فیصل آباد کے احوال کو دیکھیں تو جناب وزیراعظم کا یہ اعلان کہ ’’ترقی کا دور شروع ہوچکا ہے‘‘پاکستانی عوام سے بھونڈے مذاق کے سوا کچھ نہیں۔ اگر ملازمین میں اضطراب اور مستقبل میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے خدشات کا نام ترقی ہے تو ایسی ترقی پر بار بار تین لفظ بھیجنے کو جی چاہتا ہے۔ بقول شکیل بدایوانی
کس شان سے آیا ہے ترقی کا زمانہ
ہر تلخ حقیقت نظر آتی ہے فسانہ
کانوں سے ترقی کی صدا کھیل رہی ہے
آنکھوں سے زمانے کی ہوا کھیل رہی ہے
۔’’تن ہمہ داغ داغ شد، پنبہ کجا کجا نہم‘‘۔ کوئی ایک ادارہ بھی ایسا نہیں جہاں اضطراب نہ ہو۔ گزشتہ دنوں اساتذہ کے نمائندوں حافظ محمد ناصر اور حافظ غلام محی الدین سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ اس وقت پنجاب میں اساتذہ کی 70 ہزار سے زائد اسامیاں خالی ہیں، جن میں 7427 سے زائد ہائی، اور ہائر سیکنڈری اسکولوں میں سربراہ ادارہ کی 3403 اسامیاں بھی شامل ہیں۔ مڈل اسکولوں کی خالی اسامیاں ان کے علاوہ ہیں۔
سربراہِ ادارہ اور اساتذہ کی جگہ خالی ہونے کے باوجود کہا یہ جارہا ہے کہ محکمہ ترقی کی راہ پرگامزن ہے، جبکہ حال یہ ہے کہ وزیر موصوف کے ساتھ عدم مطابقت کی بنا پر گزشتہ20 ماہ کے دوران اسکولوں کے 6 سیکرٹری تبدیل ہوچکے ہیں۔ کہا یہ جارہا ہے کہ تبادلے میرٹ کی بنیاد پر کیے جارہے ہیں جبکہ بقول اساتذہ کے e-transfer ایک دھوکا ہے۔ اس سے پہلے پوسٹنگ چند دنوں میں ہوجاتی تھی، اب کئی کئی ماہ سے اساتذہ پوسٹنگ کے انتظار میں ہیں اور سیاسی سرپرستوں کے ذریعے منظورِ نظر افراد من پسند سیٹوں پر تعیناتیاں کروا رہے ہیں۔
تعلیمی ترقی کے حوالے سے وزیراعلیٰ کی طرف سے جو روڈ میپ دیا گیا ہے اور اس میں جو انڈیکیٹرز دیئے گئے ہیں اساتذہ کے نزدیک ان کا حصول مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔ رینکنگ بہتر بنانے کے چکر میں اساتذہ پر غیر ضروری پابندیاں عائد کردی گئی ہیں۔ جرمانوں اور تادیبی کارروائیوں سے بچنے کے لیے اساتذہ غلط اعداد و شمار کا سہارا لینے پر مجبور ہیں، جبکہ مجاز افسران تعلیمی اداروں کے سربراہوں اور عام اساتذہ کی تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
طرفہ تماشا ہے کہ محکمہ تعلیم نے ریشنلائزیشن کے لیے سرکاری اسکولوں میں خالی اسامیوں کی فہرستیں طلب کرلی ہیں اور ریشنلائزیشن کی پالیسی کے تحت 40 بچوں کے بجائے 60 بچوں پر ایک استاد دیا جائے گا جو کہ اساتذہ اور طلبہ دونوں کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔
وزارتِ اطلاعات نے اپنا الگ تماشا شروع کردیا ہے۔ ریڈیو اسٹیشنوں کی عمارتوں کی فروخت کا شور احتجاج کے نتیجے میں کم ہوا تو ملازمین کو تنگ کرنے اور ریڈیو کا گلا گھونٹنے کے دوسرے طریقے اختیار کرنے شروع کردیے گئے ہیں۔ راقم الحروف تین عشروں کے قریب ریڈیو FM-93 سے وابستہ رہا۔ تب انائونسرز اور کمپیئرز کے چیک آسان طریقہ کار کے باوجود عموماً دیر سے ملتے تھے۔ تب چیک مقامی اسٹیشن پر ہی تیار اور سائن ہوتے تھے۔ شنید ہے کہ اب چیک وزارتِ اطلاعات کے مرکزی دفتر اسلام آباد میں تیار ہوا کریں گے۔ اور پھر چھے سات سو روپے کے چیک کے لیے پروگرام کرنے والے مقامی ریڈیو اسٹیشن پر کتنے چکر لگائیں گے! ظاہر بات ہے لوگ تنگ آکر پروگرام کرنے چھوڑ دیں گے۔ کتنی شرمناک بات ہے کہ وہ لوگ جن کے کئی مہینوں کے چیک کی رقم مل ملا کر 10 ہزار روپے ہوجاتی ہے اس پر انکم ٹیکس بھی کاٹا جاتا ہے۔ مزید برآں جب پروڈیوسر حضرات کے معاوضوں پر مختلف ٹیکسوں کے نام پر کٹ لگنے شروع ہوگئے ہیں تو کون ہوگا جو اپنی گرہ سے پروگرام کرنے والوں کو چائے کی پیالی پلاسکے گا! لگتا یوں ہے کہ حکومت عوام سے اس سستے ذریعہ اطلاعات اور سماعت کا شوق پورا کرنے کا ذریعہ چھیننے کا پختہ ارادہ کرچکی ہے۔