المیہ فلسطین ماضی، حال اور مستقل کے آئینے میں
امتِ مسلمہ کا المیہ یہ ہے کہ عالم اسلام تقسیم ہے اور استعماری ایجنڈے کی تکمیل میں مسلم حکمرانوں کا پورا پورا حصہ ہے، اور اس کی ایک علامت متحدہ عرب امارات کا اسرائیل کے ساتھ سمجھوتا ہے جو یقیناً ایک بڑی غداری اور المیے سے کم نہیں، جس کے نتیجے میں المیۂ فلسطین آج پھر ہمارے سامنے تازہ ہوگیا ہے۔ بھارتی صحافی منور مادیوان کی کتاب ’’عرب اور اسرئیل‘‘ المیۂ فلسطین کو ماضی، حال اور مستقبل کے آئینے میں سمجھنے کے لیے ایک اہم کتاب ہے۔ اور عرب اسرائیل مسئلے کو سمجھنے کے لیے ایک عام آدمی کو جتنی ضروری معلومات چاہئیں وہ انہوں نے اس چھوٹی سی کتاب میں مہیا کردی ہیں۔ شریمتی منور مادیوان بنیادی طور پر دردِ دل رکھنے والی، مظلوموں سے ہمدردی کرنے والی ہندو مصنفہ ہیں اور اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی پر قلم اٹھاتی رہی ہیں۔ اپنی اسی طبیعت کے مطابق انہوں نے عرب اسرائیل مسئلے پر پوری معلومات کے ساتھ مختصر سا ایک انگریزی کتابچہ لکھا جس کا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے۔ منور مادیوان نے اس مسئلے کے ہر پہلو کا باریک بینی کے ساتھ جائزہ لیا ہے۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن انگریزی میں 1966ء میں شائع ہوا تھا، اس کے علاوہ ہندی اور عربی میں ترجمہ بھی شائع ہوچکا ہے، اردو ایڈیشن پہلی بار جنوری1968ء میں چھپا تھا۔ یہ کتاب اپنی معلومات کے ساتھ اس لیے بھی اہم ہے کہ ایک بھارتی مصنفہ کی لکھی ہوئی ہے جن کی ایک کتاب ’’انقلاب زندہ باد‘‘جو اُن کی بچپن کی یادوں پر مشتمل ہے، مشہور رہی ہے۔ ان کی والدہ شریمتی سیتا دیوی 1946ء میں لاہور سے پنجاب کی ممبر چنی گئیں اور تقسیم کے بعد پنجاب اسمبلی اور کونسل کی ممبر رہیں، اور جب انتقال ہوا تو راجیا سبھا کی ممبر تھیں۔ والد پرنسپل چھبیل داس نے بھی آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا تھا، اور بھگت سنگھ ان کے شاگردوں میں سے تھا۔ استعماری ایجنڈے کی تکمیل کے لیے بڑی طاقتیں کس طرح قوت اور وسائل فراہم کرتی ہیں اور اپنے گھنائونے منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے جس سفاکی کا مظاہرہ کرتی ہیں اس کو سمجھنے لیے اس کتاب میں بہت کچھ موادہے، جس کی بعض چیزوں سے یقیناً اختلاف کی گنجائش بھی موجود ہے لیکن امید ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے قارئین کو عرب اسرائیل اور استعماری کھیل اور اس میں پھنسی بے بس امتِ مسلمہ کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ (ادارہ)۔
تاریخ کے آئینے میں
اونٹ اور عرب کی کہانی تو آپ نے سنی ہی ہوگی۔ بس یہی سمجھ لیجیے کہ فلسطین کے بدنصیب عربوں ہی کے بارے میں یہ کہانی کہی گئی تھی۔ اس میں خیمے کو آپ فلسطین کا نام دے سکتے ہیں اور اونٹ کی جگہ وہ یہودی آبادکار لے سکتے ہیں جو اس صدی کے شروع میں فلسطین کی سرزمین پر پہنچے۔ عربوں کے ساتھ انہوں نے جو کچھ کیا اس کا سب سے تازہ اظہار وہ حملہ ہے جس نے چنگیز و ہلاکو، ہٹلر اور مسولینی کے جارحانہ حملوں کو بھی اپنی سفاکی اور وحشیانہ طریقوں میں مات کردیا۔ پانچ دن کے اندر اندر اسرائیل اپنے سے ساڑھے تین گنا زیادہ رقبے پر قابض ہوگیا، اسی دوران میں ساٹھ ہزار عرب سپاہی اپنے وطن کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوئے، لاکھوں بے قصور لوگ خانماں برباد ہوگئے، عرب فوجی طاقت لمبی مدت کے لیے تباہ ہوکر رہ گئی، ہزاروں سہاگنوں کا سہاگ اجڑ گیا، لاکھوں بچے یتیم ہوگئے، بیت المقدس، یروشلم اور کوہِ طور کی سرزمین صحرائے سینا پر یہودی ٹینک دندنانے لگے اور پورے ایشیا اور افریقہ کی آزادی کے لیے اس دور کا سب سے بڑا خطرہ نمودار ہوگیا۔
یہ ہے اس معصوم سے اونٹ کا ’’کارنامہ‘‘ جو پہلی بار اِس صدی کے شروع میں فلسطین کی سرزمین پر نمودار ہوا تھا۔ اُس وقت سے لے کر اب تک جو کچھ ہوا ہے وہ مکاری، دھوکہ دہی، سازش، فریب، جارحیت اور سینہ زوری کی وہ داستان ہے جس کی مثال انسانی تاریخ میں اور کہیں نہیں ملتی۔
یہ سب کچھ کیسے ہوا، اسے سمجھنے کے لیے آیئے اس کہانی کو شروع ہی سے شروع کریں۔
بحیرۂ اٹلانٹک سے لے کر بحیرۂ عرب تک عرب دنیا پھیلی ہوئی ہے۔ فلسطین ہمیشہ سے اسی عرب دنیا کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ فلسطین کے باسی عام طور پر عرب دنیا میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے، باشعور اور باہمت لوگ سمجھے جاتے ہیں۔ پرانے وقتوں سے لے کر آج تک فلسطین کی پوتر دھرتی دنیا کے تین بڑے مذہبوں عیسائیت، اسلام اور یہودیت کے لیے متبرک اور مقدم رہی ہے۔
تاریخی زمانے کے آغاز کے وقت فلسطین پر کنعانیوں کا قبضہ تھا۔ یہ لوگ جزیرۃ العرب سے آکر یہاں آباد ہوئے تھے۔ جغرافیائی طور پر فلسطین کو مغربی ایشیا کے ایک چوراہے کی حیثیت حاصل تھی، شاید اسی لیے یہاں پر ہندوستان ہی کی طرح کئی اطراف سے آنے والے حملہ آوروں کا تانتا بندھا رہا۔ ان میں کنعانی، فیعثانی، عبرانی، یونانی، رومی، ایرانی، صلیبی جنگوں کے دوران آنے والے یورپین اور اِس صدی کے شروع تک فلسطین پر راج کرنے والے عثمانی ترک بھی شامل تھے۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ اتنے زیادہ فاتحوں کے باوجود فلسطین کا عرب کردار سو فیصدی حد تک قائم رہا، زمین پر عربوں ہی کا قبضہ رہا اور 95 فیصد آبادی بھی عربوں ہی کی رہی۔ تجارت، علمی لین دین، سماجی تعلقات اور مذہب کے سلسلے میں بھی فلسطین کے باشندے عرب دنیا کے دوسرے حصوں سے پوری طرح جڑے رہے۔
یہی وہ حقائق تھے جن کی بنا پر موجودہ وقت کے سب سے اہم مؤرخ پروفیسر آرنلڈ ٹائن بی نے اپنی مشہور کتاب ’’عالمی تاریخ کا مطالعہ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’مجھے اپنے اُن ہم وطن انگریزوں کی سمجھ پر ہنسی آتی ہے جو فلسطین پر یہودیوں کا کوئی بھی حق تسلیم کرتے ہیں، 18 سو سال بعد یہودی اب یہ کہنے لگے ہیں کہ یہ سرزمین ان کی تھی کیونکہ اُن کے بزرگوں نے وہاں پر کبھی ستّر سال تک حکومت کی تھی۔ اگر ان کا یہ دعویٰ مان لیا جائے تو پھر امریکہ پر وہاں کے موجودہ باسیوں کا کوئی حق تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ نہ ہی انگلستان یہ انکار کرسکتا ہے کہ اس پر اب بھی رومنوں کا قبضہ نہیں ہونا چاہیے، سچ تو یہ ہے کہ یہودیوں کا دعویٰ ہے ہی سراسر غلط، آج کی دنیا میں اتنے پرانے نسلی اور مذہبی دعووں کو مان لینا ایک بہت بڑے خطرے کو دعوت دینے کے برابر ہے‘‘۔
صہیونی سایہ
فلسطین کی حالیہ تاریخ اس صدی کے آغاز سے شروع ہوتی ہے۔ اُس وقت یورپ کے کچھ یہودیوں نے آسٹریا کے ایک یہودی جرنلسٹ ہرزل کی رہنمائی میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ ارضِ مقدس میںکچھ یورپین یہودی جاکر آباد ہوں۔ یہ فیصلہ صرف اسی لیے نہیں کیا گیا تھا کہ فلسطین کی دھرتی سے یہودیوں کو کچھ ایسا ہی مذہبی لگائو رہا ہے جیسا کہ ہندوستان کے کچھ بودھ دھارمک استھانوں یعنی سارناتھ اور گیا سے دنیا بھر کے بودھوں کو ہے۔ فلسطین میں بستیاں بسانے میں یہودیوں کو سب سے بڑی آسانی یہ بھی تھی کہ دنیا میں اور خاص طور پر یورپ میں کوئی بھی ملک یہودیوں کو منہ لگانے کے لیے تیار نہیں تھا، مگر عرب دنیا میں یہودی ہمیشہ سے امن و امان کی زندگی بسر کرتے رہے تھے۔ اسی لیے یہودیوں نے جب سوئٹزر لینڈ کے شہر باسلے میں اپنی پہلی صہیونی کانگریس (27 اگست 1897ء) منعقد کی تو ان کی نظر فلسطین ہی پر پڑی، یہاں پر عرب آبادی کی فراخ دلی کے باعث انہیں امید تھی کہ ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی۔
صہیونی کانگریس کا بظاہر مقصد صرف یہ بتایا گیا کہ دنیا کے سب یہودی مل کر دنیا کے کسی حصے میں ایک ایسی ریاست بنانے کی کوشش کریں جہاں پر یہودی دھرم کے احکام کے مطابق حکومت کا کام چلایا جائے۔ اس مقصد کے لیے کئی علاقوں پر نگاہ پڑی، مثال کے طور پر جزیرۂ قبرص میں ایک یہودی ریاست قائم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا، مگر یونانیوں کی زبردست مخالفت کے باعث اسے ترک کردیا گیا۔ پھر تجویز ہوئی کہ مشرقی افریقہ یعنی کینیا میں یہودی حکومت قائم کردی جائے، ہرزل نے یہ تجویز مان بھی لی مگر پھر برطانوی حکومت اور بارسوخ یہودیوں نے اسے کئی اور مصلحتوں کی بنا پر رد کردیا۔ ایک بار سینائی کے صحرا میں وادیٔ العریش کے آس پاس بھی ایسی حکومت بنانے کا خیال آیا، مگر مصری حکومت نے اسے فوراً رد کردیا۔ یہ محض اتفاق ہی نہیں تھا کہ ایشیا کی دھرتی پر یورپین یہودیوں کی ایک کالونی بنانے کے خیال نے اُسی وقت جنم لیا جبکہ یورپین سامراج اور خاص طور پر برطانوی امپیریلزم مشرق میں اپنی نوآبادیوں کی حفاظت کے لیے سر توڑ کوشش کررہا تھا۔
برطانیہ کے بدنام ترین سامراجی وزیراعظم ڈاسرائیلی نے جو کہ خود یہودی نژاد تھا اپنی سرکاری ڈائری میں لکھا ہے کہ ’’ہندوستان کی حفاظت مصر میں مورچہ بنائے بغیر نہیں کی جاسکتی‘‘۔ ڈاسرائیلی نے یہ بھانپ لیا تھا کہ برطانوی سامراج کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ عرب دنیا پر برطانوی تسلط قائم کیا جائے۔ نہر سویز کے کھلنے کے کارن فلسطین اور اس کے آس پاس کے علاقے کی اہمیت اور بھی زیادہ بڑھ گئی تھی، عین اسی لیے انگریزی حکومت نے دل کھول کر صہیونی ارادوں کی حوصلہ افزائی کی۔ بارسوخ برطانوی سرمایہ داروں نے اپنے بینکوں کے دہانے یہودی آبادکاروں کے لیے کھول دیئے تاکہ وہ اس روپے کی مدد سے فلسطین میں زرعی زمینیں خرید کر اپنی نوآبادیاں قائم کرلیں۔ اسی دوران یہودیوں نے سلطانِ ترکی کو کافی روپے کی مدد سے بہلانے اور ورغلانے کی کوشش کی کہ وہ فلسطین کا ایک بڑا حصہ ان کی تحویل میں دے دے۔ سلطان نے یہ بات تو نہ مانی لیکن کچھ یہودی روپے سے مرعوب ہوکر اور کچھ اپنی سادگی اور فراخ دلی کی بدولت اس نے چند خاص علاقوں میں یہودیوں کو آباد ہونے کی اجازت دے دی۔ پہلی جنگ عظیم کے شروع تک روس، پولینڈ اور آسٹریا وغیرہ سے آنے والے یہودی آبادکاروں نے فلسطین کے کچھ علاقوں میں اپنی بستیاں قائم کرلی تھیں، لیکن اس کے باوجود دوسری جنگ عظیم تک یہودی دو فیصدی سے زیادہ زرعی رقبے پر قابض نہیں تھے، آبادی کے لحاظ سے بھی فلسطین کی سات لاکھ آبادی میں سے ان کی تعداد پچاس ہزار سے کم تھی، ان 50 ہزار یہودیوں میں سے بھی اکثریت ایسے یہودیوں کی تھی جو صدیوں سے فلسطین میں آباد تھے اور جنہیں عرب مصنف عام طور پر ’’عرب یہودیوں‘‘ کا نام دیتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ 1918ء تک فلسطین میں ایک یہودی ریاست بنانے کا خواب دیکھنے والوں کی کُل تعداد دو یا تین فیصدی سے زیادہ نہیں تھی۔ ان دو تین فیصدی لوگوں میں سے بھی چند گنے چنے یہودی لیڈروں کے سوا کسی کو خیال نہیں تھا کہ فلسطین میں ان کی حکومت قائم ہوجائے گی۔ مگر پہلی جنگِ عظیم نے سامراجی خوابوں کو پورا کرنے کا ایک عظیم موقع فراہم کردیا۔
بندر بانٹ
پہلی جنگِ عظیم کے دوران انگریزوں نے کئی طرح کے حربوں اور رسوائے زمانہ جاسوس کرنل ٹی ای لارنس کی مدد سے عربوں کو ترکوں کے خلاف اپنے ساتھ ملالیا۔ فلسطین، شام اور عرب دنیا کے کئی اور علاقوں کو پہلے باغی عربوں ہی نے فتح کیا تھا، اتحادیوں نے نہیں۔ مگر عین اُس وقت جب عرب، عثمانی ترکوں سے فلسطین اور دوسرے عرب علاقے اس امید پر خالی کروا رہے تھے کہ اس طرح وہاں پر ان کا اپنا راج قائم ہوجائے گا، انگریز سامراجی تاریخ کی سب سے گھنائونی سازش میں مصروف تھے۔
فلسطین پر اتحادی قبضے کے بعد عربوں سے دو طرح کی غداری کی گئی۔ پہلی تو یہ کہ عرب ملکوں کو وعدے کے مطابق آزاد کرنے کے بجائے انہیں برطانیہ اور فرانس نے ’’امانتی علاقوں‘‘ کے طور پر آپس میں بانٹ لیا۔ اس بندر بانٹ میں فلسطین اور عراق انگریزوں کے قبضے میں آئے اور شام اور لبنان فرانسسیوں کے تسلط میں۔ اس سے بھی شرمناک حرکت یہ کی گئی کہ 2 نومبر 1917ء کو برطانیہ کے وزیر خارجہ لارڈ بالفور نے یہودیوں کی عالمی تحریک کے رہنما اور انگلستان کے سب سے بڑے بینکر لارڈ روتھ شائیلڈ (Rothschild) کو ایک سرکاری خط لکھا جس میں کہا گیا ’’مجھے ملکِ معظم کی حکومت کی طرف سے صہیونی تحریک کے لیے ہمدردی اور حمایت کا اعلان کرتے ہوئے بے حد خوشی محسوس ہورہی ہے۔
آپ یہ جان کر خوش ہوں گے کہ ملکِ معظم کی حکومت فلسطین میں یہودی لوگوں کے لیے ایک قومی گھر بنانے کی تجویز کا خیرمقدم کرتی ہے اور یقین دلاتی ہے کہ وہ اس مقصد کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔ یہ امر واضح رہے کہ اس پالیسی سے مقامی آبادی کے حقوق پر یا دوسرے ملکوں میں آباد یہودیوں کے حقوق پر کسی قسم کا حرف نہیں آئے گا، میں شکر گزار رہوں گا کہ آپ اگر اس اعلان کو صہیونی فیڈریشن کے عہدیداروں تک پہنچنا دیں۔‘‘
اس اعلان کو عام طور پر بالفور اعلان کا نام دیا جاتا ہے، حالیہ تنازعے کی جڑ یہی اعلان کہا جاسکتا ہے۔ فلسطین میں عربوں کا المیہ یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد فلسطین کی تاریخ میں ہمیں انگریزی سامراج کی مکاریوں، شاطرانہ چالوں اور عربوں پر ظلم و جبر کے سوا اور کچھ نہیں ملتا۔ پنڈت نہرو نے 1937ء میں ماڈرن ریویو میں شائع شدہ ایک مضمون کے دوران بجاطور پر یہ لکھا ہے کہ ’’بالفور اعلان عربوں کے ساتھ برطانیہ کی غداری کی سب سے بڑی مثال تھی‘‘۔
(جاری ہے)