کراچی کو وفاق کے حوالے کرنے کا ایجنڈا،سبب کیا ہے؟۔

معروف کالم نگار نواز خان زئور نے بروز جمعۃ المبارک 7 اگست 2020ء کو کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحہ پر محولہ بالا عنوان سے جو خامہ فرسائی کی ہے، اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
……٭٭٭……

’’سندھ کے اہلِ دانش و بینش اسٹیبلشمنٹ اور موجودہ وفاق کے حوالے سے جو رائے رکھتے ہیں، یہ اس حوالے سے ایک نمائندہ تحریر ہے۔ ’’فارسی کے ایک باکمال شاعر انوری کے ایک شعر کا ترجمہ کچھ اس طرح سے ہے ’’لگتا ہے کہ مصیبتوں نے صرف اسی گھر کا راستہ دیکھا ہے۔ آسمان سے جو بھی بلا نازل ہوتی ہے، وہ انوری کے گھر کا ہی رخ کرتی ہے‘‘۔
کچھ شہروں سے بھی بسا اوقات اسی طرح سے ہونے لگتا ہے۔ لہٰذا جب اور جس وقت بھی کراچی سے متعلق عجیب و غریب اور غیر عقلی باتیں ہوتی ہیں اُس وقت مجھے انوری کا مندرجہ بالا شعر یاد آنے لگتا ہے۔ حالیہ برسات تو محض ایک بہانہ ہے۔ مرکزی حکومت کے آسمان سے جو بھی ’’عقل‘‘ اور ’’دوراندیشی‘‘ کا مینہ برستا ہے، وہ کراچی ہی کے اوپر آن کے برستا ہے۔ کراچی، وفاقی اربابِ اختیار کو آج کل بے حد پیارا ہوگیا ہے، اس لیے وہ کراچی کی ’’ذمہ داری‘‘ خود اٹھانا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ رہ رہ کر ’’اپنے افراد‘‘ سے بیان بازی کروانے اور سوشل میڈیا پر لکھوانے سے لے کر مختلف اوقات میں مختلف طریقوں سے نوع بہ نوع تجاویز سامنے لانے کی سعی میں لگے رہتے ہیں۔

کیا یہ پہلی مرتبہ ہے؟

یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ کراچی کو سندھ سے چھیننے یا وفاق کے حوالے کرنے کی بات کی گئی ہے۔ اس سے قبل بھی اس طرح کی باتیں بارہا کہی جا چکی ہیں۔ نہ صرف باتیں بلکہ ایک بار پہلے اس طرح سے ہو بھی چکا ہے۔ چارلس نیپئر اور رچرڈ برٹن جیسے انگریزوں کا کہنا تھا کہ ’’کراچی تو ایک روز مشرق کی دلہن بنے گا‘‘۔ لیکن یہ برطانوی سلطنت ہی تھی جو جاتے جاتے کراچی کو سہاگن سے بیوہ بنا گئی۔ تقسیم ہوتے ہی کراچی کو سندھ سے چھین کر اسے نوزائیدہ پاکستانی وفاق کے ماتحت کردیا گیا، اور درحقیقت کراچی کی تباہی بھی اسی روز سے شروع ہوگئی تھی، اور یہ عمل ہنوز جاری و ساری ہے۔ سندھ کی حکومت کو کراچی سے بے دخل کرکے، وفاقی اربابِ اختیار نے کراچی میں سندھی ہندوئوں کی چھوڑی ہوئی جائداد پر اپنے ہاتھ صاف کیے، یوں یہ جائداد اپنے لوگوں میں تقسیم کرکے بیرونی افراد کی سندھ میں آمد کے سلسلے کو تیز کیا گیا۔ کراچی کے بارے میں اس طرح کے فیصلے کرنے والے خود محمد علی جناح اور لیاقت علی خان تھے، لیکن سندھی قوم نے اس ’’عظیم الشان‘‘ فیصلے کو پل بھر کے لیے بھی تسلیم کیا اور نہ ہی اسے مانا، بلکہ اس کے خلاف سیاسی جدوجہد کی، حتیٰ کہ وفاق کو مجبوراً کراچی، سندھ کے حوالے کرنا پڑا۔

انگریزوں کے نقشِ قدم پر

وفاقی ارباب اختیار سندھ پر اپنی بالادستی برقرار رکھنے کے لیے انگریزوں کے نقشِ قدم پر ہی چلنے میں مصروف ہیں۔ انگریز بے حد دوراندیش تھے، سندھ پر قبضے سے پیشتر ہی انہوں نے کراچی کی اہمیت کو سمجھ لیا تھا۔
الیگزینڈر برنس نے 1831ء میں دریائے سندھ کا سفر کیا تھا۔ اپنے اس سفر کو اُس نے دستاویزی شکل میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کرڈالا تھا۔ وہ اپنی اس کتاب میں رقم طراز ہے: ’’سندھ کی نازک جگہ کراچی ہے۔ اگر سندھ پر قبضہ کرنا ہے تو اس کے لیے کراچی کو اپنے قابو میں رکھنا ہوگا۔‘‘ (دریائے سندھ کا سفر 1831ء۔ الیگزینڈر برنس۔ ترجمہ عطا محمد بھنبھرو۔ ص158، سندھی ترجمہ)
وفاقی اربابِ اختیار اور اسٹیبلشمنٹ کراچی کی اس جغرافیائی، معاشی اور اسٹرے ٹیجک اہمیت سے واقف ہیں۔ اس لیے وہ سندھ کو اپنے کنٹرول میں رکھنے اور اس پر اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لیے مختلف النوع حربے آزمانے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ اس بارے میں حقائق سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے ایک طریقہ یہ ہے کہ وفاقی اربابِ اختیار، اسٹیبلشمنٹ اور برسراقتدار حلقوں سے قربت رکھنے والے تجزیہ نگاروں کے تجزیے سنے اور ان کی تحریر کردہ کتب کا مطالعہ کیا جائے۔ گزشتہ سال ایسی ہی شائع شدہ ایک کتاب میری نظر سے گزری ہے جس کا نام “The Battle for Pakistan” ہے، اور اس کے مصنف پاکستان کے برسراقتدار طبقے، اسٹیبلشمنٹ اور عالمی سفارتی حلقوں کے قریب رہنے والے شجاع نواز ہیں۔ ویسے تو اس کتاب کا مرکزی خیال امریکہ اور پاکستان کے مابین تعلقات میں آنے والی سردی، گرمی اور نشیب و فراز ہیں، لیکن اس میں دیگر کئی امور کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔ اس میں انتہا پسندی سے لے کر بے نظیر بھٹو کے قتل، پاکستان میں سول ملٹری تعلقات، علاقائی صورتِ حال اور اس ملک کو درپیش خطرات پر خامہ فرسائی کی گئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل سمیت اکثر معاملات پر مصنف نے اسٹیبلشمنٹ کے بیانیے کی نمائندگی اور وکالت کی ہے۔ وہ ملک کی داخلی صورتِ حال اور مختلف اقوام کے درمیان جاری ٹکرائو پر کچھ اس طرح سے رقم طراز ہیں:۔
’’بیرونی قوتیں، خاص طور پر سعودی عرب اور ایران کے مابین جاری تکرار کے نتیجے میں کراچی سمیت کہیں بھی لبنان جیسی صورتِ حال جنم لے سکتی ہے، جس کے نتیجے میں فرقہ وارانہ، لسانی اور شہری دیہی کے جھگڑے دفاعی اداروں کی صلاحیت کے لیے ایک بہت بڑے چیلنج کا باعث بن سکتے ہیں، اور مؤثر و مناسب سویلین انتظامی ڈھانچے اور پولیس کی صلاحیت کے بغیر ان پر قابو پانا بے حد دشوار کام ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر پاکستان کو اس طرح کی داخلی جنگیں جیتنی ہیں تو اسے دیگر امور کے ساتھ ساتھ کراچی پر دھیان دینا پڑے گا اور شہری جنگ کی اہمیت کو سمجھنا پڑے گا۔‘‘ (ص 192,191، The Battle for Pakistan)
یہ بات یہیں پر پہنچ کر ختم نہیں ہوجاتی۔ مصنف آگے جاکر کچھ اس طرح سے لکھتے ہیں: ۔
’’دیگر صوبوں کے لوگوں کی آبادکاری اور پیداواری وسائل مرکز کی طرف لے جانے کی وجہ سے بلوچستان کی مزاحمت روز بروز بڑھ رہی ہے اور اس کی بنا پر پاکستان کمزور نظر آرہا ہے۔ اس صورتِ حال کا سامنا کرنے کے لیے جامع پالیسیوں کی تشکیل کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں نئے صوبے قائم کرکے ایسی دیگر تحاریک کو ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے۔ خصوصاً کراچی کی ڈھائی کروڑ پر مشتمل آبادی کے افراد کے دلوں کو ٹھنڈک پہنچائی جا سکتی ہے، جو وسیع پیمانے پر خودمختاری کا مطالبہ کررہے ہیں۔‘‘ (ص 339)
اوپر بیان کردہ باتیں محض کسی فردِ واحد کی ذہنیت کی اختراع نہیں سمجھنی چاہئیں، بلکہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور نمائندگی ہے جس کے توسط سے وہ مختلف مکاتیبِ فکر کے افرادکو قائل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے، تاکہ نئے صوبوں خصوصاً کراچی کی سندھ سے علیحدگی اور سخت فیصلوں کے ذریعے ہی سے معاملات کو کنٹرول کیا جا سکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس طریقے سے مسائل حل نہیں ہوسکتے بلکہ اس نہج پر استوار ہوجاتے ہیں جہاں پر حل ہونے کے بجائے ہاتھوں سے نکل کر ایسی صورت حال کو جنم دیتے ہیں جسے سنبھالنا بالآخر کسی کے بھی بس میں نہیں رہتا۔

آخر کراچی وفاق کے ماتحت کیوں؟

آخر وہ کون سی ایسی بات ہے جو وفاق کو اس امر پر مجبور کررہی ہے کہ وہ کراچی کو سندھ سے چھین کر اپنے اختیار اور ہاتھوں میں لے لے؟ اصل میں یہ سارا بالادستی اور وسائل کا سوال ہے۔ حالیہ جاری مالی سال کے بجٹ پر نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ حالیہ مالی سال کا ٹیکس ہدف 5500 ارب روپے ہے، جس میں 30 جون 2021ء تک سندھ سے 3775 ارب روپے، پنجاب سے 1100 ارب روپے اور خیبر پختون خوا اور بلوچستان سے 825 ارب روپے کی وصولی ہوگی۔ وفاق خطوں (صوبوں) سے ہونے والی اس وصولی کا 40 فیصد، مطلب یہ کہ 2200 ارب روپے گا۔ جب کہ صوبوں کے حصے میں 3300 ارب روپے آئیں گے، جن میں سے 1716 ارب روپے پنجاب، 660 ارب روپے سندھ اور باقی 924 ارب روپے خیبر پختون خوا اور بلوچستان کو دیے جائیں گے، یعنی سندھ دے گا 3575 ارب روپے اور واپس اسے مل پائیں گے صرف 660 ارب روپے!!! پنجاب دے گا 1100 ارب روپے اور وصول کرے گا 1716 ارب روپے کی بڑی رقم! دوسری جانب وفاق اپنے 2200 ارب روپے میں سے 600 ارب روپے کے جو ترقیاتی کام کرائے گا، وہ بھی پنجاب میں ہوں گے، اور جس بیوروکریسی کو تنخواہوں اور پنشن کے لیے 450 ارب روپے دے گا، اس کا بھی 70 فیصد پنجاب میں سے ہے۔ اس طرح سے سندھ کے خزانے اور پیداواری وسائل کی کھلے عام لوٹ مار اور استحصال کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ شکایت صرف بلوچوں کو ہی نہیں ہے کہ ان کے پیداواری وسائل کا استحصال ہورہا ہے۔ دراصل بلوچستان سے بھی کہیں بڑھ کر سندھ کے وسائل کا استحصال ہورہا ہے۔ ریونیو آمدنی کے مندرجہ بالا بیان کردہ اعدادوشمار سے سب کچھ نہایت واضح طور پر معلوم پڑتا ہے۔ سندھ وفاق کو ریونیو کی مد میں مجموعی آمدنی کا 71 فیصد سے بھی زیادہ مہیا کرتا ہے۔ یہ سرکاری اعداد و شمار ہیں۔ ظاہر ہے کہ زیادہ تر ریونیو سندھ کے دارالحکومت کراچی ہی سے ملتا ہے۔ اس لیے وفاق کراچی کو اپنے ماتحت کرکے یہ سب آمدنی خود لے کر استعمال کرنا اور ٹھکانے لگانا چاہتا ہے، جس سے یہ تاثر کم ہوگا کہ وفاق سندھ کے مالی وسائل پر ہاتھ صاف کررہا ہے۔ سندھ سے کی جانے والی ناانصافی یہیں پر اختتام پذیر نہیں ہوتی، بلکہ یہ ہر سطح اور ہر میدان میں جاری و ساری ہے۔ گیس کی پیداوار اس حوالے سے ناانصافی کا ایک بڑا مظہر ہے۔ سال 2018ء کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سندھ 1702 مکعب فٹ، بلوچستان 395 مکعب فٹ، کے پی کے 371 مکعب فٹ اور پنجاب 107 مکعب فٹ گیس کی پیداوار مہیا کرتا ہے۔ پیداوار میں پنجاب سب سے کم ہے، جب کہ استعمال میں سب سے آگے ہے۔ پنجاب 47 فیصد گیس استعمال کرتا ہے۔ سندھ کے سینکڑوں گوٹھ اور شہر گیس سے محروم ہیں، لیکن پنجاب کے آخرے سرے تک سندھ کی گیس پہنچائی جاتی ہے۔ افسوس ناک امر یہ بھی ہے کہ قدرتی وسائل کی پنجاب میں کہیں بھی تلاش نہیں کی جارہی ہے۔ دنیا کے بعض دولت مند اور طاقتور ممالک کی طرح پنجاب اپنے قدرتی وسائل پوشیدہ اور محفوظ رکھ کر بیٹھا ہوا ہے۔ لیکن سندھ اور بلوچستان میں بڑے پیمانے پر قدرتی وسائل کی تلاش کی جارہی ہے۔ یہ سب محض اس لیے کہ پنجاب دیگر اقوام کے قدرتی وسائل اپنے زیر استعمال لانا چاہتا ہے اور اپنے وسائل کو مستقبل کے لیے بچانا چاہتا ہے تاکہ آئندہ (مستقبل میں) اس کے یہ محفوظ قدرتی وسائل صرف اسی کے کام آسکیں اور دوسری کوئی بھی قوم ان وسائل میں حصہ دار نہ بن سکے۔
سندھ اپنے پیداواری وسائل اور خزانے کی اس بے دریغ، بے رحمانہ اور حد درجہ لوٹ مار اور ناانصافی کے خلاف جو بھی واویلا اور فریاد کرتا ہے اس کا منہ بند کرنے اور کمزور کرنے کی خاطر بہ طور حکمتِ عملی کے وفاق کراچی کو سندھ سے الگ کرکے سندھ کے معاشی وسائل کو اپنی گرفت میں لاکر اپنی سیاسی، انتظامی بالادستی کو قائم اور برقرار رکھنا چاہتا ہے‘‘۔