بوتیمار نے جب اپنی تعریف سنی تو بہت خوش ہوا اور بولا: ’’ہاں ہاں، جو تمہارا جی چاہے پوچھو، میں بہت عقیل ہوں۔ میں کسی وقت بھی غلطی نہیں کرتا۔ میں…‘‘ لومڑی اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی: یقینا ایسا ہی ہے۔ میری مشکل یہ ہے کہ میں تیز ہوا سے خوف کھاتی ہوں‘‘۔
بوتیمار بولا: ’’ہوا سے خوف کھانے کے کیا معنی؟ ہم درخت کی شاخوں پر بیٹھ کر ہوا سے نہیں ڈرتے اور تم ہو کہ زمین پر ہوتے ہوئے ہوا سے خوف کھاتی ہو‘‘۔
لومڑی بولی: ’’اچھا تم جو ہوا سے نہیں ڈرتے تو اس کا سبب یہ ہے کہ تمہیں اپنے پر و بال پر بھروسا ہے۔ ایک شاعر بھی تو کہہ گیا ہے:۔
خطر سے خالی دلِ طائرانِ شاخ نشیں ہے
سبب یہ ہے کہ پر و بال پر بھروسا ہے ان کو
لیکن ہم زمین پر چلنے پھرنے والے حیوان ڈرتے ہیں۔ خوف موت کا بھائی ہے۔ ہماری نگاہ میں ہوا بڑی خطرناک چیز ہے‘‘۔ بوتیمار نے پوچھا: ’’کیا تمہیں درختوں کی شاخوں اور پتوں سے پیدا ہونے والی آواز سے خوف آتا ہے؟‘‘
لومڑی بولی: ’’نہیں، میں آواز سے نہیں ڈرتی۔ مجھے اس سے ڈر لگتا ہے کہ کہیں میری آنکھوں میں مٹی نہ پڑ جائے‘‘۔
بوتیمار بولا: ’’خیر اس کا تو حل آسان ہے۔ جب ہوا چلے تو تم آنکھوں کو بند کرلیا کرو‘‘۔
لومڑی بولی: ’’ٹھیک ہے لیکن میں اپنی ناک کا کیا کروں، اپنے کانوں کا کیا کروں۔ میں یہاں تم سے یہ پوچھنے آئی ہوں کہ جب تیز ہوا چلے تو کیا کرتے ہو، مثلاً اگر ہوا دائیں یا بائیں سمت سے آئے تو‘‘۔
بوتیمار بولا: ’’اس میں کیا مشکل ہے! اگر ہوا دائیں طرف سے چلے تو ہم اپنی گردن کو بائیں طرف موڑ لیتے ہیں، اگر بائیں طرف سے چلے تو ہم اپنا سر دائیں طرف کرلیتے ہیں۔ اس طرح کرنے سے ہمارے چہرے ہوا کے تھپیڑے سے محفوظ رہتے ہیں‘‘۔
لومڑی بولی: ’’اور اگر ہوا سامنے سے آئے تو؟‘‘
بوتیمار بولا: ’’بابا، جان چھوڑ دو، تم دراصل بے حد کند ذہن ہو۔ معلوم نہیں لوگ لومڑی کو تیکھی اور چالاک کیوں کہتے ہیں! سیدھی سی بات ہے کہ اگر ہوا سامنے سے آئے گی تو ہم مڑ جائیں گے اور پیٹھ ہوا کی طرف کرلیں گے‘‘۔
لومڑی بولی: ’’خوب، سوال یہ ہے کہ اگر ہر طرف سے ہوا چلنے لگے، دائیں بائیں اور سامنے، پیچھے سے، کیا کہتے ہیں بگولہ؟ اس وقت تم کیا کرتے ہو؟‘‘
بوتیمار بولا: ’’کیا کرنا ہے، بس اپنے سر کو اپنے پروں میں چھپا لیتے ہیں‘‘۔
لومڑی بولی: ’’صحیح کہا تم نے، تم بڑے خوش قسمت ہو کہ بال و پر رکھتے ہو، لیکن میں بدقسمت اگر پر و بال رکھتی بھی تو اپنی گردن کے چھوٹے ہونے کی وجہ سے اسے اپنے پروں میں نہ چھپا سکتی۔ ایسے وقت میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟‘‘
بوتیمار بولا: ’’ایسی صورت میں تم اپنی آنکھیں بھی بند کرسکتی ہو، اپنی گردن کو جھکا سکتی ہو، اپنے آپ کو سکیڑ سکتی ہو، اپنے سر کو اپنے ہاتھوں کے درمیان رکھ کر اور اپنے بازوئوں کو کانوں اور ناک کے آگے لاسکتی ہو‘‘۔
لومڑی بولی: ’’لگتا ہے اتنا برا بھی نہیں لیکن میرے حواس درست نہیں اور عقل کام نہیں کرتی۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ تم عملاً ایسا کرکے دکھائو تاکہ میں اسے سیکھ لوں اور ہمیشہ تمہارے لیے دعاگو رہوں؟‘‘
بوتیمار بولا: ’’اس طرح…‘‘ اس نے اپنے آپ کو سکیڑا اور اپنا منہ اپنے سینے پر رکھ دیا اور اپنے بازوئوں سے اپنے سر کو دونوں طرف سے تھام لیا۔
لومڑی فوراً جھپٹی، بوتیمار کو گردن سے پکڑا اور بولی: ’’یہ ساری باتیں محض بہانہ تھیں۔ میں آندھی سے نہیں ڈرتی، تیری نوکیلی چونچ سے ڈرتی تھی۔ میں نے یہ کام کیا تاکہ تُو آئندہ کبوتروں کو نئی نئی باتیں نہ سکھائے اور ان کو مچھلیاں مہیا نہ کرے۔ کم بخت! تُو خود تو پانی نہیں پیتا اور مچھلی نہیں کھاتا کہ ختم نہ ہوجائے لیکن کبوتر کے لیے مچھلی پکڑ کر لے گیا تاکہ وہ اسے اپنے بچے کے عوض مجھے دے، اور اس کو یہ بات پڑھائی کہ لومڑی درخت پر نہیں چڑھ سکتی اور مسلسل رٹ لگاتا ہے: ’’مجھ سے غلطی سرزد نہیں ہوتی، میں خیر کا علم رکھنے والا، نیک فہم اور خیر شناس ہوں۔ اب تُو نے دیکھا کہ لومڑی چالاکی میں تجھ سے کہیں آگے ہے۔ بتا اب کیا حال ہے تیرا؟‘‘
بوتیمار بولا: ’’تم درست کہتی ہو۔ میں نے تمام تر سمجھ داری کے باوجود تمہاری تعریفوں اور تصنع سے دھوکا کھایا، لیکن یہ بتائو کہ وہ مچھلی تم نے کھالی؟‘‘
لومڑی بولی: ’’بالکل کھالی اور تجھے بھی کھائوں گی‘‘۔
بوتیمار بولا: ’’اگر بالفرض تم مجھے کھا جائو تو تمہیں یقینا اس کا حق ہے کیوں کہ میں نے تمہیں کبوتر کے سامنے رسوا کیا۔ لیکن غور کرو میں تمہاری محض ایک دن کی خوراک ہوں۔ اب چوں کہ تمہیں کبوتر کا بچہ ملنے کا بھی امکان نہیں تو میں چاہتا ہوں کہ تم سے ایک معاہدہ کروں اور وہ یہ کہ تم مجھے چھوڑ دو، میں اس کے عوض تمہارے لیے روزانہ دو مچھلیاں پکڑا کروں گا۔ تم جانتی ہو کہ سمندر مچھلیوں سے پُر ہے اور یہ کبھی ختم نہ ہوں گی۔ اس صورت میں میرا خون تمہاری گردن پر نہ ہوگا اور تمہیں ہمیشہ تازہ اور تیار خوراک ملتی رہے گی‘‘۔
لومڑی بولی: ’’مجھے منظور ہے، لیکن اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ تُو اپنے قول سے نہیں پھرے گا، بدعہدی نہیں کرے گا؟‘‘
بوتیمار بولا: ’’تم جس قسم کی ضمانت چاہتی ہو، میں دینے کو تیار ہوں، لیکن تم خود جانتی ہوکہ ہم بدعہدی کرنے والوں میں سے نہیں۔ میں نے عہد کرلیا تھا کہ ہر روز کبوتر کے لیے ایک مچھلی پکڑ کر لے جائوں گا تاکہ وہ تمہارے سپرد کرتا رہے، لیکن کبوتر سے اس کے عوض میرا کوئی مطالبہ نہ تھا۔ اب کیا فرق پڑے گا کہ میں مچھلی پکڑوں اور خود تمہیں دوں، یہ کام بہت آسان ہے‘‘۔
اُس وقت تک سانپ کا زہر لومڑی کے وجود میں پھیل چکا تھا اور اسے اپنے سر اور معدے میں درد محسوس ہونے لگا تھا۔ اب اس میں بوتیمار کو گرفت میں رکھنے کی طاقت نہ تھی۔ اس صورتِ حال میں معاہدہ قبول کرنے کے سوا چارہ نہ تھا۔ سو وہ بولی: ’’بہت خوب، میں تیرے قول پر یقین کرتی ہوں۔ یہ طے پاگیا: ہر روز اسی جگہ دو مچھلیاں۔ میں اب چلتی ہوں اور تجھ پر افسوس اگر تُو نے اپنا قول نہ نبھایا‘‘۔
لومڑی نے یہ کہا اور بوتیمار کو رہا کردیا اور چل دی۔ لیکن دوبارہ کبھی نہ لوٹی۔
(ختم شد)