قیامت کے مناظر

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم

حضرت ابوہریرہؓ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی جوتا پہنے تو پہلے دایاں پائوں ڈالے اورجب اتارے تو پہلے بایاںپائوں نکالے تا کہ دایاں پائوں پہننے میں اول اور اتارنے میںآخر ہو‘‘۔
وضاحت: آپ ؐ زینت و تکریم کے کام دائیں جانب سے شروع فرماتے اور دوسرے کام ان کے برعکس بائیں جانب سے شروع کرتے مثلاً بیت الخلا میں داخل ہونا، استنجا کرنا اور جوتا اتارنا وغیرہ۔(فتح الباری)۔
جب صور پھونکا جائے گا
’’پس جب یکبارگی صور پھونک دیا جائے گا، اور زمین اور پہاڑ اٹھاکر ایک ہی چوٹ میں توڑ پھوڑ دیے جائیں گے تو اس دن وہ عظیم واقعہ پیش آجائے گا‘‘ (الحاقہ:15-13)۔ ’’اور صور پھونک دیا گیا تو بے ہوش ہوکر گر پڑے وہ سب جو آسمانوں میں ہیں، اور وہ سب جو زمین میں ہیں۔ سوائے ان کے جن کو اللہ نے بچانا چاہا۔ پھر جب پھونک ماری گئی اس میں دوسری بار تو دیکھتے ہی دیکھتے سب اٹھ کھڑے ہوئے(حیران چاروں طرف) دیکھتے ہوئے۔‘‘ (الزمر:68)۔
حدیث میں صور پھونکنے کے تین مواقع بتائے گئے۔ نفخ فزع، نفخ صعق اور نفخ قیام لرب العالمین۔ جب پہلا صور پھونکا جائے گا تو عالم میں عام پریشانی اور ابتری پھیل جائے گی۔ اور جب دوسرا صور پھونکا جائے گا تو تمام لوگ مر کر گر جائیں گے اور یہ پوری کائنات درہم برہم ہوجائے گی۔ پھر جب تیسرا صور پھونکا جائے گا تو یکایک تمام انسان اٹھ کھڑے ہوں گے اور اپنے پروردگار کے حضور پیش ہوں گے۔
جب کائنات درہم برہم ہوجائے گی
’’جب آسمان پھٹ جائے گا، جب تارے جھڑ پڑیں گے، جب سمندر ابل نکلیں گے، اور جب قبریں اکھڑ پڑیں گی۔ اُس وقت ہر شخص جان لے گا کہ کیا اس نے آگے بھیجا ہے اور کیا پیچھے چھوڑ کر آیا ہے‘‘(الانفطار:5-1)۔’’جب سورج لپیٹ لیا جائے گا، جب تارے ٹوٹ کر بے نور ہوجائیں گے، جب پہاڑ چلائے جائیں گے، اور جب پورے دنوں کی گابھن اونٹنیاں چُھٹی پھریں گی، اور جب جانور (گھبراہٹ میں) اکٹھے ہوجائیں گے، اور جب سمندر کھولائے جائیں گے، اور جب روحیں بدنوں سے ملا دی جائیں گی۔‘‘ (التکویر:7-1)۔
’’وہ کھڑکھڑا دینے والی، کیا کچھ ہے وہ کھڑکھڑا دینے والی؟ اور کیا جان سکتے ہیں کیا کچھ ہے وہ کھڑکھڑا دینے والی! جس دن انسان پتنگوں کی طرح پریشان بکھرے ہوئے ہوں گے، اور پہاڑ دھنکی ہوئی رنگین اون کی طرح ہوں گے۔‘‘
ہولناک دن
’’لوگو! اپنے پروردگار کے عذاب سے ڈرو۔ بے شک قیامت کا زلزلہ بڑی (ہولناک) چیز ہے، جس روز تم اسے دیکھو گے، حال یہ ہوگا کہ ہر دودھ پلانے والی ماں اپنے دودھ پیتے بچے کو بھلا دے گی، ہر حاملہ (ڈر کے مارے) اپنا حمل گرا دے گی۔ اور تم لوگوں کو دیکھو گے کہ مدہوش ہیں، حالانکہ وہ نشے میں نہ ہوں گے، بلکہ اللہ کا عذاب ہی کچھ ایسا سخت ہوگا۔‘‘ (الحج: 1-2)۔
کلیجے منہ کو آرہے ہوں گے
’’اور ان کو اس دن سے ڈرائیے جو آنے والا ہے، جب غم سے گُھٹ گُھٹ کر کلیجے منہ کو آرہے ہوں گے۔‘‘(المومن: 18)
دل کانپ رہے ہوں گے
’’جس روز ہلا مارے گا زلزلے کا ایک جھٹکا، اور اس کے پیچھے پھر دوسرا جھٹکا۔ اس دن دل کانپ رہے ہوں گے۔ نگاہیں خوف زدہ ہوں گی۔‘‘ (النٰزعٰت: 8-6)۔
بچوں کو بوڑھا کردینے والا دن
’’اگر تم نے رسولؐ کی بات نہ مانی، تو کیسے بچو گے اُس دن کی آفت سے جو بچوں کو بوڑھا کرڈالے گا؟ اور جس کی شدت سے آسمان پھٹا پڑتا ہوگا۔‘‘(مزمل:18-17)۔
انسان کہے گا کہاں بھاگوں
’’پوچھتا ہے قیامت کا دن کب آئے گا؟ تو جب آنکھیں بے نور ہوجائیں گی، چاند اپنی روشنی کھو دے گا اور سورج و چاند باہم ٹکرا جائیں گے، اس وقت انسان کہے گا ’’آج کہاں بھاگوں؟‘‘ کچھ نہیں، کہیں پناہ نہیں، اس روز پروردگار ہی کے پاس ٹھکانا ہے۔ اس دن انسان کو بتادیا جائے گا کہ کیا اس نے اپنے آگے بھیجا ہے، اور کیا پیچھے چھوڑ کر آیا ہے۔‘‘ (القیمہ: 13-6)۔
یوم قیامت کا لرزہ خیز نقشہ
’’جس دن کہ آسمان ایسا ہوجائے گا جیسے پگھلا ہوا تانبا، اور پہاڑ ایسے ہوں گے جیسے دھنکی ہوئی روئی، اور کوئی جگری دوست کسی جگری دوست کا پُرسان نہ ہوگا (حالانکہ) ایک دوسرے کو سامنے دیکھ رہے ہوں گے، اس دن مجرم چاہے گا کہ کاش سب کچھ دے کر ہی آج کے عذاب سے بچ جائے۔ اپنے بیٹے، اپنی بیوی، اپنے بھائی اور اپنا پورا گھرانہ جس میں وہ رہتا تھا، اور وہ تمام لوگ جو زمین پر رہتے بستے رہے ہیں۔ غرض سب ہی کچھ دے کر عذاب سے نجات پا جائے۔ نہیں یہ ہرگز ممکن نہیں۔‘‘ (المعارج:15-8)۔
میدانِ حشر
’’وہ ایک دن ہوگا جس میں سب لوگ جمع ہوں گے اور وہ ایک (ایسا) دن ہے جس میں سب حاضر کیے جائیں گے۔‘‘ (الھود: 103)۔
’’کہہ دیجیے کہ یقیناً تمام اگلے اور پچھلے ایک دن مقررہ وقت پر جمع ہوں گے۔‘‘ (الواقعہ: 50-49)۔
خدا کی گرفت سے کوئی بھاگ نہیں سکتا
’’اے جنوں اور انسانوں کی جماعتو! اگر تم آسمان و زمین کی حدود سے کہیں نکل بھاگ سکو تو نکل جائو۔ تم نہیں نکل سکتے، مگر یہ کہ اسی کی سند ِ اجازت ہو۔‘‘ (الرحمن: 33)۔
داعیِ حشر کی پکار پر ہر ایک سیدھا چلا آئے گا
’’اس روز ہر ایک داعیِ حشر کی پکار پر سیدھا چلا آئے گا۔ کوئی ذرا اکڑ نہ دکھا سکے گا، اور آوازیں رحمٰن کے آگے دب جائیں گی۔ ایک خفیف سرسراہٹ کے سوا تم کچھ نہ سن سکو گے۔‘‘ (طٰہ: 108)۔
اس دن صرف اللہ ہی کی حکومت ہوگی
’’جس روز وہ سب خدا کے حضور بے نقاب آموجود ہوں گے ان کی کوئی بات خدا سے چھپی نہ رہے گی۔ آج حکومت کس کی ہے، صرف اس خدا کی جو یکتا اور سب پر غالب ہے۔‘‘ (المومن 16)۔
یعنی اس روز تمام مجازی اقتدار اور بادشاہیاں ختم ہوجائیں گی۔ صرف اکیلے خدا کی بادشاہی رہ جائے گی جو واقعی اس کائنات کا حقیقی فرماں روا ہے۔’’اس دن حقیقی حکومت صرف رحمٰن کی ہوگی۔‘‘ (الفرقان: 26)۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خدا ایک ہاتھ میں آسمان اور دوسرے ہاتھ میں زمین کو لے کر فرمائے گا: میں ہوں بادشاہ، میں ہوں فرماں روا۔ اب کہاں ہیں وہ زمین کے بادشاہ؟ کہاں ہیں وہ جبار؟ کہاں ہیں وہ متکبر لوگ؟‘‘
ہر ذرۂ عمل لاحاضر کیا جائے گا
’’پیارے بیٹے! اگر کوئی عمل، رائی کے دانے برابر (بھی معمولی) ہو، پھر وہ کسی چٹان کے اندر ہو، یا آسمان میں ہو، یا زمین میں ہو، خدا اس کو اُس روز لاحاضر کرے گا۔ بلاشبہ خدا بڑا ہی باریک بین اور پوری پوری خبر رکھنے والا ہے۔‘‘ (لقمان: 16)۔
ہر ذرۂ عمل کا بدلہ سامنے آئے گا
’’تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔‘‘ (الزلزال: 8-7)۔