیتے۔ کچھ دیر بعد ”باہر والا“ چینک اور ننھی مُنّی پیالیاں لاکر دھر جاتا اور کچھ دیر بعد آکر خالی پیالیاں، چینک اور مطلوبہ رقم اٹھا لے جاتا۔ ایک بار چائے کا ٹیلی فونک آرڈر دیے خاصی تاخیر ہوگئی۔ اطہر ہاشمی صاحب نے فون کا ریسیور اٹھا کر ہوٹل کا نمبر گھمایا اور رابطہ قائم ہونے پر پنجابی لہجے میں بولنے لگے ”ارے جناب، چاء کے لیے کنّی دیر پہلے بولا تھا“۔ اُدھر سے کچھ کہا گیا تو اسی لہجے میں بولے ”وکت کے دفتر میں“، پھر کچھ وضاحت کی گئی ہوگی تو پنجابی لہجے کو مزید پُراصرار بناتے ہوئے بولنے لگے ”ارے جناب بڑی دیر ہوگئی، ہم کب سے بیٹھے ہیں، چاء نئیں آئی…“ ذرا سی دیر میں چائے آگئی۔
مجھے ان کی زبان سے خالص پنجابی لہجے میں اردو سن کر بڑا لطف آیا۔ بعد میں، مَیں نے ان کو کسی نائب قاصد کے ساتھ پنجابی بولتے سنا۔ دیگر بہت سے لوگوں کو بھی پنجابی بولتے سنا تھا اور عام طور پر پھیلے تاثر سے اتفاق کرتے ہوئے اُس وقت تک میرا بھی یہی خیال تھا کہ جب تک کسی بات کو گھن گرج کے ساتھ، بے باکانہ اور ”کھلے ڈُلے“ انداز میں ادا نہ کیا جائے (جس طرح پنجابی فلموں میں ہیرو یا ولن بڑھک لگاتے ہیں)، پنجابی لہجہ پوری طرح اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اطہر ہاشمی صاحب جس نرم و ملائم انداز اور میٹھے لہجے میں پنجابی بول رہے تھے، جی چاہتا تھا کہ بیٹھے سنتے رہو۔
”وقت“ کے دفتر میں ”جسارت“ کے ایک اور ساتھی بھی کبھی کبھی آیا کرتے تھے۔ یہ تھے عبدالسلام سلامی۔ اُس وقت تو بڑے ”شارپ“ اور دوٹوک قسم کے نوجوان تھے۔ بعد میں ان کے ساتھ ”جسارت“ میں کام کا موقع ملا۔ وہی مجھے بین الاقوامی ماہنامہ ”رابطہ“ میں لے گئے تھے۔ ”جسارت“ ہی میں اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ تو بہت ہی شاندار، پیارے، مخلص، محنتی، تخلیقی ذہن کے مالک انسان ہیں جو دوسروں کا بہت خیال رکھتا ہے۔ ”رابطہ“ جاکر یہ تاثر بہت شدید ہوگیا۔ خیر، سلامی صاحب ”وقت“ کے لیے تعلیمی اداروں کے حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ لکھا کرتے تھے۔ ایک بار شاید وہ اپنا لکھا پہنچانے ”وقت“ کے دفتر آئے تو ہاشمی صاحب نے کوئی پروف پڑھنے کے لیے انہیں تھما دیا۔ پروف کے ساتھ اصل مسودہ حوالے کیا، تصحیح کے لیے نیلے رنگ کا بال پوائنٹ تھمایا، پروف کے نیچے رکھنے کے لیے کوئی رسالہ وغیرہ بھی دیا۔ سلامی صاحب قدرے حیرانی سے بولے ”یہ سب میں نے آپ سے مانگا تو نہیں تھا!“ اطہر ہاشمی صاحب ترنت بولے ”اسی لیے تو آپ کو دے رہے ہیں!“
اسی ”وقت“ کے دفتر میں ایک دن شام کے وقت ہاشمی صاحب نے سنجیدگی کے ساتھ مجھ سے پوچھا کہ میرا اب کیا ارادہ ہے۔ پیشہ ورانہ طور پر کون سی راہ اختیار کرنا چاہتا ہوں۔ ظاہر ہے اب میری تعلیم ختم ہوچکی تھی۔ ”وقت“ کوئی بڑا ادارہ نہ تھا۔ یہ نونہال رسالہ کب تک چلتا اور ملازمین کی تنخواہیں کہاں سے لاتا! مجھے کچھ کرنا تو تھا۔ میرا رجحان بچپن سے ادب و صحافت کی جانب تھا۔ میں نے جواب دیا کہ میں صحافی بننا چاہتا ہوں۔ انہوں نے مزید پوچھا: کہاں، ہفت روزہ میں، ماہنامہ میں یا روزنامہ میں؟ میں نے بتایا کہ اخبار میں جانا چاہتا ہوں۔ اطہر ہاشمی صاحب نے مجھے حقیقت سے آگاہ کرنا ضروری سمجھا اور کہنے لگے ”دیکھو بھئی، ایک اخبار میں کام کرنے والے صحافی کی تنخواہ آج کل کی ضرورتوں کے حساب سے پندرہ سو روپے تو ہونی چاہیے، لیکن اخبارات میں تو یہ بھی نہیں ملتی۔“
میں نے مصنوعی حیرت کا اظہار کیا ”اچھا، یہ بھی نہیں؟“ بولے ”یہ بھی نہیں“۔ (حالانکہ میں سوچ رہا تھا کہ پندرہ سو روپے کون دیتا ہے! ہزار بارہ سو مل جائیں تو بڑی بات ہے۔ اُس زمانے میں پندرہ سو روپے ایک بڑی رقم سمجھی جاتی تھی اور تین سو کا فرق بھی بڑا فرق گردانا جاتا تھا۔)
خیر، ہاشمی صاحب کے اس انتباہ کے باوجود میں نے اخباری ملازمت ہی کا راستہ چُنا۔
زبان کی اصلاح ہاشمی صاحب اُس وقت بھی کردیا کرتے تھے جب وہ ”وقت“ میں تھے۔ ایک بار شاہ ایران کی معزولی پر کوئی پوسٹر تیار ہوا، معزول شاہ ایران کی ایک تصویر جانے کہاں سے حاصل کرلی گئی تھی جس میں ان کا چہرہ تفکرات اور پریشانیوں سے گھرا محسوس ہوتا تھا۔ اسے دیکھ کر ہاشمی صاحب بولے ”مہاجر لگ رہے ہیں“۔ مجھے سننے میں غلط فہمی ہوئی، میں نے کہا ”مہاجِن لگ رہے ہیں؟“ اس پر ہاشمی صاحب نے تصحیح کی ”مہاجَن“ ہوتا ہے۔
اسی زمانے میں ”وقت“ کے ایک شمارے کا سرورق تیار ہوا، وہ بھی معزول شاہ ایران سے متعلق تھا۔ ان دنوں وہ کئی ممالک کے سربراہوں سے درخواست کررہے تھے مگر کوئی انہیں قبول کرنے کو تیار نہ تھا۔ اس سرورق کے لیے اور اندرونی صفحات پر شائع ہونے والے تبصراتی مضمون کی بڑی عمدہ سرخی ہاشمی صاحب نے لگائی: ”عالم پناہ کو کہیں پناہ نہ ملی!“
ان کی طبیعت میں ہلکی سی آرام طلبی، بے اعتنائی اور غیر ذمہ داری ان دنوں جھلکتی تھی، لیکن یہ سب ”خواص“ ظاہری تھے۔ اندر سے وہ ایک بیدار صفت، ذمہ دار اور دیانت دار انسان تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کام کے معاملے میں بھی کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا، بلکہ ان کا کام سب سے پہلے تیار ملتا تھا۔ بعد میں اخبار کی ملازمت کے دوران بھی ثابت ہوا کہ جس دن ہاشمی صاحب اخبار کی آخری کاپی جُڑواتے ہیں، اس دن کاپی جلد پریس چلی جاتی ہے، جبکہ دیگر سینئر صحافی جب یہی کام کرواتے تھے تو کاپی جانے میں دیر لگتی تھی۔
انہی دنوں میں بھی کبھی کبھی آرام باغ روڈ پر واقع ان کے دفتر چلا جایا کرتا تھا، جہاں وہ قلم اور سگریٹ کو تقریباً یکساں وقت دیتے ہوئے لکھنے لکھانے میں مصروف نظر آتے تھے۔ ایسا بھی ہوتا کہ میری آمد پر یا ویسے ہی اُس وقت کوئی فوری کام نہ ہونے کے سبب وہ گفتگو میں لگ جاتے یا برابر میں بیٹھے ایک اور بزرگ صحافی ادیب عثمانی صاحب سے شوخی آمیز سوالات شروع کردیتے۔ میری خواہش پر انہوں نے انگریزی سے اردو میں ترجمہ کے لیے کچھ نثر پارے عنایت کیے جنہیں میں نے اردو کے قالب میں ڈھال کر ان کے حوالے کیا تو بہت کم ادارت کیے بغیر میرے کئی تراجم انہوں نے ”جسارت“ کے میگزین صفحات پر میرے نام کے ساتھ شائع کردیے۔ مجھے خوشی بھی ہوئی کہ میری تحریر اس قابل ہوگئی تھی کہ ہاشمی صاحب جیسا باریک بین صحافی اس میں قابلِ ذکر ادارت کی ضرورت محسوس نہیں کررہا تھا۔ یوں، معتبر ہونے لگا نام صحافت میں مرا !
ہفت روزہ ”وقت“ پر کڑا وقت آپڑا، تو میں نے کچھ اور کرنے کی ٹھانی۔ اب گھر والوں کا اصرار بھی توانا ہوچلا تھا کہ مجھے برسرِ روزگار ہوجانا چاہیے۔ ادب و صحافت سے دیرینہ لگاؤ مجھے کھینچ کر روزنامہ ”جسارت“ کے دفتر لے گیا۔ برادر بزرگ اطہر ہاشمی اس وقت تک ”جسارت“ کے نیوز روم میں منتقل کیے جاچکے تھے۔ نیوز روم بھی وہ جو ”نائٹ ڈیسک“ کہلاتا تھا۔ وہاں میگزین سیکشن کی سی آسانی اور سکون نہ تھا۔ ہر دم گرجتی برستی خبریں ”برستی“ رہتی تھیں۔ ان کو سنبھالنا، پھر انگریزی سے اردو کے قالب میں اخباری زبان میں ڈھالنا توجہ چاہتا تھا۔ بعض اوقات ایک ہی واقعے سے متعلق کئی ذرائع سے خبریں آجاتی تھیں۔ ان سب کا آملیٹ اس طرح بنانے کے لیے کہ ذائقہ متاثر نہ ہو، سنجیدگی اور یکسوئی درکار تھی۔ بعض خبروں میں بین الاقوامی سفارتی زبان بھی شامل ہوجاتی تھی جس کا اردو میں ترجمہ کرنا کہ جملے کی روح متاثر نہ ہو، مشکل کام تھا۔ ایسی خبریں اطہر ہاشمی صاحب کو تھما دی جاتی تھیں، لیکن اطہر ہاشمی بڑے پُرسکون انداز میں کش پہ کش لگاتے، خبریں کشید کرتے چلے جاتے تھے۔ خوش خط تھے۔ ان کی تحریر میں کاٹ چھانٹ بالعموم کم ہوتی تھی۔ سلجھی ہوئی زبان اور سیدھ میں ایک دوسرے کے متوازی دوڑتی سطروں میں پروئے ہوئے ہموار الفاظ۔ ان کے لکھے کی کتابت کرنے والا ہر کاتب آسانی محسوس کرتا تھا۔
نیوز روم میں بہت اچھے، ادب نواز اور مہربان لوگ تھے۔ نیوز ایڈیٹر کشش صدیقی صاحب سے کچھ جان پہچان تھی ہی، میں نے مدعا بیان کیا کہ میں ”جسارت“ میں کام کرنا چاہتا ہوں، تو انہوں نے اسی وقت مجھے ڈیسک پر بٹھا دیا۔ فطری طور پر میں برادرم اطہر ہاشمی کے برابر جا بیٹھا۔ اردو میں لکھنے لکھانے کا تجربہ تو تھا لیکن نیوز روم کے دباؤ والے ماحول میں خبر کا ترجمہ کرکے اسے خبر کی شکل دیتے ہوئے پہلے دن مجھے دانتوں پسینے آگئے۔ اس وقت یہ اطہر ہاشمی صاحب تھے جنہوں نے مجھے متعدد بار الفاظ یا جملوں کا مطلب بڑی شفقت سے سمجھایا، وہ بھی دلچسپ انداز میں۔ ایسا بھی ہوتا کہ وہ کوئی خبر بنانے میں مصروف ہوتے اور میں خبر سازی کے دوران کسی لفظ یا جملے پر اٹک جاتا۔ میں یا تو اطہر صاحب کی کہنی کو دھیرے سے چُھولیتا یا ان کے فارغ ہونے کا خاموشی سے انتظار کرنے لگتا۔ وہ بہت جلد اپنا کام چھوڑ کر میری طرف متوجہ ہوتے اور بڑی شفقت سے کہتے: ”جی!“
وہ بھی یارب عجب زمانہ تھا۔ میں نے تو ”نومولود“ سب ایڈیٹر کی حیثیت سے اخباری دنیا میں قدم رکھا تھا۔ اطہر ہاشمی صاحب تو تاریخ کے مضمون میں ایم اے، پھر ایم فل کرکے راولپنڈی کے کسی کالج میں پڑھاتے رہے تھے، پھر کسی خانگی مجبوری کی بنا پر انہیں کراچی آنا پڑا اور انہیں ”جسارت“ والوں نے بلا لیا۔ گویا، وہ اخباری دنیا میں مجھ سے سینئر تھے۔ ان کا مطالعہ اچھا تھا، انہوں نے انگریزی ادب بھی پڑھ رکھا تھا۔ لیکن عہدہ اور گریڈ کے اعتبار سے ہم دونوں سب ایڈیٹر تھے اور گریڈ 3 کے ملازم تھے۔ کئی برس تک یہی معمول رہا۔ ہر سال سنتے تھے کہ اطہر ہاشمی صاحب کو سینئر سب ایڈیٹر بنایا جارہا ہے، لیکن پھر پتا چلتا کہ نہیں بس ایک انکریمنٹ زیادہ دے دیا گیا ہے۔ اور انکریمنٹ بھی کتنا تھا، آج کے قارئین سن کر یقیناً حیرت زدہ رہ جائیں گے، یہ صرف 35 روپے تھا! تنخواہیں بھی کتنی تھیں؟ میں نے جب جسارت سے وابستگی اختیار کی تو حکومت کے طے شدہ ویج بورڈ کے مطابق سب ایڈیٹر کو جو گریڈ 3 میں تھا، ایک ہزار روپے کے لگ بھگ ماہانہ تنخواہ ملتی تھی۔ پھر جس برس میں وابستہ ہوا اُس کے تقریباً چھے ماہ بعد نیا ویج بورڈ آیا جس کے مطابق تنخواہ تقریباً تیرہ سو روپے ملنے لگی۔ چھے برس بعد جب میں نے ”جسارت“ چھوڑا تو یہ تنخواہ بڑھ کر 2800 روپے کے قریب جا پہنچی تھی۔
بتانا یہ تھا کہ اس زمانے میں ہم پیسہ بہت احتیاط سے خرچ کرتے، بسوں اور ویگنوں (مِنی بسوں) میں دفتر آتے جاتے۔ عام سے ہوٹلوں میں سستی سی چائے پیتے اور تین یا چار روپے میں پیٹ بھر کھانا کھا لیتے تھے۔ اس زمانے میں، مَیں اور برادر اطہر ہاشمی روزانہ رات کو ایک بجے یا اس کے بھی بعد دفتر سے نکلتے۔ اُن دنوں دفتر نے رات گئے جانے والوں کے لیے گاڑی کا انتظام کررکھا تھا۔ کچھ عرصے تک یہ گاڑی چلتی رہی، پھر یہ سہولت ختم ہوگئی تو ہم ویگن ڈبلیو 11 میں جانے لگے۔ کبھی میں ان کا کرایہ ادا کردیتا، کبھی وہ ادا کردیتے۔ اب سوچتا ہوں تو تعجب ہوتا ہے کہ ان کی جیب میں پیسے بہت کم ہوتے تھے۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوا کہ انہیں سگریٹ خریدنے، چائے پینے اور پان کھانے کے لیے پیسے مجھ سے لینے پڑے۔ یہ کوئی بڑی بات نہ تھی، مگر وہ اس کا ذکر احسان بھرے انداز میں کربیٹھتے تھے، کہ دلایا تم نے تھا۔
ہم جب شام کے وقت دفتر پہنچتے تو دفتر میں بڑی رونق ہوتی، انتظامی شعبے کے افراد گھر جانے کی تیاری کررہے ہوتے۔ سٹی ڈیسک پر بہت سے لوگ ہوتے، نائٹ ڈیسک پر بھی کئی افراد مصروف ہوتے۔ ڈسٹرکٹ والے ہوتے، اشتہارات والے بیٹھے ہوتے، کاتبوں کی بھرمار تھی۔ چائے کے خوب دور چل رہے ہوتے۔ ہم بھی تازہ دَم ہوتے اور کام کا دباؤ بھی اسی وقت شروع ہوتا جس میں تیزی آتی جاتی، اور رات دس بجے کے بعد خبروں کا زور قدرے ٹوٹ جاتا۔ رات گئے ایک، ڈیڑھ یا دو بجے آخری کاپی جاتی تو ہم تھکے ہارے دفتر کی سیڑھیاں اترتے، کیونکہ لفٹ اُس وقت تک بند ہوچکی ہوتی۔ دفتر سے باہر آئی آئی چندریگر روڈ بھی سنسان ہوتی، جہاں دن میں دوڑتی گاڑیوں کا شور مچا رہتا تھا۔ اُس وقت ہم چند صحافی امید فاضلی صاحب کا ایک شعر اکثر دہراتے:۔

یہ سرد رات، یہ آوارگی، یہ نیند کا بوجھ
ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے

ایک دن میں نے شعر پڑھا:۔

دل تو مرا اداس ہے ناصرؔ
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے

اس پر برادرم اطہر ہاشمی نے ”تصحیح“ کی، بولے صحیح شعر یوں ہے:۔

دل تو میرا اداس ہے ناصرؔ
شہر کیوں سائِیں سائِیں کرتا ہے

اس پہ ہم خوب ہنسے۔ ہاشمی صاحب نے اردو کے ”سائیں سائیں“ یعنی تیز ہوا کا چلنا، مجازاً ویران ہونا کو سندھی کا ”سائِیں“ یعنی ”آقا، مالک، بزرگ“ کردیا تھا جو کراچی کے سندھ کا حصہ ہونے کی مناسبت سے پُرلطف تھا۔
ایک بار اسی طرح رات گئے دفتر سے نکل کر ہم آئی آئی چندریگر روڈ تک آئے، اس سے کچھ آگے شاہراہ لیاقت (فرئیر روڈ) اور محمد بن قاسم روڈ (برنس روڈ) کا سنگم تھا، وہاں سے ڈبلیو گیارہ کی ویگنیں مل جاتی تھیں جو تقریباً رات بھر چلا کرتی تھیں۔ سخت سردی کا موسم تھا۔ سب نے سردی سے بچاؤ کے لیے سوئیٹر، جیکٹ، کوٹ اور مفلر وغیرہ کا اہتمام کررکھا تھا۔ اس وقت ہمیں ایک صاحب صرف چھوٹی سی نیکر زیب تن کیے سڑک پہ دوڑتے دکھائی دیے۔ میں نے تعجب کا اظہار کیا کہ اتنی سخت سردی ہو رہی ہے اور یہ صاحب صرف ایک نیکر پر گزارہ کررہے ہیں۔ ان کو سردی نہیں لگ رہی ہوگی! اس پر ہاشمی صاحب سنجیدگی سے بولے ”نہیں، بس شروع میں ذرا سی سردی لگتی ہے، بعد میں موسم بہت خوش گوار ہوجاتا ہے!“
”جسارت“ میں مجھے دوسرا دن تھا۔ عملاً پہلا ہی کہیں، کیونکہ مجھ سے خبر سازی کا کام لینے کا آغاز دوسرے دن ہی سے ہوا۔ پہلے دن تو آزمائش کی غرض سے ٹیلی پرنٹر سے انگریزی میں آنے والی وہ خبریں دی گئی تھیں جن کا ترجمہ ہوچکا تھا۔ گویا یہ امتحان لیا گیا تھا۔ خیر، تو دوسرے دن ابتدا میں بہت چھوٹی چھوٹی خبریں مجھے تھمائی گئیں جو اخباری زبان میں ”سنگل کالمی“ کہلاتی تھیں۔ ان میں ایک خبر ہٹلر کے ذاتی ملازم کے چل بسنے کی تھی۔ اس ملازم نے مرنے سے قبل یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ اس نے خود ہٹلر کی لاش پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگائی تھی۔ یہ خبر بناکر میں نے ہاشمی صاحب کو دکھا دی۔ انہوں نے اوکے کردی ۔ ہٹلر کا ملازم ہونے اور اس کے انکشاف کے باعث خبر کی اہمیت تھی، اس لیے نیوز ایڈیٹر صاحب نے اسے باکس یعنی حاشیہ سے مزیّن کرکے چھاپ دیا۔ دوسرے دن شاید ادریس بختیار صاحب نے مجھ سے پوچھا ”ہاں بھئی کیسا کام چل رہا ہے آپ کا؟“ میں نے سر ہلا کر یقین دلایا کہ ٹھیک چل رہا ہے، تو ہاشمی صاحب بول پڑے ”ارے آج تو ان کی بنائی ہوئی خبر باکس میں شائع ہوئی ہے“۔ یوں ان کی چھوٹی سی حمایت نے میرا حوصلہ بلند کردیا۔
ہاشمی صاحب خبروں کی سرخیاں اچھی لگاتے تھے۔ ایک بار میں نے خبر بنائی کہ مصر کے صدر انورالسادات نے ایک جگہ کہا کہ میں عبرانی سیکھنے کی بڑی کوشش کرتا ہوں لیکن بڑی مشکل زبان ہے، میں تو سیکھ نہ سکا۔ دوسری طرف اسرائیلی وزیراعظم منہم بیگن کا کہنا تھا کہ عربی زبان مجھے بہت مشکل لگتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ سیکھ لوں مگر اس زبان کو سیکھنا میرے لیے بہت دشوار ہے۔
یہ خبر بنا کر میں نے ہاشمی صاحب سے فرمائش کی کہ اس کی سرخی آپ لگائیں۔ انہوں نے کچھ سوچ کر دو سرخیاں لگائیں، ان میں سے ایک یاد رہ گئی: ”سادات کو عبرانی سیکھنے میں دانتوں پسینے آگئے“۔ اتفاق سے اس دن نیوز ایڈیٹر کے فرائض خود ایڈیٹر یعنی صلاح الدین صاحب انجام دے رہے تھے۔ جس دن نیوز ایڈیٹر صاحب کی ہفتہ وار تعطیل ہوتی (اسے عام طور پر ”ویکلی آف“ کہا جاتا تھا) اس دن خود ایڈیٹر کو ان کی جگہ سنبھالنی پڑتی تھی۔ جب سادات اور بیگن کی خبر صلاح الدین صاحب تک پہنچی تو انہوں نے اسے پڑھ کر خاموشی سے اپنے باریک حروف میں اس سے بھی اچھی سرخی ڈال دی، وہ تھی ”دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی“!
ایک بار شہر بھر میں دھواں دھار بارش ہوئی۔ ہم لوگ بھیگتے ہوئے کسی نہ کسی طور دفتر پہنچ گئے۔ کچھ دیر بعد ہاشمی صاحب بھی پہنچ گئے۔ وہ ہم سے بھی زیادہ بھیگے ہوئے تھے۔ غالباً ان کی آمد کے وقت بارش اور زیادہ دھوم دھام سے ہونے لگی تھی۔ ہاشمی صاحب کپڑے سُکھانے کی غرض سے نیوز روم میں ٹہلنے لگے۔ پنکھے چل رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ چلنے پھرنے سے ان کا لباس جلد خشک ہوجائے گا۔ جسارت کے ایگزیکٹو ایڈیٹر اُن دنوں محترم عرفان غازی تھے، وہ بھی عرصہ ہوا مرحوم ہوچکے۔ غازی صاحب بڑے شفیق انسان تھے۔ وہ اپنے کمرے سے نکل کر آگئے اور ہاشمی صاحب سے کہنے لگے ”آپ شرٹ اتار دیں“۔ ہاشمی صاحب نے پتلون کے ساتھ بش شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ غازی صاحب کے دو تین بار کہنے پر انہوں نے ذرا جھجک کر جواب دیا ”میں بنیان پہنے ہوئے نہیں ہوں“۔ غازی صاحب نے شفقت سے کہا ”کوئی حرج نہیں، شرٹ اتار دیں“۔ لیکن ہاشمی صاحب چپ رہے، ٹہلتے ہوئے ایک دو چکر لگا کر ڈیسک پر آبیٹھے اور کام شروع کردیا۔
ایک بار گرمیوں کے موسم میں، مَیں دفتر میں داخل ہوا، ہمیں راہداری میں سٹی روم کے سامنے سے گزرتے ہوئے نائٹ ڈیسک تک آنا ہوتا تھا۔ سٹی روم کے دروازے سے میں نے دیکھا کہ سینئر رپورٹر جناب نذیر خان بنیان اور پتلون زیب تن کیے بیٹھے کام کررہے ہیں۔ بنیان بغیر آستینوں کے تھی اور نذیر خان صاحب حالانکہ خاصی عمر کے تھے لیکن جسمانی لحاظ سے تنومند تھے۔ ان کے بازوؤں کی بھری بھری مچھلیاں بڑی نمایاں تھیں۔ دفتر میں یہ انداز انوکھا تھا۔ میں نے نائٹ ڈیسک پر پہنچ کر کام شروع کردیا اور برابر میں بیٹھے اطہر ہاشمی صاحب سے ہولے سے کہا ”آج تو نذیر خان صاحب بنیان اور پتلون پہنے کام کررہے ہیں“۔ میں نے یہ بات بہت دھیمی آواز میں کہی تھی، لیکن پتا نہیں کس طرح نیوز ایڈیٹر کشش صدیقی صاحب نے سن لی۔ انہوں نے جھٹ ایک نائب قاصد کو بلایا اور کہا ”جاکر نذیر خان سے کہو کشش صاحب بلا رہے ہیں“۔ وہ فوراً گیا اور پیغام پہنچا کر آگیا۔ اس کے پیچھے پیچھے ہی نذیر خان بھی نیوز روم میں داخل ہوئے۔ انہوں نے اپنی شرٹ پہن تو لی تھی لیکن ایک آدھ بٹن ہی لگا سکے تھے، باقی بٹن کھلے ہوئے تھے۔ میں نے ہاشمی صاحب سے کھسر پھسر کی ”بٹن کھلے ہوئے ہیں“۔ ہاشمی صاحب بھی مسکراتے ہوئے ہولے سے بولے ”ہاں، بٹن نہیں لگے ہوئے ہیں“۔ کشش صاحب نے ان سے کچھ ”مصنوعی بازپرس“ کی۔ نذیر خان صاحب نے کچھ صفائی پیش کی تو کشش صاحب نے ان کو یاد دلایا کہ یہ دفتر ہے، ان کا گھر نہیں۔ نذیر خان صاحب ہارنا جانتے ہی نہ تھے، ترنت بولے ”ارے صاحب ستر عورت چُھپا کر کام کررہا ہوں!“ (حالانکہ وہ صرف ”ستر“ بھی کہہ سکتے تھے) اس پر ہاشمی صاحب چپ نہ رہ سکے، بول پڑے ”نذیر خان صاحب، آپ یوں کریں کل سے ایک لنگی اور بنیان پہن کر آئیے گا“۔ اس پر نذیر خان صاحب نے کچھ احتجاجی نظروں سے ہاشمی صاحب کو دیکھا تو ہاشمی صاحب بولے ”اطمینان سے ستر عورت چُھپا کر کام کیجیے گا!“ ان کے اس فقرے کے بعد نذیر خان صاحب نے چپ چاپ لوٹ جانے میں عافیت جانی۔
کچھ عرصے بعد اطہر ہاشمی صاحب نے ایک کاواساکی موٹر سائیکل خرید لی۔ میں جھٹ ان کا ہم نشیں بن بیٹھا۔ وہ مجھے ”پکی سواری“ کہنے لگے۔ کوئی ان سے پوچھتا کہ ہاشمی صاحب آج مجھے راستے میں فلاں جگہ چھوڑتے جائیں گے؟ تو ہاشمی صاحب نرمی سے معذرت کرتے ہوئے کہتے ”نہیں بھئی میرے ساتھ تو ”پکی سواری“ ہے“۔ ہاشمی صاحب کے ساتھ سفر کرتے ہوئے بڑا لطف آتا۔ رات کا وقت، ٹریفک بہت ہی کم، ہوا قدرے ٹھنڈی۔ ایسے میں گپ لگاتے، خیالات کا تبادلہ کرتے، سفر ہنسی خوشی گزر جاتا۔ کبھی کبھی ہم چائے پینے لیاقت آباد ڈاک خانہ پر ایک ہوٹل پر رک جاتے۔ وہاں بڑی رونق ہوتی۔ ہاشمی صاحب چائے کے بعد پان کھاتے۔ ان کا پسندیدہ پان ”ڈبل سادہ“ تھا۔ یعنی سادہ پان جو کتھا چونا لگا کر رکھا ہوتا ہے، اس پر چونے کا ایک اور رول پھیر کر کٹی ہوئی چھالیہ ڈال کر پیش کردیا جائے۔ یہ ہوا ”ڈبل سادہ“۔ سگریٹ بھی وہ مخصوص برانڈ کا پیتے تھے ”وڈبائن سادہ“ (ایک فلٹر والا بھی آتا تھا، کہتے تھے فلٹر سے سگریٹ کی تیزی ختم ہوجاتی ہے، مزہ بھی کم ہوجاتا ہے)۔ ایک بار میں نے ”ڈبل سادہ“ کی پسندیدگی کی وجہ پوچھی تو بولے ”بھئی وہ ایک طرح کا تڑکا لگ جاتا ہے۔“
ایک بار انہوں نے چائے پینے کے بعد پان منہ میں دبایا اور موٹر سائیکل کی ڈرائیونگ سیٹ پر آبیٹھے۔ میں ان کی ”پشت پناہی“ کرنے لگا۔ موٹر سائیکل اسٹارٹ کرکے انہوں نے سگریٹ کے سرے کو اشتعال دلایا اور پھر ایک لمبا سا کش لیا۔ میں نے حیران ہوکر پوچھا کہ پان کھاتے ہوئے سگریٹ پئیں گے؟ بولے ”ہاں اب ہی تو مزہ آتا ہے“۔ پھر اسی طرح موٹر سائیکل چلاتے اور سگریٹ کشی کرتے ہوئے پوچھنے لگے ”دھواں تمہیں تو پریشان نہیں کرتا؟“ ان کے منہ سے برآمد ہونے والا دھواں مجھ تک پہنچنے سے پہلے ہی اِدھر اُدھر ہوچکا ہوتا تھا کیونکہ ہوا تیز چل رہی ہوتی اور اس کا رخ میری طرف نہیں ہوتا تھا۔ میں نے انہیں یقین دلایا کہ دھواں مجھے بالکل تکلیف نہیں دیتا۔ کہنے لگے ”بیگم کو شکایت ہوتی ہے کہ موٹر سائیکل پر آپ کے سگریٹ کا دھواں میری طرف آتا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ بھئی کلیم نے تو آج تک کوئی شکایت نہیں کی“۔ اس پر میں نے خیال ظاہر کیا کہ موٹر سائیکل پر خواتین ذرا مختلف انداز سے بیٹھتی ہیں۔ اس لیے بھابھی کو شکایت ہوتی ہوگی۔
نیوز ڈیسک پر ان کی فقرے بازیاں مشہور تھیں۔ وہ بڑی معصومیت سے جملہ چست کرکے سنجیدگی کا لبادہ اوڑھ لیتے۔ کبھی کبھی فرصت ہوتی تو کسی مصرع پر، پُرمزاح تک بندی شروع ہوجاتی۔ ایک بار سلامی صاحب نے ایک شعر اپنے سامنے رکھے کاغذ پر لکھا، غالباً کچھ یوں تھا:۔

رات فلک پر چرچا ہو گا
چاند زمیں پر نکلا ہو گا

اس پر میں نے اطہر ہاشمی صاحب سے کہا، اس پر گرہ لگائیں۔ ہاشمی صاحب نے اسی وقت بیٹھے بیٹھے ایک نہیں تین گرہیں لگادیں۔ انہوں نے اپنے سامنے رکھے پیڈ پر لکھا:۔

کون جہاں میں ہم سا ہو گا
اور ہوا تو پھر کیا ہو گا
وقتِ سفر بس اس کی یادیں
دَھن دولت نہ روپیا ہو گا
گوشت تو ہوں گے اور بہت سے
سب سے مزے کا بھینسا ہو گا!۔

اطہر ہاشمی ”جسارت“ میں رہتے ہوئے نیوز روم کے شفٹ انچارج بنے، جو نیوز ایڈیٹر کے بعد بڑا عہدہ مانا جاتا ہے۔ پھر وہ نیوز ایڈیٹر بنائے گئے۔ اس کے بعد انہیں ایگزیکٹو ایڈیٹر مقرر کردیا گیا۔ پھر میں نے ”جسارت“ کو خیرباد کہا لیکن برادر اطہر ہاشمی سے تعلق قائم رہا۔ اس کے بعد سنا کہ وہ ”اردو نیوز“ جدہ میں چلے گئے۔ جب 1997ء میں اللہ نے مجھے اور اہلیہ کو حج بیت اللہ کی سعادت عطا فرمائی تو ان دنوں اطہر ہاشمی وہیں جدہ میں مقیم تھے۔ برادرم جمیل عثمان مجھے ”اردو نیوز“ کے دفتر لے گئے۔ وہاں اطہر ہاشمی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ پھر شام میں ہم ان کے گھر گئے۔ اطہر ہاشمی صاحب نے مجھ سے کہا ”ارے میاں یہاں آؤ تو یہاں بھی ٹھیر سکتے ہو، یہ بھی تمہارا ہی گھر ہے۔“
جب وہ ”اردو نیوز“ جدہ چھوڑ کر واپس پاکستان آگئے تو ”جسارت“ والوں نے انہیں بلا کر ایڈیٹر بنادیا۔ کچھ برسوں بعد انہیں چیف ایڈیٹر بنا دیا گیا۔ میں نے انہیں فون کرکے شکوہ کیا کہ یہ کیا درباری عہدہ آپ نے قبول کرلیا ہے! اصل کام تو ایڈیٹر کا ہوتا ہے۔ چیف ایڈیٹر تو بس ملکہ وکٹوریہ کی طرح بیٹھا رہتا ہے۔ فرمایا ”ارے نہیں بھئی، میں اب بھی اخبار کے سب کام دیکھتا ہوں۔ نیوز ڈیسک پر بھی جاتا ہوں، وہاں اپنی ذمہ داریاں ادا کرتا ہوں۔“
ان کی برجستہ شوخ بیانی کے چند نمونے چکھتے چلیے۔
جس زمانے میں وہ ”اردو نیوز“ جدہ کے میگزین ایڈیٹر تھے، اللہ نے مجھے اور اہلیہ کو حج بیت اللہ کی سعادت عطا فرمائی۔ میں اپنے دوست جمیل عثمان کے ساتھ ”اردو نیوز“ کے دفتر گیا۔ وہاں اطہر ہاشمی صاحب مسکراہٹیں تقسیم کرتے ملے۔ ذرا دیر بعد روزنامہ ”جسارت“ کے ہمارے ایک پرانے ساتھی نیاز احمد مدنی بھی تشریف لے آئے (وہ بھی اب مرحوم ہوچکے)۔ وہ ”جسارت“ چھوڑ چکے تھے اور کراچی میں ”اردو نیوز“ جدہ کے لیے کام کرتے تھے۔ وہ بھی حج بیت اللہ کے لیے آئے ہوئے تھے۔ مجھے دیکھا تو بہت خوش ہوئے۔ اطہر ہاشمی صاحب نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ چیف ایڈیٹر سے بھی ملاقات کرلیں۔ نیاز مدنی صاحب نے معذرت کرلی۔ ہاشمی صاحب نے دو چار بار اصرار کیا تو مدنی صاحب بولے ”ارے نہیں یار، ابھی معمولی سے کپڑے پہنے ہوئے ہوں“۔ اطہر ہاشمی صاحب فوراً بولے: ”فکر نہ کریں، میں چیف ایڈیٹر کو بتادوں گا کہ ان کے پاس بہت کپڑے ہیں!“ وہاں موجود تمام لوگ ہنس پڑے لیکن مدنی صاحب تیار ہی نہ ہوئے۔
روزنامہ ”جسارت“ میں ایک سینئر صحافی تھے۔ قد آور شخصیت تھی۔ ایک شعبے کے ایڈیٹر بھی تھے۔ حیدرآباد دکن سے تعلق تھا۔ ان کی گفتگو سننے میں بڑا لطف آتا تھا کیونکہ وہ دکنی رنگ لیے ہوتی تھی۔ لیکن ایک نمایاں بات یہ تھی کہ ایک بڑی غیر مناسب گالی، تکیہ کلام کے طور پر ان کی زباں پر مچلتی رہتی تھی۔ اکثر ایسے موقع پر جہاں لوگوں کو توقع بھی نہ ہو، وہ تکیہ کلام ایک خاص جچے تُلے انداز میں ان کی زبان سے برآمد ہوجاتا۔ کچھ لوگ شرمندگی سے ہنس پڑتے۔ کچھ من چلے مزہ لیتے اور صاحبِ تکیہ کلام سے جان بُوجھ کر کوئی ایسی بات کہتے کہ تکیہ کلام پھر نمودار ہوجاتا۔ ایک بار ایک محفل میں صاحبِ تکیہ کلام کی موجودگی ہی میں ان کے تکیہ کلام کا ذکر چھڑ گیا۔ ہر ایک اپنا تبصرہ کرنے لگا۔ اطہر ہاشمی صاحب کا تبصرہ سب پہ بھاری تھا۔ کہنے لگے: ”ارے صاحب، یہ تو اسی تکیہ کلام کے ڈر سے قرآن شریف بھی نہیں پڑھتے ہیں!!!“ ۔
زبردست قہقہہ پڑا۔ صاحبِ تکیہ کلام خفیف ہوگئے، اور کچھ نہیں سوجھا تو وہی تکیہ کلام دہرا کر بولے: ”……. ایک سے ایک پڑا ہوا ہے!“
ایک بار ایک ادبی نشست میں کسی صاحب نے مضمون پڑھ کر سنایا جو ان کے خیال میں فکاہی تھا۔ اس میں ذرا آزادانہ اور غیر مہذبانہ جملے بھی شامل تھے۔ خیر مضمون مکمل ہوا تو لوگوں نے رسمی سی داد دی۔ اطہر ہاشمی صاحب بولے: ”بس ذرا بیچ میں کہیں کہیں مائک بند کردینا چاہیے تھا۔“
میری ”خانہ آبادی“ ہوئی تو تقریبِ ولیمہ میں نیوز ڈیسک اور سٹی ڈیسک کے بہت سے لوگ تشریف لائے۔ روزنامہ ”جسارت“ کے منتظمِ اعلیٰ (چیف ایگزیکٹو) محترم محموداعظم فاروقی صاحب، ایڈیٹر محترم صلاح الدین صاحب اور شعبۂ صحافت کے بزرگ استاد محترم متین الرحمٰن مرتضیٰ بھی ازراِہ کرم شریک ہوئے۔ جب ”جسارت“ کی گاڑی سے سارے ساتھیوں کا قافلہ اترکر شادی ہال میں داخل ہوا تو آگے آگے جناب اطہر ہاشمی تھے جنہوں نے اپنے ہاتھوں کو پھیلا کر ایک بڑا سا ڈبہ سنبھال رکھا تھا۔ بعد میں پتا چلا کہ ”جسارت“ کے ساتھیوں نے مل جُل کر رقم جمع کی تھی اور میرے لیے ڈنر سیٹ خریدا گیا تھا۔ اس کے کئی برتن 38 برس گزر جانے کے باوجود آج بھی ہمارے پاس موجود ہیں۔
سب سے دلچسپ بات تو اس لمبے چوڑے پیکٹ پر لگی ہوئی عبارت تھی۔ اطہر ہاشمی صاحب نے اپنی خوش خط تحریر میں لکھا تھا:
”تنہائیاں ختم ہوجانے کے بعد ”تن ہا“ ہوجانے پر
برادرم کلیم چغتائی کے لیے ”جسارت“ کے دوستوں کا تحفہ“
اطہر ہاشمی وہاں چلے گئے جہاں اس جہانِ فانی کی ہر مخلوق کو جانا ہے۔ لیکن وہ اپنی روشن، لطیف اور لطف آگیں شخصیت کی بے شمار اور ناقابلِ فراموش یادوں کی صورت ہمارے دلوں میں آج بھی بستے ہیں۔ وہ ایسے باکمال انسان تھے کہ کسی وعظ ونصیحت کے بغیر ہی کتنے ہی کردار سنوار گئے۔ تبسم ریز جملوں میں کام کی بات سُجھا گئے، صراطِ مستقیم دکھا گئے۔ کتنوں کو بڑی شفقت سے تربیت دی۔ زبان و بیان سے اغلاط کو رخصت کروایا۔ کتنوں نے فیض پایا اور جانے کب تلک فیض کا یہ چشمہ پھوٹتا رہے گا، لوگ بڑھ بڑھ کر سیراب ہوتے رہیں گے اور اس باکمال و خوش خصال شخصیت کے لیے خیر بلند سے بلند تر ہوتا جائے گا۔

اطہر ہاشمی مرحوم کا انٹرویو … ایک وضاحت

فرائیڈے اسپیشل کے تازہ شمارے میں برادرم اطہر ہاشمی مرحوم کا انٹرویو بہت معلومات افزا ہے، تاہم ریکارڈ کی درستی کے لیے ایک وضاحت پیشِ خدمت ہے۔ انٹرویو سے تاثر ملتا ہے کہ بھٹو دور میں اخبار کے ایڈیٹر اور پبلشر وغیرہ کی گرفتاریاں محض میرے لکھے ہوئے ایک اداریے پر ہوئی تھیں، جبکہ یہ سلسلہ میرے تحریر کردہ اداریے کی اشاعت سے پہلے سے جاری تھا۔ میری یادداشت کے مطابق اخبار کے خلاف پہلی کارروائی جماعت اسلامی کے اُس وقت کے امیر میاں طفیل محمد کے ساتھ جیل میں مبینہ طور پر بھٹو کے خصوصی حکم پر ہونے والے تشدد اور بدسلوکی پر صلاح الدین شہید کے لکھے ہوئے مقالۂ خصوصی کے بعد ہوئی تھی، جو اخبار کے پہلے صفحے پر ایڈیٹر کے دستخط کے ساتھ شائع ہوا تھا۔ یہ تحریر انہوں نے ہم تمام ساتھیوں کو کتابت میں دینے سے پہلے زار و قطار روتے ہوئے پڑھ کر سنائی تھی، اور سننے والوں میں سے بھی کوئی ایسا نہ تھا جس کی آنکھوں سے آنسو جاری نہ ہوں۔ توقعات کے عین مطابق اس مقالۂ خصوصی کی اشاعت کے فوراً بعد ایڈیٹر اور پبلشر کی گرفتاری اور اخبار کے خلاف کارروائی ہوئی اور پھر یہ سلسلہ معمول بن گیا۔ حتیٰ کہ جولائی 1974ء میں صلاح الدین صاحب کی گرفتاری اس اعلان کے ساتھ ہوئی کہ اب یہ اپنی زندگی میں جیل سے باہر نہیں آئیں گے، اور جسارت بھی اس کے بعد بھٹو دور کے خاتمے تک بند ہی رہا۔ جسارت کی دوبارہ اشاعت کا سلسلہ اگست 1977ء میں ضیاء دور میں شروع ہوا۔ میرے لکھے ہوئے جس اداریے کی بات میرے مرحوم بھائی نے اس انٹرویو میں کی ہے، اس کے لکھے جانے سے پہلے ہی جسارت کے ایڈیٹر صلاح الدین صاحب اور پبلشر سید ذاکر علی صاحب جسارت کے دیگر اداریوں یا خبروں وغیرہ کی اشاعت کی پاداش میں جیل میں تھے اور حکیم اقبال حسین صاحب قائم مقام ایڈیٹر تھے، جبکہ پبلشر بھی کوئی اور صاحب تھے، اور یہی دونوں حضرات میرے تحریر کردہ اداریے پر گرفتار ہوئے تھے۔ یہ اداریہ اندرونِ سندھ سندھی قوم پرستوں کی طرف سے دہشت گردی کی کسی کارروائی کی مذمت میں لکھا گیا تھا جس کا ہدف ریلوے ٹریک تھا۔ اداریے کی سرخی تھی ’’دہشت کی سیاست۔۔۔۔ ہلاکت کی راہ‘‘۔ اس کے خلاف مقدمہ یہ بنایا گیا تھا کہ اس میں عوام کو دہشت گردی پر اکسانے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن عدالت نے اپنے فیصلے میں دوٹوک الفاظ میں لکھا تھا کہ اس تحریر میں دہشت گردی کی حوصلہ افزائی نہیں مذمت کی گئی اور اس کی روک تھام کی ضرورت واضح کی گئی ہے۔ برادرم اطہر ہاشمی مرحوم چونکہ جسارت سے اس کے دوسرے دور میں وابستہ ہوئے لہٰذا بھٹو دور کے بارے میں انہیں براہِ راست معلومات کا حاصل نہ ہونا اور ان کے بیان میں غلطی کرجانا قابلِ فہم ہے۔
ثروت جمال اصمعی (14 اگست2020 ء) ۔