تکمیل مکارمِ اخلاق

یہ گراں قدر کتاب جناب منیر احمد خلیلی کے قلم سے صادر ہوئی ہے۔ خلیلی صاحب تحریکِ اسلامی کے پرانے کارکن ہیں، اس کے ساتھ ہی اللہ جل شانہٗ نے ان کو تحریر کا ملکہ بھی عطا کیا ہے۔ ان کے قلم سے درج ذیل کتابیں اور کتابچے منصۂ شہود پر آکر اسلامی کتب خانے میں وقیع اور ثمین اضافہ کرچکے ہیں:۔
(1) انفاق فی سبیل اللہ، (2) پاسدارانِ دعوت و عزیمت، (3) عصرِ حاضر کی اسلامی تحریکیں… منظر و پس منظر، (4) تزکیہ نفس… کیوں اور کیسے؟ (5) ذکر کی حقیقت اور اہمیت، (6) ایک آیت (الحدید 25) ایک کامل ریاستی نظام، (7) ایک آیت (النحل 90) ایک مثالی اسلامی معاشرہ، (8) محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم کردہ اخلاقی معیارات، (9) حقوق النبی صلی اللہ علیہ وسلم، (10) خاندانی نظام… اس نشیمن کو بچانے کی فکر کیجیے، (11) عورت اور دورِ جدید، (12) حقوقِ نسواں… ایک جائزہ، (13)مغربی جمہوریت کا داغ داغ چہرہ، (14) امتِ مسلمہ… بگاڑ اور علاج (ترجمہ)، (15) تعلیم اور تہذیب و ثقافت کے رشتے، (16) مقالاتِ تعلیم، (17)۔ سیرت سید الابرار صلی اللہ علیہ وسلم، (18) کورونا وائرس… ایک تنبیہ یا عذابِ الٰہی، اور زیر نظر تکمیل مکارمِ اخلاق۔
اس سے پہلے ان کا کتابچہ ’’محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم کردہ اخلاقی معیارات‘‘ ہماری نظر سے گزر چکا ہے، اور ’’سیرتِ سید الابرار‘‘ کا تیسرا ایڈیشن اسلامی ریسرچ اکیڈمی کراچی سے شائع ہوچکا ہے جس کا تعارف ہم فرائیڈے اسپیشل میں کرا چکے ہیں۔ یہ سیرت پر اردو میں چند بہترین کتابوں میں سے ایک ہے۔ خلیلی صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’امن اور سکون کے ساتھ اجتماعی زندگی گزارنے کے لیے انسانوں کو اوّل روز سے باہمی احترام و محبت، ایثار اور قربانی، تعاون اور خدمت، سچائی اور اخلاص جیسی اخلاقی قدروں کی ضرورت رہی ہے۔ آدم علیہ السلام کے زمین پر اتارے جانے کے کچھ عرصے بعد چند افراد پر مشتمل جو چھوٹا سا خاندان اور معاشرہ وجود میں آیا تھا وہ اس لیے ایک سنگین سانحے کا شکار ہوگیا تھا کہ اس معاشرے کے ایک فرد پر حسد و رقابت اور غیظ و غضب جیسے ابلیسی رویّے غالب آگئے۔ آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کے درمیان ایک تنازع پیدا ہوا اور قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کردیا تھا۔ خدا کی زمین پر اس پہلے قتل کے جرم کا ارتکاب اس لیے ہوا کہ قابیل مذکورہ بالا اعلیٰ اخلاقی خوبیوں سے محروم تھا۔
دنیا میں بلند انسانی اخلاق اور پاکیزہ سیرت و کردار کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ قرآن پاک کی اصطلاح ’معروف‘ نیکیوں کے لیے آئی ہے اور ’منکر‘ برائیوں کے لیے۔ ان دونوں اصطلاحوں کے اندر سے یہ معنی نکلتے ہیں کہ نیکی ہر دور اور ہر معاشرے میں ایک جانی پہچانی چیز تھی اور برائی سے ہر سماج ہمیشہ نفرت کرتا رہا ہے اور اسے قبول کرنے سے انسانی فطرت انکار کرتی رہی ہے۔ چنانچہ خواہ الہامی مذاہب ہوں یا غیر الہامی روحانی راستے، سب میں اچھے اخلاق کی تلقین کی گئی اور بداخلاقی سے روکا گیا۔
کتاب کی ترتیب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل بیرونِ عرب کی اخلاقی حالت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کے بعد عربوں کی اخلاقی زبوں حالی کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ آگے قرآن پاک کے قائم کردہ اخلاقی معیارات کا ایک جامع نقشہ ہے، جس کے آخر میں سورہ نور اور سورہ احزاب کی عائلی اور سماجی تعلیمات درج ہیں۔ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کے آئینے میں اخلاق کی عملی تصویر پیش کرنے کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی تعلیمات کا تفصیلی تذکرہ کیا گیا اور یہ بتایا گیا ہے کہ تقویٰ اور حیا اسلام کے اخلاقی نظام کے دو بنیادی ستون ہیں۔ آخر میں احادیثِ نبویہ کی روشنی میں آدابِ عامہ بیان ہوئے ہیں۔ یہ کتاب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے سن و سال کی ترتیب سے سوانح و واقعات سے بحث نہیں کرتی، لیکن یہ سیرت پر شائع ہونے والی میری کتاب ’’سیرتِ سید الابرار صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کی توسیع ہے۔ یہ تمام تر قرآن مجید کی آیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر مبنی ہے۔ آیات کا ترجمہ مولانا مودودیؒ کے ’’ترجمہ قرآن‘‘ سے لیا گیا، اور احادیث کے جہاں مسند تراجم مہیا تھے اُن سے مدد لی گئی ہے۔ جن مجموعوں سے احادیث لی گئی ہیں اُن سب کے ترجمے فراہم نہیں ہوسکے تھے، اس لیے بہ امر مجبوری میں نے خود بہت ڈرتے ڈرتے اور بڑی احتیاط سے ترجمے کی جسارت کی ہے۔ احادیث کی صحت اور سند کے معاملے میں پوری احتیاط برتی گئی کہ کوئی ضعیف اور موضوع حدیث حوالے میں نہ آئے۔ مضمون کی ضرورت کے تحت جہاں کچھ مقامات پر ضعیف احادیث شامل کی گئیں، وہاں ان کے ضعف کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔
ہماری یہ ساری کتاب اسلام کے اخلاقی نظام کی ایک مبسوط دستاویز ہے۔ لفظ ’اخلاق‘ خُلق کی جمع ہے، اور انگریزی کی اصطلاحات morality اور ethics کے پورے تصور پر محیط ہوکر اردو میں بصورتِ واحد بھی آتا ہے۔ اخلاق ایمان کے بعد انسانی زندگی کی وہ سب سے اہم قدر (Value) ہے جس کی اسلام میں اتنی اہمیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس ہستی کو اپنے آخری نبی کی حیثیت سے اخلاق کے حتمی معیارات متعین کرنے کے لیے اٹھایا اُسے خُلقِ عظیم کی صفت سے متصف کیا اور اخلاق و کردار میں اسوۂ حسنہ بنا کر بھیجا۔ امام الانبیاء، سید الابرار جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
’’مجھے اخلاقی فضائل اور مآثر و محاسن کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہے‘‘۔
اخلاق ایمان کے قلعہ کی وہ فصیل ہے جو جب تک مضبوط رہتی ہے شیطان ایمان کی دولت لوٹنے پر قادر نہیں ہوتا، لیکن جب اس حصار کی اینٹیں اکھڑنے لگیں تو ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ یہ حقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے واضح ہوتی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسی بڑی اخلاقی برائیاں گنوائیں جن کے ارتکاب کے ساتھ ایمان زائل ہوجاتا ہے۔ اخلاق تمام مذاہب کا بنیادی موضوع ہے۔ سارے انبیاء و رسل نے جہاں ایمان کی دعوت دی، وہاں اعلیٰ اخلاقی تعلیمات بھی پیش کیں۔ اخلاق کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس کے بارے میں قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور احادیث میں رہنمائی نہ ملتی ہو۔ اس کتاب میں قرآن و سنت و سیرت کا ممکنہ حد تک ایک جامع اور بسیط نقشہ آیات اور احادیث کے حوالوں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے‘‘۔
اس کے مضامین درج ذیل ہیں: ۔
پہلا باب مقدمے کا ہے، اس میں قدیم مذاہب ہندو مت، بدھ مت، کنفیوشس ازم، فلاسفہ، سقراط، افلاطون، ارسطو کی اخلاقی تعلیمات پر مختصر بحث ہے۔ دوسرے باب میں بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت بیرونِ عرب دنیا کی اخلاقی حالت، تیسرے باب میں ظہورِ اسلام کے وقت عربوں کی اعتقادی اور اخلاقی حالت بت پرستی، اخلاقی زوال، شراب اور جوا، جنگ و جدل اور خون ریزی، ڈاکے، چوریاں، فحاشی و بے حیائی، بے رحمی اور سفاکی۔ چوتھا باب اسوہ حسنہ، اس میں سیرتِ سیدالابرار صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآنی تصویریں، مقام محمود، معروف سے مملو اور منکر سے پاک شریعت خاتم النبیین عفو و درگزر، صبر، مکارم اخلاق، سیرت پاک کے تابناک پہلو۔ پانچویں باب میں قرآنی معیاراتِ اخلاق کی تفصیل ہے۔ محمود و مذموم اخلاقی رویّے قرآن کی نظر میں، چھٹے باب میں تقویٰ اور حیاء پر بحث ہے۔ ساتویں باب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میزان میں اخلاقی مکارم اور محاسن اور نقائص اور عیوب کو بیان کیا گیا ہے۔ آٹھواں باب اسلام کے اخلاقی نظام کی اہم اقدار کی وضاحت کرتا ہے۔ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، صدق، صبر، امانت داری، انکسارو تواضع، قناعت، اعتدال وسطیت، تزکیہ نفس اور اتمام مکارم، اخلاق کے اخروی ثمرات، تحمل، برداشت اور نرم مزاجی، محبت، شکر، جودوکرم، شجاعت، توکل اور خوداعتمادی، زبان کی حفاظت، اخلاق کے کچھ سلبی پہلو یعنی حسد، بغض، غدر اور خیانت، غفلت، بے فکری اور لہو و لعب کے بیان پر مشتمل ہے۔ آخری باب حقوق و آدابِ عامہ جیسے قرآن کریم کے حقوق و آداب، بوڑھوں اور بزرگوں کے آداب و حقوق، مہمان نوازی، آدابِ مجلس، مریض کی عیادت کے آداب، جنازہ، تجہیز و تکفین اور تعزیت کے آداب اور آدابِ عامہ۔
مکارمِ اخلاق پر یہ عمدہ کتاب ہر مسلمان کو پڑھنی چاہیے، اس کو حرزِ جاں بنا لینا چاہیے، اس کا عامل بن کر دنیا و آخرت میں فوز و فلاح کا مستحق بننا چاہیے۔ اردو زبان میں اخلاقیات پر ایک عمدہ کتاب کا اضافہ ہے جس کا اجر ان شاء اللہ مصنف کو ضرور ملے گا۔
کتاب خوبصورت طبع ہوئی ہے، نیوز پرنٹ پر ہے، مجلّد ہے۔