عہد آفریں شاعر ڈاکٹر راحت اندوری

سبھی کا خون شامل ہے یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے

پس منظر

ان کے والد جناب رفعت اللہ قریشی کپڑے کی فیکٹری میں ملازم تھے، والدہ مقبول النساء بیگم کو شعر و ادب اور سخن وری سے گہرا شغف تھا اور خاندان کے دوسرے افراد بھی صاف ستھرا شعری ذوق رکھتے تھے۔ راحت نے ابتدائی تعلیم نوتن اسکول اندور سے حاصل کی، اور اسلامیہ کریمیہ کالج اندور سے ہی 1973ء میں بی اے اور 1975ء میں برکت اللہ یونیورسٹی مدھیہ پردیش بھوپال سے ایم اے درجہ اول میں کامیاب ہوئے۔ ان کو ’’اردو میں مشاعرہ‘‘ کے موضوع پر 1985ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی گئی جو انہوں نے بھوج یونیورسٹی مدھیہ پردیش سے حاصل کی۔ وہ عرصے تک اندور کے ایک کالج میں بحیثیت استاد، تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ انہوں نے اپنی ذات کو کتابوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ مشاعروں کے اسٹیج سے شاعری کا بگل بھرپور طور پر بجایا اور اردو زبان و ادب کو فروغ دیا۔ سخن وری کی جڑوں کو توانا کیا، مشاعروں کو تہذیبی وقار بخشا۔ عوام اور خواص کے دلوں میں جگہ بنائی اور ان کے دلوں کی دھڑکن اور حوصلے کا استعارہ بن گئے۔ ان کے قلم کی بے باکی، اندازِ بیان کی تہلکہ خیزی، مطالعے اور مشاہدے کی گہرائی کے سبھی معترف تھے۔ وہ دورِ حاضر میں ہندوستان، امریکہ، یورپ اور دیگر ممالک میں انتہائی معروف اور مقبول شاعر تھے۔ انہوں نے اپنی ستّر سالہ زندگی میں چار عشروں سے زیادہ کا عرصہ اردو شعر و ادب کی خدمت کی۔

ایک منفرد اور جرأتِ اظہار والا شاعر

انہوں نے شعر گوئی کو ایک فن بنادیا اور اس کے انداز و فکر کو ایک نیا زاویہ، ایک نئی سوچ دے کر شاعری کی اعلیٰ ترین سند حاصل کی، اور عوام کی بھرپور پذیرائی ان کے حصے میں آئی۔ ان کی غزلوں میں فکر و اسلوب کی روشنی، حیات و کائنات کے مسائل، سیاسی و سماجی پہلو، عشقیہ موضوعات اور تہذیبی اقدار کے زاویے کی بھرپور عکاسی ہوتی ہے۔
زندگی کی رواں دواں اور تلخ حقیقتوں کا اظہار وہ اپنے منفرد انداز اور لہجے میں کرنے پر قادر تھے۔ مکروہات اور خراباتِ زمانہ کو خوبصورت لباس دے کر شعر میں ڈھالنے کا خاص ہنر ان کو آتا تھا۔ انہوں نے شاعری کو کبھی ثانوی حیثیت نہیں دی۔ شاعری زندگی بھر ان کا وظیفۂ حیات رہی۔ ہندوستان میں معاشرتی ناانصافیاں، مذہبی تعصب، ریاستی ظلم و ستم، تقسیمِ ہند، ہجرت کے عذاب اور زندگی کے نشیب و فراز سے راحت اندوری نے اپنے شعری گلستان کو مہکایا ہے۔ ناقدینِ فن نے ان کی شاعری کی دل پذیری کا اعتراف کیا ہے۔ ان کے شعروں کی کشش، مصرعوں کے زیر و بم، مضمون کی گہرائی اور جدتِ فکر سامعین اور حاضرین کو بے ساختہ واہ واہ اور داد دینے پر مجبور کردیتی تھی۔
’’کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے‘‘ والی غزل انہوں نے مشاعرے میں مودی کی موجودگی میں سنائی تھی جس کے بعد ان پر لال قلعے کے دروازے بند کردیے گئے تھے لیکن عوامی پذیرائی اس قدر تھی کہ تمام ہندو، مسلمان ان کی شاعری کے گرویدہ تھے۔ ہندی کے مشاعروں میں ان کو بلایا جاتا، کیونکہ وہ ہندی میں بھی بہترین اشعار کہتے تھے۔
جب بی جے پی کے انتہائی متعصب رہنما جے سنگھ سمیت دیگر رہنمائوں نے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنا شروع کیا اور کہا کہ مسلمانوں کو اس دیش (بھارت) میں نہیں رہنا چاہیے تو انہوں نے اپنے ہر مشاعرے میں یہ اشعار پڑھنا شروع کردیے:۔

سبھی کا خون شامل ہے یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
………
اپنی پہچان مٹانے کو کہا جاتا ہے
بستیاں چھوڑ کے جانے کو کہا جاتا ہے
پتیاں اور گرا جاتی ہے زہریلی ہوا
اور ہمیں پیڑ لگانے کو کہا جاتا ہے

ان کے نعتیہ اشعار

زم زم و کوثر و تسینم نہیں لکھ سکتا
اے نبیؐ! آپ کی تعظیم نہیں لکھ سکتا
میں اگر سات سمندر بھی نچوڑوں راحتؔ
آپ کے نام کی ایک میم نہیں لکھ سکتا

دیگر

سلیقے سے ہوائوں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ زندہ ہیں جو اردو بول سکتے ہیں
………
چور اچکوں کی کرو قدر کہ معلوم نہیں
کون کب کون سی سرکار میں آ جائے گا
………
ساتھ چلتا ہے تو تلوار اٹھا میری طرح
مجھ سے بزدل کی حمایت نہیں ہونے والی
اب کے جو فیصلہ ہو گا وہ یہیں پر ہو گا
ہم سے اب دوسری ہجرت نہیں ہونے والی
………
صرف ایک شعر اڑا دے گا پرخچے تیرے
تُو سمجھتا ہے کہ شاعر ہے کیا کرلے گا
………
افواہ تھی کہ میری طبیعت خراب تھی
لوگوں نے پوچھ پوچھ کے بیمار کر دیا
دو گز سہی مگر یہ میری ملکیت تو ہے
اے موت تُو نے مجھ کو زمیں دار کر دیا

راحت، ہندوستانی مسلمانوں کے حوصلوں کا استعارہ تھے
اردو زبان و ادب اور مسلمانوں سے حکومتِ وقت کے سوتیلے پن کے سلوک پر ان کی ذات اور فکر اور اشعار کی قوت و استدلال نے اردو زبان اور مسلمانوں کو بڑا حوصلہ بخشا۔ ان کے کلام کی قوت اور معنویت سے باطل اور اسلام دشمن قوتوں اور ان کے ایوانوں پر لرزہ طاری ہوجاتا تھا اور اہلِ حق کے دل و دماغ میں اعتماد اور بھروسا پیدا ہوجاتا تھا۔ ان کا کلام دردِ نہاں کی عکاسی، جانِ پرسوز کی غمازی، پختگی اور قوتِ گویائی کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ وہ انتہائی بے باک لفظوں کے جادوگر شاعر تھے۔ ان کے پڑھنے کا انداز غضب کا تھا، ان کی آواز میں ایک خاص سحر انگیزی، دل کشی اور دل آویزی تھی۔ شاعروں میں کوئی دوسرا راحت اندوری پیدا نہیں ہوسکتا۔ وہ دورِ حاضر کے اردو کے اُن محسنوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اس کی آبیاری کی، اور زبان کی خوشبوئوں اور مٹھاس سے ملکی اور غیر ملکی فضائوں کو معطر کرتے رہے۔ ان کی توانا آواز سے حریفوں کی نیندیں حرام تھیں اور وہ انہیں جہادی شاعر کہتے تھے اور مشاعرے چھوڑ کر چلے جاتے تھے۔